0
Tuesday 9 Dec 2014 14:30

اقوامِ متحدہ کے ادارے کی رپورٹ اور شدت پسند تنظیمیں!

اقوامِ متحدہ کے ادارے کی رپورٹ اور شدت پسند تنظیمیں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر
  
زمین پر قدرتِ خداوندی کی نعمتوں میں سے زندگی نعمتِ کبریٰ ہے، اور بچے اس نعمتِ کبریٰ کا نقشِ اول۔ انسان مگر اس نعمت کی قدر نہیں کر پا رہا، انسان ہی انسان پر عرصہء حیات تنگ کئے جا رہا ہے۔ مفادات کے عالمی استعماری کھیل کا پہلا شکار یہی معصوم بچے ہوتے ہیں، کوئی یتیمی کی شکل میں تو کوئی در بدری کی شکل میں، انھیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ انھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہ تو مذہب کی حروفِ ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ انھیں تو سیاست کے گورکھ دھندوں کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا، عالمِ اسلام اور عالمِ کفر جیسی اصطلاحات سے انھیں کیا دلچسپی؟ وہ تو رنگوں کے اسیر ہوتے ہیں۔ شوخ و چنچل رنگوں کے، اپنے کھلونوں کے، اپنے ہمجولیوں کے اور بس! زندگی کی رنگینیوں میں کھو جانے والے بچے، ہمیشہ سچ بولنے والے بچے، مگر اکیسویں صدی میں بھی اپنے بنیادی انسانی حق سے محروم کئے جا رہے ہیں۔ کیا یہی اس عہد کی ترقی ہے؟ اگرچہ ہم زمین پر انسان کے ہاتھوں انسان کے اٹھائے ہوئے دکھ کو زندگی کے ابتدائی ایام سے ہی دیکھ رہے ہیں۔ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا دکھ۔ دنیا کا پہلا شدت پسند قابیل ہی تھا۔ آدم ؑ کو دکھ دینے والا قابیل، زمین پر قتل گری کی بنیاد رکھنے والا قابیل۔
 
اقوام متحدہ کے ادارے برائے اطفال نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ2014ء میں ایک اندازے کے مطابق 20 کروڑ 30 لاکھ بچے ایسے ممالک یا علاقوں میں ہیں جہاں مسلح تصادم جاری ہے۔ یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سینٹرل ایفریقن ریپبلک، عراق، جنوبی سوڈان، فلسطین، شام اور یوکرین میں ڈیڑھ کروڑ بچے پرتشدد کارروائیوں کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال اسرائیل کی جانب سے 50 روزہ کارروائیوں میں 538 بچے ہلاک، تین ہزار سے زائد زخمی، ڈیڑھ ہزار بچے یتیم جبکہ 54 ہزار بے گھر ہوئے۔ شام میں بچوں کی صورتحال پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ ستر لاکھ بچوں کو نقل مکانی کرنی پڑی اور وہ پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عراق میں جاری پرتشدد کارروائیوں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو کروڑ ستر لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عراق میں عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی تشدد، جنسی غلامی اور زبردستی کی شادیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بہت سی عورتوں اور لڑکیوں کو سرِ بازار بیچا گیا۔ 

اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق عراق میں دولتِ اسلامیہ (داعش) نے نہ صرف بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے بلکہ کئی بچوں کو یا تو زبردستی پرتشدد کارروائیاں دیکھنے یا ان میں حصہ لینے پر مجبور بھی کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں دنیا بھر میں اتنے مسلح تصادم ہوئے ہیں کہ لوگ یا تو ان کو جلد بھول گئے یا پھر ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان، کانگو، پاکستان، صومالیہ، سوڈان اور یمن میں کئی عرصے سے جاری مسلح تصادم کے باعث کئی بچے متاثر ہوئے ہیں، جبکہ جنوبی سوڈان کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی سوڈان میں ایک سال سے جاری مسلح تصادم میں ساڑھے سات لاکھ بچے پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ جنوبی سوڈان میں 12 ہزار بچوں کو جنگجوؤں یا فوج نے ریکروٹ کیا۔‘‘
 
کیا یہ رپورٹ اس امر پر شاہد نہیں کہ ’’زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گذری‘‘؟ کیا یہ رپورٹ عالمی انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کے لئے دکھ کا باعث نہیں؟ کیا یہ رپورٹ خود انسانیت کے لئے باعثِ شرم نہیں؟ کیا یہ صورتحال صرف انھیں ممالک میں ہے؟ نہیں! جہاں مسلح دہشگردی نہیں بچے وہاں بھی اپنے بنیادی حقوق سے گاہے محروم کر دیئے جاتے ہیں۔ یورپ سے کئی ایک مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ موضوع مگر یہ نہیں رپورٹ کے اعداد و شمار ہیں اور وہ بھی یونیسیف کا اندازہ ہے۔ ہم تاریخ کی ورق ریزی کے بجائے اس رپورٹ پر ہی بحث کریں تو سادہ بات یہی سامنے آتی ہے کہ شدت پسندی نے ان غنچوں کو بھی اپنے شعلوں میں لپیٹ رکھا ہے جو ابھی کھِلے بھی نہیں ہیں۔ سال 2014ء میں صرف عراق میں داعش اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں کی وجہ سے 2 کروڑ70 لاکھ بچے متاثر ہوئے اور داعش نے بچوں کو زبردستی پرتشدد کارروائیوں میں حصہ لینے کے لئے ان پر تشدد کیا۔ 

اسرائیل نے کیا کم ظلم روا رکھا ہوا ہے؟ اس نے غزہ میں 50 روزہ کارروائی کے دوران 538 بچوں سے زندگی کی رونقیں چھین لیں۔ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مسلم ممالک بالخصوص مشرقِ وسطٰی اور افریقی پٹی میں عالمی استعماری طاقتوں نے اپنے پروردہ شدت پسندوں کے ذریعے ظلم کا ایسا بازار گرم کیا ہوا ہے جس میں زندگی، جسے نعمتِ کبریٰ کہتے ہیں، اس کے ابتدائی نقش جھلس کر رہ گئے۔ دنیا بھر کے عدل پسندوں کو اعتدال پسندی کے فروغ اور برداشت کی روایت کو زندہ کرنا ہوگا۔ اسلحے کے بیوپاری بڑے عیار ہیں۔ حقوق کی بات بھی کرتے ہیں اور حقوق چھیننے کے لئے اسرائیل اور داعش کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ’’نفاذ‘‘ کا کھیل تیز رفتار ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل کو دربدری کی ٹھوکریں اس کھیل کا سوچا سمجھا حصہ ہیں، اور اس حصے کے حصہ دار اسرائیل سمیت داعش اور القاعدہ و طالبان بھی ہیں۔ ایک سال کے دوران میں صرف چند ممالک کے اندر بچوں کی اتنی بڑی تعداد کا متاثر ہونا، اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان اپنی نسل کی بقا کے لئے فکر مند نہیں بلکہ اسے اس کی مادی و نفسانی خواہشات نے اس قدر اسیر کر لیا ہے کہ وہ اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ رہا ہے۔ خدارا وحشت کے اس کھیل میں بچوں پر تو رحم کریں۔ بچے کسی کے دشمن نہیں ہوتے، سب سے دوستی کرنے والے بچے، سب سے مسکرا کر ملنے والے بچے، ان بچوں کو تو معاف کر دیں۔
خبر کا کوڈ : 424464
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش