1
0
Monday 1 Dec 2014 16:30

مسئلہ تفتان یا مسئلہ کشمیر

مسئلہ تفتان یا مسئلہ کشمیر
تحریر: ملک ابن الرضا 

سفر اور سیر و سیاحت انسان کی سرشت میں شامل ہے اور اسلام میں تو (سیرو فی الارض) کا حکم بہت تاکید کا مظہر دکھائی دیتا ہے، اسلام نے جہاں نیک اور اچھے سفر کی ترغیب دی ہے، وہاں سفر اور مسافر کے لئے کچھ آداب اور احکام بھی بیان فرمائے ہیں۔ ساتھ ہی اسلام نے ان افراد کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط اور اخلاقی حدود معین کی ہیں جنکا واسطہ مسافروں سے پڑتا ہے، یعنی مسافر کی عزت، احترام اور اسکی ضروریات کا خیال اور اسکے علاوہ بھی کچھ آداب ہیں جن پر تعلیمات اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ 

تفتان پاکستان کی مغربی سرحد پر کوئٹہ سے تقریباً 600 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پاکستان کا آخری شہر ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کی سرحد کے ساتھ متصل ہونے کی وجہ سے یہ شہر زیارتی، سیاحتی اور تجارتی حوالے سے کافی اہمیت کا حامل ہے، ان تمام اوصاف کے باوجود گذشتہ کافی عرصے سے اس شہر کے راستوں پر سفر کرنے والے مسافروں کے لئے کچھ نادان اور اسلامی تعلیمات سے عاری، پاکستان اور اسلام کے دشمنوں نے مشکلات کھڑی کی ہوئی ہیں، جسکی وجہ سے اس راستے پر سفر کرنے والے زایرین، تاجروں اور اسلامی جمہوریہ ایران میں زیر تعلیم طالبعلموں اور انکے خاندانوں کی جان، مال اور عزت و ناموس کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
 
یہ راستہ جو کسی زمانے میں بالکل پرامن تھا، آج اس راستے پر سفر کرتے ہوئے انسان کو شدیدخوف اور خطرہ محسوس ہوتا ہے، کیونکہ ہر وقت انسان کو یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ نجانے کس سمت سے کوئی گولی، مارٹر گولہ، بم، یا خودکش بمبار آئے اور ہماری جان چلی جائے۔ لیکن یہاں پر ایک سوال انسان کے ذہن میں آتا ہے کہ ان مسائل کا حل کیا؟ اور کس کے پاس ہے؟ کیا پاکستان کے یہ شہری اس راستے پر سفر کرنا چھوڑ دیں؟ یا وہ اپنی مدد آپ کے تحت اسلحہ لیکر اپنا دفاع اور تحفظ خود یقینی بناییں؟ گذشتہ ایک مہینے سے ایسے بہت سارے افراد سے ملاقات ہوچکی ہے کہ جنکو اس راستے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کسی کو کوئٹہ سے واپس بھیج دیا گیا، تو کسی کو بس والے نے خوف سے سوار نہیں کیا، کسی کو نوشکی اور دالبدین سے ایف سی کے اہلکاروں نے بسوں سے اتار کر واپس بھیج دیا۔ 

ہمارا تمام صاحبان خرد سے یہ سوال ہے کہ کیا دہشت گردی کے مسئلہ کا یہ حل ہے کہ نہتے اور مظلوم مسافروں کو سفر سے روک دیا جائے؟ یا دہشت گردوں کو لگام دی جائے؟ کیا مسافروں سے یہ ناروا، غیر اخلاقی اور غیر قانونی سلوک کرنے سے دہشت گردی اور دہشت گرد حملے رک جاییں گے؟ یا انکو مزید شہہ ملے گی کہ وہ اپنے مذموم اور ناپاک ارادوں میں کامیاب ہو رہے ہیں، یہ ذمہ داری ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کہ وہ لوگوں کو تحفظ فراہم کریں، ہمارے حکمرانوں کو اس سلسلے میں انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کیونکہ اگر اس راستے پر دہشت گردوں کے حملے اسی طرح جاری رہے تو ناصرف اندورنی طور پر ملک میں انارکی اور فرقہ وارانہ جنگ چھڑ سکتی ہے بلکہ اس سے پاکستان کے ایران جیسے پڑوسی اور برادر اسلامی ملک کے ساتھ تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

دوسری طرف علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں رواداری، اتحاد اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دیں اور اتحاد کی باتیں صرف محراب و منبر سے نہ کریں بلکہ عملی میدان میں اتحاد کرکے لوگوں کو دکھائیں، کیونکہ پاکستان کی موجودہ صورتحال انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ لہذا کوئٹہ سے تفتان کے راستے پر سفر کرنے والے مسافروں کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت، سکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے اور انکی یہ شرعی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کے جان اور مال کی حفاظت کو یقینی بناییں۔ اس راستے سفر کرنے والے مسافروں کے مطابق اب تو سرکاری اہلکاروں نے بھی لوگوں سے رشوت کی رقم بٹورنی شروع کر دی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے کسی ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔ میری تمام دینی و مذہبی اور انسانی حقوق سے متعلق تنظیموں سے اپیل ہے کہ تفتان کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور حکومت پر دباو ڈالیں کہ مسئلہ تفتان کو مسئلہ کشمیر نہ بنایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 422523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد علی شریفی
Iran, Islamic Republic of
بهت اچها
ہماری پیشکش