0
Monday 22 Dec 2014 01:05

ایرانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف اتحاد کا پس منظر (2)

ایرانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف اتحاد کا پس منظر (2)
تحریر: عرفان علی 

روس پر دباؤ ڈالا گیا کہ بوشہر ایٹمی ری ایکٹر پر کام کرنا چھوڑ دے۔ روس نے کہا کہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدہ (NPT) کے تحت ایران کو حق حاصل ہے لیکن امریکہ نے کہا کہ تیل گیس کے ذخائر رکھنے والے ملک ایران کو نیوکلیئر بجلی کی ضرورت ہی نہیں۔ یہی دلیل خود امریکہ اور روس پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس بھی دیگر ذخائر ہیں، جن سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، اس کے باوجود دونوں اس ذریعہ سے بجلی کیوں پیدا کر رہے ہیں۔؟
 
بہرحال یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بش نے جنوری 2002ء میں عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ایران کو بریکٹ کرکے امریکی ایجنڈا میں ولن بنانے کے لئے بدی کا محور بنا دیا تھا۔ ویسے بھی بعد از انقلاب اسلامی، ایران امریکہ تعلقات کی تاریخ میں صرف نشیب ہی نشیب ہیں، فراز کہیں نہیں۔ مصدق حکومت کے خلاف سازش کرنے کے بعد امریکہ ایرانیوں کا اعلانیہ قومی مجرم بن چکا تھا۔ تہران میں قائم امریکی سفارتخانہ سے ملت ایران کے خلاف سازشیں کی جاتی رہیں، ایران ہی نہیں بلکہ اس پورے خطے میں امریکی جاسوسی کا صدر مقام تہران میں قائم امریکی سفارتخانہ رہا، جسے آخر کار 4 نومبر 1979ء کو بے نقاب کر دیا گیا۔ امریکی تکبر کو خاک میں ملاتے ہوئے انقلابی ایرانیوں نے 444 دن تک امریکی جاسوسی اڈہ چلانے والے سفارتکار نما بھیڑیوں کو جوتوں کی نوک پر رکھا۔ امام خمینی نے امریکہ کو شیطان بزرگ (سب سے بڑا شیطان) قرار دیا۔ یوں امریکہ نے پابندیاں عائد کرکے ایران کو سزا دینے کی بنیاد رکھی۔ ایران کے مسافر بردار طیارے کو بھی مار گرایا۔
 
ایران کے اسلامی انقلاب کے اثر و نفوذ سے خوف زدہ امریکہ میں اسرائیل نواز حلقوں نے جارج بش دوم کی صدارت میں ایران مخالف سازشوں میں پرامن ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے پر توجہ مرکوز کی۔ وہ افغانستان اور عراق کی بجائے ایران پر براہ راست جنگ مسلط کرنے کے لئے امریکہ کو اکسا رہے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کی اصطلاح محور (axis) کو نظر میں رکھتے ہوئے ڈیوڈ فرم نے axis of hatred کی اصطلاح ایجاد کی۔ یہ امریکی دانشور جنوری 2001ء سے فروری 2002ء تک بش دوم کا معاون خصوصی برائے اقتصادی تقریر نویسی تھا، یا یوں کہہ لیں کہ بش جونیئر کا اقتصادی امور پر تقریر نویس تھا۔ بش کے اہم تقریر نویس مائیکل جرسن تھے جو پہلے کی طرح آج بھی واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار بھی ہیں، انہوں نے نفرت کے محور کی اصطلاح کو تھیولوجیکل انداز میں پیش کرنے کے لئے اس میں تبدیلی کی۔ کہا جاتا ہے بش نے خود اسے نفرت کے محور سے بدی کے محور یعنی axis of evil میں تبدیل کیا تھا۔ بش نے عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ایران کو اس غلط اصطلاح سے متہم کیا تھا۔
 
صدام کا عراق امریکہ اور امریکہ کے اتحادیوں کی سرپرستی میں بدی کا محور بنا تھا اور ایران کا دشمن تھا۔ شمالی کوریا کو بدی کا محور بننے پر مجبور کرنے والا بھی امریکہ خود تھا۔ 1950ء کے عشرے میں امریکہ نے کوریا جنگ لڑی تھی۔ جنوبی کوریا پر دست شفقت رکھنے والے امریکہ کی وجہ سے شمالی کوریا چین کے زیر سایہ آچکا تھا۔ امریکہ نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔ چین کو اس کے پڑوس میں اتحادی ملک شمالی کوریا کے بارے میں خوف زدہ کیا اور اس طرح ایران کے خلاف اقدامات میں چین کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ روس کو بھی رنگین انقلابات سے ڈرا دھمکا کر اپنے ساتھ ملانے کے منصوبہ پر عمل کیا۔ ان سارے اقدامات کا اصل ہدف اسرائیل دشمن ایران تھا۔ پہلے بدی کا محور اصطلاح سامنے آئی اور پھر اس کے چند ماہ بعد ہی نیوکلیئر ایشو پر تنازعہ پیدا کر دیا، جسے 12 سال سے زائد کا عرصہ ہونے کے باوجود ختم نہیں کیا جا رہا۔
 
امریکہ کو ایران کے ایٹمی پروگرام کے پرامن ہونے پر جو شک تھا، وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ چہ عجب! دنیا میں سب سے زیادہ ایٹم بم بنانے والا ملک کہ جس نے جاپان کے 2 اہم ہنستے بستے شہروں کو لاکھوں انسانوں کا قبرستان بنانے کے لئے 2 ایٹم بم استعمال بھی کئے، اسے دنیا میں ایٹم برائے امن کی سوجھی، یعنی اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی! صرف چین اور روس ہی نہیں بلکہ امریکہ نے جاپان اور جرمنی کو بھی ایران سے دور کرنے کے لئے سازشیں کرکے یورپی یونین کے 3 ممالک کی سفارتکاری کو مسترد کرکے خود کو اس میں شامل کروایا اور جب اسے یقین ہوگیا کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت روس، چین، جرمنی، جاپان بھی اس کی حمایت کریں گے تو جاپان کے سفارتکار امانو کو ڈاکٹر البرادعی کا جانشین بنا دیا۔ جنوبی کوریا کے بان کی مون کو اقوام متحدہ کا سیکریٹری جنرل بنوا دیا، یعنی بین الاقوامی اداروں میں امریکی اتحادی سربراہ بنائے گئے۔ اس طرح اقوام متحدہ کی تاریخ کی بدترین اقتصادی پابندیاں غیر قانونی طور پر ایران پر مسلط کر دیں۔ ایران کو ناکردہ جرم کی سزا دی گئی۔
 
لیکن محمود احمدی نژاد کی انقلابی صدارت کے دور میں ایران نے خاتمی دور کی ایٹمی پالیسی کو خدا حافظ کہہ کر رخصت کر دیا۔ افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کرکے اسے 20 فیصد تک افزودہ کر دیا۔ امریکہ اور دیگر اتحادی گھبرا کر ایران کی اس ترقی و خود انحصاری پر مبنی پالیسی کی کامیابی کے خلاف یکجا ہوئے۔ پابندیاں اور سخت ترین پابندیاں بھی محمود احمدی نژاد کو پرامن ایٹمی پروگرام معطل کرنے پر مجبور نہ کرسکیں۔ 8سالہ دور صدارت میں احمدی نژاد نے دنیا کے منظر نامے میں ایک اہم رہنما کے طور پر شہرت حاصل کی۔ ترکی اور برازیل نے بھی مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ امریکہ کسی بھی صورت ایران کے قانونی حق کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا اور دیگر ممالک اپنی اپنی مجبوریوں کی وجہ سے بظاہر اس کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں لیکن مستقبل قریب میں روس اور چین اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے غیر قانونی پابندیوں کے خلاف نئی پالیسی وضع کرنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔
 
امریکہ، ایران تعلقات کے بارے میں اسٹیفن کنزر کی رائے پر بھی توجہ فرمائیں۔ وہ ترکی، جرمنی اور نکاراگوا میں نیویارک ٹائمز کے بیوروچیف رہ چکے ہیں اور ایران، ترکی و امریکہ کے سہ طرفہ تعلقات پر انہوں نے ری سیٹ کے عنوان سے کتاب لکھی جو انہی کے اخبار کے اشاعتی ادارہ ٹائمز بکس نے شایع کروائی۔ انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ ایران امریکہ پارٹنرز بن سکتے ہیں اور خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف دونوں میں شراکت داری ہوسکتی ہے اور ایسی صورت میں کسی کو شکست خوردہ ہونے کی ضرورت نہیں، لیکن خود ہی اس کی وضاحت فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس پر ہر کوئی خوشی کا اظہار کرے گا۔ ان کے مطابق سعودی عرب کو یہ خوف لاحق ہوسکتا ہے کہ مشرق وسطٰی میں امریکہ کا فیورٹ اس کی جگہ ایک مستحکم و خوشحال ایران بن سکتا ہے۔ اگر ایران پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے اور علاقائی تجارت کے مرکز کے طور پر ماضی کا کردار ادا کرنے لگتا ہے تو دبئی کا بزنس ختم ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے حامی آذر بائیجان کے ڈکٹیٹر کو اپنی جنوبی سرحدوں پر ایک نئے پاور ہاؤس کا ظہور شاید پسند نہ آئے۔ اسرائیل شاید یہ خوف محسوس کرے کہ ایران کو جو کچھ بھی حاصل ہوگا، وہ اس کے مستقبل کو داؤ پر لگا دے گا۔ یہ سارے خوف و خدشات کنزر کی نظر میں reasonable ہیں۔
 
اسٹیفن کنزر کی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن رہبر معظم امام خامنہ ای نے اوبامہ کے خط کے جواب میں اپنا موقف پوری دنیا کے سامنے بیان کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ سے تعاون کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ امریکہ خود دہشت گرد گروہ تشکیل دیتا ہے اور بعد میں کارروائی کا ڈرامہ رچاتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ ایران میں انقلابیوں کا موڈ امریکہ کو سبق سکھانے کا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کا الزام بھی امریکہ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی پر ہی لگایا تھا۔ اس سال عاشورا 4 نومبر کو تھی اور 1979ء میں اسی دن امریکی سفارتخانہ میں جاسوسی کے اڈہ کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ اسی تاریخی جگہ جہاں مہدی رجب بیگی کا ’’مرگ بر کارتر‘‘ والا انقلابی ترانہ سب نے کورس میں پڑھا تھا، وہاں حجت الاسلام علی رضا پناہیان نے تاریخی خطاب فرمایا۔ انہوں نے ایرانی حکومت کو خبردار کیا کہ مذاکرات اس طرح کریں جیسے امام حسین علیہ السلام نے عمر بن سعد (یا شمر) سے کئے تھے، یعنی اپنے موقف پر ڈٹنے اور مخالف کو متنبہ کرنے والا باعظمت لب و لہجہ ہو، جس سے دشمن رعب میں آئے نہ کہ خود دشمن کے رعب میں آیا جائے۔
جس طرح میدان کربلا میں فرات کا پانی امام حسین ؑ اور ان کے ساتھیوں پر بند کیا گیا تھا، آج پوری دنیا کو ایران کے لئے فرات بنانے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے۔ پناہیان صاحب نے امریکہ کو یزید وقت کہا۔ میرا خیال ہے کہ آج کی کربلا میں ایران پر دنیا کی کوئی فرات بند نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس سال عاشورا میں صرف تہران ہی میں حسینی لشکر جمع نہیں تھا بلکہ لبنان میں حسن نصر اللہ اور یمن کے شہر صعدہ میں عبدالملک الحوثی دنیا کے یزید اور یزیدیوں کو بتا رہے تھے کہ وضو در فرات، نماز در کربلا کا مرحلہ تو طے ہوچکا، اب تو کہیں اور کی تیاری ہے! امریکہ سمیت ایران کے سارے دشمنوں کو معلوم ہو کہ یہ حسین ؑ زمانہ کی کربلا ہے اور ابا صالح المہدی کے دور میں امام خامنہ ای اس لشکر کے علمدار ہیں، اور ذہن نشین کرلی جائے، یہ بات کہ لشکر امام زمانہ کے علمدار کو دفاعی جنگ کی کھلی اجازت ہے، جبکہ لشکر یزید زمانہ اس وقت قدس فورس، حزب اللہ، انصاراللہ کے گھیرے میں ہے۔ بحرین بھی صعصعہ ابن صوحان کی سرزمین کی شناخت کے ساتھ طلوع ہونے کو ہے اور غزہ کی طرح مغربی کنارے کا فلسطینی علاقہ بھی ایرا ن کے فجر میزائل سے صہیونیوں کا سورج غروب کرنے کے لئے آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔
(ختم شد)
خبر کا کوڈ : 427085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش