3
0
Friday 20 Nov 2015 23:59

مسافران بھشت ۔۔۔۔ (پیدل زائرین امام حسین) کیلئے ہدیہ

مسافران بھشت ۔۔۔۔ (پیدل زائرین امام حسین) کیلئے ہدیہ
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
نوٹ: یہ آرٹیکل گذشتہ سال اسلام ٹائمز پر پبلش ہوچکا ہے، نجف اشرف سے کربلا معلٰی تک پیدل جانے والے زائرین کی رہنمائی اور بہتر استفادہ کیلئے اسے دوبارہ پبلش کر دیا گیا ہے۔ ادارہ
جوں جوں اربعین امام حسین ؑ و شہدائے کربلا کے دن نزدیک آ رہے ہیں، دل کی عجیب حالت ہو رہی ہے، سوشل میڈیا پر آنے والی تصاویر، جن میں پیدل سفر کرنے والوں کی عقیدت و محبت کے نمونے ہیں، ہر عاشق حسین (ع) کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہے ہیں جیسے مقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے، نجف سے کربلا پیدل زیارت کرنے والوں کیلئے اہل عراق کی ایسی عقیدت کہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، ایسی محبت کہ جس کا نظارہ کہیں اور نظر نہیں آتا۔ ایسی چاہت کہ دل جس کا معترف ہو جائے، ایسی اپنائیت کہ اجنبیت کا احساس مٹ جائے، ایسی مہمان داری کہ آئمہ طاہرین کی تاریخی مثالیں آنکھوں کے سامنے دکھنے لگیں، ایسا ماحول کہ جس میں آپ ایک بار جا کر ہمیشہ کیلئے کھو جائیں، ایسا منظر کہ جس کا نظارہ آپ کی آنکھوں میں گھر کر لے، ایسا سفر کہ آپ کو جنت کا احساس ہو، آپ بھشت کے مسافر بن جائیں، مجھے یہ سب اس لئے یاد آ رہا ہے کہ گذشتہ برس اس سفر اور ماحول میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی، اب کی بار یہ امید اب بھی قائم ہے، اب بھی دل کے کسی نہاں خانے میں اس سفر کی سعادت کی امید باقی ہے، بہت سے دوستان سے کراچی، لاہور، ملتان، ابو ظہبی وغیرہ میں رابطہ ہوا تو سب کا ارادہ تھا کہ اس بار نجف سے کربلا پیدل (مشیع) کرنی ہے، ایسے میں یہ خیال آیا کہ ان برادران و خواہران کی رہنمائی کیلئے ایک کالم ہی لکھ دیا جائے، تاکہ ہماری یادیں تازہ ہونے کیساتھ ساتھ ان مسافران بھشت کی کسی بھی طرح رہنمائی ہوسکے۔ مولا امام حسین ؑ سے ہی اس کا اجر پاؤں اور اس سعادت سے دوبارہ سرفراز ہو سکوں۔
 
جو احباب کسی کاروان میں شامل ہوتے ہیں، ان کو تو مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے، مگر بہت سے احباب اپنے طور پر بھی یہ سفر کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے ان کو چاہیئے کہ جب سفر کا آغاز کریں تو اس سے پہلے اپنا سامان کسی دوسرے ساتھی کے سپرد کر دیں، جو آپ کیساتھ ہے اور پیدل نہیں جا رہا، تاکہ آپ کا باقی سامان کربلا پہنچ جائے۔ ضرورت کی چند چیزیں نکال کر شولڈر بیگ میں ڈال لیں، تاکہ پیدل سفر میں کام آسکیں۔ آپ کے شولڈر بیگ میں بہت ہی مختصر سامان ہونا چاہیئے، بس ایک کپڑے کا جوڑا اور ٹراؤزر، جرابیں، گرم مفرل، گرم ٹوپی، جیکٹ، کیمرہ اور دوائیں جو آپ کے زیر استعمال ہوں، ورنہ مختلف مقامات پر طبی سہولیات کا بہترین انتظام ہوتا ہے، کھانے پینے کی کوئی بھی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہر قسم کا کھانا اور جوسسز، پانی ہر جگہ میسر ہوتا ہے۔ تبلیغی جماعت والوں کی طرح، سفری بستر کی بھی ضرورت نہیں ہے، البتہ آپ کو عراق میں جاتے ہی ایک سم کارڈ خرید لینا چاہیئے، جو باہمی رابطہ کیلئے بہت کارآمد رہتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اگر ہینڈ فری ہو تو اس کا یہ فائدہ ہے کہ آپ پیدل چلتے ہوئے نوحے، دعائیں اور مناجات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
 
اس صورت میں آپ کو چارج بنک بھی ساتھ رکھنا ہوگا، جس کی بہرحال ضرورت رہتی ہے، ویسے جہاں بھی آرام کرتے ہیں وہاں چارجنگ کا اہتمام کیا جاتا ہے، کئی ایک جگہ پر تو وائی فائی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ جو مکمل فری ہوتا ہے، ہمارے ریلوے اسٹیشنز کی طرح نہیں جہاں چند منٹ ٹرین رکتی ہے تو چارجنگ والے اپنا کام چلا رہے ہوتے ہیں، یہاں ہر چیز مہیا کی جاتی ہے، چونکہ اس سفر میں دنیا بھر کے لوگ گروپس میں سفر کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے ہر ایک اپنی کوئی نا کوئی شناخت لے کر چلتا ہے، بہت سے زائرین اپنے ملک کا پرچم لیکر چلتے ہیں، اپنے نام سے پرنٹڈ شرٹس و جیکٹس اور پٹیاں لئے ہوتے ہیں، اگر کم از کم اپنے ملک کا پرچم ہر ایک گروپ کے ساتھ ہو تو ہم اپنے ملک کا نام بھی روشن کرسکتے ہیں، دوسرا اس حوالے سے بھی ہے کہ ہمارے ملک کا نام بدنام کرنے والے اس سرزمین پر موجود ہیں، اگر زائرین اپنے ملک کا سبز ہلالی پرچم لیکر چلیں گے تو کم از کم عراقی عوام میں طالبان اور داعش میں شامل پاکستانیوں پر غصہ کا ازالہ بھی کیا جاسکے گا۔ ویسے بھی اکثر ان ممالک میں شکلوں اور لباس کی وجہ سے اکثر ہمیں لوگ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں۔ آیا آپ ہندی ہیں، ایسے میں بہت دکھ ہوتا ہے، ہمیں اپنی شناخت کو بہرحال نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ 

سفر کے آغاز کا بہترین وقت بعد نماز فجر ہے، اس طرح آپ ایک ہی دن میں زیادہ وقت سے استفادہ کرتے ہوئے منزل کی جانب بڑھ سکتے ہیں، حرم امیر المومنین ؑ کے باب طوسی (بالمقابل باب قبلہ) سے باہر نکلیں اور شاہراہ طوسی پر چلنا شروع کریں تو تقریباً 500 میٹر بعد وادئ السلام قبرستان ہے۔ وادی السلام قبرستان بہت ہی قدیم ہے، اس میں ایک روایت کے مطابق ستر ہزار انبیاء کی قبور اور بہت سے آئمہ طاہرین کے خاص مقامات ہیں، اس میں سے گزر کر چلتے جائیں، ہزاروں کی تعداد میں زائرین اس راہ پر گامزن ہوں گے اور سب کی منزل کربلا۔ اگر تو آپ کے ساتھ کوئی برادر ایسا ہے جس نے یہ راستہ دیکھا ہوا ہے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی اور اگر کارروان کے سب حضرات و خواتین پہلی بار پیدل سفر کے تجربہ سے گزر رہے ہیں اور کسی کے پاس زیادہ معلومات نہیں تو بھی کوئی بات نہین، کسی قسم کی پریشانی نہیں، آپ بھی ہزاروں لوگوں کے ساتھ ساتھ سفر جاری رکھیں، تاکہ منزل کی طرف بڑھ سکیں۔
 
جب تک پول (کھمبے) شروع نہ ہوں چلتے رہیں، نجف سے نکلیں تو وادی السلام سے گزر کر اور شہر کی حدود سے باہر نکل کر مختلف راستوں پر رہنمائی موجود ہوتی ہے، اصل گنتی اس وقت شروع ہوتی جب پول سسٹم (کھمبے) شروع ہوتا ہے۔ بہرحال نجف سے نکل کر جو علاقے اور چھوٹے چھوٹے شہر اور کچھ گاؤں بھی آتے ہیں، آپ کسی فکر و پریشانی کے بغیر چلتے رہیں اور اک منفرد دنیا کا مشاہدہ کرتے رہیں۔ جو گاؤں اور علاقے راستے میں آرہے ہونگے، ان کے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے نظر آئیں گے۔ گھروں کا فرنیچر، کرسیاں، صوفے باہر گلی میں لگا دیئے جاتے ہیں اور گھروں کے صحن میں چٹائیاں، دریاں، کارپٹ بچھائے ہوتے ہیں، واش رومز اور دیگر سہولیات ہر ایک "مسافر حسین ؑ " کیلئے بلا روک ٹوک میسر ہوتی ہیں۔ کوئی بھی کسی بھی گھر میں بلا اجازت جاسکتا ہے۔ گویا ان ایام میں اس راستے میں آنے والے تمام گھر زائرین امام حسین ؑ کے لیے مختص کر دیئے جاتے ہیں۔ خوش آمدیدی بینرز کے ساتھ ساتھ ماحول سے بھی واضح و عیاں ہو رہا ہوتا ہے کہ اہل عراق کے دل و چشم زائرین امام ؑ کیلئے فرشِ راہ ہیں۔ آپ کے سامان میں کیمرہ بھی ہو تو بہت اچھا ہے، اس لئے کہ ایسے مناظر آپ کی آنکھیں دیکھتی ہیں، جنہیں آپ یادگار بنانا چاہپتے ہیں، جو آپ کیلئے ہی نہیں دوسروں کیلئے بھی یادگار ہونگے۔ تقریباً چار سے پانچ گھنٹے نارمل چلنے کے بعد پول سسٹم شروع ہوتا ہے۔
پول سسٹم کیا ہے؟:
زیارت کربلا کیلئے پیدل چلنے کو عربی میں "مشیع" کہا جاتا ہے۔ یوں تو پورے عراق سے لوگ مشیع کرتے ہوئے اربعین پر کربلا جاتے ہیں، مگر سب سے زیادہ "نجف سے کربلا" مشیع کرنے والے ہوتے ہیں۔ مشیع کے حوالے سے ہم اپنے قارئین کو بتا دیں کہ یہ چار مواقع پر عمومی طور پر کی جاتی ہے۔ اربعین حسینیؑ، عاشورا، عرفہ اور 15 شعبان المعظم کے مواقع پر لوگ پیدل کربلا جاتے ہیں۔ اربعین کے موقعہ پر دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس مبارک و متبرک عمل کو انجام دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ کربلا کے عظیم شہداء کی عظمتوں کو سلام پیش کرنا ہے۔ جب سے عراق صدام اور اس کے نجس ہاتھوں سے آزاد ہوا ہے، "مشیع" کا سلسلہ دوبارہ سے زور پکڑ گیا ہے، صدام نے اپنے دورِ اقتدار کے آغاز میں ہی اس پر پابندی لگا دی تھی، اگر کوئی یہ عمل سرانجام دیتا تھا تو اس کیلئے سخت ترین ایذا اور سزائیں تھیں، اس کے طویل ترین آمرانہ و ظالمانہ دور اقتدار میں یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ اب حکومت نے اس حوالے سے بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ حکومت کی طرف سے مرکزی ہائی وے پر لگے ہوئے بجلی کے کھمبے (پول) پیدل چلنے والوں کی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ پولز پر نمبرنگ کی گئی ہے۔ نجف شہر کے بعد آنے والے ہائی وے سے لے کر حرم حضرت عباسؑ کربلا تک کل 1452 پول ہیں۔ ان کھمبوں کے درمیانی فاصلہ 50 میٹر ہے، 20 کھمبے ایک کلومیٹر کا فاصلہ رکھتے ہیں، جب زائرین گروپس کی صورت میں چلتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ اگلا آرام (Stay) فلاں نمبر پول پر ہوگا۔ اس طرح پول کی نمبرنگ سے انسان کو سفر کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے، وہ بہتر پلاننگ کرلیتا ہے۔ پیدل چلنے والوں کیلئے جگہ جگہ موکب بنے ہوئے ہیں، تاکہ وہ ان میں آرام کر لیں۔
 
موکب اور نظم و ضبط:۔
جب کسی نا جاننے والے کو پیدل سفر (کم از کم تین دن) کا کہا جاتا ہے، تو اس کے ذہن میں اسباب سفر، کھانا پینا، راستے کی رہائش اور سکیورٹی سمیت ہزاروں سوالات ابھرتے ہیں، یقیناً یہ ایک فطری بات ہے۔ نجف سے کربلا پیدل چلتے ہوئے جب آپ مرکزی شاہراہ پر آجاتے ہیں تو آپ کو قدم قدم پر موکب نظر آتے ہیں۔ یہ خیمے یا عالیشان عمارات کی شکل میں موجود ہیں، زائرین کے ٹھہرنے، آرام کرنے، سونے، کھانے پینے، وضو، طہارت، نماز الغرض ہر ضرورت یہاں پوری کی جاتی ہے۔ زائرین امام حسین ؑ کو ہمہ قسم خدمات، ضروریات بہم پہنچانے اور راستے کی سختیوں کو رفع کرنے کیلئے دنیا کی سب سے بڑی فلاحی و رفاہی سرگرمی ان مواکب کے ذریعے سرانجام پاتی ہے۔ یہیں پر دنیا کا سب سے بڑا دستر خوان لگایا جاتا ہے، یہ سو فیصد عوامی تحریک ہے، ان مواکب کو مختلف قبائل، خاندانوں، لوکل تنظیموں، مجتہدین، مختلف اقوام و ملل، سماجی و سیاسی شخصیات نے قائم کیا ہے۔ مرکزی ہائی وے پر جگہ خریدی جاتی ہے اور پھر اس جگہ پر اپنے اپنے وسائل کے لحاظ سے عارضی ٹینٹ سے لے کر بلند و بالا خوبصورت نقشوں اور وسائل سے آراستہ عمارات کہ جن کو دیکھ کر بڑے بڑے ہوٹلز بھی پھیکے دکھائی دیتے ہیں۔ زائرین کی خدمات کیلئے بنائے گئے ہیں۔ ان مواکب میں نوجوان، بچے، بوڑھے ایک جیسے جذبہ سے کام کرتے ہیں، جبکہ ہر موکب کا ایک حصہ خواتین کیلئے ہوتا ہے۔ خواتین کی وضو، طہارت، نماز اور آرام کی جگہیں بھی مردوں سے مکمل علیحدہ ہوتی ہیں، جہاں کا انتظام و انصرام خواتین ورکرز کے ذمہ ہوتا ہے۔
 
اربعین چونکہ سردیوں میں آتا ہے، اس لئے شام ہوتے ہی سخت سردی اور یخ بستہ ہوائیں شروع ہو جاتی ہیں، جو تھکے ہارے مسافروں کو زیادہ ہی محسوس ہوتی ہیں، اس لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ آپ شام ہوتے ہی کسی موکب میں جا کر اپنی جگہ بنا لیں اور سامان کو محفوظ کرکے بستر و کمبل لیکر نماز ادا کریں، اس حوالے سے ایک اور بات یہاں لکھنا چاہوں گا کہ بہت سے عراقی بھائی زائرین کو مرکزی شاہراہ پر آکر شاہراہ سے ہٹ کے محلوں میں اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں، جہاں اپنی گنجائش کے مطابق بہترین خدمت کرتے ہیں، بہت سے امیر اور عام غریب بھی یہ کام خوشی اور سعادت سے کرتے ہیں، نجف سے کربلا چونکہ ساری آبادی اہل تشیع ہے، اس لئے یہاں تو اس بار شائد کوئی خطرہ نہ ہو، البتہ دیگر علاقوں میں متعصب و خوارجیوں سے اس قسم کے خطرات درپیش ہیں کہ زائرین کو اغوا، یا زہر خورانی کے ذریعہ نقصان پہنچایا جائے۔ ہم نے بھی جب گذشتہ برس یہ سفر کیا تھا تو ایک رات ایک عراقی مومن کے گھر گذاری تھی اور ایک موکب میں۔ عراقی مومن کے گھر میں بطور مہمان ہم نے دیگر چار دینی طلباء کے ساتھ گزاری تھی، ان لوگوں نے جس انداز میں خدمت کی وہ ایک یادگار ہے۔
 
عراقی لوگ مزاج کے لحاظ سے بھی اپنے سے محسوس ہوتے ہیں۔ موکب میں رات گذارنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان ان کی ثقافت، انتظام اور کاموں کی تقسیم نیز علاقے کے حالات پر تبادلہ خیال بھی کرسکتا ہے، مگر اس کیلئے آپ کا عربی جاننا بے حد ضروری ہے، عراقی بھی انگلش میں ایسے ہی ہیں جیسے ایرانی برادارن ہوتے ہیں۔ جب کوئی شہر آتا ہے تو اس وقت سکیورٹی کے حوالے سے تلاشی کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے، مگر لاکھوں لوگوں کے اس کاروان میں کہیں بھی دھکم پیل یا بدنظمی نہیں ہوتی، یہ مراحل بڑے آرام سے طے ہو جاتے ہیں، حالانکہ ہم خبروں میں سنتے ہیں کہ حج کے موقع پر بھی رش کے باعث کئی مقامات پر بدنظمی سے لوگ مارے جاتے ہیں، نجف سے کربلا شاہراہ پر 578 نمبر پول پر حیدریہ شہر آتا ہے۔ یہاں حیدریہ ہسپتال بھی ہے، پول نمبر1237 پر امام علی ؑ شہر ہے، جہاں بیت الخلا، مسجد، آرام کی جگہ موجود ہے۔ 

پول نمبر 1086 پر پاکستانیوں کا موکب ہے، یہ کافی وسیع جگہ پر گذشتہ برس بنایا جا رہا تھا، اب شاید مکمل ہوچکا ہو۔ یہاں پر پاکستانی کھانے اور چائے کا انتظام ہوتا ہے۔ ہمیں بھی یہاں یہ سب میسر تھا، البتہ ہم نے چونکہ ہر حالت میں اس رات کو کربلا پہنچنے کا ارادہ کر رکھا تھا، اس لئے ہم نے اپنا سفر جاری رکھا تھا، اگرچہ ہماری حالت بے حد خراب تھی، مگر ہمارے ارادے پختہ تھے، ہم لوگ اپنے پاؤں میں پڑنے والے چھالوں کے باوجود تیسری رات کربلا میں ہی گزارنے کیلئے چلتے رہے۔ جوں جوں منزل قریب آتی گئی، ہمارے اندر توانائی کا اضافہ ہوتا گیا، اور جب کربلا کی حدود میں داخل ہوگئے تو ایسا ہی لگا کہ تھکن مکمل طور پر اتر گئی ہے، کربلا شہر کی حدود میں آکر ہی ہم نے ایک طبی مرکز میں اپنے پاؤں کے چھالے انجکشن سے نکلوائے، اس کے بعد تو ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اڑا کر لے جا رہا ہے، جیسے جیسے حرمین نزدیک آتے ہیں، سکیورٹی کے مراحل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کئی چیک پوسٹوں سے گذر کر جب حرم اباالفضل العباس ؑ سامنے آتا ہے تو نمدیدہ آنکھیں سب کچھ بیان کر دیتی ہیں۔
 
میں نے ایک فرمان زائر امام حسین ؑ کے بارے پڑھا تھا، جو بے حد اثر انگیز تھا کہ "جب ایک شیعہ امام حسین ؑ کے حق کی معرفت رکھتے ہوئے امام ؑ کی زیارت کے لئے اپنے گھر کو غم و الم کی کیفیت میں چھوڑتا ہے تو ایک ہزار فرشتے اس کے دائیں جانب اور ایک ہزار فرشتے اس کے بائیں جانب سے اس کے ساتھ چلتے ہیں اور اسے نبی یا نبی کے وصی کی معیت میں کئے گئے ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے کا ثواب ملتا ہے۔" اور ایک مزید فرمان کہ "جب زائر اپنے گھر کو چھوڑتا ہے، ہر قدم جو اس زیارت کیلئے بڑھاتا ہے، اس کیلئے دعا کی جاتی ہے۔" یہ فرامین اپنے ذہن میں رکھ کر جب آپ زیارت امام حسین ؑ کیلئے پیدل چل رہے ہوتے ہیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ جنت میں محو پرواز ہیں۔ کربلا کی طرف پیدل سفر کے دوران عاشورائی ثقافت کا احیاء اور اثرات جا بجا نظر آتا ہے، اور بین الحرمین، "حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ و حضرت اباالفضل العباسؑ کے مزارات اقدس کے درمیانی جگہ" میں کھڑے ہوکر ہر زائر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھشت میں آگیا ہے۔ جہاں ہر سال کم از کم ڈیڑھ کروڑ انسان تمام تر خطرات کو پس پشت ڈال کے حاضر ہوتے ہیں۔
و ما توفیقی الا باللہ
خبر کا کوڈ : 423344
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جاوید عباس رضوی
India
مولا امام حسین (ع) آپ کو جزاء نیک عطا فرمائے، مجھے واقعاً اس مضمون کو پڑھنے کے بعد اب کسی مزید رہنمائی یا رہنما کی ضرروت محسوس نہیں ہو رہی ہے، میں خود تو اپنے اس سفر میں اس مضمون کی ہارڈ کاپی اپنے پاس رکھوں گا ہی اور دیگر مسافروں کو بھی یہی مشورہ دوں گا کہ اس مضمون کی ہارڈ کاپی اپنے سفر میں ساتھ رکھیں۔
حسینی
Pakistan
مشیع"
معذرت کے ساتھ
یہ لفظ مشیع نہیں بلکہ مشی ہے، مشی کا معنی ہے ہیدل جانا
جبکہ مشیع کا مطلب ہے کسی چیز کی تشیع کرنے والے۔
آفتاب
Romania
سلام مشیع غلط ہے،مشی ہے،
ہماری پیشکش