0
Sunday 30 Nov 2014 21:34

امریکی داعش پاکستان میں؟ (2)

امریکی داعش پاکستان میں؟ (2)
تحریر: عمران خان 

ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا داعش کی کاروائیوں کی مذمت، انہیں امن کے لیے خطرہ اور دنیا کو اس خطرے سے محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے تو ایسے وقت میں بھی اسرائیلی ہسپتالوں میں داعش کے دہشتگردوں کا علاج بھی جاری ہے۔ ضرورت کی ہر چیز انہیں میسر ہے۔ یو ایس ایڈ کے ٹرکوں کے قافلے غذائی و دیگر ضروریات کی فراہمی کو ممکن بنائے ہوئے ہیں۔ پابندیوں کے باوجود عراق اور شام کا تیل بھی داعشی بیچ رہے ہیں، تیل کی تلاش کے لیے کمپنیاں بھی آزادی سے کام کر رہی ہیں۔ آخر یہ سب ایک ایسے گروہ کے لیے کیسے ممکن ہے جو کچھ عرصہ قبل ہی منظر عام پر آئے اور پہلے ایک ملک میں حکومت کی تبدیلی کے مقصد کے ساتھ دہشتگردانہ کاروائیاں شروع کرے اور تھوڑے ہی عرصے میں اپنے لیے ایک ایسی ممکنہ ریاست کا اعلان کردے جو کئی ممالک کی سرحدی حدبندیوں کو کچل رہی ہو۔ یقینی طور پر کسی بھی مسلح گروہ کے لیے فقط اپنے بل بوتے پر عالمی اور خطے کی تمام طاقتوں سے بیک وقت ٹکرانا انتہائی مشکل ہوگا۔ مگر مقام حیرت ہے کہ داعش کو ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں آئی۔ حال ہی میں داعش کی جانب سے جاری کی گئی وڈیو ہالی وڈ کی بلڈ شیڈ مووی کا کوئی سین معلوم ہوتی ہے۔ جس میں داعش کے اٹھارہ دہشتگرد ایک ایک قیدی کو بالوں سے پکڑے آتے ہیں، ساتھ ساتھ وڈیو میں بیک گراؤنڈ میوزک بھی چلتا ہے، راستے میں پڑے مرتبان سے ایک ایک خنجر اٹھاتے ہیں اور پھر یہ دہشتگرد قیدیوں کو اپنے قدموں میں بٹھا لیتے ہیں۔ ان کا نقاب پوش سربراہ اوبامہ کو پیغام دیتا ہے کہ تمارے فوجیوں کا بھی وہی حال ہوگا جو ابھی ان کا ہونے لگا ہے۔ اس کے بعد کیمرہ زوم کرکے ان تمام قیدیوں کے گلے کٹتے ہوئے دکھاتا ہے۔ شائد کہ داعش کی عملداری والے علاقوں میں امریکی ڈرونز کو آنے کی اجازت نہیں اس لیے تاحال جاری ہونیوالی ان وڈیوز میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ البتہ اس دوران داعش کے دہشتگرد جہاز اور ہیلی کاپٹرز کے ساتھ ساتھ ان کو اڑانے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ اس سے قبل جاری ہونیوالی وڈیوز میں پہلے والدین کے سامنے ان کے بچوں کے سرکاٹ کر دیواروں پر لٹکائے گئے اور اس کے بعد والدین کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ داعش کی سوشل میڈیا کی مہم بھی امریکہ و یورپ کی سرزمین سے جاری ہے۔ بینک اکاونٹس، رقومات کی منتقلی، لٹریچر کی اشاعت، میں عراق سے زیادہ مغربی ممالک کی زمین اور لوگ استعمال ہو رہے ہیں، مگر اس کے باوجود بھی امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ڈھونڈنے سے بھی کچھ نہیں ملتا۔ 

دنیا میں داعش کا تعارف سفاک، ظالم، وحشی دہشتگرد گروہ کے طور پر ہونے کے ساتھ ساتھ امیر ترین گروہ کے طور پر بھی ہے۔ کردستان ریجنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ مسرور برزانی کے مطابق داعش کی روزانہ آمدن اسی لاکھ ڈالر ہے اور اس پیسے کا بڑا حصہ نقد ڈالروں کی شکل میں سوٹ کیسوں میں باہر سے آتا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ کے سیکرٹری اور تجزیہ نگار ڈیوڈ کوہن کے مطابق آج تک امریکہ کو اتنا زیادہ فنڈ حاصل کرنے والی دہشتگرد تنظیم سے پالا نہیں پڑا۔ عراقی رہنما احمد شلبی کے بیان کے مطابق داعش نے عراقی قومی بینک سے چار سو پچاس ملین ڈالر حاصل کیئے اور شام کے کنووں سے پچاس سے زائد ملین ڈالرکا تیل فروخت کیا۔ یہاں یہ امر بھی حیران کن ہے کہ امریکی قوانین کے تحت ایک مخصوص مقدار سے متجاوز ڈالر کی بیرون ملک منتقلی کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اب داعش ملین ڈالرز امریکہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کیسے حاصل کرتی ہے، یہ کوئی کرشمہ ہی ہو سکتا ہے۔ داعش کی آمدن کے اہم ذرائع میں مقبوضہ علاقوں میں تیل کے ذخائر، مختلف ممالک سے رقم بھیجنے والے ہم خیال دولت مند، بھتہ، بینک ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، تاریخی نوادرات کی فروخت، قیدی خواتین کی فروخت کے ساتھ ساتھ قیدیوں کی اعضاء فروشی بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری وڈیو میں داعش کے زیر انتظام ایک خواتین بازار دکھایا گیا ہے، جس میں خواتین پر تشدد کیا جا رہا ہے اور ان کی نیلامی اور بولی لگائی جا رہی ہے۔ یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ داعش جیسا دہشتگرد گروہ تیل سے کیسے آمدن حاصل کرسکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ تیل کے کنوؤں سے خام تیل نکلتا ہے جسے صاف کرنے کیلئے آئل ریفائنریاں عراق کے زیر تسلط علاقوں میں موجود نہیں ہیں۔ تو ایسی صورت میں جب داعش کے مالیتی اسباب پر امریکہ جیسی قوت کی پابندی بھی عائد ہو اور وہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل فروخت کرے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیل اور وسائل کی لوٹ مار میں ملوث قوتیں، بالواسطہ طور پر امریکہ بھی جن کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے، امریکی کندھوں پر ہی سوار ہوکر داعش کو مطلوبہ سہولیات باہم پہنچانے کے انتظامات کر رہی ہیں۔ 

دولت سے مالا مال اس دہشتگرد گروہ کی طاقت کا دوسرا بڑا راز افرادی قوت ہے۔ پہلے سعودی مفتیوں نے بشار الاسد حکومت کے خلاف لوگوں کو نام نہاد جہاد پر ابھار ابھار کے داعش کو حاصل ہونے والی بیرونی افرادی کمک کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد جہاد النکاح، جہاد المجاہدین جیسے فتوؤں نے دہشتگردوں کو عیاشی کا وہ سامان فراہم کیا کہ کیا خواتین اور کیا مرد ، ان مفتیوں کی یہ اسلامی خدمت کا ہی ثمر ہے کہ حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق سولہ ہزار سے زائد نوجوان صرف یورپ اور امریکہ سے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے عراق و شام کا رخ کرچکے ہیں۔ اسلامی ممالک سے جانیوالے دہشتگردوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ یعنی اس گروہ میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو فتوؤں کا شکار ہوکر اسلامی خلافت کے قیام کے جذبے سے آئے تو زیادہ تر جرائم پیشہ ذہنیت کے مالک جبلی فطرت کی تسکین کی خاطر اس میں شامل ہیں۔ دولت، افرادی قوت کے بعد داعش کی طاقت کا تیسرا بڑا راز کسی بڑی طاقت کا اس کے خلاف مدمقابل نہ ہونا ہے۔ شام میں بشارد حکومت کے ساتھ لڑائی کے دوران ترکی اور اسرائیلی فضائیہ نے داعش کی مدد کی اور شام کی سرکاری فورسز کو فضائی طاقت کا استعمال کرنے ہی نہیں دیا۔ عراق میں صدام کی باقیات، اور امریکی فوج کی تیارکردہ عراقی فوج نے اس کے بڑھتے قدم روکنے کے لیے کوئی سٹینڈ لیا ہی نہیں، اس کے علاوہ سی آئی اے، موساد کی تکنیکی مدد کے سہارے موجودہ علاقوں تک اپنا وجود پھیلانے میں کامیاب ہوئی۔ خطے میں بڑے اسلامی ممالک کی جغرافیائی تبدیلی اور ان کے وجود کو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم کرنے کیلئے پوری اسلامی دنیا میں سامراج نے تقسیم کی پالیسی اختیار کی ہے۔ جس میں سب سے بڑی تقسیم شیعہ سنی کے نام پر کی گئی۔ پھرا ن کے اندر بھی مختلف گروپس کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ شام میں اب بھی متعدد گروپس بشار الاسد حکومت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی کو جہاد کا درجہ بھی دے رہے ہیں۔ لہذٰا داعش یا اس کے مترادف کوئی بھی مسلح گروہ حقیقت میں سنی یا شیعہ کا دشمن ہونے کے بجائے ان طاقتوں کا مہرہ ہے جو تقسیم کرو اور حکومت کرو، پہلے لڑاؤ پھر کھاؤ، یا پھر جو اسرائیل کی حدیں فرات سے نیل تک قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی طاقتیں ہیں جو طالبان کی خالق بھی ہیں اور بعد میں ان کی نام نہاد دشمن بھی، بوکو حرام کی مددگار بھی ہیں اور ان کے خلاف غم و غصہ سے لبریز بھی، داعش کی پشت پناہ بھی اور بظاہر اس سے نالاں بھی، ان طاقتوں کے پاس مفادات کی لڑائی کو جہاد قرار دینے کیلئے فتوے دینے والے مفتیوں کی کمی نہیں۔ مکروہ عزائم کے قبروں نما سینوں پر دین پرستی کے بیجز لگانے میں انہیں مہارت حاصل ہے۔ ایک مسلمان کی جان و مال و ناموس کو دوسرے پر حلال بنانے کا بیج ان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ لہذٰا ان کے عزائم و مقاصد کی راہ میں اس وقت تک رکاوٹ ڈالنا ممکن نہیں جب تک مسلم مسلمان کو مسلم نہیں سمجھ لیتا۔ افغانستان، عراق، یمن، پاکستان، فلسطین، شام و دیگر اسلامی دنیا میں وہی کچھ ہو رہا ہے جو ان طاقتوں کی مرضی و منشاء ہے۔ 

وطن عزیز پاکستان میں دہشتگردی نے ایک خونی تاریخ رقم کی ہے اور اب بھی اس پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگرد جب قافلوں کی صورت میں شہری آبادیوں میں گشت کرتے رہے تو انہیں اثاثے قرار جاتا رہا۔ صدر، وزیراعظم سے لیکر عام شہری تک اور جی ایچ کیو سے لیکر مساجد تک ہر فرد اور عمارت دہشتگردی کا نشانہ بنے تو بالآخر دہشتگردوں کی آماجگاہوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوئے۔ جس میں عسکری ذرائع کامیابیوں کی نوید سناتے ہیں۔ ایک جانب کالعدم تحریک طالبان و دیگر دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کی صورت میں فوجی کاروائی جاری ہے تو دوسری جانب داعش کے نام کی وال چاکنگ، بینرز، پمفلٹ، اور جھنڈے مختلف شہروں میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ پاکستان میں داعش کا وجود ہے یا نہیں، اگر ہے تو کس صورت میں اور نہیں ہے تو دعویٰ کی بنیاد کیا ہے۔ حال ہی میں عسکری قیادت کی جانب سے بیان جاری ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے۔ گرچہ یہ بیان حوصلہ افزا ہے مگر اس وقت تک اس بیان کی صحت پوری طرح ثابت نہیں ہوتی جب تک تحریک طالبان کے وہ چھ کمانڈر ز اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار نہیں ہوجاتے، جنہوں نے ابوبکر البغدادی کی بیعت کرتے ہوئے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس سے قبل عرب میڈیا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ داعش نے برصغیر میں اپنا سیٹ اپ قائم کرلیا ہے۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے ایک تقریب کے دوران دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں داعش کے پانچ سو افراد داخل ہو چکے ہیں۔ ایک اور خبر میں داعش اور جنداللہ کے درمیان روابط اور جنداللہ کی قیادت سے داعش رہنماؤں کی ملاقات کو افشاء کیا گیا ہے۔ ہنگو اور شمالی علاقہ جات سے داعش کی بھرتی کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق شام سے داعش کے پانچ اہم اراکین پاکستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ جس دن حاضر وزیر داخلہ نے پاکستان میں داعش کے وجود کی نفی کی اس سے اگلے روز ان کی وزارت کے ماتحت افسر نے داعش کی وال چاکنگ اور پوسٹرز کا نوٹس لیکر علاقہ ایس ایچ اوز کو متحرک کیا کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔ تازہ اطلاع کے مطابق لاہور میں داعش کی چاکنگ کرنے والے جو افراد پکڑے گئے وہ کالعدم جماعت کے کارکن نکلے۔ 

یہ تمام اطلاعات اس خیال کو تقویت فراہم کرتی ہیں کہ پاکستان میں بھی داعش کا ہوا کھڑا کرکے بکھرے ہوئے دہشتگردوں کو پھر سے ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ گرچہ پاکستان کا ماحول داعش جیسے گروہ کے پنپنے کیلئے ساز گار نہیں کیونکہ نہ ہی یہاں فرقہ واریت کے حوالے سے شیعہ سنی کی تقسیم گہری ہے اور نہ یہاں کا سکیورٹی اور دفاعی انفراسٹرکچر عراق یا افغانستان سے میل کھاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی بڑے دہشتگرد گروہ آشیر باد میں آنے کے بعد یہ منقسم دہشتگرد ماضی کی تحریک طالبان کی طرح بڑا درد سر بھی بن سکتے ہیں، کیونکہ ایک بڑی فوج، بڑی آبادی رکھنے والا ایٹمی کسی طور بڑی طاقتوں کو قبول نہیں۔ دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مسلسل دہشتگردی سے نبرد آزما رہنے والی قوم نہ ہی کسی عسکری گروہ کا خیر مقدم کر سکتی ہے اور نہ ہی داعش جیسی کسی تنظیم کے سامنے ہتھیار ڈال سکتی ہے، لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے پاکستان میں موجود دہشتگردی کے خلاف جاری آپریشن کا دائرہ کار بڑھا کر ان تمام مسلح گروپوں کے خلاف کاروائی کی جائے جو دہشتگردی کی کاروائی کرنے، یا دہشتگرد تنظیم کو منظم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ جس طرح پاکستان میں تسلسل کے ساتھ دہشتگردی ہوتی رہی اور پھر اس کی ذمہ داری مختلف ناموں سے ایک ہی گروہ کے افراد قبول کرتے رہے تو مستقبل میں بھی یہ خدشہ برقرار رہے گا۔ اگر کوئی گروہ دہشتگردی کی کاروائی کے بعد اس کی ذمہ داری داعش کے نام سے قبول کرتا ہے تو داعش کی پاکستان میں موجودگی کی دلیل ہوگی۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ شام یا عراق سے داعشی رہنما پاکستان میں آکر کوئی نیا سیٹ اپ تشکیل دیں۔ پاکستان سے شہرت یافتہ دہشت گردوں کا بغدادی کی بیعت میں جانے کا اعلان اور داعش کی جانب سے خاموشی اس امر کی بھی دلیل ہے کہ یہ گروہ ابھی برصغیر میں آنے کا متحمل نہیں، لیکن اس کی پشت پناہ قوتیں اسی نام سے ان دہشتگردوں کو منظم ہونے کے لیے وسائل فراہم کرنے کی طاقت ضرور رکھتی ہیں۔ لہذا ٹرک کے پیچھے لگی بتی کی طرح داعش کے نام کے تعاقب کے بجائے ملک میں موجود کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے بکھرے دہشتگردوں کو قابو کرنا ضروری ہے۔ ملک میں ان سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی بھی کمی نہیں جو آج بھی پاکستان میں قتال فی سبیل اللہ کے کلچر کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور لاکھوں کے اجتماع کو مسلح کاروائیوں کی جانب راغب کرتے ہیں۔ ریاست اور اس کے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے زباں و بیان کی ہر پاکستانی کو حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جو نام نہاد جنگ شروع کی اس کا حاصل یہ ہے کہ گروہوں و گروپوں پر مشتمل دہشتگرد لشکروں کی صورت میں نظر آرہے ہیں۔ چھپ کر کاروائیاں کرنے والے اب علاقوں کی بجائے ریاستوں پر عملداری قائم کرنے کے دعویدار ہیں۔ جو تنظیمیں پہلے بیرونی چندے یا فنڈز سے اپنی مالی ضروریات پوری کرتی تھیں اب تیل اور اسلحہ کی تجارت کرتی ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ جنگ دہشتگردی کے خلاف تھی یا دہشتگردی کے ذریعے جنگ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آج بھی امریکہ امن کی بات کرتا ہے اور اس کا صدر امن کا نوبل پرائز پاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 421887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش