5
0
Thursday 30 Oct 2014 18:37

حسین (ع) زندہ، زندوں کا حسین (ع)

حسین (ع) زندہ، زندوں کا حسین (ع)

تحریر: عمران خان

روز عاشور شریعت محمدی (ص) ابلیسی نمائندوں سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگئی۔ گرچہ سانحہ کربلا برپا تو اسلام بچانے کیلئے ہوا مگر یہ خانوادہ نبوت کے لہو کی تاثیر تھی کہ حسینیت و یزیدیت، حق و باطل، انسانیت و حیوانیت، زندگی و موت، مظلوم و ظالم، سچ و جھوٹ، کے درمیان تفریق کا پیمانہ قرار پایا۔ دستور دنیا ہے کہ تاریخ ہمیشہ فاتح کو یاد رکھتی ہے، مگر عجب معمہ ہے سانحہ کربلا کہ اس میں فاتح کا سر نوک سناں پر اور مفتوح تخت نشین تھا۔ قاتل مردہ قرار پائے اور مقتول زندہ ہیں۔ جو پیاسے تھے ان کے نام پر دودھ و شہد کی سبیلیں چلتی ہیں، اور پانی بند کرنے والے ایک گھونٹ کو ترستے ہیں۔ جن کے سروں سے ردائیں چھینی گئیں، ان کے نام پہ ہی باحیا آنکھیں پلکوں کے پردے گراتی ہیں اور ردائیں چھیننے والوں کے مظالم و جرائم ستر پوشی کی بھیک مانگتے ہیں۔ جن کے اعضاء بریدہ لاشے میدان کربلاء میں لاوارث چھوڑے گئے، ہر باضمیر انہیں اپنا وارث سمجھتا ہے اور ظلم ڈھانے والوں کی اپنی نسلیں شناخت چھپانے پر مجبور ہیں۔ یہ واقعہ کربلا ہی ہے جس نے زندگی کو مادی وجود اور مادہ پرستی کے پنجرے سے آزاد کرایا۔ 
یہ راہ حق میں صرف شہادت نہ تھی ندیم 
اک زندگی فنا سے بقا تک نکل گئی 

اگر خاکی جسم میں مقید روح کا نام ہی زندگی ہوتی تو پھر شہر شہر، نگر نگر، قریہ قریہ، گلی و کوچوں میں حسین (ع)، حسین(ع) کی صدائیں بلند نہ ہوتیں کیونکہ حضرت امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب کے جسد خاکی تو کربلا کی ریت میں دفن ہو چکے تھے، 
یہ فقط عظمت کردار کے ڈھب ہوتے ہیں
فیصلے جنگ کے تلوار سے کب ہوتے ہیں
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اھل حق ہوں تو بہتر بھی غضب ہوتے ہیں (سلیم کوثر) 
عجب شان ہے کربلا کے شہیدوں کی کہ ہر باضمیر شخص چاہے کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، انہیں خراج عقیدت پیش کرتا ہے، اور کربلا سے درس لیتا ہے۔ عیسائی سکالر انٹویا بارا کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ امام حسین (ع) جیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسین (ع) کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین (ع) نہیں۔

انگلستان کے مشہور سکالر و ناول نگار چارلس ڈکسن کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ حسین (ع) کو کوئی دنیاوی لالچ تھی یا اگر ایسا ہوتا تو حسین اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حسین (ع) نے فقط اسلام اور رضائے الٰہی کے لئے قربانی دی۔
امریکی مورخ اپرونیک، نے لکھا ہے کہ حسین (ع) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے، لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دے رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفہ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں، انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت تمازت میں جلتی ہوئی ریت پر حسین (ع) نے حیات ابدی کا سودا کر لیا، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسوار، اے میرے حسین(ع)۔
مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ اسلام بذور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اسلام حسین (ع) کی قربانی کی وجہ سے پھیلا اور میں نے حسین (ع) سے مظلومیت کے اوقات میں فتح و کامرانی کا درس سیکھا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برٹش کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا جو پہلا دستہ مہاتما گاندھی نے ترتیب دیا تھا، اس میں کل بہتر افراد تھے۔ ایک صحافی نے تعداد سے متعلق سوال اٹھایا تو مہاتما گاندھی نے جواب دیا کہ چونکہ حضرت محمد (ص) کے نواسے کیساتھ میدان کربلا میں بہتر افراد تھے، اس لیے میں نے بھی تحریک کے پہلے دستے میں بہتر افراد کا انتخاب کیا ہے۔ 

جی بی ایڈورڈ کے مطابق، تاریخ اسلام میں ایک باکمال ہیرو کا نام نظر آتا ہے جس کو حسین (ع) کہا جاتا ہے۔ یہ محمد (ص) کا نواسہ علی (ع)  و فاطمہ (س) کا بیٹا لاتعداد صفات و اوصاف کا مالک ہے، جس کے عظیم اعلٰی کردار نے اسلام کو زندہ کیا اور دین خدا میں نئی روح ڈال دی۔ اگر اسلام کا یہ بہادر میدانِ کربلا میں شجاعت کے جوہر نہ دکھاتا اور ایک پلید و لعین حکمران کی اطاعت قبول کرلیتا تو آج محمد (ص) کے دین کا نقشہ کچھ اور نظر آتا وہ کبھی اس طرح کہ نہ تو قرآن ہوتا اور نہ اسلام ہوتا، نہ ایمان، نہ رحم و انصاف، نہ کرم و وفا بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ انسانیت کا نشان تک دکھائی نہ دیتا۔ ہر جگہ وحشت و بربریت اور درندگی نظر آتی۔ انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر بابو راجندر پرشاد کا قول ہے، کربلا کے شہیدوں کی کہانی انسانی تاریخ کی ان سچی کہانیوں میں سے ایک ہے، جنہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا نہ ان کی اثر آفرینی میں کوئی کمی آئے گی۔ دنیا میں لاکھوں کروڑوں مرد اور عورتیں اس سے متاثر ہیں اور رہیں گے۔ شہیدوں کی زندگیاں وہ مشعلیں ہیں جو صداقت اور حریت کی راہ میں آگے بڑھنے والوں کو راستہ دکھاتی ہیں ان میں استقامت کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔ سوامی شنکر اچاریہ کہتے ہیں کہ اگر حسین (ع) نہ ہوتے تو دنیا سے اسلام ختم ہو جاتا اور دنیا ہمیشہ کے لیے نیک بندوں سے خالی ہو جاتی۔ حسین سے بڑھ کر کوئی شہید نہیں۔ مشہور افسانہ نگار منشی پریم چند لکھتے ہیں کہ معرکہ کربلا دنیا کی تاریخ میں پہلی آواز ہے اور شاید آخری بھی ہو جو مظلوموں کی حمایت میں بلند ہوئی اور اس کی صدائے بازگشت آج تک فضائے عالم میں گونج رہی ہے۔ جرمن فلاسفر نطشے کے مطابق زہد و تقوی اور شجاعت کے سنگم میں خاکی انسان کے عروج کی انتہا ہے جن کو زوال کبھی نہیں آئے گا۔ اس کسوٹی کے اصول پر امام عالی مقام نے اپنی زندگی کی بامقصد اور عظیم الشان قربانی دے کر ایسی مثال پیش کی جو دنیا کی قوموں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی رہے گی۔
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخ نوع بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
 
                        (جوش ملیح آبادی) 


برصغیر پاک و ہند میں حضرت امام حسین (ع) کی یاد سے وابستگی صرف مسلم معاشرے کی تہذیبی و تاریخی روایت کا حصہ نہیں رہی، بلکہ غیر مسلم معاشرہ بھی محسن انسانیت کی یاد میں برابر کا شریک رہا۔ عزاداری کی روایت میں ہندو بھی برابر حصہ لیتے رہے۔ ہندوستان کے سابق راجواڑوں میں امام حسین سے اظہار عقیدت کی مثالیں موجود ہیں۔ جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش قابل ذکر ہیں۔ جھانسی کی رانی کو حضرت امام حسین (ع) سے غیر معمولی عقیدت تھی۔ وہ یوم عاشور پر بڑے خلوص سے مجلس عزا برپا کرتی تھی۔ مہارانی لکشمی بائی کی قائم کردہ مجلس اب بھی جھانسی پولیس کوتوالی میں منعقد کی جاتی ہے۔ صوبہ اودھ میں حضرت غازی عباس (ع) کا علم مغلیہ فوج کے راجپوت سردار دھرم سنگھ نے اٹھا۔ سردار دھرم سنگھ اپنے مکالمے میں بابا گورو نانک کے اس قول کو دہراتے تھے۔ جس میں بابا گورو نانک نے اپنے مرید سے کہا کہ وہ حضرت امام حسین (ع) کا غم منایا کرے، جب مرید نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو بابا گورونانک نے کہا کہ حسین (ع) مسلمانوں کے ہی نہیں ضمیر والوں کے گرو ہیں۔ اس لیے ان کا غم منانا ہر انسان پر لازم ہے۔
سکھ شاعر مہندر سنگھ بیدی کہتے ہیں کہ
گلشن صدق و صفا کا لالہ رنگیں حسین
شمع عالم مشعلِ دنیا چراغ دیں حسین
سر سے پا تک سرخی افسانہ خونیں حسین    
جس پہ شاہوں کی خوشی قربان وہ غمگیں حسین
مطلع نور مہ و پرویں ہے پیشانی تری 
باج لیتی ہے ہر اک مذہب سے قربانی تری
جادہ عالم میں ہے رہبر ترا نقش قدم 
سایہ دامن ہے تیرا پرورش گاہ ارم
بادہ ہستی کا ہستی سے تیری ہے کیف و کم 
اٹھ نہیں سکتا تیرے آگے سرِ لوح و قلم
تو نے بخشی ہے وہ رفعت ایک مشت خاک کو 
جو بایں سرکردگی حاصل نہیں افلاک کو
بارشِ رحمت کا مژدہ باب حکمت کی کلید 
روز روشن کی بشارت صبح رنگیں کی نوید
ہر نظامِ کہنہ کو پیغام آئین جدید 
کہ ہے تیری شہادت اصل میں مرگ یزید
تیری مظلومی نے ظالم کو کیا یوں بے نشاں 
ڈھونڈتا پھرتا ہے اس کی ہڈیوں کو آسماں 


گوالیار کے ہندو مہاراجے ریاست بھر میں عشرہ محرم کی مجالس کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ یہاں حسینی برہمن بھی موجود ہیں جو اپنا تعلق اس بزرگ راہب سے بتاتے ہیں جس نے امام حسین (ع) پر اپنے بیٹوں کو قربان کردیا۔ اسی مناسبت سے انہیں حسینی برہمن یا حسینی پنڈت کہا جاتا ہے۔ حسینی برہمنوں میں دت اور موہیال ذات سے تعلق رکھنے والے ہندو عقیدت مندوں کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے۔ برصغیر سمیت پوری دنیا میں ہونیوالی عزاداری کے اجتماعات میں مسلم کے ساتھ ساتھ غیر مسلم افراد بھی شریک ہوکر حضرت امام حسین ؑ سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ 
کم جس کی خیالیں ہوں وہ تنویر نہیں ہوں
بدعت سے جو مٹ جائے وہ تصویر نہیں ہوں
پابند شریعت نہ سہی گو لچھمن
ہندو ہوں مگر دشمن شبیر نہیں ہوں
(منشی لچھمن داس)
 

یہ امر بھی حیران کن ہے کہ دنیا بھر میں عزاداری امام حسین (ع) کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں عزاداری کے اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں البتہ اسلامی دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں حضرت امام حسین (ع) سے اظہار عقیدت و محبت کے جرم میں عزاداروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ مجالس و جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود روز عاشور حضرت امام حسین (ع) کی عظیم قربانی کی یاد میں کرہ ارض پر لاکھوں اجتماعات ہوتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں بالعموم اور عراق، پاکستان، افغانستان میں عزاداری کے جلوسوں پر دہشتگردی کے واقعات کے باوجود نام حسین (ع) لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا انسانی اجتماع بھی کربلا میں ہوتا ہے اور یہ اجتماع حضرت امام حسین (ع) سے محبت کرنیوالے حسینیوں کا ہوتا ہے۔ حضرت امام حسین (ع) سے محبت حکم خداوندی ہے، سنت نبوی ہے۔  رحمت للعالمین، حضرت محمد مصطفی (ص) حضرت امام حسین (ص) کو کندھوں پر اٹھا اٹھا کے امت کو دکھاتے رہے اور ہمیشہ اپنی نسبت سے حسنین کریمین(ع) کا تعارف کراتے رہے، مگر مقام افسوس و المیہ ہے کہ نواسہ رسول (ص) کے قتل کا داغ اس گروہ کے دامن پر ہے جو خود کو مسلمان کہلانے پر مصر تھے۔
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ 
کٹا حسین کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے کیا خوب کہا کہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
 


سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) نے حضرت امام حسین (ع) کی ولادت سے لیکر اپنی رحلت کے درمیانی عرصے میں بارہا اپنی امت پر حسنین کریمین کے فضائل و مراتب واضح کئے، عیسائیوں کیساتھ مباہلے کا مرحلہ آیا تو اپنے نفوس میں حضرت علی (ع)، حضرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت حسنین (ع) کو ساتھ لیا۔ آیت تطہیر میں بھی یہی ہستیاں چادر تطہیرکی وارث نظر آتی ہیں۔ احادیث مبارکہ میں اما م حسن (ع)، امام حسین (ع) جنت کے سردار ہیں۔ حضرت حسنین (ع) سے محبت اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے۔ حضرت حسنین (ع) سے بغض رسول خدا سے بغض ہے۔ اس کے علاوہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ جس پر امت مسلمہ کے تمام مکاتب متفق ہیں۔ حسین (ع) مجھ سے ہے اور میں حسین (ع) سے ہوں، نواسہ تو نانے سے ہو سکتا ہے مگر نانے کا نواسے سے ہونا یقیناً اچنبھے کی بات ہے، مگر ذبیح عظیم کی صورت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری سے لیکر میدان کربلا میں نوک سناں پر حضرت امام حسین (ع) کا سربلند سر اس حدیث مبارکہ کی تشریح نظر آتا ہے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ،ابتدا ہے اسماعیل
   (علامہ اقبال) 

روایات اور احادیث نبوی (ص) سے ثابت ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت کے بعد ہی ان کی مظلومانہ شہادت کی خبر مل چکی تھی۔ مولائے متقیان حضرت امام علی(ع)، حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر اصحاب و اہلبیت کے جاں نثار سبھی لوگ آپ کے زمانہ شیر خوارگی ہی میں جان گئے تھے کہ یہ فرزندِ ارجمند ظلم و ستم کرنے والوں کے ہاتھوں شہید کیا جائے گا۔ روایات میں ہے کہ حضور نبی کریم نے حضرت بی بی ام سلمٰی کو اشکبار آنکھوں سے تھوڑی سی مٹی دی اور فرمایا کہ یہ اس مقام کی مٹی ہے، جہاں میرے بیٹے (حضرت امام حسین) کو شہید کیا جائے گا۔ جس وقت انہیں شہید کیا جائے گا تو مٹی خون بن جائے گی۔ حضرت بی بی ام سلمہ نے وہ مٹی سنبھال کر رکھ لی جو کہ وقت شہادت خون میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ایک اور روایت میں حضور نبی کریم (ص) نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا حسین (ع) جس جگہ شہید کیا جائے گا، اس کا نام کربلا ہے، لہذٰا تم میں سے اس وقت جو حاضر ہو وہ ان کی مدد کرے۔ حضرت علی علیہ السلام کا ایک جنگ کے موقع پر کربلا سے گزر ہوا تو آپ ٹھہر گئے اور اس زمین کا نام دریافت کیا، لوگوں نے کہا کہ ا س زمین کا نام کربلا ہے، یہ نام سنتے ہی آپ بہت روئے۔ اس طرح رسول خدا اکثر اوقات حضرت امام حسین (ع) کے گلے پر پیار کرتے اور رنجیدہ، اشکبار ہو جاتے۔ 

سوائے کربلا کے تاریخ انسانی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ مصائب و آلام کا علم ہونے کے باوجود مستورات، شیر خوار بچوں سمیت خانوادے کے جوان، بزرگ، بھائی بیٹے بہنیں ساتھ لیکر کوئی مقتل گاہ سجائے۔ یہ حوصلہ، یہ صبر صرف حضرت امام حسین (ع) کا تھا۔ قافلہ حسینی (ع) میں شامل ہر فرد سیرت و کردار، جرآت و بہادری، یقین و ایمان، کا مینار ضیاء نظر آتا ہے۔ امام (ع) کے ساتھیوں کی تعداد 72  افراد پر مشتمل تھی اور لشکر یزید کی تعداد ہزاروں میں تھی مگرحسینی قافلے کے علمدار حضرت عباس علیہ السلام کی ہیبت و دہشت لشکر یزید پر چھائی ہوئی تھی۔ کربلا میں کئی ایسے مواقع آئے، جب حضرت عباس علیہ السلام جنگ کا رخ بدل سکتے تھے لیکن امام (ع) وقت نے انہیں لڑنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس جنگ کا مقصد دنیاوی لحاظ سے جیتنا نہیں تھا۔ شجاعت حضرتِ عباس کا اس روایت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ چیزیں جو اہلبیت (ع) کے قافلے سے لوٹی گئیں تھیں، ان میں پرچمِ حضرت عباس بھی تھا، جب یہ تمام اشیا یزید کے سامنے پیش کی گئی تو یزید لعین کی نگاہ اس پرچم پر گئی وہ غور سے اس پرچم کو دیکھتا رہا اور تعجب سے کبھی اٹھتا تھا کبھی بیٹھتا تھا، کسی نے سوال کیا، امیر کیا ہوا کہ اس طرح مبہوت اور حیرت زدہ ہو یزید نے پوچھا یہ پرچم کربلا میں کس کے ہاتھ میں تھا، جواب ملا کہ عباس برادرِ حسین کے ہاتھ میں، یزید کہتا ہے کہ مجھے تعجب اس علمبردار کی شجاعت پر ہے، دیکھو پورا پرچم حتی اس کی لکڑی پر تیروں اور دوسرے اسلحوں کے نشانات ہیں، صرف اس ایک جگہ کے جہاں سے اس کو پکڑ ا گیا ہے یہ جگہ کاملا محفوظ ہے اسکا مطلب ہے کہ تیر اور دیگر ہتھیاروں کا استعمال اس جگہ پہ پہ بھی ہوا، لیکن اس بہادر نے علم کو اپنے ہاتھ سے رہا نہیں کیا، آخری وقت تک اس پرچم کی حفاظت کرتا رہا، جب اس کا بازو تن سے جدا ہوا، تب پرچم بھی الگ ہوا۔
عباس نامور کے لہو سے دھلا ہوا 
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا 


یزیدی فوج نے میدان کربلا ء میں حضرت عباس کے بازو قلم کرکے پرچم حسینی (ع) کو گرانے کی مکروہ کوشش کی مگر آج اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ تعداد علم حضرت غازی عباس (ع) کی ہے۔ دنیا میں یہی واحد پرچم ہے کہ جو کسی اعلٰی سے اعلٰی شخصیت کے سامنے بھی جھکتا نہیں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ آفیشل و غیر آفیشل پرچم کشائی کی تقریبات اسی علم حضرت عباس کی منعقد ہوتی ہیں، سب سے زیادہ سلامی بھی اسی پرچم حسینی(ع) کو دی جاتی ہے۔ دنیا میں بلند ترین مقامات پر بھی پرچم حسینی(ع) لہرا رہا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا انسانی اجتماع بھی اسی ریگزار میں ہوتا ہے جہاں یزیدی فوج نے بہتر بے گور و کفن لاشے چھوڑے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مانگ بھی کربلا کے کفن کی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ شاعری جس شخصیت سے متعلق ہے وہ حضرت امام حسین(ع) ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی جابر حاکم کے خلاف کوئی تحریک اٹھتی ہے تو وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ کربلاء والوں سے رہنمائی لیتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ نیاز و لنگر و خیرات روز عاشور امام حسین (ع) کے نام پر تقسیم کی جاتی ہے۔ ایک ہی وقت میں دنیا میں سب سے زیادہ کالا رنگ پہنا جاتا ہے جو کہ روز عاشور کربلا والوں کے سوگ میں پہنا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ آنسو حضرت امام حسین(ع) کے نام پر ہدیہ کئے جاتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں دنیا میں سب سے زیادہ بولا جانیوالا لفظ حسین(ع) ہے جو کہ روز عاشور بولا جاتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی رضا کارانہ ڈیوٹی بھی روز عاشور ہی دی جاتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ فری میڈیکل کیمپس، مفت طبی امداد بھی روز عاشور دی جاتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ٹھنڈے، میٹھے پانی کی سبیلیں بھی امام حسین(ع) کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ تمام چیزیں ایک ہی امر کی دلالت کرتی ہیں کہ روز عاشور موت یزید و یزیدیت کا مقدر بنی۔ 
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت حسین(ع) تو آج بھی زندہ ہیں اور جو زندہ ہیں وہ حضرت امام حسین (ع) سے کسی نہ کسی رنگ میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار ضرور کرتے ہیں، ان زندوں میں ہرمذہب، عقیدے، مزاج، رنگ، نسل، زبان، قوم، قبیلے، علاقے کے لوگ شامل ہیں۔  
حسین(ع) زندہ، زندوں کا حسین(ع)

کسی سے اب کوئی بیعت نہیں طلب کرتا
کہ اہل تخت کے ذہنوں میں ڈر حسین کا ہے
(گلزار بخاری)

خبر کا کوڈ : 417266
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت خوب عمران بھائی
مضمون میں نادر معلومات، پاکیزہ جذبات اور گہرے خیالات کا ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔ ایسے مضامین ایک محقق کی کنجاکاوی اور ایک تخلیقی نہج کے حامل قلم کار کی تخلیقی صلاحیت کا متقاضی ہوتا ہے, جس کا ایک ساتھ مشاہدہ خال خال ہی ہوتا ہے.
اس مضمون میں ایک ساتھ دو مضامین خوبصورت انداز میں سموئے گئے ہیں, ایک مصنف کے اپنے احساسات دوسرے کربلا کے متعلق دنیا کے عظیم مفکروں اور رہنماووں کے خیالات۔
ناچیز کا حقیر سا مشورہ ہے کہ ان دو عنوانات کو آئندہ کبھی دو الگ الگ مضامین میں زیر بحث لایا جائے تو اس مضمون کی تنگ دامنی کا راہ حل نکل سکتا ہے
نیک دعاووں کے ساتھ
فدا حسین بالہامی
United States
بہت خوب عمران بھائی
Pakistan
Very Nicely written
Brilliant
Pakistan
عمران صاحب، آپکی تحریریں تو عمدہ ہوتی ہیں، لیکن یہ لاجواب تحریر شفاعت امام حسین حاصل کرنے کے لئے کافی۔ خدا سلامت رکھے۔
ہماری پیشکش