2
Wednesday 29 Oct 2014 23:57

اہل کردار کی پہچان عزاداری ہے

اہل کردار کی پہچان عزاداری ہے
تحریر: عرفان علی

سلام بر پرچم و علم، سلام بر شعر محتشم، سلام بر محرم ۔۔۔خدا کا شکر کہ اس نے یہ مہینہ نصیب کیا۔ محرم، نواسہ رسولﷺ، فرزند علی ؑ و بتول ؑ یعنی حضرت امام حسین ؑ اور ان کے باوفا و جانثار اصحابؓ اور اعزہ کی یاد لاتا ہے، جو سن61 ھجری قمری میں موجودہ عراق کے شہر کربلا میں حکمران وقت یزید کی باطل افواج کے مقابلے میں حق کے لئے لڑے۔ یہ مظلوم مومن و صالح افراد دین اسلام کے حقیقی پیروکار تھے اور یہ یزید جیسے دشمن اسلام کی بیعت پر راضی نہیں تھے۔ صرف 72 افراد پر مشتمل حسینی فوج نے ہزاروں کی تعداد پر مشتمل یزیدی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال کر ذلت کی زندگی کو مسترد کرتے ہوئے عزت کی موت کو ترجیح دی۔ تاریخ عالم میں یہ شہدائے کربلا کی اصطلاح سے معروف ہوئے۔ ان شہیدان کربلا کو دشمن اسلام اموی حکمران یزید نے باغی قرار دینے کی سازش کی لیکن خاتم الانبیاء ﷺ کی شجاع نواسی حضرت بی بی زینب (س) اور فرزند امام حسین، ؑ علی زین العابدین ؑ نے دربار یزید میں قیدی ہوتے ہوئے حق کو آشکار کیا اور باطل کو ذلیل و رسوا کیا۔ یہ تاریخی خطبے آج بھی محفوظ ہیں۔ یزیدی حکومت اور افواج نے جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا، اس نے نہ صرف یہ کہ خاندان ولایت نبوت و رسالت و امامت و خلافت کو سوگوار کردیا بلکہ جس نے بھی یہ واقعہ سنا، وہ غم سے نڈھال ہو گیا۔ اہل حرم کا قافلہ جب قید سے آزاد ہوکر مدینہ پہنچا تو محلہ بنی ہاشم میں کہرام برپا ہو گیا۔ میدان کربلا ہی میں خاندان نبوت ﷺ نے شہداء کے لاشوں پر گریہ و زاری کرکے عزاداری کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ عام موت مرنے والوں پر بھی غم و حزن منانا ایک ایسی انسانی روایت ہے جو آج تک پوری دنیا میں رائج ہے۔ حضرت ابوطالب اور ام المومنین بی بی خدیجہ الکبریٰ کی رحلت پر خود پیامبر اعظمﷺ نے عام الحزن یعنی غم کا سال منایا جبکہ خنجر ظلم و ستم اور تیغ جفا سے قتل کئے جانے والے مقتولین کی عزاداری کا ایک ثبوت جنگ احد کے شہداء کی یاد میں عزاداری کا واقعہ ہے۔ حضرت حمزہ ؑ کی شہادت کے بعد ان کی میت پر عزاداری کی سنت تاریخ میں محفوظ ہو چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام حسین ؑ اور ان کے باوفا اصحابؓ پر اور ان کے بعد ان کے خاندان پر جو میدان کربلا کے خیموں میں موجود تھے، ان پر جو مصائب ٹوٹے، اس کی یاد میں عزاداری کا جو سلسلہ میدان کربلا دربار یزید، قید خانہ یزید، مدینہ سے شروع ہوا، وہ پورے عالم اسلام تک پھیل گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا محرم کا چاند دیکھنے کے بعد عزادار بن جاتی ہے۔ پاکستان یا ہندستان ہی کو دیکھ لیں۔ کیا سنی کیا شیعہ، کیا مسلمان اور کیا ہندو اور مسیحی، سبھی اس شعر کی تصویر بنے نظر آتے ہیں:
در حسین ؑ پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
یہ اتحاد کا مرکز ہے ، آدمی کے لئے

دنیا بھر میں مختلف اقوام نے شہیدان کربلا کی یاد کو اس طرح منانا شروع کیا جیسے وہ اپنوں کے مرنے کا غم منایا کرتے تھے۔ شہدائے کربلا سے محبت و عقیدت نے اقوام عالم کو ان کی آئیڈیالوجی سے بھی آشنا کیا تو پوری دنیا کے یزید صفت حکمرانوں اور ان کے ابن زیاد صفت گماشتوں کے خلاف عزاداری نے ایک عالمگیر انقلابی تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اب عزاداری صرف سنت یا روایت ہی نہیں بلکہ اصلاح و انقلاب کا استعارہ بن چکی ہے۔ ہندوستان میں حسینی برہمن پیدا ہوگئے۔ دھرمندر ناتھ، ماتھر لکھنوی، بیدی جیسے دانشور و شعراء نے امام حسین ؑ کی مدح سرائی کی۔ بانی پاکستان محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی دو متضاد سیاسی نظریئے کے حامل تھے لیکن امام حسین ؑ کی مداحی میں ہم زبان تھے۔ ایڈورڈ گبن، چارلس ڈکنز، تھامس کارلائل، جیمز کورن سمیت متعدد اہم شخصیات نے شہیدان کربلا اور خاص طور پر سرور و سالار شہیدان کو انقلابی و مصلح قرار دیا۔

عراق، بحرین، یمن، لبنان جیسے عرب ممالک، ایران، پاکستان، ہندستان، افغانستان اور ترکی جیسے عجم ممالک، ایشیائی ممالک پر ہی کیا موقوف، براعظم امریکا، یورپ اور آسٹریلیا اور افریقہ میں بھی محرم میں عزاداری منائی جارہی ہے۔تاسوعا اور عاشورا پر ماتمی جلوس بھی نکلتے ہیں اور عشرہ محرم کی مجلس و محفل منعقد ہوتی ہیں۔ ذکر شہادت حسین کے عنوان سے غیر شیعہ مسلمان بھی شیعہ مسلمانوں کی طرح ماہ محرم کے احترام میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ محرم عزاداری کا مہینہ ہے اور پانی کی سبیلوں، شربت، حلیم و بریانی کا اہتمام مسلمانوں کی جانب سے اس محرم میں صرف اس لئے خاص طور پر کیا جاتا ہے کہ دنیا یہ فراموش نہ کرے کہ امام حسین ؑ اور ان کے چاہنے والوں پر پانی بند کرنا یزیدی صفت افراد کی سنت خبیثہ تھی، مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں۔ مجلس، ماتم، محفل، تعزیہ داری کے ذریعے سرور سالار شہیدان امام حسین ؑ اور دیگر شہدائے کربلا کی یاد منانے والے دراصل دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ:
ہر چند اہل جور نے چاہا یہ بارہا
ہو جائے محو، یاد شہیدان کربلا
باقی رہے نہ نام زمیں پر حسین کا
لیکن کسی کا زور ،عزیزو، نہ چل سکا
عباس نام ور کے لہو سے دھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا

علامہ اقبال ؒ کے افکار کی روشنی میں دیکھیں تو اسلام کے دامن میں صرف دو چیزیں نظر آتی ہیں:
اک سجدہ شبیری ؑ، ایک ضرب ید اللہی ؑ
پاکستان کو اس لئے بھی حسینیوں کا ملک قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کے نظریہ ساز مفکر کی آئیڈیالوجی میں رسم کربلا پر زرو دیا گیا
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری ؑ
محمد علی جناح ؒ کے آئیڈیل بھی امام حسین ؑ تھے اور جناح صاحب نے عالم انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ امام حسین ؑ کی قربانیوں سے سبق سیکھے اور امام حسین ؑ سے رہنمائی لے۔ باپو گاندھی نے کہا کہ اگر ہندوستان کامیاب ہونا چاہتا ہے تو امام حسین ؑ کے نقش قدم پر چلے۔ محرم میں دنیا بھرکی سوگواری و عزاداری دنیا کے باضمیر انسانوں کے دل و دماغ پر امام حسین ؑ کی حکمرانی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔ عالم انسانیت اپنے دور کے یزید سے ٹکرانے کے لئے شہدائے کربلا کے علاوہ کوئی دوسری عملی مثال لانے سے قاصر ہے۔ اگر ایران میں امام خمینی ؒ کی قیادت و رہبری میں اسلامی انقلاب آیا تو یہ بھی شہدائے کربلا کے انقلاب حسینی ؑ کا صدقہ تھا اور خود بانی انقلاب نے کہا کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے محرم و صفر کی وجہ سے ہے کیونکہ محرم تا صفر عزاداری برپا کی جاتی ہے۔ آج سے تقریباً 26 سال قبل عاقل حسین اور عامر حسین برادران کا نوحہ سنا تھا اور میرے پسندیدہ نوحوں میں سے ایک اس نوحہ میں جناب ہاشم رضا ہاشم کا یہ قطعہ آج بھی عزاداری اور عزاداروں کی حقیقت، حیثیت اور اہمیت دنیا پر واضح کرتا ہے:
چکیاں پیس کے زہراؑ نے جسے پالا تھا
حق نے قرآن کے سانچے میں جسے ڈھالا تھا
مرتبہ جس کا فلک سے بھی کہیں بالا تھا
وہ نواسہ کہ جو اسلام کا رکھوالا تھا
اس سے منہ پھیرنا اسلام سے غداری ہے
اہل کردار کی پہچان عزاداری ہے
خبر کا کوڈ : 417096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش