1
0
Monday 29 Dec 2014 15:27

عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے زیراہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ

عوامی ایکشن کمیٹی جی بی کے زیراہتمام منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ
رپورٹ: میثم بلتی

 عوامی ایکشن کمیٹی جی بی نے گلگت بلتستان کی موجودہ صورتحال پر ایک عظیم الشان آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں گلگت بلتستان کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے مشترکہ طور پر قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ: جی بی کی مختلف سیاسی، مذہبی پارٹیوں، طلباء، نوجوانوں، وکلاء، محنت کشوں اور سماجی تنظیموں کی یہ نمائندہ کانفرنس اس بات پر شدید غم و غصہ کا برملا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو گذشتہ 67 سالوں سے براہ راست اپنے انتظامی کنٹرول میں رکھنے کے باوجود اس طویل عرصے میں اس خطے کے عوام کو ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی سطح پر لانے اور زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام آج اکیسویں صدی میں بھی عملاً پتھر کے ابتدائی دور میں رہنے پر مجبور ہیں۔ معاشی، سماجی پسماندگی اور اندھیرہ ان کا مقدر بنا دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی گذشتہ حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام کو اندرونی خود مختاری کے نام پر ایک سلف گورننس اینڈ ایمپاورنمنٹ آرڈر 2009ء کے نام سے تیار کرکے اس پر عوامی رائے لئے بغیر یہاں کے عوام پر مسلط کر دیا اور اس نئ انتظام کے تحت ایک لولی لنگڑی اسمبلی قائم کر دی گئی اور اس کے اوپر جی بی کونسل قائم کی گئی۔
 
اس نئے سیٹ اپ کے تحت پی پی سرکار نے گلگت بلتستان میں بھی دھونس دھاندلی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کر لی مگر گذشتہ پانچ سالوں کے تلخ تجربات نے عیاں کر دیا ہے کہ یہ سیٹ اپ بھی اندر سے کھوکھلا اور بے جان ہے، اس مضحکہ خیز سیٹ میں مقامی حکومت اس حد تک بے بس ہے کہ پورے پانچ سالوں میں وزیراعلٰی کو معمولی نوعیت کی مالیاتی و انتظامی اور پالیسی امور میں منظوری لینے کیلئے اسلام آباد میں حکمرانوں اور وزارت امور کشمیر کے آگے جھکنا پڑتا ہے، البتہ اس نظام میں مہدی شاہ سرکار اسکے وزراء، مشیروں، ارکان اسمبلی و کونسل اور ان کی ماتحت افسر شاہی کو عوامی وسائل کی لوٹ مار، کرپشن اور قاعدہ قانون کی خلاف ورزی کی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کھوکھلے اور عوام دشمن نظام کے تحت بدعنوانی، کرپشن، لوٹ مار اور قومی وسائل دولت کی بندر بانٹ کو تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مہدی شاہ اور اس کے کابینہ ارکان اور اس کے ماتحت بیورکریسی نے کرپشن کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے مگر ان کے خلاف احتساب کا کوئی باقاعدہ نظام موجود ہی نہیں۔ 

دوسری طرف خطہ کے عوام آج بھی اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے، تعلیم کو عام آدمی کی پہنچ سے باہر کر دیا گیا ہے، صحت کی سہولتیں ناپید ہیں، گلگت بلتستان کے عوام کی مشترکہ دولت یہاں کی معدنیات کو مہدی شاہ سرکار نے کمیشن لیکر مختلف بااثر افراد کے نام پر لیز کی شکل میں حوالہ کرکے مقامی 99 فیصد غریب عوام اور نئی نسل کو ان کی مشترکہ وسائل دولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان کونسل جو کہ درحقیقت وزارت امور کشمیر کا نیا میک اپ شدہ چہرہ ہے، جسکے ذریعے گلگت بلتستان میں غیر آئینی و غیر قانونی ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے، مگر ان ٹیکسوں کی آمدنی کتنی ہے اور یہ کہاں چلی جاتی ہے، اس بابت یہ نظام خاموش ہے۔ سالانہ مختلف براہ راست اور بلواسطہ ٹیکسوں کی مد میں پاکستان کی حکومتیں گلگت بلتستان سے کم از کم 60 ارب روپے سالانہ وصول کرتی ہیں، مگر پھر بھی کہا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہے۔ اس پس منظر میں گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی، مذہبی جماعتوں، طلباء نوجوانوں، وکلاء، محنت کشوں اور دیگر سماجی تنظیموں کی یہ نمائندہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ

1۔ گلگت بلتستان میں اسلام آباد سے براہ راست مسلط کردہ مضحکہ خیز پیکیج پر مبنی اس کھوکھلے نظام کی جگہ عوام کے منتخب نمائندوں کی تیار کردہ ایک عبوری دستور کی بنیاد پر ایک بااختیار اور اندورونی معاملات میں خود مختار اسمبلی کیلئے انتخابات کرائے جائیں۔ اسمبلی کی موجودہ نشتوں کو دوگنا کیا جائے۔ تمام مالیاتی، اقتصادی، انتظامی امور اور اندورنی وسائل سے متعلق قانون سازی کا کلی اختیار منتخب اسمبلی کو دیا جائے۔ جی بی کونسل جو کہ منتخب اسمبلی اور یہاں کے عوام کی مینڈیٹ کی توہین ہے، لہٰذا اسے فوری طور پر ختم کیا جائے۔
2۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ نئی اسمبلی کے الیکشن سے قبل سابقہ مہدی شاہ حکومت کی پانچ سالہ بدعنوانیوں اور اس میں ملوث سابق وزیراعلٰی، گورنر، وزراء، ارکان اسمبلی اور مختلف محکموں کے اعلٰی فسران کا کڑا احتساب کرکے لوٹی ہوئی تمام دولت وصول کی جائے اور ایک موثر اور خود مختار ادارے کے ذریعے تمام کرپٹ عناصر کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں۔

3۔ پورے گلگت بلتستان میں بجلی کے ناقص نظام اور خاص طور پر گلگت سٹی میں بجلی کے بدترین بحران کی بڑی وجہ سابقہ حکومت کی نااہلی کے ساتھ محکمہ واٹر اینڈ پاور میں کرپشن، بدعنوانی کا نتیجہ ہے۔ نام نہاد VIPs کے لئے سپیشل لائنوں کے نام پر 5 میگاواٹ بجلی مختص کرکے انہیں 24 گھنٹہ دی جا رہی ہے جبکہ غریب عوام 20 گھنٹے اندھیروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سپیشل لائنیں عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کی بدترین مثال ہے۔ عوام کی ترقیاتی بجٹ سے پیدا ہونے والی بجلی نام نہاد VIPs کیلئے مختص کرنا ایک قابل نفرت اقدام ہے، جو عوام کو ہرگز قبول نہیں۔ لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر سپیشل لائنوں کے اس قابل نفرت نظام کر ختم کرکے بجلی کی مساوی تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں متعلقہ محکمہ کو ایک ہفتہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اس ہفتہ کے اندر تمام سپیشل لائنوں کو ختم کر دے، بصورت دیگر عوام محکمہ واٹر اینڈ پاور کے دفاتر اور پاور سٹیشنوں کو تالے لگانے میں حق بجانب ہونگے اور اس کے نتیجے میں جو بھی صورت حال پیدا ہوگی، اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت اور انتظامیہ پر ہوگی۔ تمام خراب اور قابل مرمت مشینوں کو دو ہفتوں کے اندر مرمت کرکے فوری طور پر استعمال میں لایا جائے، تاکہ عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نکل سکیں، نیز بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کیلئے ہنزل، چھلمش داس ڈیم سمیت تمام تجویز کردہ منصوبوں پر فوری طور پر کام شروع کیا جائے۔

4۔ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی طور پر حصہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے حکمران یہاں کے عوام پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس لاگو نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ اقدام خود آئین پاکستان کے منافی ہے۔ لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ انکم ٹیکس، کسٹم ٹیکسز اور غیر آئینی و غیر قانونی طور پر لئے جانے والے تمام ٹیکسوں کو ختم کیا جائے اور اب تک یہاں کے عوام سے کسٹم ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس اور دیگر بلواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کردہ آمدنی گلگت بلتستان Consolidated فنڈز میں جمع کیا کرایا جائے اور آئندہ گلگت بلتستان دستور ساز اسمبلی کی منظوری کے بغیر کوئی ٹیکس وصول نہ کیا جائے۔
5۔ معدنیات اور قدرتی وسائل یہاں کی عوام کی اجتماعی ملکیت ہیں۔ انتہائی قیمتی معدنیات کو حکمرانوں نے کمیشن لے کر مختلف بااثر افراد میں بندر بانٹ کیا ہے اور اس طرح اس خطے کو دوسرا بلوچستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں کے عوام اس قومی دولت پر چند افراد کی اجارہ داری اور قبضہ کی اجازت نہیں دے سکتی۔ لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ مختلف افراد کو جاری کئے گئے تمام Leases کو فی الفور منسوخ کیا جائے اور آئندہ مقامی آبادی کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی لیز کسی کو بھی نہ دیا جائے۔ مرکزی حکومت اور مقامی حکومت اس خطے میں موجود ان قدرتی وسائل کو چند بااثر افراد کی جھولی میں ڈالنے کی بجائے اس قومی دولت کو یہاں کے غریب عوام کی اجتماعی ترقی اور فائدے کیلئے استعمال میں لانے کیلئے مقامی عوام کو اعتماد میں لے کر منصوبہ بندی کریں۔

6۔ حکومت نے من پسند افراد کو جو چور دروازے سے بھرتی ہوئے تھے، انہیں ایک کنٹریکٹ ملازمین ریگولیشن ایکٹ کی آڑ میں مستقل کیا ہے، مگر سیپ اساتذہ جو گذشتہ 20 سالوں سے غریب عوام کے بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں، انہیں بلا کسی جواز کے مستقل نہیں کیا جا رہا ہے، اس طرح غیر قانونی طور پر برطرف شدہ لیڈیز ہیلتھ ورکرز جنہیں عدالت عالیہ گلگت بلتستان نے بحال کرنے کا حکم صادر کیا تھا، مگر پھر بھی انہیں بحال نہیں کیا گیا ہے، لہٰذا یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ سیپ اساتذہ کو فوری طور پر مستقل کیا جائے اور برطرف اساتذہ اور لیڈیز ہیلتھ ورکرز کو فی الفور بحال کیا جائے۔
7۔ کرگل اسکردو روڈ سمیت تمام تاریخی راستے کھولے جائیں۔ گلگت بلتستان کے علاقوں پر صوبہ KPK کے ناجائز قبضہ کو ختم کرایا جائے۔ چترال اور کوہستان کے ساتھ سرحدی تنازع تاریخی شواہد کی بنیاد پر طے کیا جائے۔
8۔ گلگت بلتستان میں نام نہاد خالصہ سرکار پالیسی کے تحت عوام کی زمینوں کی بندربانٹ بند کی جائے، جبکہ گلگت بلتستان میں کوئی زمین سرکاری نہیں ہے، لہٰذا خالصہ سرکار کے ظالمانہ قانون کو منسوخ کیا جائے۔ تمام زمینوں پر مقامی آبادی کا حق تسلیم کیا جائے۔

9۔ متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کے تمام مطالبات تسلیم کرکے ڈیم پر کام شروع کیا جائے نیز متاثرین قراقرم ہائی وے کو سالوں سال گزرنے کے باوجود معاوضے نہیں دیئے گئے ہیں، یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ متاثرین KKH کو فی الفور معاوضے ادا کئے جائیں۔
10۔ مٹی کے تیل، گیس اور دیگر اشیاء پر حاصل سبسڈی بحال نہیں کی گئی ہے۔ یہ کانفرنس مطالبہ کرتی ہے کہ ان تمام اشیاء پر حاصل سبسڈی بحال کی جائے۔ گذشتہ روز چیف سیکرٹری گلگت بلتستان نے بجلی کے ریٹس میں اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کسی بھی صورت قبول نہیں ہے۔ یہاں کی بجلی عوام کی ترقیاتی رقوم سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا شوشہ دراصل بجلی بحران کو حل کرنے میں حکومتی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے، لہٰذا یہ کانفرنس حکومت کے اس ظالمانہ اقدام کو مسترد کرتی ہے اور متنبہ کرتی ہے کہ حکومت عوام کا خون چوسنے کی اس ظالمانہ پالیسی سے باز آجائے۔
11۔ گلگت بلتستان میں میڈیکل و انجینئر کالج کا قیام فوری طور پر عمل میں لایا جائے۔

12۔ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ گلگت بلتستان کے طلبہ کیلئے ہائیر ایجوکیشن کی مفت تعلیمی سہولت دینے پر من و عن عمل کیا جائے اور قراقرم یونیورسٹی میں ماسٹرز اور ایم فل کے طلبہ سے فیس وصولی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ یہ کانفرنس گلگت بلتستان میں حکومتی سطح پر ہر ضلع میں ایک ایک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تعلیم کو مفت اور عام کیا جائے۔ گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ نے حال ہی میں پبلک سکول اینڈ کالجز کو سرکاری ادارے قرار دیا ہے، اس لئے دوسرے سرکاری سکولوں اور کالجوں کی طرح تمام پبلک سکولز و کالجوں میں بھی تعلیم مفت فراہم کی جائے۔
13۔ یہ کانفرنس بابا جان، افتخار حسین اور دیگر ساتھیوں کو جعلی مقدمات میں الجھا کر سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے اور سانحہ ہنزہ کے اصل مجرموں کی پشت پناہی اور محرکات کی پردہ پوشی کی پالیسی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسیروں کی فوری رہائی اور بے بنیاد مقدمات کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 428981
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
good
ہماری پیشکش