QR CodeQR Code

امریکہ میں بدامنی اور امریکی معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم اعتماد

31 Dec 2014 17:55

اسلام ٹائمز: کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ کانگریس کے حالیہ انتخابات میں صدر اوباما کی تاریخی شکست کی اہم ترین وجہ امریکہ کے سیاہ فام شہری ہیں، ان انتخابات میں ڈیموکریٹس کی شکست نے ثابت کر دیا کہ امریکی معاشرے کا سیاہ فام طبقہ جس قدر اوباما کو برسراقتدار لانے میں موثر تھا، اسی قدر ان کی شکست میں بھی موثر رہا ہے۔


ترجمہ و تالیف: زیڈ اے ہمدانی

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکی میڈیا پر دو انتہائی اہم واقعات ابھر کر سامنے آئے، جن میں سے ہر ایک کسی بھی حکومت کی عزت اور اعتبار کو ملیامیٹ کر دینے کیلئے کافی تھا۔ ان میں سے ایک واقعہ پولیس کے ہاتھوں بعض سیاہ فام جوانوں کے سلسلہ وار قتل اور قاتل پولیس افسران یا اہلکاروں کا امریکی عدالتوں سے باعزت بری ہو جانا جبکہ دوسرا واقعہ امریکی جاسوسی ادارے سی آئی اے کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے حوالے سے مشکوک افراد کو ٹارچر کرنے کے بارے میں سینسر شدہ رپورٹ کا شائع ہونا تھا۔ دوسری طرف امریکی حکومت کی جانب سے سیاہ فام افراد کے قتل کے خلاف برپا ہونے والے مظاہروں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال اور سی آئی اے کی جانب سے انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں کی مکمل حمایت ان دو انتہائی اہم واقعات پر ردعمل کے طور پر ظاہر ہوئے۔ یہاں کچھ اہم نکات کی جانب توجہ ضروری ہے۔
 
1۔ امریکی صدر براک اوباما گذشتہ دونوں صدارتی الیکشن میں اپنی کامیابی کیلئے امریکہ کی 40 فیصد سیاہ فام آبادی کے ووٹوں کے مرہون منت ہیں۔ وہی سیاہ فام جنہیں آئے دن امریکی پولیس افسران اور اہلکار بغیر کسی عدالتی کارروائی کے خوف کے مختلف طریقوں سے قتل کر دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک کا دن دیہاڑے گلہ دبا دیا گیا، دوسرے کے بدن میں آدھی رات کو 12 گولیاں اتار دی گئیں اور تیسرے سیاہ فام نوجوان کو صرف ایک نقلی پستول ہاتھ میں لینے کے جرم میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس قتل و غارت میں کوئی فرق نہیں کہ قتل ہونے والا شخص ایک 43 سالہ مرد ہو یا 12 سالہ بچہ۔ بس اس کی جلد کی رنگت کا سیاہ ہونا ہی کافی ہے۔ 
 
امریکی معاشرے کا سیاہ فام طبقہ موجودہ صدر براک اوباما سے بہت امیدیں لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی وجہ بھی انتہائی واضح تھی۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا صدر منتخب ہوا تھا جو انہیں کے اپنے طبقے میں سے تھا۔ اس حقیقت کو 2008ء کے انتخابات کے آغاز اور اختتام پر شائع ہونے والے انٹرویوز اور رپورٹس میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے، لیکن ان کی یہ امید زیادہ دیر تک باقی نہ رہی اور انہیں تلخ حقائق سے روبرو ہونا پڑا۔ امریکی سیاہ فام طبقہ اس نتیجے تک پہنچ چکا ہے کہ براک اوباما ان کی خاطر کوئی موثر اقدام انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ شاید اس کی وجہ بعض سیاسی مصلحتیں ہوں۔ لہذا انہوں نے بھی براک اوباما کی اس بے حسی کا جواب دیتے ہوئے امریکی کانگریس کے حالیہ انتخابات میں ان کی پارٹی کی حمایت نہیں کی، جس کے نتیجے میں ڈیموکریٹس کو شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 
 
کوئی اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ 10 نومبر کو امریکی کانگریس کے انتخابات میں موجودہ صدر براک اوباما کی تاریخی شکست کی ایک اہم ترین وجہ یہی سیاہ فام طبقہ تھا۔ ان الیکشن میں ڈیموکریٹس کو ہونے والی سنگین شکست سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے کا سیاہ فام طبقہ جس قدر براک اوباما کے برسراقتدار آنے میں موثر تھا، اسی قدر ان کی شکست میں بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ جرمن نیوز میگزین "اشپیگل" کے کالم نگار کے بقول اگر امریکہ کے سیاہ فام باشندے 2008ء اور 2012ء میں ووٹ دینے آئے تو اس کی وجہ ان میں یہ احساس تھا کہ امریکی پالیسیوں میں ایک گہری تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ اس حقیقت کو امریکہ کے گذشتہ دو صدارتی انتخابات میں شرکت کرنے والے سیاہ فام شہریوں کی تعداد کا مشاہدہ کرکے بخوبی جانا جاسکتا ہے۔ براک اوباما نے انتخابات میں کامیابی کی خاطر عوام کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ ان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں امریکہ میں نسل پرستی کا خاتمہ ہو جائے گا اور صرف ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ پورے امریکہ کو آپس میں متحد کرسکتے ہیں۔ 
 
2۔ امریکی ریاست میسوری کے شہر فرگوسن کی 70 فیصد آبادی سیاہ فام شہریوں پر مشتمل ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس شہر کے محکمہ پولیس میں سیاہ فام پولیس اہلکاروں کی تعداد صرف 3 ہے۔ کیا ایسا کہا جاسکتا ہے کہ نسل پرستی والے ماحول کے حامل ایسے شہر کو جس کی اکثریت سیاہ فام شہریوں پر مشتمل ہے، سفید فام پولیس افسران اور اہلکاروں کے سپرد کرنا محض ایک اتفاق ہے؟ اور اس کے پیچھے نسل پرستانہ تعصب پر مبنی کوئی سوچا سمجھا منصوبہ کارفرما نہیں؟ سگریٹ کے ایک پیکٹ کی چوری جیسے مضحکہ خیز الزام کے تحت سفید فام امریکی پولیس اہلکار کی جانب سے ایک 17 سالہ سیاہ فام نوجوان کے سر اور چہرے پر 12 گولیوں کا داغے جانا اگر ذاتی کینے اور نسل پرستانہ نفرت کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب بعد میں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ مقتول سیاہ فام نوجوان پر چوری کا الزام بھی جھوٹا تھا۔ 
 
امریکہ میں نسل پرستی کی لعنت نہ تو صرف ریاست میسوری کے شہر فرگوسن تک محدود ہے اور نہ ہی اس کی تاریخ گذشتہ ایک دو سالوں میں محدود ہوتی ہے، بلکہ معروف امریکی محقق نوآم چامسکی کے بقول یہ ایک ایسی بیماری ہے جو امریکہ میں جڑیں پکڑ چکی ہے، جس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام شہریوں سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ امریکی حکومت کے شائع کردہ رسمی اعداد و ارقام کے مطابق پورے ملک میں قیدیوں کا 40 فیصد حصہ سیاہ فام امریکی شہریوں پر مشتمل ہے، جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ سیاہ فام امریکی شہری امریکہ کی کل آبادی کا صرف 14 فیصد ہیں۔ 
 
اسی طرح امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007ء سے 2012ء کے دوران امریکی پولیس کی جانب سے "غلطی سے قتل ہونے والے افراد" کی تعداد 2000 سے بھی زیادہ ہے۔ اس بات کو مدنظر قرار دیتے ہوئے کہ یہ رپورٹ 750 ذیلی تنظیموں کی جانب سے 1 لاکھ 17 ہزار پولیس تھانوں کے بارے میں تیار کی گئی ہے، پورے وثوق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں "سلسلہ وار قتل ہونے والے افراد" کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا میڈیا میں اعلان کیا جاتا ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کہ امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کا قتل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت انجام پاتا ہے، صرف اس حقیقت کی جانب توجہ کافی ہے کہ امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شہریوں کی تعداد ایسے ہی سفید فام شہریوں سے 21 گنا زیادہ ہے۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) نے اسی رپورٹ کو کچھ دن بعد ایک نئے انداز میں شائع کیا، جس کے آخر میں یہ تاکید کی گئی تھی کہ امریکی پولیس اہلکار ہر سال کم از کم 400 امریکی شہریوں کو شہروں کے گلی کوچوں میں فائرنگ کرکے ہلاک کر دیتے ہیں۔ زیادہ افسوس والی بات یہ ہے کہ قتل جیسے بھیانک جرم میں گرفتار ہونے اور سزا پانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے بھی کم ہے۔ 
 
3۔ امریکہ میں سیاہ فام جوانوں کے سلسلہ وار قتل اور قاتل پولیس اہلکاروں کا عدالت سے باعزت بری ہو جانے کا اہم ترین نتیجہ امریکی معاشرے میں محکمہ پولیس کی نسبت "بڑھتا ہوا عدم اعتماد" قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جسے امریکی صدر نے ایک "قومی مشکل" قرار دیا ہے۔ براک اوباما نے ملک کے اعلٰی سطحی پولیس افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "پولیس کے اکثر شعبوں اور امریکی معاشرے کے سیاہ فام طبقے کے درمیان عدم اعتماد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف فرگوسن شہر تک محدود نہیں بلکہ ایک قومی مسئلے میں تبدیل ہوچکا ہے، جس سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔" امریکی صدر نے چند دن بعد یہ کہ کر اپنے بیانات کو مکمل کیا کہ "امریکہ میں نسل پرستی کا مسئکہ ایک رات میں حل نہیں کیا جاسکتا۔"  
 
وہ اس امر سے غافل ہیں کہ اس وقت یہ عدم اعتماد صرف سیاہ فام امریکی شہریوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ پولیس کی جانب سے عوامی احتجاج اور مائیکل براون کے بعد مزید چار سیاہ فام شہریوں کے قتل پر بے اعتنائی برتے جانے کے سبب عمومی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اسی تناظر میں معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز، 43 سالہ سیاہ فام شہری "ایریک گارنر" کے قاتل پولیس اہلکار کا عدالت سے باعزت بری ہو جانے کے بعد لکھتا ہے کہ امریکہ کے مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں سفید فام امریکی شہری اور دوسرے شہری ایریک گارنر کے قتل کے خلاف احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ایریک گارنر، اس سال کے شروع میں نیویارک کے علاقے آئی لینڈ اسٹیشن میں ایک سفید فام پولیس افسر ڈینیل پنٹالیو کی جانب سے دن دیہاڑے گلہ دبا کر قتل کر دیا گیا اور حال ہی میں ایک امریکی عدالت نے اس سفید فام پولیس افسر کو باعزت بری کر دیا ہے۔ 
 
4۔ امریکی سینیٹ نے حال ہی میں سی آئی اے کی جانب سے نائن الیون حادثات کے بہانے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مشکوک افراد کو وحشیانہ ٹارچر کا نشانہ بنائے جانے کے بارے میں 499 صفحات پر مشتمل رپورٹ شائع کی ہے۔ اگرچہ اس رپورٹ میں ذکر شدہ سی آئی اے کے غیرانسانی اقدامات رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس رپورٹ میں کوئی نئی چیز سامنے نہیں آئی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ویکی لیکس کے انکشافات کا شور اٹھا لیکن ان میں بھی کوئی نئی چیز نہ تھی۔ البتہ اس رپورٹ کا فائدہ یہ تھا کہ پہلے جو خبریں سی آئی اے کے غیر انسانی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے بارے میں افواہوں کی صورت میں اڑتی پھرتی تھیں، ان کی رسمی طور پر تصدیق ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے گوآنٹانامو بے اور ابو غریب جیسے خوفناک امریکی جیلوں سے رہائی پانے والے قیدی اس ظلم و بربریت کی داستانیں سنا چکے ہیں جو امریکی سکیورٹی اہلکار اعتراف جرم کے بہانے ان پر ڈھاتے رہتے تھے۔ پس یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔؟
 
اس سوال کا جواب امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہریوں کے قتل اور اس کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں پیدا ہونے والے عدم اعتماد سے مربوط ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ میں صدر براک اوباما کی محبوبیت مختلف وجوہات جیسے ان کے دوران صدارت میں طبقاتی فاصلوں کا بڑھ جانا (معروف تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی نئی رپورٹ کے مطابق)، سیاہ فام شہریوں کی سیریل کلنگ، نسل پرستی کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر طاقت کا بے جا استعمال وغیرہ کی بنا پر تیزی سے گر رہی ہے۔ لہذا امریکی سینیٹ جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے، نے ریپبلکنز کی حکومت کے دوران سی آئی اے کے غیر انسانی اقدامات کے بارے میں ایک بے جان اور غیر موثر رپورٹ شائع کرکے براک اوباما کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ سی آئی اے کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل یہ رپورٹ تقریباً 6700 صفحات پر مشتمل تھی، جسے سنسر کرنے کے بعد صرف 449 صفحات پر مشتمل رپورٹ سینیٹ میں پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ 
 
امریکی سینیٹ نے یہ رپورٹ شائع کرکے ایک طرف تو امریکہ کے مایوس اور بے اعتماد معاشرے کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ڈیموکریٹس سے تبدیلی کی امید لگائی جاسکتی ہے، اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ میں اظہار کی آزادی اور جمہوری اداروں کی خود مختاری بہت زیادہ ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں مغرب نواز لکھاری اس رپورٹ کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھیں امریکہ میں اظہار کی آزادی کس قدر زیادہ ہے اور اسے حتی عدالت پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نسل پرستی کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال نہ تو اظہار کی آزادی کے حق میں ہے اور نہ ہی عدالت کے حق میں۔ یہ رپورٹ شائع ہونے کے دو دن بعد ہی امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں نسل پرستی کے خلاف عوام کے ملین مارچ نے ثابت کر دیا ہے کہ اوباما حکومت کا زوال ایسے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے جہاں ایسی گھسی پٹی رپورٹس کو شائع کرکے اسے نہیں روکا جاسکتا۔ 


خبر کا کوڈ: 429492

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/429492/امریکہ-میں-بدامنی-اور-امریکی-معاشرے-بڑھتا-ہوا-عدم-اعتماد

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org