0
Friday 9 Jan 2015 17:01

مغربی ذرائع ابلاغ کن اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں؟ (1)

مغربی ذرائع ابلاغ کن اقدار کو فروغ دینا چاہتے ہیں؟ (1)
تحریر: عرفان علی
 
مغربی ذرائع ابلاغ کا اسلام اور اسلامی اقدار سے بغض و کینہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتوں کے سامراجی ایجنڈا کے دفاع میں یہ بسا اوقات کھل کر اور بعض اوقات ڈھکے چھپے انداز میں سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ایک مزاحیہ جریدے چارلی ہیبڈو کے دفتر میں فائرنگ کرکے 12 افراد کو قتل کیا گیا ہے تو نام نہاد آزادی کے منافق علمبردار احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں۔ کوئی یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا کہ اس جریدے نے متعدد مرتبہ پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی شان میں گستاخی کیوں کی، کیوں بار بار تضحیک آمیز کارٹون شائع کئے جاتے رہے۔ اس سمیت بہت سارے دیگر واقعات ہیں کہ ہم خود کو مغربی ذرائع ابلاغ یا مغربی ممالک کی حکومتوں پر تنقید پر مجبور پاتے ہیں۔
 
دنیا میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سمیت کئی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ غیر جانبدار تصور کئے جاتے تھے لیکن بعض ممالک شروع سے ہی ان اداروں کی جانبداری اور تعصب کی شکایت کر رہے تھے۔ امریکی سفارتکار ڈٖینس ککس نے امریکا پاکستان تعلقات پر ایک مفصل کتاب تصنیف کی تو اس میں یہ انکشاف بھی شامل تھا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کو امریکا کے بڑے اخبار نیویارک ٹائمز نے مرد نفرت لکھا تھا، حالانکہ اس دور میں امریکیوں کو پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ امریکا اور اس کی اتحادی یورپی حکومتیں شروع سے ہی یہ تاثر پھیلاتی رہی ہیں کہ ان کے ممالک میں ذرائع ابلاغ آزاد ہیں اور وہ اس معاملے میں شکایت کنندگان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ یہ شکایت کنندگان کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ جن ممالک کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ جانبدارانہ کوریج کرتے تھے، یہ انہی متاثرہ ممالک کے حکمران تھے، لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ ان میں پاکستان کے حکمران بھی شامل رہے ہیں۔ 

پچھلے چند سالوں سے اس غیر جانبداری کا راز کئی مرتبہ فاش ہوچکا ہے۔ یکم فروری 2012ء کو ڈیلی ٹیلی گراف میں کرسٹوفر ہوپ کی رپورٹ شایع ہوئی کہ بی بی سی نے تسلیم کرلیا ہے کہ انہیں یورپی یونین، یورپی انویسٹمنٹ بینک اور اپنے ہی ملک میں مقامی سرکاری شخصیات سے فنڈنگ کی گئی ہے۔ یہ سلسلہ 2008ء سے جاری تھا۔ 28 فروری 2014ء کو دی اسپیکٹیٹر میں مائلس گوسلیٹ نے لکھا کہ دسیوں لاکھ کی یورپی یونین کی فنڈنگ جسے بی بی سی نے چھپانے کی کوشش کی۔ انہوں نے نومبر 2013ء تک کی فنڈنگ کا تذکرہ کیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ نے بعض نامور دولتمند بزنس مین بہت سے بڑے ذرائع ابلاغ کے مالک ہیں اور ان کا ایجنڈا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ امریکا اور برطانیہ کے تھنک ٹینکس بھی بہت سے دولتمند افراد یا کارپوریشن کی فنڈنگ سے چلتے ہیں۔ انہی تھنک ٹینکس سے وابستہ افراد پالیسی ساز حکومتی اداروں کو مختلف ایشوز پر بریف کرتے ہیں اور انہی اسکالرز یا صحافیوں کا نکتہ نظر ذرایع ابلاغ میں پیش کیا جاتا ہے، خواہ میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل میڈیا۔
 
یاد رہے کہ جب ڈونالڈ رمسفیلڈ امریکی وزیر دفاع تھے تو انہوں نے بھی ذرائع ابلاغ کو امریکا کی نفسیاتی جنگ میں استعمال کیا تھا۔ ان کا ایک مقالہ انہی دنوں شایع ہوا تھا، اس میں انہوں نے کہا تھا کہ مستقبل کی جنگ دنیا بھر میں نیوز رومز میں بیٹھ کر لڑی جائے گی۔ یہ مقالہ پاکستان میں انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز میں بھی شایع ہوا تھا۔ امریکا نے افغانستان و عراق جنگوں کے دوران کیمپ وکٹری سمیت کئی اڈوں میں ذرائع ابلاغ کے اڈے بھی قائم کر رکھے تھے۔ صحافیوں کو پیسے دے کر امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی پالیسیوں کے حق میں لکھوایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی ایک مثال فارین سروس جرنل شمارہ اکتوبر 2010ء میں رابرٹ میک میہن کا مضمون بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا عنوان تھا "یو ایس فنڈڈ میڈیا اینڈ دی سافٹ وار ان ایران" یعنی امریکا کی فنڈنگ پر چلنے والے ذرائع ابلاغ اور ایران میں نرم جنگ۔ 

رابرٹ میک میہن کا یہ مضمون امریکا کے نامور تھنک ٹینک کاؤنسل آن فارین ریلیشنز کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اس تھنک ٹینک کے سربراہ رچرڈ اے ہاس ہیں، جو امریکی محکمہ خارجہ میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں اور مشرق وسطٰی اور افغانستان پاکستان کے امور پر بھی امریکی حکومتوں کو مشورے دیتے رہتے ہیں۔ رابرٹ نے لکھا کہ ہمہ وقت نشریات کے ساتھ وائس آف امریکا پرشین نیوز نیٹ ورک سیٹلائٹ ٹی وی اور ریڈیو فری یورپ، ریڈیو فردا امریکی کانگریس (یعنی امریکی حکومت کا طاقتور ادارہ) کی فنڈنگ سے چل رہے ہیں۔ کانگریس یعنی سینیٹ اور ایوان نمائندگان نے 2003ء میں وائس آف امریکا کی فارسی نشریات کے لئے نیا بجٹ منظور کیا۔ اس کا پرشین نیوز نیٹ ورک 2007ء میں شروع ہوا جسے تقریباً ایک کروڑ ڈالر کی فنڈنگ کی جا رہی ہے۔ رابرٹ نے لکھا کہ نقادوں نے اس چینل پر سابق ایرانی شاہ پہلوی کے حامیوں کو زیادہ وقت دینے کا الزام لگایا ہے۔ 

امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے سی این این کے سابق ایگزیکیٹیو ایڈیٹر اسٹیوریڈیسچ نے 20 سالہ کیریئر کے بعد وائس آف امریکا جوائن کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے کئی افراد ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمیں (ایران میں) نظام حکومت کی تبدیلی کے لئے کئے جانے والے کاموں کا حصہ ہونا چاہئے اور ایسے کئی افراد ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم ایران میں بادشاہت کو دوبارہ نافذ کریں۔ امریکا کی فنڈنگ سے چلنے والے نشریاتی اداروں کی نظارت کی ذمہ داری امریکا نے براڈ کاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کو سونپ رکھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نشریاتی ادارے مختلف حکومتوں کے خلاف امریکا کی نرم طاقت ہیں اور ان کو امریکی و مغربی اقدار کی پروجیکشن کے لئے کام کرنا چاہیے۔ یہ اہداف نیوز رپورٹنگ اور ثقافتی و فیچر پروگرامنگ کے ذریعے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے مسلم ممالک کے عوام تک ان اقدار کو پہنچانے کے لئے اپنے سرکاری نشریاتی اداروں کے لئے زیادہ رقوم منظور کی ہیں۔ افغانستان و عراق جنگوں کے بعد ایران کی تزویراتی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے مذکورہ بالا اقدامات کئے گئے۔ ایلیکس ویٹنکا 2007ء سے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ واشنگٹن سے قبل وہ لندن میں مقیم تھے۔ مشرق وسطٰی اور خاص طور پر ایران کے امور پر لکھتے اور بولتے ہیں۔ انہوں نے پرشین نیوز نیٹ ورک کے طنز و مزاح پر مبنی پروگرام کے بارے میں کہا کہ یہ اشتعال انگیز ایشوز کو پیش کرنے کی اچھی کوشش ہے۔
 
بی بی سی نے 2009ء میں ایرانی الیکشن میں شکست فاش کو تسلیم نہ کرنے والوں کی جانب سے فسادات کے بعد چوبیس گھنٹوں کی فارسی نشریات شروع کی۔ یہ ٹائمنگ بھی معنی خیز تھی کہ بی بی سی کو یورپی یونین اور برطانوی سرکاری شخصیات کی جانب سے فنڈنگ کے بعد فارسی ٹی وی سروس شروع کی گئی۔ ایران میں صورت حال یہ تھی کہ ایک مرتبہ محرم میں بی بی سی فارسی سروس پر حضرت عباس علمدار کو امام حسین علیہ السلام کا برادر ناتنی کہا گیا، جس پر ایران کے عوامی حلقوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اصل میں امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک سرد جنگ دور کی سیاست پر ہی گامزن ہیں۔ سوویت یونین کے سقوط کے بعد انہوں نے کھل کر اسلام و مسلمین کو کمیونزم اور کمیونسٹوں کا مترادف قرار دیا۔ وہ اسلامی اقدار اور سلامی سیاست یا اسلامی جمہوریت کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ اقتصادی سیاسی نظام کے تحفظ کے لئے سیکولر لبرل مغربی نظریات کو دنیا پر مسلط کرنا چاہتے تھے۔ انہیں زیادہ کام نہیں کرنا پڑا کیونکہ ان کے پاس سوویت یونین کے خلاف آزمائے گئے نسخے موجود تھے اور ان کا ان نسخوں کو آزمانے کا عملی تجربہ بھی تھا، اس لئے انہیں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 431372
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش