0
Saturday 20 Dec 2014 19:25

ایرانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف اتحاد کا پس منظر (1)

ایرانی نیوکلیئر پروگرام کیخلاف اتحاد کا پس منظر (1)
تحریر: عرفان علی
 
دنیا بھر میں مختلف واقعات اتنی تیزی سے رونما ہو رہے ہیں کہ ایک دن بعد ہم جیسے لوگوں کو بھی یاد ہی نہیں رہتا کہ فلاں واقعہ کب ہوا تھا۔ مشرق وسطٰی کے بارے میں عالمی ذرائع ابلاغ کا فوکس عراق اور شام کے حالات پر اور کبھی کبھار مقبوضہ فلسطین پر ہوجاتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای کو ایک اور خط لکھا تو ایک آدھ دن سے زیادہ یہ موضوع زیر بحث نہ رہا۔ ایران کے ساتھ نام نہاد عالمی طاقتوں کے نیوکلیئر مذاکرات میں توسیع پر جب ذرائع ابلاغ کی توجہ مرکوز ہوئی تو امریکہ میں فرگوسن کے سانحہ پر عدالتی فیصلے سے سفید فام و سیاہ فام امریکیوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی باعث ہوئی کہ امریکی ذرائع ابلاغ خارجہ کے بجائے داخلہ امور کو قارئین و ناظرین کے لئے پیش کریں۔ پاکستان میں سانحہ پشاور نے ہر موضوع کو بے وقعت بنا دیا ہے۔ بندہ خود کئی ایشوز پر لکھنے کے لئے بہت سا مواد زیر مطالعہ رکھتا ہے لیکن روزانہ کی بنیاد پر کسی ایک ایشو کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر اپنے نکتہ نظر کو ضابطہ تحریر میں لانا بے حد مشکل ہوجاتا ہے۔
 
ایران کے پرامن ایٹمی یا نیوکلیئر پروگرام کو متنازعہ بنانے والی عالمی طاقتوں کی جانب سے مذاکرات میں یکم جولائی 2015ء تک کی توسیع پر تقریباً 8 منٹ کی گفتگو میں ریڈیو تہران پر اپنا موقف پیش کرچکا ہوں۔ اسلام ٹائمز میں بھی بعض نکات بیان کرچکا ہوں، لیکن ماہنامہ العارف کے دوستوں کی فرمائش پر ایک نسبتاً تفصیلی مقالہ تحریر کیا تھا جس میں بعض نکات یہاں پہلے بیان ہوچکے۔ اس لئے دیگر نکات کو یہاں بھی قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، چونکہ یہ ناچیز 2003ء سے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ لکھتا رہا تھا، اس لئے اس کے پس منظر سے پوری طرح آگاہ تھا۔ ماہنامہ منتظر سحر شمارہ دسمبر 2003ء میں جو تحریر لکھی تھی، اس کے مطالعہ سے مجھے یاد آیا کہ یورپی یونین کے 3 بڑے ملک برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے صدر خاتمی کے دور حکومت میں ایران سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ 

ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی نے خاتمی دور میں ایران کی قومی سلامتی کاؤنسل کے سربراہ کی حیثیت سے مذاکرات میں ایرانی حکومت کے مذاکرات کاروں کی سربراہی کی تھی۔ 21 اکتوبر 2003ء کو یورپی یونین کے 3 ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ایران کا دورہ کیا، جہاں ایرانی حکام نے ان پر واضح کیا کہ ایران کے دفاعی نظریہ میں ایٹمی ہتھیاروں کی کوئی گنجائش نہیں اور ایٹمی پروگرام صرف اور صرف پرامن مقاصد کے لئے ہے۔ نیوکلیئر شعبہ میں تعاون کی راہ میں رکاوٹ ختم کرنے کے لئے اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لئے ایران نے ایٹمی توانائی ایجنسی کے اضافی پروٹوکول پر دستخط کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس حق کا اعادہ کرتے ہوئے کہ وہ ایٹمی توانائی کو پرامن مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے، اس نے رضاکارانہ طور پر یورینیم کی افزودگی معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
 
جواباً برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ان فیصلوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایرانی حکام کو مطلع کیا کہ ان کی حکومت این پی ٹی کے مطابق ایران کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایران ایٹمی توانائی کا پرامن مقاصد کے لئے استعمال کرے۔ ان کے خیال میں اضافی پروٹوکول کسی بھی طرح ایران کی خود مختاری، قومی وقار اور قومی سلامتی کے خلاف نہیں ہے اور یہ کہ خطے کی سلامتی اور استحکام بشمول اقوام متحدہ کے مقاصد کے تحت مشرق وسطٰی کو بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) سے پاک زون بنانے کے لئے ایران سے تعاون کریں گے اور بین الاقوامی تحفظات دور ہونے پر ایران جدید ٹیکنالوجی اور مختلف شعبوں میں رسد کی توقع کرسکے گا۔ 29 نومبر 2003ء کو ایران کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ حسن روحانی کا بیان آیا کہ یورینیم کی افزودگی بند نہیں کی جائے گی کیونکہ اسی کے ذریعہ بجلی پیدا کرنے والے ری ایکٹر کا ایندھن حاصل ہوتا ہے، لیکن افسوس کہ خاتمی دور حکومت میں یورینیم افزودگی میں عارضی تعطل برقرار رہا۔ امریکہ اس سارے عرصہ میں یورپی ممالک پر دباؤ بڑھاتا رہا کہ وہ ایران کے نیوکلیئر ایشو کو اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں پیش کرنے کی امریکی کوششوں میں اس کی مدد کریں اور ایران پر مزید پابندیاں عائد کروانے میں بھی امریکہ کا ساتھ دیں۔ 

19 نومبر 2003ء کو ویانا میں آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے قبل فرانسیسی خبر رساں ادارہ کی خبر کے مطابق امریکہ چاہتا تھا کہ ایران کے خلاف سخت سفارتی ایکشن لیا جائے۔ 21 نومبر 2003ء کی رپورٹ کے مطابق ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (IAEA) میں امریکی نمائندہ کینیتھ بل نے اس ادارہ کی رپورٹ کے اس جملہ پر اعتراض کیا تھا: IAEA found no evidence of Iranian Nuclear Programme۔ یعنی آئی اے ای اے کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ اس جملہ کے خلاف امریکی اعتراض کو اس وقت کے سربراہ ڈاکٹر محمد البرادعی نے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جانب داری کے بغیر سچ کی عکاسی کرتے ہیں جیسا کہ راڈار کرتا ہے۔ البرادعی کی ان باتوں سے کوئی گمراہ نہ ہوجائے، اس لئے وضاحت کر دوں کہ آئی اے ای اے نے امریکہ کے ایجنڈا کے تحت ایران کے خلاف بتدریج مقدمہ تیار کرنے میں ایران کے دشمنوں کی دانستہ معاونت کی۔ آئی اے ای اے کی تاریخ میں کی مثال نہیں ملتی۔
 
اس وقت اس ادارہ میں ایران کے سفیر ڈاکٹر علی اکبر صالحی تھے، جو محمود احمدی نژاد کے دور صدارت میں ایران کے وزیر خارجہ بنے۔ ڈاکٹر صالحی نے کہا کہ آئی اے ای اے نے ایران پر معمولی فروگذاشتوں کا جو الزام لگایا ہے وہ امریکہ کو خوش کرنے کے لئے ہے، کیونکہ ایران ان اقدامات کو حفاظتی قواعد کی خلاف ورزی تصور نہیں کرتا۔ ڈاکٹر البرادعی کے اصل کردار سے آگاہی کے باعث صالحی صاحب نے کہا تھا کہ ان سے شکایت ہیں، لیکن اس کے باوجود ایران اپنا تعاون جاری رکھے گا۔ انہی دنوں امریکہ نے سیٹلائٹ گائیڈڈ بم بنانے کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اس بم کو بموں کی ماں کا نام دیا گیا تھا اور اس کی خبر برطانوی خبر رساں ادارہ رائٹر نے جاری کی تھی۔
 
مشرق وسطٰی میں واحد نیوکلیئر دہشت گرد ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل تھی اور ہے۔ اگر ماضی میں وہ نیوکلیئر ambiguity کی پالیسی پر عمل پیرا تھی تو ایہود اولمرٹ نے اس کو آن دی ریکارڈ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ نیوکلیئر اسلحہ کی حامل طاقت ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے یورپی یونین سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کئے۔ اس کے بعد کونڈولیزارائس نے یہ مشن سرانجام دیا اور چین اور روس کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔ کونڈی رائس نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نو ہائیر آنر میں لکھا کہ ان کے دور میں امریکہ کی قومی سلامتی کاؤنسل اور محکمہ خارجہ میں مشرق وسطٰی کے بارے میں منصوبہ بندی کاؤنسل کے ایلیئٹ ابرامز اور معاون وزیر خارجہ ڈیوڈ ویلچ اور نائب صدر ڈک چینی کے دفتر سے جون حنا ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ کونڈی اور اسٹیو ہیڈلی ان کے ساتھ مل کر حکمت عملی وضع کیا کرتے تھے۔ یہ ساری شخصیات اپنی صہیونیت نوازی یا اسرائیل کی بے جا حمایت کی وجہ سے مشہور ہیں۔
 
اسی کتاب کے 11ویں باب ’’دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار‘‘ میں ایرانی چیلنج کے بارے میں کونڈی رائس لکھتی ہیں کہ ایران شمالی کوریا سے مختلف نوعیت کا چیلنج تھا۔ شمالی کوریا یقیناً خطے میں ہمارے (یعنی امریکہ کے) مفادات کے لئے خطرہ تھا اور جنوبی کوریا کے لئے تو براہ راست خطرہ تھا۔ لیکن خطہ کوریا میں امریکہ اپنی فوجی طاقت رکھتا ہے، جس سے شمالی کوریا کو باز رکھا جاسکتا ہے۔ کونڈی کی نظر میں کم جون ال کریزی تھا لیکن suicidal نہیں تھا۔ وہ مہلک ہتھیار بیچنے کی حد تک تو جاسکتا تھا لیکن امریکیوں پر یلغار نہیں کرسکتا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ دوسری جانب ایران ایسا ملک تھا جو مشرق وسطٰی میں ’’دہشت گردی‘‘ کی پشت پناہی کر رہا تھا۔ (یاد رہے کہ کونڈی نے حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی فلسطین اور ان جیسی قومی مزاحمتی تحریکوں کی مدد کو دہشت گردی کی اسپانسر شپ سے تشبیہ دی۔ جن اسلامی مقاومتی تحریکوں کی مدد پر ایران کے خلاف نیوکلیئر محاذ کھولا گیا، یہ ساری تنظیمیں اپنے ملکوں پر نسل پرست صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے کو چھڑانے کے لئے مسلح جدوجہد کر رہی ہیں۔)
 
ایران کے خلاف نیوکلیئر محاذ کھولنے کی ایک وجہ یہ تھی اور اسی کے ساتھ ایران، کونڈی کی نظر میں، مشرق وسطٰی میں طاقت کا توازن تبدیل کرنے کی مسلسل کوششوں میں مصروف تھا۔ کونڈی کے الفاظ میں ایران کے پاس حزب اللہ جیسی دنیا کی سب سے زیادہ ’’خطرناک‘‘ تنظیم ہے جو دنیا میں کہیں بھی کارروائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکی سی آئی اے کا سربراہ جارج ٹینیٹ اسے (امریکہ کی نظر میں) دہشت گردوں کی اے (A) ٹیم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ القاعدہ سے زیادہ sophisticated ہے۔ (حالانکہ حزب اللہ نے کہیں بھی شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔) کونڈی رائس نے مزید لکھا کہ امریکہ کے اتحادیوں خاص طور پر سعودی عرب، کویت اور بحرین کی شیعہ آبادیوں میں اثر و نفوذ کی وجہ سے ان ممالک کو یقین تھا کہ ایران یہاں شیعہ کریسینٹ قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسے پرشن چیلنج کہتے تھے۔ مزید لکھا کہ جب تک اسے تباہ نہ کر دیا جائے، تب تک کاؤنٹر بیلینس کرنا ضروری تھا۔ عراق چونکہ اس مقصد کے لئے بفر (buffer) کی حیثیت رکھتا تھا، اس لئے امریکہ نے ایران کے خلاف جنگ میں صدام کا ساتھ دیا تھا۔
 
کونڈی نے جو اہم ترین نکتہ بیان کیا وہ یہ تھا کہ (مشکل یہ تھی) دنیا کے اکثر ممالک امریکہ کے ایران کے بارے میں اس شدید تنفر سے دور تھے۔ ایران، دیگر ممالک کے لئے شمالی کوریا نہیں تھا۔ سارے اہم ممالک کے سفارتخانے تہران میں کام کر رہے تھے۔ ایران اور دنیا کے دیگر ممالک کے مابین تجارت کی مجموعی صورتحال بہترین تھی۔ ایران کے سب سے بڑے 2 تجارتی پارٹنرز جرمنی اور جاپان تھے جو امریکہ کے اتحادی بھی تھے لیکن وہ ایران کے خلاف امریکی زاویہ نظر سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ عالمی سطح پر ایرانی نیوکلیئر پروگرام کی کچھ زیادہ خطرناک تشریحات نہیں پائی جاتی تھیں۔ امریکہ کی پالیسی کونڈی کے الفاظ میں یہ تھی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام ہی قابل قبول نہیں ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 427089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش