0
Friday 31 Oct 2014 23:10

بنائے لاالہ۔۔امام حسین ؑ

بنائے لاالہ۔۔امام حسین ؑ
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کتب سیرہ و تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امام حسن ؑ و امام حسین ؑ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک تھکا ہارا اعرابی مسجد میں داخل ہوا، اس نے امام حسن کی طرف اشارہ کر کے پوچھا، یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ حسن بن علی ابن ابی طالب ؑ ہیں۔ یہ سن کر اعرابی بولا مجھے تو انہیں سے مطلب تھا، کسی نے کہا اے مسافر توں ان سے کیا چاہتا ہے؟ جواب دیا، میں نے سنا ہے کہ یہ لوگ بڑے فصیح و بلیغ اور ماہر زبان عرب ہیں، میں لق و دق صحرا۔ پہاڑوں، بیابانوں اور گھاٹیوں کو طے کر کے اس قدر دور کا سفر طے کر کے صرف اس مقصد کے تحت آیا ہوں کہ ان سے ادبی مباحثہ کروں اور مغلق کلام عرب کو دریافت کر کے ان کا امتحان لوں۔ یہ سن کر ایک صاحب نے فرمایا کہ پہلے اس نوجوان (امام حسین ؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) سے پوچھو پھر ان کے بزرگ سے دریافت کرنے کا حوصلہ کرنا، اعرابی نے بڑھ کے امام حسین کو سلام کیا۔ آپ نے پوچھا تو کہاں سے آیا ہے؟ اس نے جواب دیا؛ انی جئتک من الھرقل والجعلل والاینم والھمھم اعرابی کے اس کلام و انداز کو سماعت فرما کے حضرت حسین ؑ نے تبسم فرماتے ہوئے اس سے کہا، اے اعرابی تونے جو کلام کیا ہے اس کو علماء کے سوا کوئی نہیں جانتا، سمجھتا۔ اس نے کہا جی ہاں میں ایسا ہی کلام مغلق و الفاظ غریب بولنے کا عادی ہوں کیا آپ ہمارے انداز کلام کے مطابق اسی طرز پر جواب سے نواز سکتے ہیں؟ حضرت ؑ نے ارشاد فرمایا، اچھا تو کلام کر میں ویسا ہی جواب دوں گا۔

کہنے لگا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم بدوی لوگوں کا اکثر قیل و مقال شعر میں ہی ہوتا ہے، حضرت ؑ نے فرمایا نظم کی پابندی ہی سہی۔ شعر ہی میں کلام کر میں بھی اسی طرز و اسلوب میں جواب دوں گا، یہ سن کر اعرابی نے نو اشعار پڑھے، جس کا پیلا شعر کچھ اس طرح سے تھا۔
ھفا قلبی الی اللھو وقد ودع شرخہ

اس اعرابی نے ابھی آخری شعر کہا بھی نہیں تھا کہ صاحب نھج البلاغہ کے لخت جگر نے فوراً ہی فی البدیہ نو اشعار کہہ دیئے جو اسی وزن و قافیہ و معانی میں تھے۔ اس کے بعد آپ نے اعرابی کے پہلے جملے کی تشریح فرمائی کہ ہرقل شاہ روم کا نام ہے لیکن اعرابی اس سے زمین روم لے رہا ہے، الجعلل کھجور کے چھوٹے درختوں کو کہتے ہیں الاینم ایک قسم کی گھاس ہے جو سرزمین روم میں کثرت سے اگتی ہے، الھمھم وہ کنواں ہے جس میں بہت زیادہ پانی ہو ایسے کنویں زمین شام میں کثرت سے پائے جاتے ہیں، گویا آپ نے واضح کر دیا کہ اعرابی کا مطلب یہ تھا کہ میں سرزمین روم سے آیا ہوں جہاں کی طبعی خصوصیات یہ ہیں کہ وہاں کھجور کے چھوٹے درخت زیادہ ہوتے ہیں اینم گھاس کثرت سے اگتی ہے اور گہرے پانی والے کنویں بہت ہوتے ہیں، یہ سن کر اعرابی کہنے لگا میں نے آج تک اس نوجوان کیطرح کسی کو بھی اتنا فصیح اللسان عربی زبان پر قدرت رکھنے والا نہیں پایا، امام حسن جو پاس ہی کھڑے تھے نے ارشاد فرمایا کہ کیوں نا ہو تو جانتا نہیں کہ یہ کون نوجوان ہے؟ امام حسن ؑ نے بھی اشعار کی صورت میں اپنے ماں جائے کا تعارف پیش کر دیا جنہیں سن کر اعرابی وجد میں آ گیا اور بے ساختہ بول اٹھا، خدا کی قسم میں آ پ کا شیدائی ہوں، میں نے یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے اور مکہ چھوڑنے سے لیکر میدان کربلا میں امام حسین ؑ کے کلمہ گو مسلمانوں کے سامنے دیئے گئے خطبات کا بھی مطالعہ کیا ہے، یہ خطبات انسان ساز ہیں اور اسی فصاحت کی بہترین مثال و علامت ہیں جس کو ملاحظہ کر کے اعرابی آپ کا شیدائی ہو گیا مگر میں دیکھتا ہوں کہ کربلا کی سرزمین پر جب میدان سجا اور امام ؑ نے اپنے جانثار ایک ایک کر کے میدان میں اتارے تو ان کی تعداد صرف اکہتر تھی، وہ خود شامل ہو کر بہتر شہدائے کربلا بن جاتے ہیں، میدان کربلا میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے صحابہ کا درجہ پایا تھا اور یزید کی فوج میں شامل تھے امام حسین ؑ انہیں پہچانتے تھے اور ان سے مخاطب بھی ہوئے تھے ان کا نام لیکر انہیں وہ وقت بھی یاد کروایا تھا جب رسول آخر نے ان کے سامنے امام حسین ؑ کو پیار کیا تھا، جب ان کے سامنے اپنے کاندھوں پر کھلایا کرتے تھے، جب ان کے سامنے مسجد نبوی میں خطبہ چھوڑ کر منبر سے اتر کر حسنین کریمین ؑ کو اٹھانے کیلئے آگے بڑھ جایا کرتے تھے اور برملا مسلمانوں کو بتایا کرتے تھے کہ حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور یہ فرمان بھی انہوں نے دہن مبارک رسول خدا سے سن رکھا تھا کہ حسین مجھ سے ہے میں حسین سے ہوں، پھر بھی آپ کے قتل اور یزید جیسے فاسق و فاجر کی امارت میں نواسہ رسول، جگر گوشہء بتول کا سر قلم کرنے پر آمادہ تھے، ان کے اہلبیت کو اسیر کرنے اور ان کا مال اسباب لوٹنے پر تیار تھے جبکہ اس اعرابی نے تو یہ بھی نہیں سنا اور دیکھا تھا نا ہی اسے رسول خدا ؐکی صحبت نصیب ہوئی تھی، پھر یہ کیسی صحبت والے تھے ۔۔۔؟

بلاشبہ امام حسینؑ اس خانوادے کے چشم و چراغ تھے جہاں فصاحت و بلاغت اور خطابت انکی فطرت و طبیعیت میں شامل ہوتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ہاشمی گھرانہ ہی فصاحت و بلاغت کا منبع و مرکز رہا ہے۔ کعب ابن لوئی، قصی، ہاشم، عبد المطلب، ابو طالب اور علی ابن ابی طالب ؑ جیسے خطیبوں کا گھرانہ ہے، بالخصوص رسول خدا محمد مصطفی ؐ اور امام المتقین علی ابن ابی طالب ؑ جنہیں امام الخطباء کہا جاتا ہے ان کی میراث رکھتے تھے۔ یہ خاندانی میراث تھی کہ آپ کی بہن سیدہ زینب و ام کلثوم سلام اللہ اور آپ کے فرزند سید سجاد ؑ نے تخت یزید کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا در حالیکہ آپ پابہ زنجیر اور رسن بستہ تھے، مجھے یہ بات اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہو رہی کہ یزید کی تیس ہزار کی فوج نے اتنی آسانی سے امام حسین ؑ کے اس قدر بلیغ و فصیح خطبات کو پس پشت ڈال دیا اور ان کی ایک نا سنی، جبکہ آپ کے مقام سے آشنا تھا۔ آپ کی صداقت و سچائی کے گواہ تھے پھر بھی قتل میں بڑھ چڑھ کے حصہ دار تھے۔ آپ ؑ جگہ جگہ اپنی فصیح و بلیغ خطبات سے حجت اتمام کرتے نظر آئے مگر یزیدیوں نے اس کا کوئی اثر قبول نا کیا۔ اس کا جواب وہی ہے جو امام نے اپنے قیام کے مقاصد اور اس دور کے حالات کہ جب یزید جیسا فاسق و فاجر اور زناکار منصب خلافت کا دعویدار بنا بیٹھا تھا اور لوگ اس کی بیعت کر رہے تھے، سے مل سکتا ہے۔ جب یزید جیسا شخص خلیفہ بن جائے تو اسلام پر فاتحہ ہی پڑھی جائے گی۔ عوام تو عوام اصل میں خواص تھے جنہوں نے یزید کی امارت و خلافت کو قبول کیا تھا جس کے باعث اسے جرات ہوئی تھی کہ امام حسین ؑ سے بھی بیعت طلب کرے، ایک اور بات جو اس بات کو ماننے پر مجبور کرتی ہے وہ عربوں میں بغض علی ؑ ابن ابی طالب ؑ تھا جنہوں نے بدر، احد، خندق اور نہروان میں ان کے بہت سے نامور منافقین و غاصبین کو تہہ تیغ کیا تھا۔ یہ لوگ اپنے بدلے اتارنے کیلئے انتہائی مظلومیت و بےکسی میں امام کو تنہا کر کے اپنی تسکین کر رہے تھے اور بہت سے ایسے بھی تھے جو لالچ اور دنیا کیلئے اپنی آخرت کو گروی رکھ آئے تھے، بہرحال ان نام کے مسلمانوں اور صحابیت کے دعوے دار نواسہ رسول کے قاتلوں سے تو وہ اعرابی اور وہ عیسائی پادری اچھے تھے جنہوں نے صرف خانوادہ نبوت کی جھلک دیکھ کے ہی اپنی شکست تسلیم کر کے مباہلہ میں جزیہ دینا قبول کر لیا تھا مگر مباہلہ نہیں کیا تھا۔ امام حسین ؑ نے اپنی امامت کی ذمہ داریاں ادا کیں اور وعدے نبھائے، اپنے نانا کا دین بچایا اور اسلام کو ابدیت سے نواز۔ اسی لئے تو امام حسین ؑ کو بنائے لاالہٰ کہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 417389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش