0
Friday 19 Sep 2014 12:30

او آئی سی کی ناکامیاں

او آئی سی کی ناکامیاں
تحریر: عرفان علی

فلسطینیوں کی تاریخ میں ستمبر کے اہم واقعات میں سے ایک مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کا قیام اور دوسرا صبرا و شتیلا کے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینیوں کا قتل عام تھا۔ 25 ستمبر 1969ء کو مراکش کے دارالحکومت میں جب آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کی تشکیل ہوئی تو امت اسلامی کو یہ اطمینان ہوا تھا کہ اب فلسطین کی آزادی کوئی ایسا خواب نہیں رہے گی کہ جو شرمندہ تعبیر نہ ہو لیکن افسوس کہ اس تنظیم کے ہوتے ہوئے 16ستمبر 1982ء کو لبنان پر حملہ آور صہیونی افواج کی سرپرستی میں صبرا و شتیلا کے فلسطینی کیمپوں میں گھس کر فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔ یہی نہیں کہ اس بین الاقوامی تنظیم کے ہوتے ہوئے صرف لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے صبرا و شتیلا کیمپوں میں ہی فلسطینیوں کا قتل عام نہیں کیا گیا بلکہ مقبوضہ فلسطین پر کئی مرتبہ جارحیت بھی کی گئی اور لبنان پر بھی جنگیں مسلط کی گئیں۔ آج بھی اس تنظیم کے 10سالہ پروگرام آف ایکشن کے ایک حصے میں لکھا گیا ہے کہ یہ تنظیم ہر کوشش کرے گی تاکہ فلسطین اور دیگر عرب ممالک بشمول شام اور لبنان پر اسرائیلی قبضہ ختم کرایا جائے۔ شام کے علاقے جولان سے اسرائیلی انخلاء، اقوام متحدہ کے آرٹیکل 425 کے تحت لبنان سے مکمل اسرائیلی انخلاء، اور فلسطین کی آزادی اور مشرقی یروشلم یعنی بیت المقدس اس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہو۔

مذکورہ بالا اہداف کے حصول کے لئے ہر کوشش کرنے کا عزم رکھنے والی اس تنظیم کی قیادت کے زبانی جمع خرچ پر اس بندر کا لطیفہ صادق آتا ہے جو ایک دن جنگل کا شیر بنا اور اس کے پاس ایک چھوٹا جانور شکایت لایا کہ اس کے بچے کو لومڑی نے پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارکھائے گی۔ بندر فوراً شاخیں پکڑ پکڑ کرایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے لگا۔ جانور تھوڑی دیر بعد دوبارہ آیا تو بندر پھر وہی چھلانگیں لگاتا ہوا تھوڑا دور چلا گیا، کئی مرتبہ اس نے یہ عمل کیا اور آخری مرتبہ جانور روتا ہوا واپس آیا کہ لومڑی اس کے بچے کو مار کر کھا چکی ہے تو بندر نے کہا کہ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میں نے تمہارے بچے کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن کیا کریں قسمت ہی ایسی تھی۔ اگر او آئی سی بھی بندر کی طرح ہر ممکن کوشش کرچکی تو اب کچھ انسانی عمل بھی کرکے دکھائے۔

او آئی سی کی ناکامیوں کے باوجود جنوبی لبنان سے اسرائیل کا انخلاء ہوا۔ جی ہاں، یہ او آئی سی کی وجہ سے نہیں بلکہ لبنان کی مزاحمتی و مقاومتی تنظیم حزب اللہ کی عملی جدوجہد کی برکت سے ممکن ہوا۔ افسوس کہ او آئی سی نے اقوام متحدہ کے فورم پر اور اس ادارے سے باہر کسی بھی فورم پر تعمیری سفارتکاری نہیں کی جس کی وجہ سے 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کو ختم کروانے کے لئے جو قرارداد منظور کی گئی اس میں حزب اللہ کے خلاف موقف اختیار کیا گیا اور او آئی سی کے رکن بہت سے ممالک نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ کم از کم سفارتکاری کے میدان میں حزب اللہ کو کامیاب کرتے اور خدا کا شکر ادا کرتے کہ حزب اللہ نے او آئی سے کے اہداف میں سے ایک ہدف حاصل کرلیا۔

دوسری جانب فلسطین کی مقاومتی تنظیموں نے ناجائز و غاصب نسل پرست یہودی ریاست کو سبق سکھانے کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیارکیا تو او آئی سی کے بعض سرکردہ ممالک نے ان کی مدد کرنے کے بجائے انہیں امریکی ایجنڈا پر قربان کرنے کی ٹھان لی۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس نے انکشاف کیا کہ بعض عرب حکمران امریکی حکومت سے کہتے تھے کہ وہ امریکی ایجنڈا کے حامی ہیں لیکن علی الاعلان اس معاملے میں خاموش رہیں گے۔ اگر فلسطینیوں نے 2006ء میں مسلح مقاومتی تنظیم حماس کو الیکشن میں منتخب کرلیا تھا تو او آئی سی کے طاقتور ممالک اسے خود بھی تسلیم کرتے اور امریکا اور اقوام متحدہ پر بھی دباؤ ڈالتے کہ اسے تسلیم کریں لیکن افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ معاہدہ مکہ کیوں ناکام ہوا؟ او آئی سی کے میزبان ملک سعودی عرب کی حکومت کو اس سلسلے میں امت اسلامی کے سامنے تفصیلات بیان کرنا چاہیئیں۔ کیا وہ امریکا و اسرائیل کی طرح حماس کو اس کا ذمے دار سمجھتے ہیں یا وہ خود امریکی صہیونی سازش کا حصہ بن چکے تھے۔

خیر یہ تو ہوا ماضی، لیکن لمحہ موجود کی اس حقیقت کو دیکھئے کہ اب حماس اور مغربی کنارے کی حکمران فلسطینی انتظامیہ اور الفتح نے حماس سے شراکت اقتدار فارمولا کے تحت معاہدہ کرلیا ہے۔ اب یہ دونوں اتحادی ہیں۔ اس کے باوجود ناجائز و غاصب صہیونی ریاست نے غزہ پر جارحیت کی ہے ۔او آئی سی نے جارح کی مرمت نہیں کرنی اور صرف مذمت کرنی ہے تو یہ کام تو غیر مسلموں کے نرغے میں امریکا میں قائم اقوام متحدہ بھی بخوبی کررہی ہے۔ او آئی سی خواب غفلت سے بیدار ہو۔ یا اپنے خاتمے کا اعلان کرے تاکہ امت اسلامی کوئی نیا پلیٹ فارم قائم کرسکیں اور اگر او آئی سی نے ہی برقرار رہنا ہے تو اس میں اصلاحات کی جائیں اور اسے متحرک و فعال کیا جائے۔ مسلمان حکومتوں کی نمائندگی کے لئے قائم او آئی سی اور غیرمسلم حکومتوں کی اکثریت رکھنے والی اقوام متحدہ میں کوئی تو فرق ہونا چاہیئے۔

او آئی سی کی قیادت یا تو آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کا نام تبدیل کرکے تنظیم امت اسلامی بنادے اور اسکو فعال بنانے کے لئے اس کی تنظیم نو بھی کرے یا اسے ختم کردے۔ مسلمان حکومتوں سے گذارش ہے کہ ماضی کی غلط روش سے سبق سیکھا جائے۔ یہ تنظیم مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات ختم کرنے کے لئے کردار ادا کرے نہ کہ اختلافات پیدا کرے یا اختلافات کو ہوا دے جیسا کہ اس کے اہم رکن ممالک کے بادشاہوں نے شام اور عراق میں کیا ہے۔ او آئی سی ہر حال میں اس بات کو یاد رکھے کہ مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کے ردعمل نے اسے جنم دیا ہے۔ اس تنظیم نے اپنا عارضی صدر دفتر سعودی عرب میں قائم کیا ہے لیکن مستقل صدر دفتر بیت المقدس میں قائم ہونا ہے۔ اگر حزب اللہ اور حماس و جہاد اسلامی جیسے نان اسٹیٹ ایکٹرز کامیابی سے غاصب و ناجائز وجود کی طاقت کا بھرم خاک میں ملا سکتے ہیں اور غزہ کے بےبس و مجبور و مظلوم و محصور فلسطینی سر اٹھا کر ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کررہے ہیں تو او آئی سی کے مقاومت مخالف رکن ممالک بھی یہ روش اپنا کر ماضی کی غلطیوں کے داغ دھو سکتے ہیں۔ او آئی سی کو امت اسلامی کا ترجمان بننا چاہیئے اور عملی طور پر ان اہداف کے حصول کی سمت قدم بڑھانا چاہیئے جو ستمبر 1969ء میں بانی رکن ممالک نے طے کئے تھے۔
خبر کا کوڈ : 410405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش