QR CodeQR Code

علامہ اقبالؒ اور امام حسینؑ

31 Oct 2014 22:51

اسلام ٹائمز: عشق کے مقابلے میں ایک دوسری طاقت ''عقل'' ہے۔ اقبالؒ عقل کی عظمت، افادیت اور ضرورت سے منکر نہیں لیکن عقل کی ایک قسم کو عیار سمجھتے ہیں جو سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اس کا کام خود پسندی، انانیت، انکار، تردد، تشکیک، ہوس رانی اور کثرتِ نعمت کی جستجو ہے۔ یہ عموماً ہوس، لالچ ، مادیت، محبت ِدنیا اور عیش و عشرت پر انسان کو آمادہ کرتی ہے۔ یہ عقل کی شکل آدمی کو ظالم و جابر و غاصب اور سفاک بنا دیتی ہے۔ عقل کی دوسری صورت میں غور و فکر، تدبر، حکمت اور مسائل سے آگہی ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک جب عقل حرص و ہوس کے دائرے میں رہ کر فعال ہوتی ہے تو انسانی وجود کی قبائے شرافت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے اور انسان نوع انسانی کا صیاد بن جاتا ہے اور جب یہی عقل، عشق کے جذبات سے سرشار ہو جاتی ہے تو انسان نسلِ انسانی کا محافظ اور خیرخواہ ثابت ہوتا ہے۔


تحریر: سجاد حسین آہیر

انسانی تاریخ شاہد ہے کہ زمین کے ہرخطّے، قبیلے، قوم اور مذہب کے ماننے والوں میں باضمیر، غیرتمند اور پاکباز سپوتوں کی ایک تعداد ہر عہد میں موجود رہی ہے، جنہوں نے اعلٰی انسانی اصولوں کی سربلندی اور دفاع کے لئے حتٰی المقدور قربانیاں پیش کرنے سے کبھی احتراز نہیں کیا اور نہ ہی انہیں حق و صداقت کے ابدی پیغام کو پہنچانے میں کوئی طاقت پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکی۔
صداقت و شجاعت کے اس کاروان کا امام و رہبر، مجاہد فی سبیل اللہ، سرفروش، راکب دوش خیر الانام ﷺ امام عالی مقام حسین ؑ کی ذاتِ ستودہ صفات ہے۔ اس ذات کے وجود اقدس کے ساتھ نہ صرف ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے قلب کی دھڑکنیں وابستہ ہیں بلکہ ہر غیرت مند انسان کے لیے تا صبحِ قیامت یہ حماسہ ساز، امام الاحرار ہستی عقیدت کا ایک طاقتور مرکز و محور بنی رہے گی۔
نواسہ رسولﷺ امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور حق و باطل کا معرکہ کربلا تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا۔ بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہے ،لہذٰا جو جتنا باشعور ہوگا اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی۔
بقول شاعر :
وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا
مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا
تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا


تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے
ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب
واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب
اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا
دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا


علامہ اقبالؒ بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزّین ہے لہذٰا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبالؒ جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کرے۔ پس مشرق کے بلند پایہ شاعر، مفکر اور عاشق رسولﷺ اور اہلبیتؑ، علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت کے فکر و فن میں واقعہ کربلا کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیئے تھی جو کہ ہے۔ اگرچہ اقبالؒ نے مختلف نظموں اور غزلوں میں فرزند زہرا، حماسہ ساز کربلا، شہدائے کربلا کے امامؑ کی جاں سپاری اور قربانی کا ذکر کیا ہے تاہم ''رموزِ بے خودی'' میں اشعار کا ایک تسلسل ''در معنی حریت اسلامیہ و سرحادثہ کربلا'' کے عنوان کے تحت قلمبند کیا ہے۔ واقعہ کربلا بیان کرنے سے پہلے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جو شخص ذات باری کے ساتھ اپنا عہد و پیمان قائم کرتا ہے اس کی گردن ہر دوسرے معبود کی پرستش سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ توحید خالص کے ماننے اور اس پر ثابت قدمی دکھاتے ہیں وہ نمرودوں، فرعونوں اور یزیدوں کے سامنے کبھی نہیں جھکتے۔
ہر کہ پیماں با ہو الموجود بست
گردنش از بندِ ہر معبود رست

اقبالؒ کے نظامِ فکر میں درجنوں موضوعات کو اہمیت حاصل ہے، ان موضوعات میں عشق و عقل کا موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کے نزدیک عشق ایمان کی پختگی، محبت کی استواری، یقین کی فراوانی اور اپنے مقصد کے ساتھ گہری وابستگی کا نام ہے۔ عشق جنون ہے جو عاشق کو نتائج سے بےنیاز کر دیتا ہے۔

عشق کے مقابلے میں ایک دوسری طاقت ''عقل'' ہے۔ اقبالؒ عقل کی عظمت، افادیت اور ضرورت سے منکر نہیں لیکن عقل کی ایک قسم کو عیار سمجھتے ہیں جو سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اس کا کام خود پسندی، انانیت، انکار، تردد، تشکیک، ہوس رانی اور کثرتِ نعمت کی جستجو ہے۔ یہ عموماً ہوس، لالچ ، مادیت، محبت ِدنیا اور عیش و عشرت پر انسان کو آمادہ کرتی ہے۔ یہ عقل کی شکل آدمی کو ظالم و جابر و غاصب اور سفاک بنا دیتی ہے۔ عقل کی دوسری صورت میں غور و فکر، تدبر، حکمت اور مسائل سے آگہی ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک جب عقل حرص و ہوس کے دائرے میں رہ کر فعال ہوتی ہے تو انسانی وجود کی قبائے شرافت ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے اور انسان نوع انسانی کا صیاد بن جاتا ہے اور جب یہی عقل، عشق کے جذبات سے سرشار ہو جاتی ہے تو انسان نسلِ انسانی کا محافظ اور خیرخواہ ثابت ہوتا ہے۔ اقبالؒ نے عشق کی مدحت یوں کی ہے۔
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل ِ حیات موت ہے اس پر حرام


تند وسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے،سیل کو لیتاہے تھام

عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام


عشق و عقل کا موازنہ عالمانہ اور فلسفیانہ انداز میں کرنے کے بعد واقعہ کربلا کے بارے میں فرماتے ہیں کیا تونے سنا ہے کہ میدانِ کربلا میں عشق نے ہوس پرور عقل کے ساتھ کیسے نبرد آزمائی کی۔ یہاں حسین علیہ السلام عشق کی علامت ہیں اور یزید ہوس پرور عقل کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔
آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد
عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد


سانحہ کربلا کی شاعرانہ اور عاشقانہ تفسیر سے پہلے امام حسینؑ کی مدح میں رطب اللسان ہوتے ہیں۔ ''وہ عاشقوں کا امام، فاطمہؑ کا فرزند ، رسول اکرام ﷺکے باغ کا سروِ آزاد ہے۔
آں امام عاشقاں پسر بتولؑ
سرو آزادی زبستان رسولؐ

امام حسینؑ وہ ہستی ہیں جن کے لئے جناب خاتم المرسلین ﷺکے دوش مبارک بطورِ سواری پیش ہواکرتے تھے۔
بہر آں شہزادہ خیر العمل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل


عشق غیور ان کے خون سے باغیرت ہے۔ کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اور رعنائی پیدا ہو گئی ہے۔
سرخ رو عشق غیور از خون او
شوخی ایں مصرع از مضمون او


چنانچہ اس امت میں اْس امام عالی مقامؑ کی وہی حیثیت ہے جو قرآن میں سورہ اخلاص کی ہے۔ جیسےیہ سورہ قرآن کی تعلیمات کا نچوڑ اور سلالہ ہے، ایسے ہی امام حسینؑ کی ذات بھی تعلیمات اسلام کا سلالہ ہے۔ سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی ہے جو کہ قرآنی تعلیمات کا مرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کو بھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
درمیانِ امت آں کیواں جناب
ہمچو حرفِ قْل ھْوَ اللہ در کتاب

واقعہ کربلا کی تاریخی حقیقت اور اس کے تاریخِ امت پر اثرات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حقیقت ابدی ہے مقام شبیریؑ
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی


حق و باطل کے درمیان معرکہ آرائی روز ازل سے جاری ہے۔ اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کا غلبہ ہوتا ہے اور باطل شکست و نامرادی سے دوچار۔ اس کی ایک مثال حضرت موسیٰ ؑ دعوتِ حق کے راستے پر گامزن ہیں اور یہ عمل فرعون کو کافی گراں گذر رہا ہے، وہ موسیٰ ؑ اور اس کے پیروکاروں کو راہِ حق سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، یہاں پر اسی موسیٰؑ کا وارث حسین ؑیزید کے اقتدار سے متصادم ہو کر اپنی، اپنے اصحاب اور اہل خانہ کی جان کی بازی لگا رہا ہے۔ بظاہر امام حسین ؑخاک و خون میں لت پت ہو گئے، ان کے جسم اقدس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے، ان کا سرِ مقدس کربلا سے دمشق لے جایا گیا، ان پر فرات کا پانی بند کردیا گیا۔ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہو گیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پر برسا اور اسے لالہ زار بنا دیا۔
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت راز ہر اندر کام ریخت

خاست آں سر جلوہ خیر الامم
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم

بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ کارید و رفت


اگر ان کے سامنے اقتدار، اختیار اور سلطنت غرض و غایت ہوتی تو وہ فقط بہتّر (72) افراد کی جماعت کے ساتھ یزیدی سلطنت کی طرف رْخ نہ کرتے۔ ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے ہی دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ مخالفین کا لشکر لاتعداد تھا لیکن آپؑ کے ساتھ صرف بہتر (72) نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد ’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔
مدعایش سلطنت بودے اگر
خود نکردے با چنیں سامان سفر

دشمناں چو ریگ صحرا لا تعد
دوستان او بہ یزداں ہم عدد


مومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ و اقتدار کے لئے اٹھتی ہے ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کا مقصد آئین اور قانون کی حفاظت ہوتا ہے۔
تیغ بہر عزت دین است و بس
مقصد او حفظ آئین است و بس


مسلمان اللہ کے سوا کسی کا محکوم نہیں ہوتا اس کا سرکسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔
ما سوا اللہ را مسلمان بندہ نسبت
پیش فرعونی سرش افگندہ نسبت


اقبالؒ کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنا رہے گا آپ ؑنے فرمایا تھا: مِثْلِي‏ لَا يُبَايِعُ بِمِثْلِه "مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا"۔ علامہ اقبالؒ نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں ادا کیا ہے۔
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آمد پدید


علامہ اقبالؒ واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں۔
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

علامہ اقبالؒ امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بنا کر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ ؑ نے قیامت تک ظلم و استبداد کے راستے بند کر دیئے اور اپنے خون کی سیرابی سے رہگزاروں کو چمنستان بنا دیا۔
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چنین ایجاد کرد


اقبالؒ کے نزدیک حسینؑ کا عزم و استقلال پہاڑوں کی مانند مضبوط اور استوار تھا اور وہ اپنی تلوار کو دینِ حق کی عزت و بقاء کے لئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
عزم او چون کوہساران استوار
پایدار و تند سیر و کامکار


انہوں نے باطل قوتوں کے خلاف انکار کی شمشیر نیام سے باہر نکالی اور طاغوتی طاقتوں کی رگوں سے خون بہا دیا۔
تیغ لا چو از میاں بیروں کشید
از رگ ارباب باطل خوں کشید


ان کے مقدس خون نے ایک خوابیدہ ملت کو نئی گرمی اور بیداری عطا کی اور صحرائے کربلا پر اِلا اللہ کا نقش ثبت کرکے ہماری نجات کا سرنامہ تحریر کیا۔
خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیده را بیدار کرد


نقش الا الله بر صحرا نوشت
عنوان نجات ما نوشت


قرآن کے جذبہ جہاد کا راز ہم نے حسین ؑسے سیکھا۔ ان کی ذات سے ہم نے کئی ہدایت کے میںار روشن کئے۔
رمز قران از حسینؑ آموختم
ز آتش او شعله ها اندوختم


علامہ اقبالؒ کی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ،ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کا ایک استعارہ ہے ۔ وہ کربلا اور امام عالی مقامؑ کو حق و وحدت کا معیار اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا ئے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔
بهر حق در خاک و خون گردیده است
بس بناء لا اله گردیده است


علامہ اقبالؒ واقعہ کربلا کو حق و باطل اور خیر و شر کے فقید المثال معرکے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس واقعے کے بنیادی کردار حسین ؑکے صبر کو عشق کا نشانِ راہ مانتے ہیں۔ صدقِ خلیلؑ ، صبر حسین ؑاور معرکہ بدر و حنین یہ سب کچھ اقبالؒ کے نزدیک ایمان و عشق کی کیفیات کا عملی مظہر ہے۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ و جود میں بدروحنین بھی ہے عشق


اقبالؒ کہتے ہیں کہ ہمارے وجود کی جنبش ان کی ذات سے قائم ہے۔ مسلمانوں کی کئی سلطنتیں قائم ہوئیں اور مٹ گئیں بنی امیہ کی سلطنت دمشق میں ہو یا اندلس میں، بنی عباس کی کئی صدیوں پر محیط حکومت اپنے بھرپور عروج کے بعد ختم ہو گئی لیکن داستان کربلا ابھی تک زندہ ہے۔ ہمارے تارحیات میں پوشیدہ نغمے اسی مضراب سے بیدار ہوتے ہیں امام حسینؑ نے تکبیر کی جو آواز بلندکی تھی اس سے ہمارے ایمانوں میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔
شوکت شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت

تارِ، از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیرِ او ایماں ہنوز


حکیم الامت علامہ اقبالؒ جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں
کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے


اے باد صبا،اے دورہنے والوں کا پیغام لے جانے والی ہوا، ہمارے آنسو اس مقدس زمین تک لے جا جہاں وہ آرام فرما ہیں۔
اے صبا اے پیک ِ دور افتاد گاں
اشک، برخاکِ پاکِ او رساں

آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل


علامہ اقبالؒ نے" وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ، إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ سُوۡرَةُ النّجْم (3) (4) (وہ خواہش سے نہیں بولتا یہ تو صرف وحی ہوتی ہے جو (اس پر) نازل کی جاتی ہے)" کی مصداق ہستی پیغمبر گرامی حضرت محمدﷺکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے۔ "قا لَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ‏ حُسَيْنٌ‏ مِنِّي‏ وَ أَنَا مِنْ حُسَيْن‏ (اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں)"اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خداﷺ کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ ﷺکے نواسے ہیں لیکن رسول خداﷺ کا امام حسین ؑسے ہونا کیا معنی ٰ رکھتا ہے؟
چونکہ رسول آخر الزمان ﷺحضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہو جاتے تو رسول اکرمﷺ کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔ جب اللہ تعالی نے حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کو ذبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کردیا تو جس ذبح عظیم کا ذکر قرآن میں آیا ہے (وَ فَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا) وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذٰا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیلؑ قربان ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خداﷺ تک پہنچی۔
علامہ اقبالؒ ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی فی ذبح عظیم آمد پسر

اقبالؒ ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں:
سر ابراہیم و اسماعیل بود
یعنی آن اجمال را تفضیل بود


علامہ محمد اقبالؒ امت مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے کردار حسینی انجام دینے کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ امت کی تمام تر مشکلات کا حل کردار شبیری ادا کرنے میں مضمر ہے۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

اسی طرح ایک اور جگہ امت محمدی میں کردار حسینی کے فقدان کا احساس کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات


جس دور میں علامہ نے یہ بات کی تھی اس وقت پوری امت محمدیﷺ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی قعر مذلت میں گری ہوئی تھی ناامیدی کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں مگر علامہ انھیں رسم شبیریؑ ادا کرنے کا کہہ رہے تھے۔ اقبالؒ کی یہ فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایک مرد جلیل فرزند شبیرؑ نے رسم شبیریؑ ادا کرکے اس فکر کو دنیا میں مجسم کردیا ہے۔ امام خمینی ؒنے کربلا و امام حسینؑ کو آئیڈیل بناکر انقلاب اسلامی برپا کردیا۔ علامہ اقبالؒؒ نے بھی اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انقلاب اسلامی ایران کی پیشنگوئی کی تھی۔
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کہ کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے


حزب اللہ و حماس جیسی حریت پسند تحریکوں کا امریکہ و اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دینا واقعہ کربلا ہی کے مرہون منت ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے نہ صرف کربلا و حقیقی الٰہی نمائندگان کے کردار کو عیاں کیا بلکہ اسلام کے لبادے میں خوارج و یزیدی عناصر چاہے چودہ سال پہلے کے ہوں یاحال میں امریکہ کے ایجنٹ القاعدہ، طالبان داعش اور سپاہ یزید کی صورت میں ہوں ان سب کے کردار کو برملا کردیا۔ علامہ اقبالؒ نے اکسٹھ ہجری اور پندرہویں صدی کی یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے فرمایا:
عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ
کٹا حسین ؑ کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ

اسی طرح زمانہ حال کے یزید، امریکہ کے ایجنٹ، جہاد کے نام پر ان خوارج و یزیدان عصر کی اسلام دشمنی اور فتنہ پروری کے بارے میں بھی اقبالؒ نے پیشنر گوئی کی اور یوں برملا اظہار کیا ۔
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ

یعنی چودہ سال پہلے بھی اسلام کے لبادے میں موجود خوارج و یزیدیوں نے نواسہ رسولﷺ سید الشہدا امام حسینؑ کو نعرہ تکبیر کے شعار بلند کرکے شہید کیا تھا۔ اور آج کا یزید بھی نعرہ تکبیر کی گونج میں قتل عام و خودکش حملے کرکے اسلام کو بدنام کررہا ہے۔


خبر کا کوڈ: 417413

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/417413/علامہ-اقبال-اور-امام-حسین

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org