0
Tuesday 14 Oct 2014 10:34

مفہوم حدیث غدیر اور چہاردہ معصومین علیہم السلام

مفہوم حدیث غدیر اور چہاردہ معصومین علیہم السلام
ترتیب و تنظیم: سردار تنویر حیدر بلوچ

نیابت و خلافت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متعلق دو حدیثیں بنیادی حیثیت اور مرکزیت کی حامل ہیں۔ ایک حدیث ثقلین [1] کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نوے دن کے اندر چہار مقام پر بیان فرمائی اور دوسری حدیث غدیر کہ جسے درحقیقت پہلی حدیث یعنی حدیث ثقلین کو مکمل کرنے والی کہا جاسکتا ہے، جو پیغمبر اسلام نے غدیر خم کے میدان میں حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں ارشاد فرمائی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت غدیر سے وابستہ ہے، اگر اعلان غدیر نہ ہوتا تو رسالت باطل ہوجاتی۔ صاحبان غدیر یعنی آئمہ معصومین علیھم السلام کی نگاہ میں اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امامت دراصل امت کے لئے اللہ تعالٰی کا مقرر کردہ نظام ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم:
شیخ صدوق نے امالی میں امام باقر علیہ السلام اور آپؑ نے اپنے جد بزرگوارؑ سے نقل کیا ہے، کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ اے علیؑ اللہ تعالٰی نے آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک" کو تمہاری ولایت کے بارے میں نازل کیا ہے، اگر میں اس ولایت کو جسے لوگوں تک پنہچانے کا خدا نے مجھے حکم دیا، نہ پہنچاتا تو میری رسالت باطل ہوجاتی اور جو شخص تمہاری ولایت کے بغیر خدا سے ملاقات کرے اس کا کردار باطل ہے، اے علیؑ! میں وحی خدا کے علاوہ بات نہیں کرتا۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام:
سلیم بن قیس ہلالی امیر المومنین علیہ السلام کی ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ثم اقبل عليهم على فقال: يا معشرالمسلمين و المهاجرين و الانصار انشد كم الله اسمعتم رسول الله يقول يوم غدير خم كذا و كذا فلم يدع شيئا قال عنه رسول الله الا ذكرهم اياه قالوا نعم (جب حضرت ابوبکر کی طرف سے اصرار بڑھا کہ علی علیہ السلام ابوبکر کی بیعت کریں) تو علی علیہ السلام نے لوگوں سے کہا: اے مسلمانو اور مہاجرین و انصار! کیا تم لوگوں نے نہیں سنا کہ رسول خدا (ص) نے غدیر کے دن کیا فرمایا؟ اس کے بعد ان تمام باتوں کو جو رسول خدا (ص) نے غدیر کے دن فرمائیں تھیں انکی یاد دہانی کروائی۔ سب نے اقرار کیا کہ ہاں یہ سب کہا تھا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے ابو بکر سے فرمایا کہ حدیث غدیر کی بنیاد پر کیا میں تمہارا اور مسلمانوں کا مولا ہوں یا تم؟ ابوبکر نے کہا: آپ۔ [2] اسی طرح ابی الطفیل کا کہنا ہے کہ جس دن عمر نے شوریٰ کو دعوت دی، میں گھر پر تھا، میں نے سنا کہ علی علیہ السلام نے کہا، کیا میرے علاوہ کوئی اور تمہارے درمیان ہے، جس کے بارے میں پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہو، من کنت مولاہ فھذا مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ، سب نے کہا کہ نہیں کوئی نہیں ہے۔ [3]

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا:
ابن عقدہ نے اپنی کتاب "الولایۃ" میں محمد بن اسید سے یوں نقل کیا ہے کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی رحلت سے پہلے علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں کچھ فرمایا؟ آپؑ نے جواب دیا کہ واعجباانسيتم يوم غدير خم، بہت تعجب ہے! کیا تم لوگوں نے غدیر خم کو فراموش کر دیا ہے۔؟

امام حسن مجتبٰی علیہ السلام:
امام جعفر صادق  علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کرنا چاہی تو اس سے فرمایا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے میرے باباؑ کے بارے میں فرمایا کہ  انہ منی بمنزلۃ ھارون من موسی، اسی طرح انہوں نے فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے باباؑ کو غدیر خم میں امام کے عنوان سے منصوب کیا ہے۔ [4]

امام حسین علیہ السلام:
سلیم بن قیس لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام معاویہ کی موت سے پہلے خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے۔ آپؑ نے بنی ہاشم کو جمع کیا اور فرمایا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام  صلی علیہ و آلہ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو غدیر خم کے دن خلافت پر منصوب کیا۔؟ سب نے کہا: ہاں! اے فرزند رسول۔ [5]

امام زین العابدین علیہ السلام:
ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ علیؑ بن حسینؑ سے جب پوچھا گیا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ کا کیا مطلب ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ اخبر ھم انہ الامام بعدہ۔ یعنی پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو یہ خبر دی کہ ان کے بعد علی علیہ السلام امت کے امام ہیں۔ [6]

امام محمد باقر علیہ السلام:
ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام سے پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول من کنت مولاہ فعلی مولاہ، کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ اے ابو سعید پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام لوگوں کے درمیان میرے جانشین ہوں گے۔ [7]

امام جعفر صادق علیہ السلام:
زید شحام کا کہنا ہے کہ میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا، مکتب معتزلہ کے ایک آدمی نے آپؑ سے سنت کے بارے میں سوال کیا۔ آپؑ نے جواب دیا کہ ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت ہے، اس کا حکم خدا اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت میں موجود ہے، اگر سنت نہ ہوتی خداوند عالم کبھی بھی اپنے بندوں پر حجت تمام نہ کرتا۔ اس آدمی نے پوچھا کہ خداوند عالم نے کس چیز کے ذریعے ہمارے اوپر حجت تمام کی ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا۔ اللہ تعالٰی نے اس طریقے سے ولایت کو مکمل کیا اور اس سنت کے ذریعے اس نے تمہارے اوپر حجت کو تمام کیا ہے۔ [8]

امام موسٰی کاظم علیہ السلام:
عبد الرحمن بن حجاج نے حضرت موسٰی بن جعفر  علیہ السلام سے غدیر خم کی مسجد میں نماز [9] کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے جواب میں فرمایا کہ صل فيه فان فيه فضلا و قد كان ابى يامربذلك [10]، اس میں نماز پڑھو، اس لئے کہ اس میں نماز پڑھنے کی بہت فضیلت ہے اور بتحقیق میرے بابا نے اس امر کے لئے حکم کیا ہے۔

امام رضا علیہ السلام:
محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں کہ امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، اس حال میں کہ مجلس لوگوں سے بھری تھی اور آپس میں غدیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ بعض لوگ اس واقعہ کا انکار کر رہے تھے، امام علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ روز غدیر، آسمان والوں کے یہاں زمین والوں سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اے ابی بصیر! این ما کنت فاحضر یوم الغدیر، جہاں بھی رہو، غدیر کے دن امیر المومنین علیہ السلام کے پاس جانا، یقیناً اس دن خداوند عالم مسلمان مرد و زن کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کے دو برابر زیادہ لوگوں کو، جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے۔ اس کے بعد آپؑ نے فرمایا کہ والله لوعرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقه لصافحتهم الملائكه كل يوم عشر مرات [11] اگر لوگ اس دن کی قدر و قیمت کو جان لیتے تو بغیر شک کے ہر روز دس بار فرشتے ان سے مصافحہ کرتے۔

امام جواد علیہ السلام:
ابن ابی عمیر نے ابو جعفر ثانی [ع] سے اس آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" [12] کے ذیل میں یوں نقل کیا: پیغمبر اسلام (ص) نے دس جگہوں پر اپنی خلافت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" نازل ہوئی۔ [13] اس روایت کی وضاحت میں یوں کہنا چاہیے۔ مذکورہ آیت سورہ مائدہ کے شروع میں ہے۔ یہ سورہ آخری سورہ ہے، جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔ اس سورہ میں آیت اکمال اور آیت تبلیغ ہیں کہ جو واقعہ غدیر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔

امام ہادی علیہ السلام:
شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی زیارت کو امام حسن عسکری علیہ السلام اور آپؑ نے امام ہادی  علیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے کہ امام جواد علیہ السلام نے غدیر کے دن حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی اور فرمایا کہ اشهد انك المخصوص بمدحةالله المخلص لطاعةالله ... گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی مدح و ثنا آپؑ سے مخصوص ہے اور آپؑ اس کی اطاعت میں مخلص ہیں۔ اس کے بعد فرمایا، خداوند عالم نے حکم دیا کہ يا ايهاالرسول بلغ ما انزل اليك من ربك و ان لم تفعل فمابلغت رسالته و الله يعصمك من الناس. اس کے بعد فرمایا: پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو خطاب کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا میں نے جو کچھ میرے ذمہ تھا تم لوگوں تک نہیں پہنچایا؟ سب نے کہا: پہنچا دیا یارسول اللہ(ص)۔ اس کے بعد فرمایا: خدا گواہ رہنا۔ اس کے بعد فرمایا کہ الست اولى بالمومنين من انفسهم؟ فقالوا بلى فاخذ بيدك و قال من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله۔ کیا میں مومنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں، یارسول اللہ آپ حق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔ [14]

امام حسن عسکری علیہ السلام:
حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا اور پوچھا کہ پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس قول، من کنت مولاہ فعلی مولاہ کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ اراد بذلك ان جعله علما يعرف به حزب الله عند الفرقة، خداوند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ جملہ علامت اور پرچم قرار پائے، تاکہ اللہ کا گروہ اختلاف کے وقت اس کے ذریعے پہچانا جائے۔ اسحاق بن اسماعیل نیشاپوری کہتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی علیہ السلام نے ابراہیم سے یوں کہا کہ خداوند عالم نے اپنی رحمت اور احسان کے طفیل واجبات کو تمہارے اوپر مقرر کیا، یہ کام اس کی ضرورت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی رحمت کا تقاضا تھا، جو تمہارے شامل حال ہوئی، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس نے ایسا کیا تاکہ ناپاک کو پاک لوگوں سے جدا کرے اور تمہارے باطن کو پرکھے، تاکہ اس کی رحمت تمہارے شامل حال ہو اور بہشت میں تمہارا مقام معین ہو۔ آپؑ نے فرمایا کہ اسی وجہ سے حج، عمرہ، نماز کی ادائیگی، زکات، روزہ اور ولایت کو تمہارے اوپر چھوڑا اور تمہارے راستے میں ایک دروازہ رکھا، تاکہ اس کے ذریعے دوسرے واجبات کے دورازے اپنے اوپر کھول سکو، اس دروازے کو کھولنے کے لیے ایک چابی رکھی ہے، اگر محمد اور آل محمد علیہم السلام نہ ہوتے تم لوگ حیوانوں کی طرح سرگرداں گھومتے رہتے اور کسی بھی فریضہ کی ادائیگی نہ کر پاتے، مگر گھر میں دروازے کے علاوہ انسان داخل ہوسکتا ہے؟ جب خداوند عالم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اپنے اولیاء کو معین کرکے اپنی حجت تمہارے اوپر تمام کر دی تو فرمایا اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا [15] کہ آج میں نے دین کو تمہارے اوپر کامل کر دیا اور نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام سے راضی ہوگیا، اس کے بعد اس نے اپنے اولیاء کے کچھ حقوق تمہاری گردنوں پر رکھے اور تمہیں حکم دیا کہ ان کے حقوق ادا کرو، تاکہ تمہاری عورتیں، مال و دولت اور خوراک و پوشاک تمہارے اوپر حلال ہوں۔[16]

امام زمانہ حضرت محمد مہدی علیہ السلام
دعائے ندبہ میں ہے کہ  فلما انقضت ایامہ اقام ولیہ علی بن ابی طالب صلواتک علیھما و آلھما ھادیا اذ کان ھو المنذر و کل قوم ھاد فقال و الملاء امامہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔۔

حوالہ جات
[1] ـ حديث ثقلين اہلسنت کے اکثر منابع میں ذکر ہوئی ہے ہم یہاں پر صرف چند ایک طرف اشارہ کرتے ہیں: السنه شيبانى، ص 337 و 629 ح 1551؛ صحيح ترمذى، ج 5، ص 663؛ سنن كبرى بيهقى، ج 10، ص 114؛ المستدرك، حاكم نيشابورى، ج 3، ص 110؛ فضائل الصحابه، احمد بن حنبل، ج 1، ص 171 و ج 2، ص 588؛ سنن ابىداود، ج 2، ص 185؛ طبقات كبرى، ابن سعد، ج 2، ص 194؛صحيح مسلم، ج 4، ص .1873
[2] امالى شيخ صدوق، ج 1، ص .342
[3] اثبات الهداة، حرعاملى، ج 2، ص 112، ح 473؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج 3، ص 25 ـ .26
[4] امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171
[5] سليم بن قيس، ص .168
[6] معانى الاخبار، ص 65؛ بحارالانوار، ج 37، ص .223
[7] معانى الاخبار، ص .66
[8] تفسير برهان، ج 1، ص .446
[9] اس مسجد کی اہمیت کو جاننے کے لیے مجله ميقات حج شماره 12 کی طرف رجوع کیا جائے
[10] اصول كافى، ج 4، ص .566
[11] تهذيب الاحكام، شيخ طوسى، ج 6، ص 24، ح 52؛ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص .41
[12] سوره مائده، آيه .1
[13] تفسيرقمى، ج 1، ص .160
[14] بحارالانوار، ج 100، ص .363
[15] وہی، ج 37، ص .223
[16] علل الشرائع، ج 1، ص 249، باب 182، ح .66‎
خبر کا کوڈ : 414511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش