1
2
Monday 13 Oct 2014 22:07

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (4)

شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (4)
تحریر: عرفان علی 

شام سے متعلق مضمون میں ترکی اور دیگر مسلم ممالک کا تذکرہ اور ان بزرگان کے اقوال کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کا مقصد اس تحریر سے ان کا ربط ہے۔ اسلام کیا چاہتا ہے؟ مشرقِ وسطٰی، دنیائے عرب، اسلامی ممالک میں اسلام کس قسم کے کردار کا قائل ہے؟ آج کے دور میں اس خطے میں جہاں شام واقع ہے وہاں اسلام کا ہدف کیا ہوسکتا ہے۔؟ آج کے حالات سمجھنے کے لئے پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان حقائق پر نظر ڈالنا ہوگی۔ سبق سیکھنا ہوگا۔ آج کا شام بشارالاسد کا شام ہے۔ اخوان المسلمین کا نام استعمال کرکے ’’نوزائیدہ‘‘ دردمندوں اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے جو مذموم مہم عالمِ اسلام میں چلائی جا رہی ہے، وہ کس کے مفاد میں ہے۔؟
 
بشارالاسد حماس کا سب بڑا اور سب سے زیادہ عرب اتحادی ہے۔ شام کی موجودہ حکومت کا یہ صدر بشارالاسد ایک ایسے ملک کا سربراہ ہے جو 1948ء کی جنگِ آزادئ فلسطین کے وقت سے سال 2011ء تک ایمرجنسی کی حالت میں رہا ہے۔ ناجائز قابض و غاصب صہیونی اسرائیل کی افواج آج بھی شام کے ایک حصے پر قابض ہیں ۔شام پر 2007ء میں حملہ کیا جاچکا ہے۔ ویانا کنوشن کی کھلی خلاف ورزی کرکے غیر ملکی سامراجی ممالک کے سفارتکار شام ہی میں نہیں بلکہ لبنان میں بھی کھلی مداخلت کر رہے ہیں۔ ہالینڈ کے ایک سفارت کار کو لبنان میں پکڑا گیا تھا وہ شام میں تعینات تھا۔ 

بشارالاسد کی سیاسی تاریخ 10 جون 2000ء سے شروع ہوتی ہے۔ 2007ء میں وہ اگلے 7سالوں کے لئے صدر منتخب ہوا ہے، ایمرجنسی ہٹا کر اصلاحات نافذ کرنے کا عمل وہ شروع کرچکا ہے۔ فلسطین کی جائز قومی مزاحمتی تحریک اور سال 2006ء سے فلسطین کی منتخب جمہوری حکومت کی جماعت حماس بشارالاسد کی صورت میں واحد مضبوط ترین عرب اتحادی کو دیکھتے ہیں۔ کیا بشارالاسد کے خلاف اس مہم میں شیخ احمد یٰسین کی روح تڑپتی نہیں ہوگی؟ کیا شہدائے فلسطین و لبنان معاف کر دیں گے؟ جمہوریت کے بزعم خود چیمپیئن امریکا اور یورپ گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی رائے عامہ بالخصوص غیر مسلم اور بالعموم مسلم رائے عامہ کو گمراہ نہیں کرسکتے۔
 
یہ شام ہی ہے جو عرب مسیحیوں کا بھی تحفظ کرتا رہا ہے۔ ورنہ تکفیری گروہ نے جو وطیرہ اختیار کیا ہے یہ وہی ہے جو جنت البقیع کے مزارات اور قبروں کو مدینہ منورہ میں جنت المعلٰی کے مزارات کو مکۃ المکرمہ میں شہید و مسمار کرنے والے طولِ تاریخ میں اختیار کرتے رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں اسے ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کی وہ وہابیت کہا جاتا ہے جو مزاراتِ مقدسہ کی مسماری کی قائل ہے۔ ایک طرف شریفِ مکہ برطانوی سامراج کے ہاتھوں بے وقوف بن رہے تھے اور دوسری طرف جو گروہ ان کے مقابلے میں تھا وہ برطانوی سامراج کے جاسوس ہمفرے کے تربیت یافتہ نجدی کے پیروکاروں پر مشتمل تھا۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ لیکن عراق میں امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزارات اور ایک مسجد کو دہشت گردی کے ذریعے مکمل طور پر تباہ و برباد کر دینا عراق پر امریکی و اتحادی افواج کے قبضے کے بعد کا سانحہ ہے۔ 

صدام دور میں بھی امیر المومنین و خلیفۃ المسلمین علیؑ ابن ابی طالب علیہ السلام اور امام حسینؑ کے مزارات مقدسہ میں دہشت گردی معمول کی بات رہی۔ پاکستان میں اولیاء کرام کے مزارات پر خودکش حملے بھی معمول کی کارروائیاں ہیں۔ جنت البقیع پر حملہ آور وہابی فوج کا نام بھی ’’الاخوان‘‘ تھا، لیکن پروپیگنڈا جنگ کے باوجود شیخ محمد عبدہ اور شیخ احمد یاسین کی موجودہ حماس یا ان کے اتحادیوں کو اس زمرے میں نہیں رکھا۔ ایران میں بھی یہ دہشت گرد اور اس جیسے دیگر کئی اسرائیلی و سامراجی ایجنٹ دہشت گردی کرچکے ہیں، جیسا امام علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام اور امام زادہ صالح بن موسٰی کاظم علیہ السلام کے مزارات مقدسہ پر بھی یہ مذموم کارروائی کی جاچکی ہے۔ انقلابِ اسلامی کے بانی امام خمینی ؒ ؒ کا مزار مقدس بھی دہشت گردوں کی کارروائی کی زد میں آچکا ہے۔ لہٰذا صورتِ حال مشکوک نہیں ہے بلکہ واضح ہے۔ 

عالمِ اسلام اور دنیائے عرب کے حالات و واقعات آج کھلی کتاب کی طرح ہوچکے ہیں۔ 1946ء میں 5 لاکھ شاخیں اور 5 لاکھ افراد کی رکنیت والی تنظیم عرب اسرائیل جنگ میں کہاں تھی؟ پہلی بڑی عرب اسرائیل جنگ میں عرب فوج کی کل تعداد مشرقِ وسطٰی کے امور کے ایک ماہر کے مطابق 26 ہزار تھی۔ دوسری بڑی عرب جنگ نہرِ سوئز (1956ء) میں، تیسری بڑی جنگ 1967ء میں، چوتھی بڑی عرب اسرائیل جنگ 1973ء میں لڑی گئیں۔ 1960ء کے عشرے کے آخر میں اور 1970ء کا پورا عشرہ بادشاہوں کے ایجنڈا پر عمل کرنے کی ایک شرم ناک تاریخ بھی رقم کی گئی تھی۔ حافظ الاسد کا شام اسرائیل سے جنگ لڑ رہا تھا، جمال عبدالناصر کا مصر بھی جنگ میں مصروف تھا، لیکن ایک مذہبی گروہ کو شام میں خانہ جنگی کی تربیت اردن میں دی جا رہی تھی اور پورے ’’خلوص‘‘ کے ساتھ شام کی حکومت کا جلوس ہی نہیں بلکہ جنازہ نکالنے کی سازش پر عمل کیا جا رہا تھا۔ 

آج بھی دیکھئے کہ عراق میں کیا ہو رہا ہے؟ سوال پھر وہی ہے کہ آج اسلام و مسلمین کا ہدف کیا ہے؟ اس ہدف کی راہ میں رکاوٹ کون ہے؟ ہدف کے حصول کی سمت حرکت کون کر رہا ہے؟ اگر شام کی حرکت اس ہدف میں رکاوٹ ہوتی تو سب سے پہلے ہم اس کی مخالفت کرتے۔ لبنان کے سابق رکن اسمبلی ناصر قندیل نے اپریل 2011ء میں کہا تھا کہ شام کی اپوزیشن کی اہم شخصیات شام میں سبوتاژ کے لئے لبنان میں جمع ہوئی ہیں۔ 18 جنوری 2011ء کو سعد حریری کے کنسلٹینٹ ہانی حمود پیرس گئے، وہاں امریکی سفارت کار ڈان شپیرو(اسرائیل میں امریکی سفارت کار تھا)، لبنان میں سابق امریکی سفیر و معاون وزیر خارجہ جیفری فیلٹ مین اور مارچ فورٹین کی اصطلاح کے تحت شہرت پانے والے لبنانی گروہ سے ملاقاتیں کیں۔ سعد حریری کے اخبار المستقبل کے فیرس خشم کو شام کی اپوزیشن سے ملوانے کے لئے وہاں بلوایا گیا۔ اس کے مشورے پر شام کے حزب اختلاف کے افراد ایک نجی جیٹ مسافر بردار طیارے میں لائے گئے۔ ایئر پورٹ پر تلاشی نہیں لی گئی۔ مامون حمصی، فرید ال غادری، ریبل رفعت اسد نے لبنان سے بیٹھ کر شام کے خلاف پوزیشن سنبھالی۔ 

المستقبل تحریک لبنان کے سیکریٹری جنرل احمد حریری نے شام کے شہر تریپولی میں ایک ہوٹل میں آپریشنز روم بنائے۔ سعودی شہزادے بندر بن سلطان نے قطر کو دھمکی دی کہ اگر الجزیرہ اور قطر کے حمایت یافتہ اخوانی رہنما یوسف ال قرضاوی نے شام کے خلاف مہم میں حصہ نہ لیا تو قطر میں وہابی تحریک شروع کر دی جائے گی۔ ایک آزاد اخبار پیریسین میٹرو کے مطابق جعلی ناموں سے شام مخالف کارروائیوں میں اکثریت کا تعلق امریکہ و یورپی ممالک سے تھا۔
 
پیرس میں مقیم اپوزیشن نے دو متضاد موقف اختیار کئے۔ حقوق انسانی کے کارکنان نے اصلاحات کا نعرہ لگایا اور امریکی، سعودی سمیت ہر مداخلت کو غلط قرار دے کر اسے مسترد کر دیا۔ دوسرا گروہ صہیونی لابی کا تھا جو امریکا کے ساتھ ہے۔ فرید ال غادری کے گروہ نے جون 2007ء میں اسرائیلی کنیسا (knesset) یعنی صہیونی ناجائز و غاصب اسمبلی کا دورہ کیا تھا۔ اسی غادری نے ’’دمشق اعلامیہ‘‘ تحریر کیا تھا۔
لاہور میں دفن مفکر اسلام ڈاکٹر محمد اقبالؒ المعروف علامہ اقبال کی عظمت کو سلام کہ 1938ء میں رحلت کرنے سے پہلے ہی بتلا گئے:
کیا سناتا ہے مجھ کو ترک و عرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاک حجاز 

حیرت ہے کہ اس دور میں بھی و ہ ترک و شام کے مسئلے کا درست تجزیہ کر گئے کہ:
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کئے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ میرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار

رجب طیب اردگان کا ترکی ہو یا حجاز مقدس کی مکی و مدنی نوری سرزمین پر بدنما ملوکیت کے داغ بندر بن سلطان اور ان کے سرپرست شاہ عبداللہ جیسے عرب سلاطین، یا پھر مغرب و مشرق کے سامراجی ممالک ہوں، کسی کو یہ حق نہیں کہ شام کو ’’ترکان جفا پیشہ‘‘ کے پنجے، ’’تہذیب کے پھندے‘‘ اور ’’سلاطین کا پرستار‘‘ بننے کی سمت دھکیلے۔ شام جیسا کمزور ملک بھی ان بڑے بڑے لیکن کھوکھلے بتوں کی نسبت اسلام و مسلمین کے لئے بے حد و حساب زیادہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔
 
(قارئین سے معذرت کہ ان کی خدمت میں اتنی طویل تحریر پیش کی۔ لیکن شام کے بحران پر یہ میری پہلی تحریر تھی جو ستمبر 2011ء میں لکھی گئی۔ مقصد یہی تھا کہ آپ شام کے تاریخی پس منظر سے واقف ہوجائیں۔ بحرین پر بھی انہی دنوں ایک تحریر لکھی تھی۔ وہ بھی انشاءاللہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جرات اس وقت ہوگی جب آپ اس طویل تحریر کے بارے میں یا میری دیگر تحریروں کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ فرمائیں گے۔ داعش کے تخلیقی عمل کا پس منظر بھی آپ کی خدمت میں تفصیل سے پیش کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے بعد یمن اور بحرین۔)
خبر کا کوڈ : 413871
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سحر فاطمہ
Pakistan
بہت ہی عمدہ تحریر تھی سر۔ اگر طوالت اس سے بھی زیادہ ہوتی تو اور خوشی ہوتی۔ شام پر تو گذشتہ سالوں میں بھی بمباری ہوتی رہی ہے، 2011ء کے بعد۔ تو اس بارے میں بھی کوئی تحریر شائع کیجئے۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا۔والسلام۔
ہماری پیشکش