0
Friday 9 Jan 2015 12:35

ایس ایس پی چوہدری اسلم شہید کا مشن جاری رکھا جائیگا، پہلی برسی پر ساتھیوں اور اہلخانہ کا عزم

ایس ایس پی چوہدری اسلم شہید کا مشن جاری رکھا جائیگا، پہلی برسی پر ساتھیوں اور اہلخانہ کا عزم
رپورٹ: ایس زیڈ ایچ جعفری

شہر قائد میں مذہبی انتہاپسند دہشتگرد عناصر ہوں یا لسانی دہشتگرد، تمام دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کیلئے خوف کی علامت اور انکے خلاف کامیاب کارروائیوں میں چوہدری اسلم شہید کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ایس ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم شہید کو خودکش حملے میں نشانہ بنے ایک برس بیت گیا، تاہم قاتل اب تک گرفتار نہ ہو سکے، ان کی بیوہ تفتیش سے غیر مطمئن ہیں، بہادر باپ کا بہادر سپوت بھی وطن دشمنوں کے لئے آہنی دیوار بننے کا عزم رکھتا ہے، چوہدری اسلم کے ساتھی کہتے ہیں کہ دہشتگردی کےخلاف چوہدری اسلم کے ادھورے مشن کو پورا کریں گے، چوہدری اسلم پر خودکش حملہ کرنے والے دہشتگرد کی شناخت تو ہوگئی تھی لیکن دیگر ساتھی تاحال پولیس کی گرفت سے باہر ہیں، سینکڑوں دہشتگردوں کو مقابلوں میں ہلاک کرنے والے چوہدری اسلم شہید کے اہلخانہ کو اعزازات اور امداد کے ساتھ دعوے اور وعدے بھی ملے، لیکن پولیس اپنے ہی پیٹی بھائی کے قاتلوں کا ایک سال بعد بھی سراغ نہ لگا سکی۔ تفصیلات کے مطابق 9 جنوری 2014ء کی شام کو ایس ایس پی سی آئی ڈی (انسداد انتہاپسندی سیل) چوہدری اسلم کا اپنی رہائش گاہ واقع کارساز سے شروع ہونے والا سفر آخری ثابت ہوا، کچھ ہی دور لیاری ایکسپریس وے پر وہ پونے 5 بجے پہنچے ہی تھے کہ ان کے قافلے پر خودکش حملہ کر دیا گیا، جس میں وہ اپنے 3 ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔

اس وقت کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن نیاز کھوسو نے بتایا کہ چوہدری اسلم پر حملے میں سوزوکی پک اپ میں خودکش بمبار موجود تھا۔ خودکش بمبار نے جیکٹ پہننے کے علاوہ پک اپ میں رکھے نیلے ڈرموں میں بارودی مواد بھر رکھا تھا، جیسے ہی چوہدری اسلم کی گاڑی اس کے قریب پہنچی، خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، مبینہ خودکش بمبار کی شناخت 26 سالہ نعیم اللہ صدیقی ولد رفیع اﷲ صدیقی کے نام سے کی گئی، جو قصبہ کالونی کا رہائشی اور اس کا آبائی تعلق مہمند ایجنسی سے تھا، نعیم نے عسکری تربیت افغانستان سے حاصل کی، پولیس نے اس کے والد اور بھائیوں سے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ نعیم بدھ کی صبح گھر سے غائب ہوگیا تھا۔ چوہدری اسلم کی گاڑی کے حوالے سے نیاز کھوسو نے بتایا کہ ان کی گاڑی بلٹ پروف تھی، بم پروف گاڑی مرمت کے لئے گئی ہوئی تھی، اسکواڈ میں شامل دوسری موبائل چوہدری اسلم کی دوا خریدنے گئی تھی، جس کی تصدیق سی سی ٹی وی کیمروں سے ہوئی۔

شہید ایس ایس پی چودھری اسلم کی بیوہ بیگم نورین اسلم نے برسی کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ چوہدری اسلم شہید جو کہ ایک بہادر پولیس افسر تھے، ان کے مشن کو جاری رکھا جائے گا، ہمارے حوصلے اور سر فخر سے بلند ہیں، دہشتگرد یہ نہ سمجھیں کہ ان کی بزدلانہ کارروائیوں سے ملک کے محب وطن شہری خوف زدہ و ہراساں ہوں گے، دہشتگردی اور جرائم کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔ بیگم نورین اسلم نے کہا کہ چوہدری اسلم شہید نے غریبوں کی خدمت، عوام کی بھلائی اور دہشتگرد و جرائم کے خلاف جدوجہد کی، جس کی وجہ ہر طبقے کے لوگ ان سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں، چوہدری اسلم کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے تھے لیکن پاکستان بھر کی عوام ان سے محبت کرتی تھی۔ بیگم نورین اسلم نے بتایا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ان کے بچوں کی ایک سال کی اسکول فیس ادا کی ہے، چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد پولیس افسران نے چند دن خبر گیری کی، چند افسران کے تعاون کی مشکور ہوں۔ بیگم نورین اسلم نے بتایا کہ دھرتی کے لئے جان کی بازی ہار دی، اب دھرتی ہمارے لئے تنگ کی جا رہی ہے، اعلیٰ سول ایوارڈز کی تقریب میں ایس ایس پی چوہدری اسلم شہید کی خدمات کو فراموش کر دیا گیا، 2 بیٹوں کی پولیس میں بطور ڈی ایس پی بھرتی کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا ہے، چوہدری اسلم کی شہادت کے بعد 10 ماہ تک بچوں کے ہمراہ گھر میں قیدیوں کی سی زندگی گزاری، بہت جلد چوہدری اسلم شہید کے نام سے ٹرسٹ رجسٹرڈ کراؤں گی۔

انہوں نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ملک بچانے کے لئے عوام کو اٹھنا پڑے گا اور دہشت گردی کے ناسور کو اس دھرتی سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن ہو۔ بیگم نورین اسلام کا کہنا تھا کہ چوہدری اسلم شہید کی برسی کے موقع پر ان کی یاد میں مختلف شہروں میں اجتماعات منعقد کرکے انہیں خراج تحسین پیش کریں گے، فیصل آباد میں بھی ایک بڑا اجتماع ہوگا، جس میں اہم شخصیات شرکت کریں گی، جبکہ چوہدری اسلم شہید کی پہلی برسی پر ایصال ثواب کیلئے بھی کئی اجتماعات اور قرآن خوانی ہوگی، پریس کلب پر شمعیں روشن کی جائینگی۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کی  اہلخانہ کو چوہدری اسلم کی شہادت پر فخر ہے، لیکن ایک شکوہ بھی ہے، کہ سینکڑوں کیسز کی تفتیش کرنے والے چوہدری اسلم کے اپنے قتل کی تحقیقات سرد خانے کی نذر ہوگئیں، اور پولیس اپنے ہی پیٹی بھائی کے قاتلوں کا ایک سال بعد بھی سراغ نہ لگا سکی۔ واضح رہے کہ تحقیقات میں اس پہلو کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ امریکی بلیک واٹر کے لوگوں کے ایسے طالبان عناصر سے بھی رابطے کی اطلاعات ملیں، جو کراچی میں امریکی اشاروں پر کام کرتے ہیں، چونکہ چوہدری اسلم نے امریکی رابطوں میں رہنے والے طالبان عناصر کے خلاف کئی بڑی کارروائیاں کی تھیں، اس لئے چوہدری اسلم کیخلاف ہونے والی دہشت گردانہ کارروائی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، مزید یہ کہ امریکی بلیک واٹر کی جانب سے بھاری معاوضہ کی پیشکش کے باوجود چوہدری اسلم نے انکے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا، اسی لئے امریکی بلیک واٹر نے چوہدری اسلم کو نشانہ بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز کے قارئین کیلئے ایکبار پھر چوہدری اسلم شہید کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی شہر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے چوہدری اسلم کا اصل نام محمد اسلم خان ہے۔ ان کا تعلق نہ تو پنجاب سے تھا اور نہ ہی وہ چوہدری ہیں، لیکن لوگ انہیں چوہدری اسلم کے نام سے ہی جانتے تھے، جس کی وجہ ان کا لباس اور چال ڈھال تھی۔ چوہدری اسلم کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی کے خلاف اپنی کارروائیوں کی وجہ وہ ان کے سب کے بڑے دشمن قرار دیئے جاتے تھے۔ چوہدری اسلم نے 1984ء میں سندھ ریزرو پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر ملازمت اختیار کی تھی۔ 1991ء میں وہ انسپکٹر کے عہدے پر پہنچے اور پہلی مرتبہ کلاکوٹ تھانے کے ایس ایچ او کی ذمہ داریاں سنبھالی جبکہ 1994ء میں گلبہار تھانے کے ایس ایچ او تعینات ہوئے۔ کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہد حسین کے قاتلوں کی گرفتاری کے بعد انہیں 1999ء میں ڈی ایس پی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 2005ء انڈر ورلڈ ڈان شعیب خان کی گرفتاری کے بعد انہیں ایس پی کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا۔ انہیں شہرت لیاری ٹاسک فورس کا سربراہ مقرر ہونے کے بعد حاصل ہوئی۔

کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف انیس سو بانوے اور چھیانوے کے آپریشن میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 2008ء میں انہوں نے بحیثت سربراہ انویسٹی گیشن سیل سی آئی ڈی سول لائن کام شروع کیا۔ 2010ء میں انہوں نے انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کی حیثیت سے دوبارہ سی آئی ڈی جوائن کیا۔ لیاری کے جرائم پیشہ گروہ کے سرغنہ اور کالعدم لیاری امن کمیٹی کے سربراہ رحمان ڈکیت سمیت متعدد سرکردہ جرائم پیشہ افراد انہیں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے، ان پر ماورائے عدالت قتل کے بھی کئی الزامات لگائے گئے، البتہ ان الزامات کی تحقیقات کے بعد انہیں بےقصور قرار دیا گیا۔ چوہدری اسلم کا شمار سندھ میں جرائم پیشہ افراد کے سروں کی سب سے قیمت وصول کرنے والے افسران میں شمار ہوتا تھا۔ چوہدری اسلم پر یہ چوتھا حملہ تھا، اس سے قبل ان کی رہائش گاہ پر 19 ستمبر 2011ء میں بھی حملہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت 8 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا، اس حملے کی ذمہ داری بھی کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔ چوہدری اسلم کی اعلٰی کارکردگی پر انہیں پاکستان پولیس کا تمغہ قائداعظم پولیس میڈل اور تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
خبر کا کوڈ : 431319
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش