5
0
Tuesday 6 Jan 2015 06:29

سفر عشق

سفر عشق
تحریر: سلمان رضا
salmanrazapk@gmail.com


امسال اربعین حسینی کربلا معلٰی عراق میں کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ خداوند عالم کی خصوصی توفیق کے سبب اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ نجف اشرف پہنچے اور طے کیا کہ یہ سفر عشق نجف تا کربلا پیدل طے کیا جائے۔ چنانچہ روز اربعین سے تقریباً چار روز قبل ابوالائمہ حضرت علی علیہ السلام کے منور روضے پر پہنچ کر محضر امام میں اجازت طلب کی اور پھر سوئے کربلا اپنے سفر عشق کا آغاز کیا۔ جونہی ہم نجف سے کربلا جانے والی مرکزی شاہراہ پر پہنچے تو ایسا محسوس ہوا جیسے عزاداروں کا ایک سمندر سوئے کربلا رواں دواں ہے اور اس سمندر میں کسی صنف کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔ عورتیں ہوں یا مرد، ماؤں کی گودوں میں شیر خوار بچے ہوں یا اپنے باپ کی انگلی تھامے پانچ چھ سال کے بچے، حوزہ علمیہ و دانشگاہ کے طلاب ہوں یا بلند مرتبہ علماء، سبھی اپنے دلوں میں عقیدت کے پھول سمیٹے اور لبیک یاحسین ؑ کے شعار بلند کرتے سوئے منزل رواں دواں ہیں۔ اس کاروان حسینی میں شدید سردی میں بھی ایک بڑی تعداد برہنہ پا سفر کر رہی تھی اور جب ان کے لبوں سے لبیک یاحسین ؑ اور لبیک یازینبؑ کا شعار بلند ہوتا تھا تو بعض کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بھی رواں رہتی تھی۔ 

چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پرچم تھامے سفر کر رہے تھے، جن پر شعار حسینی لکھے ہوئے تھے اور جواں سال عزادار اپنے ہاتھوں میں بلند و بالا حسینی پرچم تھامے اس سفر عشق میں پیش قدمی کر رہے تھے۔ ہم اپنے بیس افراد کے قافلے کے ساتھ اس سمندر میں یونہی شامل ہوگئے جیسے چند قطرے ایک اوقیانوس میں ضم ہوکر اپنی شناخت کھو دیتے ہیں اور پھر ان پر بھی وہی رنگ و بو غالب آجاتا ہے جو اس اوقیانوس کا رنگ ہو۔ گویا کوئی پاکستانی ہو یا ایرانی، افغانی ہو یا عراقی، ہندی ہو یا افریقی اور امریکی ہو یا یورپی، ان سب شناختوں پر جو شناخت غالب آگئی تھی وہ تھی ہم سب حسینی ہیں، ہم سب زینبی ہیں، ہمارے دلوں میں غم حسین زندہ و پائندہ ہے۔ ہمارے دلوں میں ماضی کے یزید اور وقت کے یزید امریکہ و اسرائیل کا کینہ اپنے اوج پر ہے۔ ہمارے راستے میں بنو امیہ ہو یا داعش و تکفیری، کوئی بند نہیں باندھ سکتا۔ ہم حسین ابن علی ؑ کی صدائے استغاثہ ھل من الناصر ینصرنا پر لبیک کہتے ہوئے نکلے ہیں۔ 61 ہجری کی زمانی قید سے آزاد یہ لوگوں کا سمندر زینب سلام اللہ علیہا کے نقش پا پر قدم رکھتا ہوا، خون حسین سے نکلنے والی مقناطیسی لہروں کے درمیان اپنے مرکز یعنی مرقد مطہر امام عالی مقام کی طرف رواں دواں ہے اور اس سمندر میں موجزن حماسی روح اپنے مرکز و محور سے اتصال کے لئے بے قرار ہے۔
 
صبح سے شام تک اس مرکزی شاہراہ کا چپہ چپہ عزاداروں سے بھرا نظر آیا۔ البتہ اس میں ایک امتیاز تھا کہ ماسوائے نماز کے اوقات کے کسی بھی وقت سکوت نظر نہیں آیا۔ جس کسی کو وقتی آرام کرنا ہوتا وہ بغلی سڑکوں پر لگے موکبوں (آرام کے لئے بنائے گئے عارضی مکانات) میں مختصر قیام کرتا، جہاں موجود عراقی میزبان ان زائرین پر وارے نیارے ہوتے دکھائی دیتے۔ کوئی ہاتھ جوڑ کر التماس کرتا کہ کچھ دیر کو اُس سے اپنی ٹانگیں دبوالیں تو کوئی کہتا کہ اُس کے موکب سے چائے پی لیں، کوئی کھانے کے برتن تھامے امام حسین ؑ کی قسم دیتا کہ کھانا کھاؤ تو کوئی آرام کے لئے بستر پیش کرتا۔ مرکزی شاہراہ کی بغلی چھوٹی شاہراہ پر پورا راستہ تقریباً 80 کلو میٹر تک موکبوں اور حسینیوں (امام بارگاہوں) کا تانتا بندھا ہوا تھا، گویا اکثریت پختہ امام بارگاہوں کی تھی، جن میں عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ ہال بنے ہوئے تھے اور پچھلی جانب ٹائلٹس کا انتظام تھا، جبکہ کچھ تعداد ان خیموں کی تھی جن کی دیواریں اور چھتیں پلاسٹک اور کپڑے کی بنی ہوئی تھیں، البتہ میزبانی کا شوق و جذبہ ان پکے کچے موکبوں میں ایک جیسا تھا۔ ہر موکب میں بچوں سے لے کر بوڑھوں تک عراقی میزبان آپ کی خدمت کے لئے بے قرار نظر آتے تھے۔
 
چھوٹے چھوٹے بچے خود کو خدام زائرین حسین ؑ کے طور پر متعارف کروانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ رات کے پچھلے پہر زائرین کو سلا کر دو بچے آپس میں کھیل رہے تھے، جونہی میں اُن کے سامنے آیا تو دونوں نے کھیل چھوڑا اور میرے سامنے آکر پوچھنے لگے کہ کوئی خدمت ہے اے زائر محترم، میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ بچے جن کی ابھی کھیل کود کی عمر ہے، انہوں نے شاید امام عالی مقام کی وہ آواز سن لی ہے کہ جس میں امام نے بنی اسد کے قبیلے کے بچوں سے کہا تھا کہ اگر تمہارے ماں باپ کسی خوف کے باعث ہمیں دفن نہ کرسکیں تو تم کھیل کھیل میں ہمارے جسدوں پر مٹی ڈال دینا۔ اب جب زمانے نے یہ خدمت کسی اور کے مقدر کر دی تو انہوں نے زائرین امام حسین ؑ کی خدمت کو ہی اپنا وظیفہ جان لیا۔ زائرین کے سفر کا یہ سلسلہ بلا تفریق دن و رات جاری رہتا ہے اور پوری رات آپ کو زائرین مرقد امام کی طرف سفر کرتے نظر آتے ہیں، لیکن مغرب کی نماز کے بعد ایک بڑی تعداد استراحت کے لئے ان موکبوں کا رُخ کرتی ہے، ان موکبوں میں نماز کے بعد خصوصی طعام پیش کیا جاتا ہے، گرم بستر ان زائرین کے منتظر ہوتے ہیں اور پھر صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد ناشتہ پیش کیا جاتا ہے اور جونہی یہ زائرین ناشتے سے فارغ ہوتے ہیں تو دوبارہ ویسے ہی کمر بستہ سوئے کربلا اپنا سفر شروع کردیتے ہیں، گویا جونہی ان کے کانوں میں لبیک یاحسین ؑ کی صدا پڑتی ہے، سب کچھ چھوڑ کر خود کو اس قافلے کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
 
اس سفر میں مسلسل حرکت ہے، گویا یہ لوگ تحریک کربلا کا فلسفہ سمجھ چکے ہوں اور ابتدائی طور پر خود کو جسمانی طور پر آمادہ کرچکے ہوں اور پھر اس جسمانی تحریک کے دوران ان پر معنوی تحریک کے اسرار عیاں ہونے لگے ہوں۔ ہم تمام دوست جب کبھی کچھ دیر تک بیٹھتے تو ان پہلوؤں پر گفتگو بھی موضوع سخن بنتی، ایسا معلوم ہوتا کہ یہ لبیک اُسی استغاثہ کے جواب میں ہے، جو امام عالی مقام کی زبان اطہر سے بلند ہوا تھا اور یقیناً ایسا ہی ہے، وگرنہ کسی قوت کے اختیار میں کہاں کہ اس کی تشویق پر کوئی اپنے نوزائیدہ بچوں کو گود میں لئے، برق رفتار سواریاں ترک کئے، گھروں کے نرم بستر ترک کئے، اس سردی کے عالم میں اپنے قدموں پر سفر کرتا ہوا کربلا پہنچے۔ یہاں یہ پہلو ذکر کرتا چلوں کہ اس 80 کلو میٹر طویل راستے پر ہر جگہ موکب لگے ہوئے ہیں، جنہیں کوئی حکومتی سرپرستی حاصل نہیں بلکہ یہ عراقی عوام کی اپنی مدد آپ کے تحت قائم کئے گئے ہیں اور یہاں پر غذا، آرام اور طرح طرح کی خدمات کا انتظام بھی یہ لوگ خود کرتے ہیں، ہم کئی دفعہ یہ سوچ کر دنگ رہ گئے کہ ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کے طعام و قیام پر کتنا خرچ آتا ہوگا اور بالآخر عراقی مومنین میں یہ بلا کا جذبہ کیسے آگیا، جو یہ اپنا کام کاج چھوڑ کر یہاں آ کر ان عارضی قیام گاہوں میں مقیم ہوگئے ہیں اور زائرین کی خدمت میں پورے کے پورے خاندان اپنے تن من سے مصروف عمل نظر آرہے ہیں لیکن پھر ہم خود ہی جواب دیتے کہ قول معصوم کے مطابق قتل حسین میں مومنین کے لئے ایسی حرارت ہے جو قیامت تک کبھی ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ یقیناً یہ وہی حرارت ہے جو ان لوگوں کو مجبور کر دیتی ہے کہ اپنے گھر بار چھوڑ کر اس راہگذار کو آباد کریں۔
 
یہاں عرض کرتا چلوں کہ پچھلے دو سالوں میں اس سفر عشق کو بغداد کی طرف سے کرنے کی توفیق حاصل ہوئی تو اس راستے میں لوگوں کے گھر موجود ہیں اور یہاں باقاعدہ آبادی ہے جبکہ نجف سے کربلا کے راستے میں صرف ایک جگہ بنام حیدریہ آبادی موجود ہے جبکہ بقیہ راستہ میں کوئی آبادی نہیں بلکہ عام دنوں میں ایک دشت کا سا منظر پیش کرتا ہے لیکن ان دنوں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورے کا پورا عراق راستہ میں آکر بس گیا ہے۔ عراقی مومنین کے خدمت کے انداز بھی جدا ہیں، کچھ نوجوان راستے میں اپنے برتنوں میں گرم پانی لئے بیٹھے ہیں، تاکہ یہ زائرین کے قدم دھو سکیں جبکہ کہیں نوجوان فزیو تھراپسٹ کے روپ میں آپ کی تھکاوٹ کا علاج کرنے کے لئے آپ کا مساج کرتے نظر آتے ہیں، جن افراد کو ان موکبوں میں خدمت کا موقع نہیں مل سکا اور ان کے گھر دور ہیں، وہ اپنی گاڑیاں لئے شام کے وقت زائرین کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی قسمیں دیتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم بدقسمت ہیں کہ ہمارے گھر یہاں سے دور ہیں ازراہ کرم ہماری قسمت یاور کر دیں اور ہمارے ساتھ گھر چلیں، ہم صبح آپ کو یہیں چھوڑ دیں گے۔ اگر آپ ان کے ساتھ چل پڑیں تو یہ اپنی پشت پہ آپ کا سامان مزدوروں کی طرح اُٹھاتے ہیں اور آپ کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر پہنچاتے ہیں، پھر سب سے پہلے آپ کی جرابیں اتروا کر دھوتے ہیں اور ان کی عورتیں انہیں استری کے ساتھ خشک کرتی ہیں، تاکہ ان کی بدبو ختم ہوسکے۔ کمروں میں گیس سے چلنے والے ہیٹر سے کمرے گرم کئے ہوئے ہوتے ہیں اور آپ کو اپنا ذاتی بستر پیش کرتے ہیں اور بہترین کھانے اور مشروبات پیش کرتے ہیں اور صبح پھر اسی مقام پر چھوڑتے ہوئے دعا کا کہتے ہیں۔ عراقی مومنین کا جذبہ خدمت ان ایام میں دیدنی ہے اور اس کا مقایسہ کسی دوسرے سے محال ہے۔
 
اس سال زائرین کی تعداد گذشتہ سالوں سے کہیں زیادہ تھی اور پوری دنیا سے لگ بھگ دو کروڑ زائرین نے کربلا کا رُخ کیا، اس کی وجہ شاید فتنہ داعش کی طرف سے آنے والی دھمکیاں تھیں، تاریخ عالم گواہ ہے کہ عشق امام حسین ؑ کے راستے میں جس قدر خوف و ہراس بڑھایا گیا، عاشقان امام حسین ؑ نے اس خوف و ہراس کو پاؤں کی نوک پر رکھتے ہوئے اسی قدر زیادہ اپنے جذبہ ایمانی اور عشق حسینی کا اظہار کیا ہے۔ زائرین کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ جتنے لوگ موکبوں کے اندر رات گزارتے تھے، اسی قدر یا اس سے زیادہ افراد باہر آسمان تلے اس سردی میں رات گزارتے نظر آئے۔ نیچے درّیاں اور اوپر سادہ کمبل اُس ٹھٹھرتی رات میں کبھی کفایت نہ کرسکتے، لیکن جب دلوں میں عشق حسینی کا الاؤ بھڑکتا ہو تو انسان موسم کی شدت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ خود ہمیں پہلی رات آسمان تلے گزارنی پڑی تو ہمارے پاس کمبل نہیں تھے، لیکن موکب میں موجود میزبانوں نے جب دیکھا کہ ہمارے پاس سردی کے بچاؤ کا سامان نہیں تو انہوں نے پہلے اپنی عذر خواہی پیش کی کہ تمام کمبل زائرین کو دیئے جاچکے ہیں اور پھر ان کے دل میں نجانے کیا خیال آیا کہ اپنے لئے بنائے گئے ذاتی کمرے کے پردے اتار کر لے آئے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے کہنے لگے، ہم سے یہی قبول کرلیجئے۔ تمام راستے بڑے بڑے پینا فلیکسز پر امام حسین ؑ سے متعلق اقوال لکھے ہوئے تھے اور وہیں علماء کے اقوال زریں بھی آویزاں تھے۔ اس سال جو ایک مثبت تبدیلی نظر آئی وہ امام خمینیؒ اور رہبر معظم کی تصاویر کی کثیر تعداد میں موجودگی تھی۔ امام اور رہبر کی تصویروں کے ساتھ ساتھ شہید باقر الصدر اور آقائے سیستانی کی تصاویر بھی آویزاں تھیں۔ ایران کے بسیجی نوجوان رہبر کی تصاویر والے بیگ پہنے ہاتھوں میں اُن کے پرچم لئے کس ناز سے اپنے سفر پر رواں دواں تھے، یہ اپنی جگہ دیدنی تھا۔
 
ہم اس اجتماع کو دنیا کا بلا مبالغہ سب سے بڑا اجتماع کہہ سکتے ہیں۔ مجھے حج اکبر کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اجتماع اس حج اکبر سے لگ بھگ آٹھ گنا بڑا اجتماع ہوگا، لیکن حج کے دوران تمام انتظامات سعودی حکومت کے لئے درد سر بنے ہوتے ہیں جبکہ یہاں پر تمام انتظامات اپنی مدد آپ کے تحت عراقی مومنین کرتے ہیں۔ پھر ایسا نظم ہمیں وہاں بھی نظر نہیں آتا اور شاید ایسا ایثار دنیا کے کسی گوشے میں دیکھنے کو نہ ملے۔ ہمیں اس پورے سفر کے دوران وہ لوگ بھی ملے جو گذشتہ 12 دن سے پیدل چلے آرہے تھے، جب ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں سے پیدل آ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ بصرہ سے جو کربلا سے 550 کلو میٹر دور ہے اور بعض افراد تو اس سے بھی دور ایرانی بارڈر سے پیدل چلے آرہے تھے۔ اس سفر کے دوران ہمیں کوئی ایسا زائر نہیں ملا جس نے شکایت کی ہو کہ اس کا بیگ چوری ہوگیا یا خدانخواستہ مستورات کی بے حرمتی کی گئی ہو، جبکہ دو سال قبل جب مصر میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے تو اس تین روزہ دھرنے کے دوران اُس دسیوں ہزار کے اجتماع میں لگ بھگ 96 کیس رپورٹ ہوئے جس میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
 
لیکن آج ہم اقوام عالم کے میڈیا کو دعوت دے سکتے ہیں کہ وہ آئے اور آکر دیکھے کہ اس 20 ملین کے اجتماع میں کسی ایک مقام پر کسی ایک نوجوان کو پیش کر دیں، جو آنکھیں اُٹھا کر خواتین کو گھور رہا ہو اور اگر ایسا ثابت کرنے میں ناکام رہیں تو مان لیں کہ یہ اخلاقی اقدار دنیا کو صرف حسین ابن علی ؑ یا ان کا خانوادہ ہی سکھا سکتا ہے۔ اس سفر کے دوران مومنین کی حماسی اور حربی قوت قابل دید تھی اور امریکہ، اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے پروردہ داعش کے خلاف نفرت والے شعار اور اس کا پینا فلیکسز پر اظہار بھی قابل دید رہا۔ ہم سوچتے رہے کہ جب کبھی اس اجتماع کی رہنمائی کرنے والے کسی رہبر کبیر نے اس لشکر حسینی کو حکم دے دیا کہ اب اپنے سفر کو مقبوضہ فلسطین تک جاری رکھو تو آپ یقین کرلیں کہ ادھر کربلا سے یہ سفر شروع ہوگا اور ادھر تل ابیب میں زلزلہ آجائے گا اور ان جان بکف عزاداران حسینی کے بلند حوصلوں کے سامنے دنیا کا کوئی طاغوت ٹک نہیں سکے گا۔ اس قافلہ عشق کے بیت المقدس پہنچنے سے پہلے ہی صیہونی فلسطین کو خالی کرکے نکل جائیں گے، کیونکہ جب عوام کا سمندر کسی سے مقابلے کی ٹھان لے تو اس کا سامنا وقت کا کوئی فرعون و نمرود نہیں کرسکتا، بس ہمیں بھی اس سفر عشق میں اس آواز کا انتظار ہے۔
خبر کا کوڈ : 430641
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محمد عابس
Pakistan
سلمان صاحب بہت ہی عمدہ۔

جب دلوں میں عشق حسینی کا الاؤ بھڑکتا ہو تو انسان موسم کی شدت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
ahsan
United Kingdom
Very nicely written
Hashim
Pakistan
I think one can not realize the feeling of that journey to Ishq without having to travel towards it. May God bless us that journey every year in our life.
sibtain
Pakistan
تقبل اللہ
saleem raza
Pakistan
masha ALLAH
ہماری پیشکش