0
Thursday 8 Jan 2015 20:02

یارسول اللہ (ص) اگر آپ نہ ہوتے! (1)

یارسول اللہ (ص) اگر آپ نہ ہوتے! (1)
تحریر: سید اسد عباس تقوی 
 
سید المرسلین، امام المتقین و الصالحین، رہبر شہداء و صدیقین، رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، محبوب رب العالمین، شہر علم و عرفاں، شوکت انساں، ساقی کوثر، ظل الٰہی، حسن دو عالم، قرآن مجسم، مہر طریقت، شمس شریعت صاحب ختم نبوت! قارئین کرام میں کیا میری اوقات کیا کہ اس کی تعریف لکھوں جس کی تعریف خود خالق ارض و سماء کرتا ہے۔ کائنات کی وہ ہستی جس پر خدا اور اس کے ملائکہ درود بھیجتے ہیں اور ایمان والوں کو حکم دیا گیا کہ اس پر درود بھیجو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ درست کہتے ہیں اہل علم کہ خدا کا درود، ملائکہ کا درود اور اہل ایمان کا درود ایک نہیں ہوسکتا۔ مجھ جیسا خاکی جب درود بھیجے گا تو ظاہری طور پر فقط لفظوں کا ایک مجموعہ زبان سے ادا ہوگا۔ خدا کی روحانی مخلوق ملائکہ جب سرور کونین پر درود بھیجیں گے تو ان کی ماہیت کیا ہوگی اور جب خود خالق کائنات درود بھیجے گا تو وہ کیا ہوگا؟ لاکھ جتن کر لیجئے لفظوں کی کیا مجال کہ روحانی کیفیات اور مقامات کو بیان کرسکیں۔ یہ ہمارے فکر و خیال کی پرواز سے بلند مقام ہے، اگر اس حکم سے کوئی بات سمجھ آتی ہے تو فقط یہی کہ سوہنا مصطفٰی کسی اتنے اعلٰی و ارفع مقام کا حامل ہے جو ہمارے ذہن نارسا میں نہیں سما سکتا۔
 
کسی نعمت کا موجود ہونا اور اس کا بغیر کوشش کے مل جانا اکثر اس نعمت کی اہمیت کو ہماری نظروں سے پنہاں کر دیتا ہے۔ پس میں نے سوچا کہ غور کروں! اگر آپ نہ ہوتے یعنی اگر یہ نعمت ہمیں نہ ملتی تو کیا ہوتا۔ موضوع بہت طویل ہے، ایک مضمون میں سما جانا ممکن نہیں کیونکہ، قرآن کریم کی بیشتر آیات، سیرت رسول ؐ پر لکھی گئی کتب، شان رسالت میں کہی جانے والی تمام تر نعتیں، رسالت مآب کے نام سے قائم ہونے والے ادارے، ان کی نسبت سے رکھی جانے والی ہر اینٹ حتی کہ زمانہ جاہلیت کا ادب کسی نہ کسی انداز میں اسی نعمت کی مختلف جہتوں کو بیان کرتا ہے۔ خدا سے التجاء ہے کہ وہ ہمیں اس نعمت کی اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ادراک کو ہمارے قلب و روح میں جاگزیں فرمائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کوئی فرق نہ پڑتا، یہ بھی سوچنے کا ایک انداز ہے، تاہم میری نظر میں اگر آپ نہ ہوتے تو ہماری دنیا موجودہ دنیا سے بہت مختلف ہوتی۔

آئیں راہنمائی چاہیں
اس نعمت کے ادراک کا ایک طریقہ یہ ہے کہ میں اپنی فکر کے گھوڑے دوڑاؤں اور کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچوں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں اس سلسلے میں کسی سے راہنمائی لوں۔ قرآن کریم جو اللہ کی آخری اور بے نظیر کتاب ہے اس سلسلے میں متعدد مقامات پر راہنمائی کرتی ہے۔ کہنے کا انداز مختلف ہوسکتا ہے، تاہم جواب اسی سوال کا ہے کہ آپ نہ تھے تو معاشرہ کس طرح کا تھا، اگر آپ نہ ہوتے تو معاشرہ کیسا ہوتا۔
قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے:
کافروں نے کہا کیا ہم ایسے شخص کی طرف تمہاری رہبری کریں جو کہتا ہے کہ اس کے بعد کہ جب تم ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو دوبارہ نئی زندگی حاصل کرو گے۔ کیا اس نے خدا پر جھوٹ باندھا ہے یا اسے جنون ہوگیا ہے۔1
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:
(رسول اللہ) بارہائے سنگین و قیود کو جو ان کے ہاتھ پاؤں کو جکڑے ہوئے ہیں، سے انہیں آزاد کرتے ہیں۔ 2
ایک مقام پر ارشاد باری تعالٰی ہے:
اور اپنی اولاد کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انھیں روزی دیں گے۔ 3 

ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
ہم نے تم پر حرام کیا مردار کا گوشت، خون، خنزیر کا گوشت، وہ جانور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، وہ جانور جس کا گلا دبا کر مارا گیا ہو، وہ جانور جسے لاٹھیوں سے مارا گیا ہو، وہ جانور جو بلندی سے گر کر مرجائے، وہ جانور جو کسی اور جانور کے سینگ لگنے سے مرجائے، وہ جانور جس کو درندے نے کاٹ کھایا ہو مگر یہ کہ مرنے سے قبل اسے ذبح کر لیا جائے، وہ جانور جو بتوں کے سامنے ذبح ہو۔ 4
ایک جگہ فرمایا:
اللہ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا۔ 5
ایک مقام پر فرمایا:
حرام کیں تم پر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنھوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو، تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہارے زیر پرورش وہ لڑکیاں جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن) سے ہیں، جن سے تم صحبت کرچکے ہو اور ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہیں اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو۔ 6
ایک جگہ فرمایا:
تمہارے لئے دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے حلال کیا۔7  

اہل زمین باب العلم کی نگاہ میں:
امیر المومنین (ع) بعثت سے قبل کے معاشرے کی حالت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے۔ اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اُسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ پس خداوند عالم نے آپ ؐ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور آپ کے وجود سے جہالت سے باہر نکالا۔
نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۲ میں بیان کرتے ہیں:
لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی بر سرعام، رحمن کی نافرمانی ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا، اس کے ستون گرگئے تھے اور آثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہرائیں بے نشان ہوگئی تھیں، لوگ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموں پر وارد ہو رہے تھے۔ انھیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اس کے عَلمَ سربلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیرون تلے روند دیا تھا اور سُموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔ یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، ایک ایسے گھر (مکہ) میں یہ لوگ تھے جو خود اچھا مگر اس کے بسنے والے بُرے تھے، جہاں نیند کی بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے، اس سرزمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی اور جاہل معزز و سرفراز تھا۔ 8 

حضرت علی (ع) مزید فرماتے ہیں۔
آپ (ص) کو اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں سرگرداں تھے، فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی، جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے۔ آپ (ص) نے نصیحت کا حق ادا کر دیا، سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔ 9
امیرالمومنین علی (ع) نے اپنے دیگر خطبات میں بھی ان کے حالات کی تصویر کشی کی ہے۔ خطبہ نمبر 156 میں کہتے ہیں:
آپ کو اس وقت رسول بنا کر بھیجا جبکہ رسولوں کا سلسلہ رکا ہوا تھا اور امتیں مدت سے پڑی سو رہی تھیں اور (دین کی) مضبوط رسی کے بل کھل چکے تھے۔ چنانچہ آپ ان کے پاس پہلی کتابوں کی تصدیق اور ایک ایسا نور لے کر آئے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے، یہ قرآن!
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔(ان شاء اللہ)
حوالہ جات
1۔ سبا:7,8
2۔ اعراف :157
3۔ اسراء:31
4۔ مائدہ:3
5۔ البقرہ:275
6۔ النساء:23
7۔ المائدہ :96
8۔ ترجمہ نہج البلاغہ، مفتی جعفر حسین ۔خطبہ نمبر2
9۔ ترجمہ نہج البلاغہ، مفتی جعفر حسین ۔خطبہ نمبر 93
خبر کا کوڈ : 431233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش