0
Monday 10 Nov 2014 20:34

غزہ پر صیہونی جارحیت کی داستان! فتح عظیم (حصہ اول)

غزہ پر صیہونی جارحیت کی داستان! فتح عظیم (حصہ اول)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


غزہ آگ کے نرغے میں:
 
غزہ پر ایک مرتبہ پھر 2008ء اور  2012ء کی طرح آگ اور میزائیلوں کے زد سے گزر کر کامیابی کی منزلوں کو عبور کر گیا ہے، اسرائیل کے جنگی جہاز ایک بار پھر غزہ کی پٹی میں شہری اور فوجی مقاصد کو نشانہ بناتے رہے اور معصوم بچوں، بوڑھوں اور خواتین کے قتل عام کی نہ ختم ہونے والی داستان رقم کرتے رہے، ان پرامن شہریوں کو اپنا ہدف بنایا جو کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے، یہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ایک دوسری تلاش اور کوشش تھی جس میں فلسطینی عوام کے صبرواستقامت کا امتحان لینا تھا، صیہونی اس گمان میں تھے کہ شاید عوام کے محکم ارادوں کو متزلزل کرسکیں گے اور ان کے غرور کو خاک میں ملا دیں گے جس کے نتیجے میں وہ انہیں جھکنے اور بکنے پر سرتسلیم خم کرنے اور اسرائیلیوں کی ہر بات ماننے پر مجبور کرسکیں گے مگر اس بار طاقت کا توازن یکطرفہ نہیں تھا اور اسلامی جہاد کی طرف سے قائم کردہ رعب اور دبدبے کے فارمولے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا جس کی وجہ سے اسرائیل کی ساری تدبیریں جو کہ شیطانی تھیں خاک میں ملتی رہیں، شمال اور جنوب میں کوئی فرق نہیں رہا جبکہ اسرائیل کا ہرعلاقہ جہاد اسلامی کے میزائیلوں کی زد میں آگیا لہذٰا جہاد کے میزائیل اب اسرائیل کے کسی بھی علاقے کو اپنا نشانہ بنا سکتے تھے، اب قدس مزید دور نہیں اور نہ تل ابیب اور اس کے شمال اور جنوب کے علاقے دور ہیں۔

غزہ کی پٹی پر اسرائیلی آگ کے گولوں کا حملہ کوئی نئی بات نہیں اس نے اسرائیل کے سامنے چہرہ خم کرنے سے انکار کیا، اسی طرح غاصب اسرائیل کو دوبارہ فلسطین کے زمین و آسمان کو ہڑپنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اب کی مرتبہ فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ صیہونی حملوں کی قیمت نہیں چکائیں گے بلکہ فلسطینی مزاحمتی تحریک نے دشمن کو برابری کا جواب دیا، آگ کا جواب آگ میں دیا گیا، میزائیل کا جواب میزائیل اور حملوں کا جواب حملہ اب اسی اسلحے سے دیا گیا اور اسی طاقت سے اس کا مقابلہ کیا گیا، اب اس کی ہرتلاش اور حملے کے سامنے بند باندھا گیا ہے، اب اس کی سرزمین دشمن کے لئے مزید ترنوالہ نہیں بننے والی ہے، نہ اس کی مٹی اتنی نرم ہے، نہ اس پر ظلم و بربریت کرنا تفریح ہوگی بلکہ اس کی سرزمین بہت بھاری ہے، اب دشمن دفاع اور مدافعت کی گرفت سے بچ نہ سکیں گے۔

غزہ پر گذشتہ دس سالہ دور میں مسلط کی جانے والی یہ تیسری جنگ ہے اور ہر بار اس کے جنگی جہاز غزہ پٹی کی سرزمین پر میزائیلوں کی بوچھاڑ کرتے رہے ہیں، یہاں کی عمارتوں اور رہائش گاہوں کو خاک میں ملاتے رہے، اسی طرح اس کے تمام راستے اور سڑکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور اسی طرح اس علاقے میں بربادی اور تباہی پھیلا دی مگر جب کچھ دنوں کے بعد جب دفاعی تدابیر کے تحت دشمن پر آگ کی بارش ہوئی تب مصر، امریکا اوردنیا چیخ اٹھتی ہے، اب امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ وہ فلسطینی دفاع کو ثالثی پیش کرنے کے لئے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں تاکہ میزائیلوں کے حملوں کو روک سکیں اور ایک اور جنگ بندی پر آمادہ کرسکیں اور نئے شرائط منوائیں تاکہ اپنے ہموطنوں اور عوام کو جنگ بندی کے سوغات سے نواز دیں اور وہ (صہیونی) اپنی اپنی پناہگاہوں سے نکل کر ایک بار پھر اپنی زندگی کا آغاز کریں اور روزمرہ کاموں میں لگ جائیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی جنگ بندی کے بعد غاصب اسرائیل ایک مرتبہ پھر جنگ بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی کرے گا اور غزہ پر ایک نئی جنگ نہ جانے کب مسلط کرے گا؟ شاید ہاں اور شاید نہیں!! کیونکہ غاصب اسرائیل کی ہمیشہ سے تاریخ رہی ہے کہ معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی، غزہ پر یکطرفہ جنگ مسلط کی گئی ہے، اب جب یہ جنگ 51روز جاری رہی اور بالآخر مصر جو کہ امریکی تھپکیوں کے باعث امن معاہدے کا راگ الاپ رہا تھا اس امن معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ کیا مصر نے اس امن معاہدے میں فلسطینیوں کی حمایت اور داد رسی کی ہے کہ جن فلسطینیوں کے 2150بے گناہ لوگوں کو اسرائیلی گولہ بارود کا نشانہ بنایا گیا۔ بہرحال اب کی مرتبہ ہونے والے امن معاہدے کی بات کچھ اور تھی کیونکہ اسلامی مزاحمت نے اپنی پانچ شرائط رکھ دیں تھیں جن میں غزہ کا اسرائیلی محاصرہ مکمل طور پر ختم کرنا، غزہ کے لئے آزاد آمد و رفت، راستوں کا کھولا جانا، رفح کراسنگ کو مستقل بنیادوں پر کھولنے جیسے مطالبات شامل تھے اور بالآخر غاصب اسرائیل کو ان پانچ شرائط کو قبول کرنا ہی پڑا جو کہ نہ صرف غزہ کے اٹھارہ لاکھ لوگوں کی فتح ہے بلکہ پوری دنیا میں بسنے والے ہر فلسطینی اور فلسطین کاز کی حمایت کرنے والوں کی عالمی استعماری قوتوں کے مقابلے میں فتح عظیم ہے۔

جنگ رمضان:
یہ فلسطین کی تقدیر ہے کہ صہیونی دشمن کے خلاف اس کی جنگیں زیادہ تر رمضان مبارک میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اسرائیل کی معاندانہ کاروائیاں اب ایک بار پھر دسویں رمضان کی عرب اسرائیل جنگ کی اکتالیسویں سالگرہ کے موقع پر وقوع پذیر ہوئی تھیں، جس میں اسرائیل کے خلاف عربوں کو اجتماعی فتح ونصرت حاصل ہوئی تھی اور اسرائیل کو شرمناک اور دردناک شکست سے دوچار کیا گیا تھا تاکہ یہ فلسطینیوں کیلئے ایک خوشخبری ہو جوکہ فتح و نصرت تمہاری قدم چومنے کیلئے انتظار کررہی ہے اور جب بھی عرب ہو عجم رمضان کے مہینے میں جنگ کیں موجودہ یاقدیم زمانے میں کیوں نہ ہوں مگر خدانے انہیںفتح سے ہمکنار کیا ہے، اور انہیں دشمنوں پر غلبہ عطا کیا ہے اور اپنی نصرت سے ان کے سینے میں ٹھنڈک پہنچا دی ہے اور ان پر عزت و کرامت کی بارشیں برسائیں۔

غزہ کے خلاف اسرائیل کی طرف سے لاگو شدیدترین اور بدترین پابندیاں جس کی وجہ سے انہیں زندگی کی تمام نعمتوں سے محروم اور سادہ زندگی کے تمام لوازمات سے بے بہرہ کردیا گیاان شرائط کی وجہ سے تین دہائیوں سے فلسطینی عوام رمضان کے مہینوں میں سخت حالات سے دوچار رہے ہیں جن میں کم سے کم بجلی کی عدم دستیابی اور تنخواہوں کی بندش، دوائیں، اشیائے خوردنوش اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے بابرکت ماہ رمضان میں غزہ کے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ صہیونی دشمن نے ٹھان لیا ہے کہ اس بابرکت مہینے کو فلسطینیوں کے لئے ناگوار بنا کر چھوڑیں اور انہیں اپنے آداب معاشرت و زندگی سے لطف اندوزی ہونے سے روکا جائے، اسی لئے جنگ و میزائیل اور حملوں کے ذریعے غاصبانہ دشمنیوں پر اتر آئے اور غزہ کی پٹی پر وحشیانہ نظام ڈھائے 1948ء میں القدس، مقبوضہ علاقوں میں اور مغربی کنارے میں بسنے والے تمام فلسطینیوں کے خلاف پیچھا کرنے، تنگ کرنے، گرفتار اور قتل کرنے جیسے مظالم روا رکھے گئے مگر درحقیقت وہ اس مہینے سے خوف زدہ ہیں، وہ مسلمانوں کے عزم وارادے، صبروشکیبائی اور بلائوں میں استقامت اور جہادوشہادت کے لئے سبقت لینے کے جذبے سے پریشان ہیں۔

خوف و دہشت: جس روز سے غاصب اسرائیل نے غزہ پر یکطرفہ جنگ مسلط کی اور اسلامی جہاد کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تو اسرائیلی سڑکوں پر سکون و اطمینان اور سلامتی نامی کوئی چیز نہ رہی اور نہ ہی اعتماد و استحکام باقی رہا، اور نہ ہی امن و سکون کا کوئی احساس، تمام اسرائیلیوں کے دلوں میں بغیر کسی تفریق کے خوف اور دہشت سوار رہی، اس مرتبہ کی جنگ میں صرف غزہ کے بے گناہ معصوم لوگ ہی اسرائیلی سفاکیت کا نشانہ نہیں بنیں گے بلکہ اسلامی مزاحمت اور اسلامی جہاد کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ صیہونیوں کو بھی سکون سے نہیں رہنے دیں گے، البتہ اسلامی جہاد نے صیہونیوں کی عوامی بستیوں پر کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کیا لیکن پھر بھی صیہونی دن رات پناہگاہوں کی طرف پناہ لینے کے لئے تیاریوں میں لگے رہتے تھے تاکہ امن اور پناہ نصیب ہو اور راکٹوں کے حملوں سے چھٹکارا مل سکے، یا اس کے امکانات سے بچنے کے لئے کہ کہیں فلسطینی مجاہد کہیں چھپ کر فائرنگ لائین پار کرکے نہ گھس جائیں، اسرائیلیوں کی طرف سے چھائونیوں اور شہروں میں اچانک چیکنگ کرنا، اور ایسے اقدامات مشاہدے میں آئے ہیں کہ گویا خوف اور دہشت ان کے دلوں میں بس گئی تھی، یہاں تک کہ ہر چیز سے وحشت زدہ نظر آتے تھے۔ صیہونی سائرن کی آواز سنتے ہی محفوظ پناہ گاہوں میں جو انہوں نے زیر زمین بنکرز کی صورت میں بنا رکھی ہیں کی طرف بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور تہہ خانوں میں پناہ لیتے تھے، جبکہ دوسری جانب غزہ کے بہادر اور شجاع دلیر عوام غاصب اسرائیل کی سفاکیت کا سینہ تان کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مقابلہ کر رہے تھے۔ اس مرتبہ غاصب اسرائیل میں کام کرنے والے سرکاری اور نجی ملازمین چھٹیاں لے کر ملک سے فرار کا راستہ اختیار کرتے رہے جبکہ اسلامی مزاحمت نے اسرائیلی ائیر پورٹ کو بھی اپنا نشانہ بنایا اور پھر پروازوں کا شیڈول منسوخ کرنا پڑا جس کے باعث اب اسرائیلیوں میں خوف انتہائی درجہ تک پہنچ چکا تھا۔

یہ پھیلنے والی دھاک اور دہشت ہے، دلوں میں گھر کرجانے والے خوف ہیں اور نامعلوم قسمت اور تقدیریں ہیں جس کا انتظار صھیونی نظام کررہا ہے، اسی نے جنگ کی ابتداء کی اور جرائم کے ارتکاب میں پہل کی، جبکہ اسے معلوم ہے کہ اس کا اندرونی محاذ منتشر ہے اور اس کے ارادے کمزور ہیں اور عوام اور فوج کامورال بہت پست ہے جبکہ مقاومت اور دفاع فلسطین والوں کے پاس اچانک سرپرائز دینے، سر دھڑبازی لگانے اور مدمقابل سے مڈبھیڑ ہونے اور دورہ کرنے کے لئے بہت کچھ ہے جو آنے والا وقت اور زمانہ اس پر سے پردہ ہٹائیں گے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 418684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش