1
2
Sunday 7 Sep 2014 23:15

امریکی صہیونی اتحاد کا داعش منصوبہ بھی ناکام؟

امریکی صہیونی اتحاد کا داعش منصوبہ بھی ناکام؟
تحریر: عرفان علی 

اسلامی جمہوری ایران کے سحر اردو ٹی وی پر حالات حاضرہ کے پروگرام ’’انداز جہاں‘‘ میں جمعہ 5 ستمبر 2014ء کو اینکر پرسن جناب مہدی شرافت صاحب نے یہ سوال پوچھا کہ کیا امریکی صہیونی اتحاد داعش کے ذریعے جو اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں کامیاب ہوا یا ناکام؟ اس لائیو پروگرام میں بعض فنی خرابیوں کی وجہ سے وڈیو رابطہ ممکن نہیں ہوسکا اور تھک ہار کر پروڈیوسر نے پروگرام کے آخری پانچ منٹوں میں آڈیو نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ انتہائی اختصار کے ساتھ چند جملوں میں اپنا موقف پیش کیا، لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ جواب نامکمل رہا۔ اس لئے سحر ٹی وی کے ناظرین اور اسلام ٹائمز کے قارئین کے لئے چند نکات یہاں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

کیا واقعی داعش امریکی صہیونی اتحاد کی تخلیق ہے، اس سوال کا جواب اسلام ٹائمز پر ’’عراق میں دہشت گردی کی حقیقت‘‘ کے عنوان سے ایک مقالے میں بیان کرچکا ہوں۔ ترکی کے کردار پر ’’اردگانی حکومت اور ترکی کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے بات ہوچکی۔ امریکی صہیونی اتحاد کے ناپاک منصوبوں پر ’’سائیکس، پیکو سازش کا تسلسل‘‘ اور ’’غزہ دوستوں اور دشمنوں کی آزمائش کی سرزمین‘‘ کے عنوان کے تحت بھی چند نکات پر بحث کی۔ انہیں دہرانا طوالت کا باعث ہوگا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ ان عنوانات کے تحت لکھی گئی تحریریں پڑھ لیں، تاکہ اس امریکی صہیونی ایجنڈا کی تفصیلات سمجھ جائیں۔

امریکی، صہیونی اتحاد جس میں سعودی، قطری، بحرینی بادشاہتوں سمیت دیگر عرب حکومتیں اور ترکی کی اردگانی حکومت بھی شامل ہے، نے عراق اور شام میں دہشت گردوں کو ناراض سنی عرب ظاہر کرنے کی کوشش کی اور تبلیغاتی جنگ میں پورا زور فرقہ واریت کو فروغ دینے پر صرف کیا۔ کیا عراق میں فرقہ پرستی تھی، اس کا اندازہ آپ لبنانی نژاد صحافی ذکی شہاب کی 2005ء میں تحریر کی گئی کتاب ان سائیڈ انسرجنسی میں تحریر عراقی صدر جلال طالبانی کی گفتگو سے کرسکتے ہیں۔ جلال طالبانی نے ذکی شہاب سے کہا کہ کرد بھی تو سنی ہیں، آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سنی عراقی حکومت میں نہیں، دیکھئے میں سنی ہوں۔ اب بھی انہی کی جماعت کا ایک رہنما فواد معصوم عراق کے صدر ہیں۔ ذکی شہاب خود امریکی لابی کا صحافی ہے، لبنانی ہونے کے باوجود حزب اللہ کا حامی نہیں، لہٰذا اس کی بات امت حزب اللہ کے موقف کی تائید ہے۔ کتاب میں امریکا اور سعودی عرب کے منظور نظر ایاد علاوی کا تذکرہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس نے ذکی شہاب کو اپنا دوست کہا۔

اس حقیقت کے برعکس امریکی و صہیونی اتحاد نے فرقہ واریت کا ڈھنڈورا پیٹا۔ داعش اور ان جیسے دیگر دہشت گردوں کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اب امریکی صدر اوبامہ کہہ رہے ہیں کہ داعش کے دہشت گردوں کا کوئی دین ایمان نہیں، ان کا کوئی مذہب نہیں، وہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسا کیا ہوگیا کہ رائے بدل گئی۔ مسئلہ یہ ہوا کہ داعش دہشت گرد کرد علاقوں کے قریب قریب پہنچ گئے تھے اور امریکہ کردوں کو اپنا قابل اعتماد اتحادی سمجھتا ہے۔ ایاد علاوی کو امریکہ اور سعودی عرب نے عراق کی سیاست میں داخل کیا، 2010ء کے الیکشن میں پوری کوشش کی کہ وہ وزیراعظم بن جائے، ناکام ہوئے تو نوری مالکی سے شراکت اقتدار کا فارمولا طے کیا اور سیکولر شیعہ ایاد علاوی کے بلاک میں شامل سنی عرب اتحادی اسامہ نجیفی کو عراق کا اسپیکر اور اسامہ نجیفی کے بھائی کو صوبہ موصل کا گورنر بنایا گیا۔ امریکہ نے صدام حکومت کی بعثی باقیات کو اور ان کے اتحادی قبائلی افراد کو فوج اور پولیس میں بھرتی کروایا تھا۔ منصوبے کے تحت امریکی سعودی اتحاد کے منظور نظر سنی عرب نجیفی برادران ترکی کے راستے ناروے فرار کرگئے اور موصل پر داعش کا قبضہ ہوگیا۔

داعش نے جو غیر انسانی طرز عمل اختیار کیا، اس سے سنی عرب، سنی کرد، مسیحیوں سمیت سارے عراقی نالاں ہوئے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے مزار مقدس اور امام علی نقی و امام حسن عسکری علیہم السلام کے حرمین مطہر کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ تاریخ الکامل کے مصنف ابن اثیر کی قبر کی بے حرمتی کرنے کے بعد اب شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کو بھی خارج از اسلام قرار دینے والے ان دہشت گردوں کے خلاف دنیا بھر کے سنی علماء نے ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے داعش کی مذمت کی۔ علمائے اہلسنت بصرہ نے اس کے خلاف اجتماعی فتویٰ دیا۔ جمعیت علمائے اہلسنت عراق کے شیخ خالد الملاء اور جمعیت علمائے عراق کے شیخ محمد امین نے اسے غیر ملکی تخلیق قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ تکفیری، صہیونی و امریکی مثلث ہے۔

فلسطین کی علماء کاؤنسل کے سربراہ شیخ نمر زغموط نے داعش کو اسلام سے خارج قرار دیا۔ لبنان کی دعوت اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ شیخ عبدالناصر جبری نے داعش سے مقابلے کی تاکید کی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی کے پروفیسر اشرف فہمی موسٰی نے کہا کہ دہشت گردوں کو خلیفہ کے تعین کا کوئی حق نہیں، اسلام لوگوں کے اموال لوٹنے اور ناموس پر حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔ لبنان کی جمعیت علائے اسلام کے رکن شیخ رہبر جعیدی نے کہا کہ تکفیری اسلام کے دشمن ہیں اور انہوں نے مغربی ممالک، سعودی عرب اور قطر کی مدد و حمایت سے شام میں جارحیت کی اور ناکام ہونے پر عراق آگئے۔ بھارت کے سنی عالم اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا عبیداللہ اعظمی نے کہا کہ داعش کے اقدامات اسلام و مسلمین کے خلاف اور امریکہ و اسرائیل کی رضایت کے لئے ہیں۔ افغان رکن پارلیمنٹ محمد اکبری نے کہا کہ عالمی (انٹرنیشنل کمیونٹی کی) حمایت کی وجہ سے داعش بنی۔ برطانیہ میں مقیم سنی عالم مشرف حسین نے کہا داعش و دیگر دہشت گرد دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

ایران کے سنی عالم مولوی نذیر احمد نے کہا کہ داعش سمیت سارے دہشت گردوں کا مقصد صہیونی حکومت کا تحفظ ہے۔ ایرانی سنی عالم و امام جمعہ مریوان مصطفٰی شیرازی نے کہا کہ امریکہ و صہیونی فنگر پرنٹس نمایاں ہیں، دشمن اپنے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اسلام کو متشدد مذہب بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ ایرانی سنی علماء امام جمعہ بیجار ماموستا معروف خالد، امام جمعہ سنندج ماموستا امین راستی، ماموستا سید محمد سعید حسینی، کرمانشاہ کے امام جمعہ ملا محمد محمدی، جوان رود کے امام جمعہ ماموستا احمدی، ملا رشید صانعی اور امام جمعہ ملا نعمت حسینی نے بھی داعش کی مخالفت و مذمت کی۔ ان کے مطابق امریکہ نے داعش ایجاد کی، تاکہ دنیا کو اسلام سے ڈرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش نہ تو سنی ہے اور نہ ہی شیعہ بلکہ یہ دہشت گرد گروہ ہے۔ یہی رائے پاکستان کے علمائے اہلسنت علامہ راغب نعیمی، اعجاز ہاشمی، رضائے مصطفٰی نقشبندی، علامہ محمد قاسم و دیگر اکابرین کی بھی ہے۔

امت اسلامی کے اس اجماع نے امریکی و صہیونی اتحاد کے سب سے بڑے ہدف یعنی سنی شیعہ بنیادوں پر تفرقے کی سازش کو دفن کرکے رکھ دیا۔ امریکی صہیونی اتحاد نے داعش کے ساتھ اپنے تعلق کو خفیہ رکھنے کی سازش کی، لیکن دبئی کے روزنامہ دی نیشنل نے داعش دہشت گردوں کو صہیونیوں کی طبی و مالی سہولیات کو منکشف کر دیا۔ ترکی اور داعش کے مابین تعلق کو ترک اخبارات نے ہی نہیں بلکہ ان کے اتحادی امریکہ کے سرکاری ادارے وائس آف امریکہ نے خود نشر کیا۔ اب سی آئی اے کے قریبی کالم نگار ڈیوڈ اگناشس نے 28 اگست کو واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ سعودی شہزادہ بندر بن سلطان کی پالیسیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو تقویت حاصل ہوئی، یعنی اب امریکہ اتحادیوں کو بدنام کر رہا ہے اور یہ اتحادی قطر پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اس صورتحال کا ذمے دار ہے، حالانکہ امریکی سینیٹر رینڈ پال اور امریکی صحافی وین میڈسن براہ راست اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن ڈھکے چھپے الفاظ میں داعش کو امریکی تخلیق قرار دے چکے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے استکبار شکن قائد و رہبر امام سید علی حسینی خامنہ ای نے ملاقات کے لئے آنے والے مجلس خبرگان کے اراکین سے خطاب میں جمعرات 4 ستمبر 2014ء کو یہ راز فاش کیا کہ جب عراق نے ایران پر جنگ مسلط کر رکھی تھی، ان دنوں مشہد میں (شمالی لبنان کے علاقے ال بترون سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین اور حرکت توحید اسلامی کے سربراہ 1998ء میں رحلت فرمانے والے مرحوم) شیخ سعید شعبان نے انہیں بتایا تھا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ دشمن آپ کے ملک کے مشرق سے حملہ آور ہوگا۔ امام خامنہ ای نے انہیں کہا کہ ایران کے مشرق میں تو افغانستان ہے، اس پر شیخ سعید شعبان نے فرمایا جی ہاں افغانستان سے۔ شیخ سعید شعبان کا کہنا تھا کہ میں اسے اپنی ذمے داری سمجھتا تھا کہ اس سازش سے آپ کو آگاہ کروں، حالانکہ اس وقت طالبان اور القاعدہ کا نام و نشان بھی نہیں تھا، بعد میں ہم سب نے دیکھا کہ مرحوم سنی عالم کی یہ بات ان کی زندگی ہی میں سچ ثابت ہوئی۔

آخر میں یہ اہم نکتہ بھی آپ کے لئے ہدیہ کرتا ہوں کہ کیا ہم فراموش کر دیں کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد شیعہ مسلمانوں نے دنیا کے امور میں جو موقف اختیار کیا، بعد میں پوری دنیا کو اس پر متفق ہونا پڑا۔ صدام کو عراق پر مسلط کرنے والوں اور ایران سے جنگ کرانے والوں کو نائب مہدی (عج) یعنی ولی فقیہ امام خمینی نے جو فرمایا، دنیا نے دیکھا کہ بعد میں پوری دنیا کو صدام کے خلاف فیصلہ سنانا پڑا۔ صدام کا مخالف ہونے کے باوجود ایران واحد ملک تھا جس نے عراق پر امریکی جنگ کی مخالفت کی اور معاملہ سفارتی طور پر حل کرنے کا کہا۔ افغانستان میں طالبان کو ایران اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ تب شیعہ مسلمان قیادت نے دنیا کو اس کے سنگین نتائج سے متنبہ کیا تھا، بعد میں خود امریکہ اور سعودی عرب نے طالبان کے خلاف عالمی اتحاد قائم کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ شیعہ قیادت افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کے بھی خلاف تھی۔ امریکی صہیونی اتحاد کے رکن ممالک داعش کے معاملے پر بھی بظاہر دستبرداری اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن مستقبل میں کوئی نیا شوشہ ضرور چھوڑا جائے گا۔ فی الحال پاکستان ہندوستان میں طالبان کے شجر خبیثہ کی ٹوٹی ہوئی شاخ جماعت الاحرار کا اعلان کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 408702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Informative and objective article.
ہماری پیشکش