1
0
Monday 22 Sep 2014 11:47

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (2)

سرزمین انقلاب کا مقدس سفر (2)
تحریر: سید آفتاب حیدر نقوی

ہم مرقد امام خمینی پہنچے تو برسی کے مراسم اپنے اختتام پہ تھے اور رہبر مسلمین جہاں آیت ﷲ العظمٰی سید علی خامنہ ای تقریر کر رہے تھے۔ عالمی میڈیا پر صیہونیوں اور اسلام دشمنوں کا اثر و نفوذ یہاں سے سمجھ میں آیا کہ رہبر معظم جو امت مسلمہ کی وحدت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں، کی تقریر کو انہوں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے استعمال کیا۔ تقریر کا ایک اہم حصہ یہ تھا کہ "تکفیری، سلفی اور وہابی جو اپنی بیوقوفی میں دشمن کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں، ہم انہیں اپنا اصلی دشمن تصور نہیں کرتے۔ ہمارا اصلی دشمن وہ ہے جو ان کو استعمال کرتا ہے، لیکن یہ تکفیری جان لیں کہ اگر وہ ہم پر حملہ کریں گے تو ہم اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔" اور اس کو مغربی میڈیا نے اس طرح سے نشر کیا کہ"شیعوں کے رہبر نے سنیوں کو سخت کارروائی کی دھمکی دے دی۔" ہم امام خمینی فاؤنڈیشن کے مہمان تھے، جنہوں نے تہران کے ایک اچھے ہوٹل میں ہمارے رہنے کا اہتمام کیا تھا۔ تہران کے دو دن کے قیام کے دوران جماران (امام خمینی کا گھر، حسینیہ یعنی امام بارگاہ اور ساتھ ہی وہ جگہ جہاں آخری ایام میں ان کا علاج کیا گیا)، حضرت شاہ عبدالعظیم، بہشت زہرا اور پارک آب و آتش وغیرہ جانا شامل تھا۔ 

قارئین کے لئے باعث حیرت ہوگا کہ اس عظیم رہنما کے گھر کا رقبہ دو یا اڑھائی مرلے (100 گز) سے زیادہ کا نہیں ہے اور اس چھوٹی سی جگہ کے اندر ہی وہ مختصر سا کمرہ ہے کہ جہاں آپ عام عوام سے لے کر دنیا جہاں کے لیڈروں سے ملاقات کرتے تھے۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران ہی ایرانی صوبہ بلوچستان سے اہل سنت خواص کا ایک وفد آیا ہوا تھا کہ جن کے ساتھ موجود بینر پر تحریر ان کے ولی فقیہ اور اسلامی نظام سے متعہد ہونےکو بیان کر رہی تھی۔ جہاں امام خمینی کا علاج کیا گیا تھا، وہاں اب دل کا ایک اعلٰی سطح کا ہسپتال کام کر رہا ہے۔ "شاہ نے ہماری آبادیوں کو ویران کیا ۔ ۔ ۔ شاہ نے ہمارے قبرستانوں کو آباد کیا ۔ ۔ ۔ ۔" اس اسی سالہ شیر مرد کی آواز آج بھی بہشت زہرا میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔ امام خمینی فرانس سے واپس تشریف لائے تو سیدھا بہشت زہرا گئے اور وہاں اس تاریخ ساز خطاب میں اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ البتہ امام خمینی یقیناً اس راز سے یقیناً بہت پہلے سے آشنا تھے، جیسے فرماتے ہیں کہ "رسول خداؐ کی ولادت کے موقع پر شاہ ایران کے محل کے ۱۴ کنگرے گرنے سے میں نے جانا کہ اس ملک میں ۱۴ سو سال بعد رسول خداؐ کے حکومت قائم ہوگی۔"

بہشت زہرا تہران کے مضافات میں بہت بڑا قبرستان ہے کہ امام خمینی کا مزار بھی اسی کے جوار میں واقع ہے۔ پہلے یہاں انقلاب اسلامی کے شہداء کو دفن کیا گیا تھا اور بعد میں دفاع مقدس (8 سالہ ایران عراق جنگ) کے بعض شہداء جیسے شہید مصطفٰی چمران کو یہاں لایا گیا۔ شہید بہشتی اور شہید رجائی کی قبور بھی اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ موجود ہیں کہ جن کو انقلاب کے بعد کی حکمران پارٹی کے دفتر پر بم حملے میں شہید کیا گیا تھا۔ برائت از مشرکین (امام خمینی کے حکم پر حج کے موقع پر اسلام دشمنوں سے اظہار بیزاری کی تحریک) کے شہداء کی یادگار بھی بہشت زہرا میں موجود ہے۔ جنگ خود بہت تلخ ہے اور اس کے اثرات اس سے بھی زیادہ کربناک۔ اس کا اندازہ ہمیں جنگی مناطق کے دورہ کے دوران ہوا۔ ایران کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ان کا اپنے شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا ہے جو درحقیقت ان کی اپنے نظریہ سے وفاداری اور عہد کی علامت ہے کہ اسی نظریہ کی خاطر ان پاک ارواح اور مطہر اجساد نے اپنے آپ کو راہ خدا میں قربان کیا۔
 
برسی امام خمینی کے شرکاء کے لئے امام خمینی فاؤنڈیشن نے جنگی مناطق کے دورہ کا اہتمام کیا ہوا تھا، تاکہ لوگ انقلاب اسلامی کے بعد ایران اور امام خمینی کو درپیش مشکلات سے آشنا ہوسکیں، کہ جب اسلام دشمن طاقتیں انقلاب اسلامی کو کامیابی سے نہیں روک سکیں تو پھر اپنے آلہ کار صدام کے ذریعے سے ایران پر ایک انتہائی طویل جنگ مسلط کر دی۔ ایران نے دو سے اڑھائی لاکھ شہداء اور ایک بڑی تعداد میں زخمیوں اور معذوروں کو تو برداشت کر لیا لیکن استقامت اور سربلندی کی لازوال داستان رقم کرتے ہوئے دنیا کے لئے عزم و ارادہ اور خدا پر توکل کے ساتھ کامیابی کی مثال قائم کی۔ جنوب میں واقع جنگی مناطق بشمول خرمشہر، آبادان، اہواز، شلمچہ، طلائیہ اور دیگر سے قم واپسی پر شوش کے شہر سے گذرتے ہیں۔ یہاں ﷲ کے نبی حضرت دانیالؑ کا مزار ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ خلیفہ دوم کے دور میں مسلمانوں نے جب ایران کو فتح کیا تو انہوں نے دیکھا کہ یہاں اس نبی خدا کی لاش کو حنوط کرکے رکھا گیا ہے۔ خلیفہ کو یہ خبر پہنچائی گئی تو ناچار انہیں حضرت علیؑ سے رہنمائی لینا پڑی کہ اس مسئلہ کا کیا کریں۔ آپؑ کے فرمان پر اس نبی خدا کو مسلمانوں کے طریقہ پر دفن کیا گیا۔

قم، قیام کا شہر، جناب معصومہ دختر امام موسٰی کاظمؑ کا شہر، آج کے عالم اسلام کا سب سے بڑا تعلیمی مرکز۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی مادر علمی۔ آقا خامنہ ای جب طالب علم تھے تو اس دوران ان کے والد صاحب کو اپنے بڑھاپے اور مرض کی وجہ سے ان کی ضرورت محسوس ہوئی، تو آقا خامنہ ای بلا ترد اپنی دینی تعلیم چھوڑ کے والد صاحب کی خدمت کو چلے گئے کہ دین کا حکم یہی تھا۔ تو خدا نے اس کے بدلے کیا لطف کیا کہ پورے دنیا کے مسلمانوں کے امور ان کے سپرد کر دیئے۔ قم میں ہمارا قیام 8 دن کا قرار پایا کہ جس دوران اہل علم و فضل شخصیات سے استفادہ اور اہم مقامات کے دورہ کا شیڈول تھا۔ نماز فجر سے پہلے بیداری، صبح جلد ہی لیکچرز کا ایک تھکا دینے والا سلسلے کا آغاز کہ جس کا اختتام اگلے دن کے سخت پروگرام پر ہوتا تھا۔ حرم میں نماز فجر کی 2 جماعتیں ہوتی ہیں۔ ایک اول وقت میں اور دوسری کوئی گھنٹہ بھر تاخیر سے، تو دوست کسی نہ کسی جماعت میں شامل ہو ہی جاتے تھے۔

کوئٹہ کے ہمارے سینیئر ساتھی فدا بھائی قم میں ملے تو زبردست شکوہ کیا۔ کہنے لگے کہ آئی ایس کو کیا ہوگیا ہے کہ بغیر کسی معیار کے لوگوں کو برسی کے پروگرام میں لے کے آنے لگی ہے کہ جو شخص جہاز کا کرایہ بھر سکتا ہے اسے یہاں بھیج دیتے ہیں۔ میں نے کچھ صفائی کی کوشش تو کی لیکن فدا بھائی کچھ ایسے گرم تھے کہ کہ کچھ زیادہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ فدا بھائی ہمارے ہوٹل آئے اور کسی کمرہ میں جا کر وہاں موجود دوستوں سے کسی دوسرے دوست کے بارے دریافت کیا۔ فدا بھائی کے بقول وہاں موجود دوستوں نے کسی اچھے اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ظاہراً کوئی بے ادبی تو نہیں کی لیکن جس مثالی طرز عمل کی توقع آئی ایس او کے جوانوں سے کی جاتی ہے، وہ شائد پوری نہیں ہوئی۔ تنظیمی اقدار کی پستی ان سے برداشت نہیں ہوئی اور اس کے بعد وہ دوبارہ وہاں تشریف نہیں لائے۔

جہاں تک میں نے اس سارے سفر کے دوران مشاہدہ کیا، ہماری تنظیمی اخلاقیات و اقدار میں فرق تو پڑا ہے۔ مجھے بار بار دوستوں کو متوجہ کرنا پڑا کہ کسی دوسرے کو بلائیں تو خالی نام سے پکارا جانا بے ادبی شمار ہوتا ہے۔ تنظیمی دوستوں کے نام کے ساتھ ہم بھائی کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ یا پھر جناب، صاحب، آقا (آغا) کے سابقہ اور لاحقہ جات سے استفادہ اور تم کی بجائے آپ کا استعمال ایسی چیزیں تھیں کہ آخر وقت تک بار بار متوجہ کرنے کے باوجود نہ جانے کتنی کامیابی ہوئی۔ فدا بھائی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ہمیں اس سے قطع نظر کہ کوئی اخراجات برداشت کرسکتا ہے یا نہیں، صرف معیار پر انتخاب کرنا چاہئے۔ اس بات سے البتہ مجھے بھی اتفاق ہے، تو پھر مرکز کو مالی بوجھ سے بچانے کے لئے کچھ اور سوچنا پڑے گا، جیسا کہ مثلاً کوئی استحقاق رکھنے والا دوست پیسے ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو متعلقہ ڈویژن اس دوست کے اخراجات مہیا کرے۔ قصہ مختصر اس انتخاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے پہلی دفعہ ایسی آئی ایس او دیکھنے کو ملی جن کے پیٹ نکلے ہوئے تھے۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران میری توند بھی کافی ترقی کر گئی تھی اور اس دورہ پر جانے سے پہلے میں ایک طرح کے نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی تھا کہ کیسے ان باتقویٰ جوانوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو پاؤں گا کہ جنہیں جب 10 سال پہلے خیر باد کہا تھا تو اس وقت ان کے درمیان کوئی بڑے پیٹ والا فرد معیوب تصور ہوتا تھا۔ لیکن ان شیر جوانوں کو دیکھنے کے بعد مجھے بہت حوصلہ ہوا، البتہ برا یہ ہوا کہ توند کم کرنے کا میرا حوصلہ بھی کسی حد تک دم توڑ گیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 406890
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ارے آفتاب بھائی آپ کہاں خیر باد کہنے والے ہیں۔ چلو اسی بہانے آپ کی توند سے مجھے اپنی ننھی سی توند کم محسوس ہوتی ہے۔ شکریہ فدا بھائی کے زندہ ہونے کا پتہ چلا یعنی کوئٹہ میں وہ پھر بھی نہیں ہیں۔ ہم سمجھے کہ کراچی میں نہیں تو وہاں ہوں گے۔ تربیت پر توجہ لازمی سمجھی جائے۔ اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ میں بہت فکرمند ہوں، یہاں خواص پر اثر انداز ایک دوست سے کہا ہے کہ تربیتی اخلاقی نشستوں کا بلا تاخیر باقاعدہ اہتمام کیا جائے۔
عرفان علی
ہماری پیشکش