0
Monday 1 Dec 2014 23:15

مکتب کربلا کے دروس کلام امام حسین کی روشنی میں

مکتب کربلا کے دروس کلام امام حسین کی روشنی میں
تحریر: محمد جان حیدری
Janmh110gmali.com

ہلال محرم 1436ء ایک بار پھر نواسہء رسول حضرت امام حسین علیہ السلام، ان کے اصحاب و یاوران کی الم و غم اور شجاعت و حریت سے بھرپور داستان لے کر طلوع ہو چکا ہے، دنیا بھر میں امت مسلمہ اس ماہ، جو آغاز سال نو بھی ہے کا آغاز الم و غم اور دکھ بھرے انداز میں کرتی ہے، اس کی بنیادی ترین وجہ اپنے پیارے نبی آخرالزمان محمد مصطفیٰ ۖ کے لاڈلے نواسے حضرت امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب و انصار و یاوران کی عظیم قربانی جو 10 محرم الحرام 61 ہجری کو میدان کربلا میں دی گئی، کی یاد کو زندہ کرنا ہے۔ میدان کربلا میں نواسہ رسول (ص) اور ان کے باوفا اصحاب نے جو قربانیاں پیش کیں ہمارے لئے اسو ہ حسنہ ہیں، کربلا کے شہداء کی داستان ہائے شجاعت سے ہم کو درس حریت و آزادی ملتا ہے، یہ کربلا ہی ہے جو آزادی کا پیغام دیتی ہے، کربلا کا درس ہے کہ بصیرت و آگاہی اور شعور و فکر کو بلند و بیدا ر رکھا جائے، ورنہ جہالت و گمراہی کے پروردہ ہر جگہ ایسی ہی کربلائیں پیدا کرتے رہیں گے۔ کربلا ایک لگاتار پکار ہے، یزیدیت ایک فکر اور سوچ کا نام ہے، اسی طرح حسینیت بھی ایک کردار کا نام ہے، اگر کوئی حکمران اسلام کا نام لیوا اور کلمہ پڑھنے والا ہے اور اس کے کام یزید جیسے ہیں تو وہ دور حاضر کا یزید ہی ہے۔

یزیدیت پاکیزہ نفوس کے قاتلوں کا ٹولہ تھا، جس کا راستہ روکنے کیلئے نواسہ رسول (ص) جسے امت کے سامنے محمد مصطفیٰ ۖ نے تربیت کیا تھا، سامنے آئے اور اپنی عظیم قربانی سے اس کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا، آپ کی قربانی آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی اسی انداز میں یاد رکھی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی بقا کی اس داستان کو مٹانے کی خواہش دل میں رکھنے والے اپنی موت آپ مرتے رہیں گے۔ یہ تاریخی و بےمثال قربانی اور نمونہ ایثار و شجاعت ہمارے لئے درس کا باعث ہے، اس شہادت میں بہت سے درس اور راز و سر موجود ہیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم اس داستان سے درس لے کر موجودہ دور کی مشکلات کا مقابلہ کریں اور یزیدی طاقتیں جو امت مسلمہ کو نابود کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں، کے ارادوں کو ناکام و نامراد کر دیں، بالخصوص امت مسلمہ کی وحدت و بھائی چارہ پر فرقہ واریت کے منحوس سائے نہ پڑنے دیں۔ یہ قربانی کس قدر بےمثال ہے کہ جس سے چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی ایسے ہی درس و سبق حاصل کئے جاتے ہیں جیسے ابھی کل ہی ہونے والے کسی واقعہ سے انسان کوئی سبق یا نصیحت حاصل کرتا ہے ہم نے اس مقالے میں مکتب کربلا کی اقدار کو سید الشہداء علیہ السلام و شہدائے کربلا کی سیرت کی روشنی می بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اور ذیل میں ان اقدار کو بیان کیا ہے۔

توحید محور
انسان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ الله اس سے راضی رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطبات میں اپنی تحریک کو توحید محور قرار دیا چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت کی رضا وہی الله کی مرضی ہے۔ اسی طرح آپ نے زندگی کے آخری لمحہ میں بھی الله سے یہی مناجات کی کہ پالنے والے! تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں تیرے فیصلے پر راضی ہوں۔ امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کو توحید باوری اور توحید محوری کا پیغام دیا بقول شاعر،
توحید کی چاہت ہے تو پھر کربو بلا چل
ورنہ یہ کلی کھل کے کھلی ہے نہ کھلے گی
توحید ہے مسجد میں نہ مسجد کی صفوں میں
توحید تو شبیر کے سجدے میں ملے گی


مرکز عزت و حمیت
حضرت امام حسین علیہ السلام کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو عزت و آزادی کا مظہر ہے۔ امام علیہ السلام کے سامنے دو راستے تھے، ایک ذلت کے ساتھ زندہ رہنا اور دوسرا عزت کے ساتھ موت کی آغوش میں سو جانا۔ امام نے عزت کو زلت پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا، ابن زیاد نے مجھے تلوار اور ذلت کی زندگی کے بیچ لا کھڑا کیا ہے، لیکن میں ذلت کو قبول کرنے والا نہیں ہوں۔ آپ نے تاقیامت بشریت کو عزت سے جینے کا گُر سکھایا۔

طاغوت ستیزی:
امام حسین علیہ السلام کی تحریک طاغوتی طاقتوں کے خلاف تھی۔ اس زمانے کا طاغوت یزید بن معاویہ تھا کیونکہ امام علیہ السلام نے اس جنگ میں پیغمبر اکرم (ص) کے قول کو سند کے طور پر پیش کیا ہے کہ ”اگر کوئی ایسے ظالم حاکم کو دیکھے جو الله کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کررہا ہو، تو اس پر لازم ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے الله کی طرف سے سزا دی جائے گی۔

ھدف کے حصول میں استقامت:
جو چیز عقیدہ کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے، وہ اپنے ہدف پر آخری دم تک باقی رہنا ہے امام علیہ السلام نے عاشورا کی پوری تحریک میں یہ ہی کیا کہ اپنی آخری سانس تک اپنے ہدف پر باقی رہے اور دشمن کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے۔ امام علیہ السلام نے امت مسلمہ کو ایک بہترین درس یہ دیا کہ حریم مسلمین سے تجاوز کرنے والوں کے سامنے ہرگز نہیں جھکنا چاہیئے اور اسقامت و پائیداری کے ساتھ دشمنان دین کا مقابلہ کرنا چاہیئے۔

نظم و ضبط:
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی پوری تحریک کو ایک نظام کے تحت چلایا۔ جیسے بیعت سے انکار کرنا، مدینہ کو چھوڑ کر کچھ مہینے مکہ میں رہنا، کوفہ و بصرے کی کچھ شخصیتوں کو خط لکھ کر انہیں اپنی تحریک میں شامل کرنے کے لئے دعوت دینا۔ مکہ، منیٰ اور کربلا کے راستے میں تقریریں کرنا وغیرہ۔ ان سب کاموںکے ذریعہ امام علیہ السلام اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ عاشورا کے قیام کا کوئی بھی جز بغیر تدبیر کے پیش نہیں آیا۔ یہاں تک کہ عاشور کی صبح کو امام علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں کے درمیان جو ذمہ داریاں تقسیم کی تھیں وہ بھی ایک نظام کے تحت تھیں۔

سماجی تربیت کا مدرسہ:
کربلا، تنہا جہاد و شجاعت کا میدان نہیں ہے بلکہ سماجی تربیت و وعظ و نصیحت کا مرکز بھی ہے۔ تاریخ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کا یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ امام علیہ السلام نے شجاعت، ایثار اور اخلاص کے سائے میں اسلام کو نجات دینے کے ساتھ لوگوں کو بیدار کیا اور ان کی فکری و دینی سطح کو بھی بلند کیا، تاکہ یہ سماجی و جہادی تحریک اپنے نتیجہ کو حاصل کرکے نجات بخش بن سکے۔

خواتین کے کردار سے استفادہ:
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ، حضرت ابراہیم علیہم السلام، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے کے واقعات میں بھی خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے۔ اسی طرح کربلا کے واقعات کو زندہ بنانے میں بھی حضرت زینب سلام الله علیہا، حضرت سکینہ علیہا السلام، اسیران اہل بیت اور کربلا کی دیگر خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک اسیران کربلا نے ہی پہنچایا ہے۔ جس میں خواتین کا کردار مثالی اور ناقابل انکار تھا۔

اسلام میں جنگ کے اصول:
اسلام میں جنگ کو اولویت نہیں ہے بلکہ جنگ، ہمیشہ انسانوں کی ہدایت کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ اسی لئے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام نے ہمیشہ یہی کوشش کی، کہ بغیر جنگ کے معاملہ حل ہو جائے۔ اسی لئے آپ نے کبھی بھی جنگ میں ابتداء نہیں کی۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ ہم ان سے جنگ میں ابتداء نہیں کریں گے اور یزیدی فوج کی طرف سے جنگ کا آغاز ہوا اور اور امام حسین کی فوج نے اپنا دفاع کیا۔

حق الناس کی رعایت:
کربلا جنگ کا میدان تھا لیکن امام علیہ السلام نے انسانوں کے مالی حقوق کی مکمل حمایت کی۔ کربلا کی زمین کو اس کے مالکوں سے خرید کر وقف کیا۔ امام علیہ السلام نے جو زمین خریدی اس کا حدود اربعہ چاروں طرف چار چار میل تھا۔ اسی طرح امام علیہ السلام نے عاشور کے دن فرمایا کہ اعلان کردو کہ جو انسان مقروض ہو وہ میرے ساتھ نہ رہے اور پوری تحریک میں انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کی حتی الامکان کوشش کی بلکہ انسان تو کیا حر کے لشکر کے حیوانات کو بھی پانی پلاکر حیوانی حقوق کی حفاظت کا بھی عملی درس دیا۔

دنیا خطرناک امتحان گاہ:
میدان کربلا میں جو لوگ گمراہ ہوئے یا جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا ان کے دلوں میں دنیا کی محبت سمائی ہوئی تھی۔ یہ دنیا کی محبت ہی تو تھی جس نے ابن زیاد و عمر سعد کو امام حسین علیہ السلام کا خون بہانے پر آمادہ کیا۔ لوگوں نے شہر ری کی حکومت کے لالچ اور امیر سے ملنے والے انعامات کی امید پر امام علیہ السلام کا خون بہایا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے آپ کی لاش پر گھوڑے دوڑائے انہوں نے بھی ابن زیاد سے اپنی اس کرتوت کے بدلے انعام چاہا۔ شاید اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لوگ دنیا پرست ہوگئے ہیں، دین فقط ان کی زبان تک رہ گیا ہے۔ خطرے کے وقت وہ دنیا کی طرف دوڑنے لگتے ہیں جبکہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کے دلوں میں دنیا کی ذرا برابر بھی محبت نہیں تھی، اس لئے انہوں نے بڑے آرام کے ساتھ اپنی جانوں کو راہ خدا میں قربان کردیا۔ امام حسین علیہ السلام نے عاشور کے دن صبح کے وقت جو خطبہ دیا اس میں بھی دشمنوں سے یہی فرمایا کہ تم دنیا کے دھوکہ میں نہ آ جانا چونکہ دنیا خطرناک امتحان گاہ ہے۔

اپنے زمانے کے امام کی اطاعت:
کربلا اپنے رہبر کی حمایت کی سب سے عظیم جلوہ گاہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور اپنے ساتھیوں پر سے اپنی بیعت کو اٹھا لیا اور فرمایا تھا جہاں تمہارا دل چاہے چلے جاؤ۔ مگر آپ کے ساتھی آپ سے جدا نہیں ہوئے اور آپ کو دشمنون کے نرغہ میں تنہا نہ چھوڑا۔ شب عاشور آپ کی حمایت کے سلسلہ میں حبیب ابن مظاہر اور زہیر ابن قین کی گفتگو قابل غور ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے اصحاب نے میدان جنگ میں جو رجز پڑھے ان سے بھی اپنے رہبر کی حمایت ظاہر ہوتی ہے، جیسے حضرت عباس علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم نے میرا داہنا ہاتھ جدا کر دیا تو کوئی بات نہیں، میں پھر بھی اپنے امام و دین کی حمایت کروں گا۔ مسلم ابن عوسجہ نے آخری وقت میں جو حبیب کو وصیت کی اس میں بھی امام کو تنہا نہ چھوڑنے اور ان پر اپنی جان قربان کردینے کی تاکید کی ہے.

دشمن کی کثرت سے خائف نہ ہونا:
کربلا امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی مکمل طور پر جلوہ گاہ ہے کہ ”حق و ہدایت کی راہ میں افراد کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہیئے۔“ جو لوگ اپنے ہدف پر ایمان رکھتے ہیں ان کے پیچھے بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھیوں کی تعداد کی قلت سے نہیں گھبرانا چاہیئے اور نہ ہی ہدف سے پیچھے ہٹنا چاہیئے۔ امام حسین علیہ السلام اگر تنہا بھی رہ جاتے تب بھی حق سے دفاع کرتے رہتے اور اس کی دلیل آپ کا وہ قول ہے جو آپ نے شب عاشور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ آپ سب جہاں چاہو چلے جاؤ یہ لوگ فقط میرے خون کے پیاسے ہیں۔

تلوار پر خون کی فتح:
مظلومیت سب سے اہم اسلحہ ہے۔ یہ احساسات کو جگاتی ہے اور واقعہ کو جاودانی بنا دیتی ہے۔ کربلا میں ایک طرف ظالموں کی ننگی تلواریں تھیں تو اور دوسری طرف مظلومیت۔ ظاہراً امام علیہ السلام اور آپ کے ساتھی شہید ہو گئے لیکن کامیابی انہی کو حاصل ہوئی۔ ان کے خون نے جہاں باطل کو رسوا کیا وہیں حق کو مضبوطی بھی عطا کی۔ جب مدینہ میں حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ابراہیم بن طلحہ نے سوال کیا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس کا فیصلہ تو نماز کے وقت ہوگا۔ اسی لئے تو امام خمینی نے فرمایا کہ محرم تلوار پر خون کی فتح کا مہینہ ہے۔

راہ حق میں رکاوٹوں اور پابندیوں کامقابلہ:
کربلا کا ایک درس یہ بھی ہے کہ انسان کو اپنے عقیدہ اور ایمان پر قائم رہنا چاہیئے۔ چاہے تم پر فوجی و اقتصادی پابندیاں ہی کیوں نہ لگی ہوں۔ امام حسین علیہ السلام پر تمام پابندیاں لگی ہوئی تھی۔ کوئی آپ کی مدد نہ کرسکے اس لئے آپ کی طرف جانے والوں پر پابندی تھی۔ نہر سے پانی لینے پر پابندی تھی۔ مگر ان سب پابندیوں کے ہوتے ہوئے بھی کربلا والے نہ اپنے ہدف سے پیچھے ہٹے اور نہ ہی دشمن کے سامنے جھکے۔

ذکر الھی حق پرستوں کا دائمی اسلحہ:
جنگ کی حالت میں بھی الله کی عبادت ا ور اس کے ذکرکو نہیں بھولنا چاہئے۔ میدان جنگ میں بھی عبادت و یادخدا ضروری ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے شب عاشور دشمن سے جو مہلت لی تھی، اس کا مقصد تلاوت قرآن کریم، نماز اور الله سے مناجات تھا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا تھا کہ میں نماز کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ شب عاشور آپ کے خیموں سے پوری رات عبادت و مناجات کی آوازیں آتی رہیں۔ عاشور کے دن امام علیہ السلام نے نماز ظہر کو اول وقت پڑھا۔ یہی نہیں بلکہ اس پورے سفر میں حضرت زینب سلام الله علیہا کی نماز شب بھی قضا نہ ہوئی، چاہے آپ کو بیٹھ کر ہی نماز کیوں نہ پڑھنی پڑی ہو۔

مکتب کی بقا کیلے ایثار و قربانی
دین کے معیار کے مطابق، مکتب کی اہمیت، پیروان مکتب سے زیادہ ہے۔ مکتب کو باقی رکھنے کے لئے حضرت علی علیہ السلام و حضرت امام حسین علیہ السلام جیسی معصوم شخصیتوں نے بھی اپنی جان کو فدا کیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ یزید کی بیعت دین کے اہداف کے خلاف ہے لہٰذا بیعت سے انکار کردیا اور دینی اہداف کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کردی، اور امت مسلمہ کو سمجھا دیا کہ مکتب کی بقا کے لئے مکتب کے چاہنے والوں کی قربانیاںضروری ہے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ قانون فقط آپ کے زمانہ سے ہی مخصوص نہیں تھا بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔

حریت و آزادی:
کربلا آزادی کا مکتب ہے اور امام حسین علیہ السلام اس مکتب کے معلم ہیں۔ آزادی وہ اہم چیز ہے جسے ہر انسان پسندکرتا ہے۔ امام علیہ السلام نے عمر سعد کی فوج سے کہا کہ اگر تمھارے پاس دین نہیں ہے اور تم قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے ہو تو کم سے کم آزاد انسان بن کر تو جیو۔

احساس ذمہ داری:
سب سے اہم بات انسان کا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے۔ چاہے اس ذمہ داری کو نبہانے میں انسان کو ظاہری طور پر کامیابی نظر نہ آئے۔ اور یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انسان کی سب سے بڑی کامیابی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے، چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ حضرت امام حسین علیہ السلام نے بھی، اپنے کربلا کے سفر کے بارے میں یہی فرمایا تھاکہ جو الله چاہے گا بہتر ہوگا، چاہے میں قتل ہو جاؤں یا مجھے (بغیر قتل ہوئے) کامیابی مل جائے۔

مقالے کی تدوین کے دوران زیر مطالعہ کتب:
1۔ مقتل مقرم
2۔ مقتل ابومخنف
3۔ آفتاب در مصاف رھبر معظم انقلاب کی تقاریر کا مجموعہ
4۔ کربلا معیار حق وباطل سید جواد نقوی
5۔ خطبات امام حسین علیہ السلام حجۃ الاسلام صادق نجمی مرحوم ۔
صحافی : ایم صادقی
خبر کا کوڈ : 422332
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش