0
Tuesday 13 Jan 2015 10:57

سعودی عرب کی جانب سے تیل کا بطور ہتھیار استعمال

سعودی عرب کی جانب سے تیل کا بطور ہتھیار استعمال
ترتیب و تنظیم: ایس این حسینی

دنیا بھر میں موجود تیل کے ذخائر میں سے 13 فیصد سعودی عرب میں ہیں اور آئل شیل کے مقابلے میں سعودی عرب کے کنووں سے تیل نکالنا کہیں سستا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تیل کی عالمی منڈی میں سعودی عرب کو جو اثر رسوخ حاصل ہے وہ کسی اور ملک کو حاصل نہیں، سعودی عرب نے سستا تیل فراہم کرنے کا فیصلہ کرکے اگرچہ امریکی آئل کمپنیز شیل کو نقصان پہنچایا ہے، تاہم سعودی عرب کا اصل ہدف روس اور ایران ہیں۔ چنانچہ اس معاملے پر اس نے امریکی خارجہ پالیسی میں بالواسطہ معاونت کرکے امریکہ کی نمک حلالی کی ہے۔ اس حوالے سے اگر سعودی عرب کا حربہ کامیاب رہا تو امریکہ کے حریف ان دونوں ممالک کی معیشت تباہی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔

تیل قیمتوں میں کمی کے روس پر اثرات:
تیل کی قیمتیں کم ہونے سے روس کو آئندہ ایک برس میں 80 ارب ڈالر کا بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ امریکی ادارے انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2013ء میں روس کی کل برآمدات 527 ارب ڈالر تھیں۔ اس رقم کا 68 فیصد حصہ تیل و گیس کی برآمد سے حاصل ہوا۔ اس عرصے میں تیل کی اوسط قیمت 108 ڈالر فی بیرل رہی۔ 2013ء میں خام تیل کی برآمد سے روس نے 197 ارب ڈالر کمائے۔ تاہم اگر رواں برس تیل کی قیمت 60 ڈالر کے لگ بھگ رہتی ہے، تو روس کو اس مد میں صرف 95 ارب ڈالر کی آمدن ہوگی۔ روس خام تیل اندرون ملک بھی فروخت کرتا ہے۔ اسکے علاوہ تیار پٹرولیم مصنوعات (پٹرول، ڈیزل وغیرہ) کی بیرون ملک فروخت سے بھی اسے آمدن حاصل ہوتی ہے۔ اس مد میں بھی اسے تقریبا ایک ارب ڈالر نقصان کا خدشہ ہے۔

اس صورت حال میں روس کے زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کا شدید خطرہ ہے۔ جبکہ اسکا آغاز پہلے ہی ہو چکا ہے۔ ابتدائی تخمینوں کے مطابق روس کی جی ڈی پی گروتھ میں دسمبر تک اعشاریہ 5 فیصد سے زائد کمی آگئی تھی۔ روسی حکومت پہلے ہی اپنے ملک کی پانچ بڑی کمپنیوں کو اپنے پاس موجود غیر ملکی کرنسی کی کچھ مقدار مقامی کرنسی میں تبدیل کرانے پر مجبور کرچکی ہے۔ گو کہ روس کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر 400 ارب ڈالر ہیں، اور فوری طور پر اسکی معیشت بیٹھنے کا کوئی اندیشہ نہیں۔ لیکن آنے والے وقت میں روسی معیشت میں 4.7 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ تیل قیمتیں کم ہوئے چند ماہ ہی گزرے ہیں اور روس میں اقتصادی بحران کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کریمیا پر قبضے کی وجہ سے روس کے خلاف پہلے ہی مغربی ممالک پابندیاں عائد کرچکے ہیں۔ روسی وزیر خزانہ کے مطابق ان پابندیوں سے سالانہ 40 ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔ اب تیل کی مد میں 80 ارب ڈالر سالانہ نقصان سے روس کے مجموعی نقصانات کم از کم 120 ارب ڈالر سالانہ ہو جانے کا اندیشہ ہے، جو کہ ایک بڑی رقم ہے۔

گو کہ اوپیک کے عہدیدار اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ تیل پیداوار کم نہ کرنے کے کوئی سیاسی محرکات ہیں، تاہم روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نومبر میں کہہ چکے ہیں کہ سیاسی منصوبہ بندی کے تحت تیل قیمتوں میں کمی کرائی گئی ہے۔ پیوٹن نے نومبر میں اوپیک کے اجلاس کے دوران اپنے دو اہم عہدیدار ویانا بھیجے تھے۔ روسی تیل کمپنی روسنفٹ کے چیف ایگزیکٹو ایگور سیکن اور وزیر تیل الیگزینڈر نوواک نے ویانا کے ایک ہوٹل میں اوپیک ممالک کے عہدیداروں کو تیل پیداوار میں کمی پر راضی کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

باور کیا جاتا ہے کہ اسرائیل مخالف واحد عرب ملک شام کی حمایت کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر سعودی عرب روس اور ایران کو سزا دینا چاہتا ہے۔ تاہم تیل کی پیداوار کم کرنے سے سعودی عرب کے انکار کو 2009ء کی صورتحال سے بھی جوڑا جارہا ہے، جب روس نے سعودی عرب سے اتفاق کیا تھا کہ اگر اوپیک نے پیداوار کم کی، تو وہ بھی تیل نکالنے کا تناسب کم کردے گا۔ لیکن جب تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں تو روسی حکومت نے پیداوار میں کوئی کمی نہیں کی۔ اور وہ ریونیو بھی سمیٹ لیا، جو اوپیک کے حصے میں آنا تھا۔ نومبر میں اوپیک کے اجلاس سے پہلے بھی روس نے یک طرفہ طور پر قیمتیں کم کرنے سے انکار کیا تھا، کیونکہ روسی حکومت تیل کی آمدن میں اپنا حصہ نہیں کھونا چاہتی۔ سعودی عرب کے مقاصد خواہ کچھ بھی ہوں، اس نے روس اور ایران کے خلاف امریکی خارجہ پالیسی میں واشنگٹن کی مدد ضرور کی ہے۔

تیل کی قیمتوں کے ایران پر منفی اثرات:

کچھ اسی قسم کی صورتحال ایران کے معاملے میں بھی پیدا ہو رہی ہے۔ سخت عالمی پابندیوں کے باعث ایران کی معیشت کا بیشتر انحصار تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدن پر ہے۔ گو کہ ایران میں تیل کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں، تاہم عالمی پابندیوں کے سبب یہ ملک صرف 27 لاکھ بیرل یومیہ ہی تیل برآمد کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایک تخمینے کے مطابق، اگر ایران 27 لاکھ بیرل یومیہ تیل برآمد کرتا رہے اور اوسط قیمت 130 ڈالر فی بیرل ہو، تو تب ہی اسکے 2015ء کے بجٹ اخراجات پورے ہوسکیں گے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل پر رہنے کی صورت میں ایران کو زبردست خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایران کے وزیر تیل بیژن نامدار زنگنہ کے حالیہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتحال آئی ایم ایف کے اندازے سے بھی سنگین ترہے۔ ایرانی اخبار ‘‘شرق’’ نے پیر کو وزیر تیل کا بیان شائع کیا، جس کے مطابق ایران کی تیل برآمدات صرف 10 لاکھ بیرل یومیہ رہ گئی ہیں۔ وزیر تیل نے برآمدات میں کمی کی وضاحت نہیں کی۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ تیل قیمتوں میں حالیہ کمی کے محرکات سیاسی ہیں۔ ایران کے زر مبادلہ کے ذخائر 68 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ 2011ء میں یہ ذخائر 100 ارب ڈالر تھے۔ تیل کی موجودہ قیمتوں کے سبب ایران کے زر مبادلہ کے ذخائر پر دباو میں اضافہ ہوگا۔

ان حالات میں ایران کے پاس یہی راستہ ہے کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار بڑھائے اور دیگر مصنوعات کی برآمد میں بھی اضافہ کرے لیکن اس مقصد کے لئے پہلے اسے عالمی پابندیاں ختم کرانا ہوں گی۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ نواز ‘‘العربیہ’’ ٹیلی ویژن کی ایک ایرانی تجزیہ کار کامیلا انتخابی کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ایران اپنے ایٹمی پروگرام کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ معاہدے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ اور اسکے اشارے پر مغربی ممالک ایران کو ایٹمی پروگرام ترک کرنے پر مجبور کررہے ہیں اور اس کے خلاف پابندیاں بھی اسی بنا پر لگائی گئی ہیں۔ العربیہ کے تجزیے کے مطابق (کسی معاہدے کے بعد ) ایران اپنی تیل پیداوار بڑھائے گا، جسکے نتیجے میں سعودی عرب پر دباو بڑھے گا اور اس سے امریکہ اور ایران دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے۔ بعض دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الوقت ایران لبنان میں موجود اپنی اتحادی تنظیم حزب اللہ کی مدد کرنے کے قابل بھی نہیں رہا، جس نے اسرائیل کے دانت کاٹنے کے بعد شام کے تنازعے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

کیا تیل کی قیمتوں میں کمی سیاسی ہے؟
تیل قیمتوں میں کمی کے سیاسی محرکات سے انکار کرنے کے باوجود اوپیک کے سیکریٹری جنرل عبد اللہ البدری نے ایک دلچسپ بیان دیا، جسے تردید نما تصدیق کہا جاسکتا ہے۔ دسمبر میں انکا کہنا تھا، کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا ہدف امریکہ اور شیل آئل ہیں، یہ سب غلط ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس کا ہدف ایران اور روس ہیں، یہ بھی غلط ہے۔ دوسری جانب ایران کے معاملے میں سعودی عرب کا حربہ کافی خطرناک دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ اگر تیل قیمتوں میں کمی کے باعث ایران مغربی ممالک کے ساتھ معاہدے پر مجبور ہوا اور پابندی ہٹنے کے بعد اس نے اپنی پیداوار بڑھائی، تو العربیہ کی ایرانی تجزیہ کار کی پیش گوئی کے عین مطابق سعودی عرب کو تیل کی منڈی میں اپنا حصہ بچنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔

تیل کی قیمتوں میں کمی کے خود سعودی عرب پر منفی اثرات:
سعودی عرب نے قیمتیں گرنے کے باوجود تیل پیداوار کم نہ کرنے کا فیصلہ اپنے زر مبادلہ کے وسیع ذخائر کے بھروسے پر کیا ہے۔ جو اس وقت 800 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ اوپیک میں سعودی عرب کے قریبی اتحادی ممالک متحدہ عرب امارات، قطر، عمان اور کویت کے پاس بھی زر مبادلہ کے خاطر خواہ ذخائر موجود ہیں جبکہ سعودی عرب کی طرح ان ممالک کے بجٹ کا مکمل انحصار بھی تیل سے ہونے والی آمدن پر ہے۔ سعودی عرب کے وزیر تیل علی النعیمی کہہ چکے ہیں کہ اگر تیل کی قیمت 20 ڈالر فی بیرل پر آگئی، تو بھی 96 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار جاری رکھی جائے گی۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق اوپیک کے بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب خاموشی سے اپنی پیداوار میں 10 لاکھ بیرل یومیہ اضافہ کرکے تیل کی قیمتوں کو تیزی سے نیچے لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسا ہو تو ایران اور روس کو شدید دھچکہ پہنچے گا۔ امریکی شیل آئل کمپنیاں بھی مزید نقصان اٹھائیں گی، امریکی شیل کمپنیاں بھی مزید نقصان اٹھائیں گی۔ لیکن طویل عرصے تک تیل کی قیمتیں نیچے رہنے سے سعودی عرب اور اسکے اتحادی ممالک کے زر مبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے گھٹتے جائیں گے۔ جس سے انکی معیشت پر شدید دباو پڑے گا۔ مشرق وسطیٰ کے سب سے بڑے سرمایہ کار سعودی شہزادہ ولید بن طلال نے حال ہی میں علی النعیمی کی حکمت عملی پر شدید تنقید کی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ 100 ڈالر فی بیرل سے کم قیمت پر تیل فروخت کرنے سے سعودی عرب کی معیشت تباہ ہو جائے گی۔

سعودی حکومت نے رواں سال ترقیاتی منصوبوں پر مزید رقم خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ تیل سے حاصل ہونے والی آمدن کم ہوجائے گی۔ اگر تیل کی قمتی 60 ڈالر فی بیرل رہی تو 2015ء میں تیل کی فروخت سے 715 ارب ریال حاصل ہونے کا تخمینہ ہے۔ جبکہ 2014ء میں یہ رقم 855 ارب ریال تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے زر مبادلہ کے ذخائر کو استعمال کرنے کا فیصلہ انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ مغربی ممالک میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کی ایجاد اور توانائی کے متبادل ذرائع سامنے آنے کے بعد آنے والے وقت میں تیل کی طلب میں کمی آسکتی ہے۔ سعودی عرب نے اگر اب اپنے زرمبادلہ ذخائر خرچ کرڈالے تو ممکن ہے آئندہ اسے کبھی اپنی مرکزی بینک میں غیر ملکی کرنسی کا اتنا ڈھیر لگانے کا موقع نہ ملے۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب 800 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تیل کی قیمتیں اوپر جانے کی بدولت ہی جمع کرسکا ہے۔ برطانوی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ سعودی وزیر تیل علی النعیمی نے تیل قیمتوں میں کمی کا فیصلہ شاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کی حمایت سے کیا ہے۔ لیکن سعودی شاہ کی صحت خراب ہے اور کسی بھی سیاسی عدم استحکام کی صورت میں علی النعیمی اپنے فیصلے واپس لینے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے برعکس خلیجی تجزیہ نگار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی معیشت تیل قیمتیں کم ہونے کا جھٹکا آسانی سے برداشت کرسکتی ہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو وہ اپنی مالیاتی پالیسی میں رد وبدل کرلیں گے۔ ان ممالک میں سب سے زیادہ کویت اور قطر کی معیشت مضبوط ہے۔ کویت کے پاس 34 ارب ڈالر اور قطر کے پاس 46 ارب ڈالر سے زائد کا زر مبادلہ موجود ہے۔ متحدہ عرب امارات کے زر مبادلہ ذخائر 60 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں۔ تاہم عمان اور بحرین کی حالت اتنی بہتر نہیں۔ یہ دونوں ممالک تیل سے حاصل ہونے والی آمدن سے بمشکل اخراجات پورے کررہے تھے۔ بحرین کو بجٹ پورا کرنے کے لئے دیگر شعبوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے۔

خلیجی ممالک کا بجٹ خسارہ:
سرمائے کے حوالے سے اہم تجزیاتی رپورٹس فراہم کرنے والی ایجنسی موڈیز کے مطابق 2015ء میں بحرین اور عمان کا بجٹ خسارہ بڑھ کر 7 فیصد ہوجائے گا۔ سعودی عرب پہلی بار بجٹ خسارے کا شکار ہوگا۔ تاہم کویت اور قطر اپنے کم بجٹ اخراجات کی وجہ سے اس سال خسارے کا شکار نہیں ہوں گے۔ اگر تیل قیمت زیادہ عرصے تک کم رہتی ہے تو سب سے پہلے بحرین اور عمان کی کمر ٹوٹے گی۔ معاشی زوال کے اثرات ان ممالک کی سیاسی صورت حال پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ امریکی روزنامہ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق تیل سے حاصل ہونے والی آمدن کی بدولت چند سال قبل خلیج تعاون کونسل کے اراکین اپنے ممالک میں مصر اور تیونس جیسی عوامی بغاوتیں روکنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے انہوں نے سکولوں، ہسپتالوں، گھروں اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں کا آغاز کیا تھا۔ اب اگر یہ ممالک بجٹ میں کمی لانے پر مجبور ہوئے تو نہ صرف عوام میں بے چینی پھیلے گی، بلکہ ان منصوبوں پر کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی متاثر ہوں گی متحدہ عرب امارات میں ابوظہبی نے 2017ء تک 90 ارب ڈالر کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کررکھا تھا۔ چنانچہ ان پر کام بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے خلیج تعاون کونسل کے ممالک کو اپنے بجٹ اخراجات میں توازن لانے کی تنبیہہ کر دی ہے لیکن اخراجات میں کمی کا مطلب ملکی معیشت کو سست کرنا ہے، جس کا اثر براہ راست عوام پر پڑے گا۔ جبکہ دبئی کی سٹاک مارکیٹ پہلے ہی مندی کا شکار ہے۔ لاکھوں افراد کی ملازمتیں خطرے میں پڑچکی ہیں۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کے مطابق امارات میں ڈیڑھ لاکھ برطانوی کارکن مقیم ہیں۔ لیکن اب خدشہ ہے کہ وہ واپس آنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ تیل قیمتیں طویل عرصے تک کم رہنے کی صورت میں خلیج تعاون کونسل کی معیشت متاثر ہوگی۔ جس کے اثرات عوام پر بھی مرتب ہوں گے اور اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 432141
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش