2
0
Tuesday 13 Jan 2015 23:36

مغربی دنیا توہین رسالتﷺ پر کمر بستہ کیوں؟

مغربی دنیا توہین رسالتﷺ پر کمر بستہ کیوں؟
تحریر: عرفان علی 

میری غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ اس اہم ترین مسئلے پر خاموش رہوں۔ میرے لئے یہ زندگی اور موت کا سا مسئلہ ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بدھ 7جنوری 2015ء کو فرانس کے ہفت روزہ اخبار چارلی ہیبڈو کے پیرس میں واقع دفتر میں گھس کر فائرنگ کرنے والوں نے 12 افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ ہلاکت بلاوجہ نہیں ہوئیں۔ اس جریدے نے متعدد مرتبہ پیامبر اعظم حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے تضحیک آمیز کارٹون شائع کئے۔ فرانس کا اسلام دشمن سیکولرازم اور لبرل ازم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ فرانس کی سفید نسل پرستی کا منہ بولتا ثبوت وہاں کے غیر سفید فام شہریوں کے علاقے ہیں۔ 6 کروڑ 60 لاکھ آبادی پر مشتمل فرانس میں مسلمانوں کی آبادی 50 لاکھ سے زائد ہے۔ غالباً یورپی ممالک میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں ہی آباد ہیں۔ نہیں معلوم کہ ان مسلمانوں کو وہاں ایسی کونسی اچھائی نظر آئی کہ انہوں نے فرانس کو مادر وطن بنا لیا۔ الجزائر، شام و لبنان سمیت کئی مسلمان ممالک پر سامراجی تسلط جمانے والے فرانس کے عالم اسلام سے کوئی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ عرب دنیا زیادہ بہتر جانتی ہے کہ فرانس سامراج نے ان کے ساتھ کیا کیا۔
 
12 افراد کے قتل کو فرانس کا نائن الیون قرار دینے والے اس سبب کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جس معصوم ترین ہستی کی شان میں گستاخی پر مبنی تضحیک آمیز کارٹون شائع کئے گئے، اس کے پیروکار، اس کے عاشق، شمع رسالت پر پروانہ وار جان نچھاور کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ مسلمانوں کا مکتب عشق ہے اور اس عشق کی مرکزیت محمد (ص) کا نام نامی ہے۔ ہمارے لئے تو۔۔’’نام احمد (ص) نام جملہ انبیاء است ۔‘‘ اس بابرکت نور مجسم کے لئے علامہ اقبال نے یوں ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ
کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
کوئی مسلمان ہو اور اس شعر کا مصداق نہ ہو ایسا ممکن ہی نہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں مغرب کا یہ سیاہ چہرہ چھپایا نہیں جاسکتا۔ جنہیں انسانوں کی زندگی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ رائے کی آزادی کی کیا بات کر رہے ہیں۔ چہ عجب۔ ان مغربی ممالک میں کتے بلے زیادہ اچھے ماحول میں پلتے ہیں۔ فرانس کی حکومت اور نسل پرست سفید فام معاشرہ دنیا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ کرسٹائن توبیرا کو فرانس کا وزیر انصاف بنانے سے بھی یہ داغ دھل نہیں سکا۔ اس افریقی نژاد خاتون کو ایک سفید فام 12 سالہ بچی نے کہا کہ اے افریقی بندریا! جاؤ اور جاکے کیلے کھاؤ، لیکن وہ بے چاری بچی اور کیا کہتی، خاتون وزیر ہم جنس شادیوں کے قانون کی حامی ہیں اور وہ بچی اپنے والدین کے ساتھ اس کے خلاف احتجاج کرنے آئی تھی۔ فرانس میں ان غیر انسانی اقدار کی آزادی ہے۔ افریقی نژاد خاتون وزیر پر تنقید اس کے رنگ کی وجہ سے کی گئی تھی اور اس بچی کے والدین اس فقرے پر بہت ہی خوش دکھائی دیتے تھے۔ 

ممکن ہے کہ اس مسئلے میں آپ کو نسل پرستی کے بجائے کوئی اور زاویہ نظر آئے، لیکن ایک عام فرانسیسی جو سفید فام نہیں، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ فرانس میں تیسرے درجے کے شہری شمار کئے جاتے ہیں۔ یورپ کے اہم ملک اٹلی میں افریقی نژاد خاتون سیسل کائنج کو وزیر بنایا گیا تو اس پہلی سیاہ فام وزیر کو وہاں کے سینیٹر رابرٹو کالڈیرولی نے بن مانس کے مشابہ قرار دیا۔ فرانس کے مسلمانوں کی اکثریت الجزائر، تیونس اور مراکش سے نقل مکانی کرکے وہاں مقیم ہونے والوں پر مشتمل ہے۔ سفید فام فرانسیسی اور ان مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح کا موازنہ کیا جائے تو تقریباً 70 فیصد زیادہ مسلمان بے روزگار نظر آئیں گے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی کی وجہ سے اسلام سے خوف فرانس کی قدیمی آبادی میں سرایت کرچکا ہے۔ اسلام کو خطرہ بناکر پیش کرنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 2020ء تک فرانس مسلمان اکثریتی ملک بن جائے گا۔
 
چارلی ہیبڈو کا جرم ناقابل معافی تھا اور اس کی مخالفت ہونی چاہئے تھی، لیکن اس کے برعکس یورپی ممالک نے اس کے جرم کی پردہ پوشی کرنے کے لئے اس کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور تضحیک آمیز کارٹونوں کو دنیا بھر میں شائع کیا گیا۔ جرمنی میں بھی یہ حرکت کرنے والے ایک اخبار پر حملہ ہوچکا ہے۔ امریکہ کہے گا کہ اس کا اس جرم سے کوئی تعلق نہیں تو پھر نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ میں چارلی ہیبڈو کے دفاع میں متواتر مقالے کیوں شائع کئے جا رہے ہیں؟ فرانس کے صدر ہوں یا دیگر مغربی حکمران، حقیقت یہی ہے کہ ان کا اور مغربی ذرائع ابلاغ کا اسلام اور اسلامی اقدار سے بغض و کینہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ مغربی ممالک کی حکومتوں کے سامراجی ایجنڈا کے دفاع میں یہ بسا اوقات کھل کر اور بعض اوقات ڈھکے چھپے انداز میں سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ اب چارلی ہیبڈو کی آڑ میں نام نہاد آزادی کے منافق علمبردار احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کوئی یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا کہ اس سمیت بہت سارے دیگر واقعات ہیں کہ جس سے امریکہ اور یورپی ممالک کی بددیانتی ثابت ہوچکی ہے۔
 
افغانستان اور عراق کے شہریوں کا قتل عام کرنے والے امریکہ اور اتحادی یورپی ممالک کس منہ سے رائے کی آزادی کے اظہار کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے انسانی زندگی کے حق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رکھا ہے۔ انسان بچے گا تو کوئی رائے پیش کرے گا۔ طالبان اور القاعدہ آج بھی پہلے سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں اور لاکھوں بے گناہ انسان بے جرم و خطا امریکی، یورپی جنگوں میں جانیں گنوا چکے ہیں۔ توہین رسالت (ص) کے مجرموں کے خلاف عالم اسلام کے غم و غصہ کو القاعدہ جیسے گروہوں پر ذمے داری ڈال کر رائے عامہ کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ مغربی ممالک کے عوام یعنی ان کی خاموش اکثریت کو سڑکوں پر آکر بولنا ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا کہ پیامبر اعظم حضرت محمد (ص) کی توہین کرکے مغرب، اسلام سے دوستی کی توقع نہ رکھے۔ انہیں اپنی حکومتوں کو بتانا ہوگا کہ القاعدہ اور طالبان جیسے دہشت گردوں کو پیدا کرنے والوں میں تم خود اور تمہارے انٹیلی جنس ادارے شامل ہیں۔ اپنی سیاہ کاری کو عالم اسلام کے ناپسندیدہ و قابل مذمت تکفیری دہشت گردوں پر ڈال کر عالم اسلام کی رائے عامہ کو اپنے حق میں نہیں کرسکتے۔ 

او آئی سی اور عرب لیگ خاموش ہیں۔ ترکی کا رجب طیب اردوغان اب ڈرامہ ختم کرو۔ تمہارا اپنا وزیراعظم داؤد اوغلو بھی پیرس میں اسلام دشمن ریلی میں صہیونی دہشت گرد وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ شریک تھا۔ فرانسواں ہولینڈ کے سیدھے ہاتھ کی طرف نیتن یاہو اور بائیں رخ پر ترکی کے وزیراعظم اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس بھی وہاں تھے۔ اردوغان اپنی بتاؤ کہ ترک حکومت کا سربراہ وہاں کیوں تھا؟ ان خائنوں کی موجودگی اپنی جگہ لیکن امت اسلام پوری دنیا میں باآوز بلند یہ پیغام نشر کر رہی ہے کہ عالم اسلام کو سعید قواشی یا شریف قواشی برادران کا قصہ مت سناؤ۔ یمن کی القاعدہ تو عید میلادالنبی ﷺ منانے والے حوثیوں کو قتل کر رہی ہے، تمہارا یہ الزام انہیں عالم اسلام کا ہیرو بنانے کے لئے ہے، تاکہ انہیں یمن میں عوامی حمایت ملے، لیکن عالم اسلام کا شعور بلند ہے اور اس پورے قضیے کا اصل ہدف سب پر آشکارا ہوچکا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ طالبان یا القاعدہ کو حرمت رسول نہیں بلکہ اپنے اسلام دشمن آقاؤں کے اصول پر جان دینا اور جان لینا خوب آتی ہے۔ 

سی این این اور واشنگٹن پوسٹ میں نوکری کرنے والے فرید ذکریا کو معلوم ہو کہ عالم اسلام وحید الدین خان کی تشریح ماننے کا پابند نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ قرآن شریف میں توہین رسالت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ قرآن مجید میں واضح لکھا ہے کہ رسول اکرم صﷺ کے سامنے اونچی آواز میں بات بھی مت کرو۔ قرآن مجید میں جو کچھ لکھا ہے، اسی کی بنیاد پر امت اسلام کو معلوم ہے کہ کب کیا کرنا ہے۔ اسلام میں قرآن کی وضاحت میں سنت بھی ہے۔ دانستہ طور پر گستاخی کرنا اور ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرنا کس اخلاقیات کے تحت جائز قرار دی گئی ہے۔ یہ کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ امت اسلام متفق ہے کہ گستاخ رسول ﷺ کی سزا موت ہے۔ شیطان رشدی اور تسلیمہ نسرین سے جاکر پوچھ لو کہ عالم اسلام کی رائے کیا ہے اور وہ آج تک کیوں بلوں میں چھپ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ فقط اس لئے کہ مسلمانان عالم کا متفقہ پیغام ہے
بتلا دو گستاخ نبی کو، غیرت مسلم زندہ ہے
دین پہ مر مٹنے کا جذبہ، کل بھی تھا اور آج بھی ہے
خبر کا کوڈ : 432331
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

S N
Pakistan
بہت دلچسپ ہے۔ اللہ توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے،
toqeer sajid
Pakistan
بہت اچھا ہے ایسے آرٹیکلز آنے چاہئے
ہماری پیشکش