0
Monday 19 Jan 2015 08:57

عوامی پریشر اور دھرنوں کے ثمرات

عوامی پریشر اور دھرنوں کے ثمرات
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور سنی اتحاد کونسل نے طالبان  کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو قانونی شیلٹر دینے کی پرزور مخالفت کی تھی اور وزیرستان سمیت تمام علاقے جو دہشتگردوں کے قبضے میں ہیں اور وہاں پر حکومت کی رٹ نہیں ہے، انہیں آزاد کرانے کی بات کی تھی۔ ملک کے طول و عرض میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور انکے سرپرستوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ مذاکرات کی آڑ میں دہشتگردوں کو بچانے، ملک سے فرار کرنے اور محفوظ مقامات پر اسلحہ منقل کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔ دوسری جانب سعودی اور بحرینی وفود کی غیر متوقع پاکستان آمد اور ان کی مالی امداد کے ذریعے ملک کے اندر دہشتگردوں اور تکفیریوں کی تقویت یا بین الاقوامی تکفیری دہشت گردی میں وطن عزیز کی ساکھ کو بچانے پر بھی زور دیا گیا۔ نواز لیگ حکومت کی طرف سے ماڈل ٹاون میں نہتے، معصوم اور پرامن شہریوں کے خلاف بدترین ریاستی دہشتگردی، قتل و غارت اور اس انسانیت سوز سانحہ کی بھرپور مذمت کی گئی اور اس کے خلاف احتجاجی تحریک، دھرنوں اور احتجاجی ریلیوں میں بھرپور شرکت کی گئی، 70 دن تک مسلسل عوام کو پاکستان میں قائم ظالمانہ سسٹم اور ماضی کی بدترین ڈکٹیٹر شپ جنرل ضیاءالحق کی باقیات کے حقیقی اور منحوس چہروں سے پردہ اٹھایا گیا۔ اس تمام تر عوامی پریشر اور تاریخی عوامی دھرنوں کے بعض اثرات اب ملک پاکستان کے سامنے آچکے ہیں، جن میں چند ایک حسب ذیل ہیں۔

1)۔ دہشتگردوں کی سرپرست نون لیگ حکومت کا کمزور ہونا
اگرچہ سیاسی مگرمچھوں نے مل کر گرتی ہوئی نواز حکومت کو سہارا دیا ہے اور حکومت اس بھرپور عوامی پریشر اور دھرنوں سے نہیں گری، لیکن اب وہ اس عوامی رائے عامہ کے سامنے حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں اور اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم امن و امان کا مسئلہ حل کرنے سے عاجز ہیں اور دہشتگردی کو روکنا ہمارے بس میں نہیں۔ اب انہوں نے اپنی کمزوری اور بے بسی کا اعتراف کر لیا ہے، پاکستان آرمی کو آنکھیں دکھانے والے خود فوج سے درخواست کر رہے ہیں کہ فوجی عدالتیں قائم کریں، کیونکہ سول عدالتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی ہزاروں دہشتگردوں کو بری کیا اور اب بھی کبھی دھمکیوں اور کبھی بھاری رشوت سے عوام کے قاتلوں کو رہا کر دیتے ہیں۔ عملی طور اب نواز لیگ کی حکومت کے پاس آدھے اختیارات رہ چکے ہیں، آج وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب وہی بیانات دے رہے ہیں جو چند ماہ پہلے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی قیادت دیا کرتی تھی، اب خود کہتے ہیں کہ کوئی اچھا اور برا طالبان نہیں سب کے خلاف کارروائی ہوگی۔
 
2)۔ طالبان مخالف مضبوط سیاسی اتحاد
ابتداء میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور اس کی اتحادی جماعتیں طالبان کی مخالف تھیں اور تکفیریوں کے خلاف میدان میں آکر وطن عزیز اور پاکستانی عوام کے قاتلوں کے خلاف آواز بلند کر رہی تھیں، لیکن اس وقت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں طالبان اور تکفیریت کے خلاف متحد ہیں اور تکفیری تنہا ہوچکے ہیں، ان کے سرپرست کبھی ان کے خلاف بننے والے قوانین پر دستخط کر رہے ہیں اور کبھی اپنی گردنیں بچانے کے لئے انہی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آج مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر نظر آرہی ہیں، کیونکہ ان دھرنوں اور احتجاجات کی بدولت سول سوسائٹی بھی سٹرکوں پر نکل آئی ہے اور ان سیاسی پارٹیوں کی مجبوری ہے کہ اپنی سیاسی بقاء کے لئے وہی فیصلے کریں جو پاکستانی عوام چاہتی ہے۔ اس عوامی پریشر نے تکفیریوں اور طالبان کے خلاف مضبوط سیاسی اتحاد بنایا ہے۔
 
3)۔ اکیسویں ترمیم اور دہشتگرد تختہ دار پر
ایک طویل عرصہ سے تکفیری دہشت گردوں اور عوام کے قاتلوں کو سزائے موت سنائی جا چکی تھی، لیکن سیاسی حکومتوں نے بیرونی پریشر، ملی بھگت اور خوف سے انہیں معطل کر رکھا تھا۔ اب جب کہ پاکستان میں بیداری کی لہر اٹھی اور احتجاجی دھرنوں نے عوامی پریشر کو مضبوط کیا تو آج قاتلوں کو قرار واقعی سزائیں مل رہی ہیں، مجرم تختہ دار پر لٹک رہے ہیں، مقتولین کے وارثوں کی دعائیں بلند ہو رہی ہیں اور انکی بے چینی اور بے قراری کم ہو رہی ہے۔ اب بھی ان دہشت گردوں کے سرپرست ان بزدلوں کو بچانے کی پوری کوشش رہے ہیں، لیکن مظلوم عوام اب سڑکوں پر آچکی ہیں، وہ اپنا حق لے کے رہی گی۔ اکیسویں ترمیم کا بل منطور ہونا مظلوموں اور ان کے وارثوں کی بہت بڑی کامیابی ہے اور اس کی شقیں مندرجہ ذیل ہیں۔

سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق مندرجہ ذیل جرائم میں ملوث افراد کو آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جاسکے گی۔ 
پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والے
فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والے
اغواء برائے تاوان کے مجرم
غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو مالی معاونت فراہم کرنے والے
مذہب اور فرقے کے نام پر ہتھیار اٹھانے والے
کسی دہشت گرد تنظیم کے اراکین
سول اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے
دھماکہ خیز مواد رکھنے یا کہیں لانے یا لے جانے میں ملوث افراد
دہشت اور عدم  تحفظ کا ماحول پیدا کرنے والے
بیرون ملک سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے 
آرمی ایکٹ کے  تحت مقدمہ حکومت کی پیشگی منظوری کے بعد چلایا جائے گا  اور فوجی عدالت کو مقدمے کی منتقلی کے بعد مزید شہادتوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت زیر سماعت مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں بھیج سکے گی۔ ایسے بھی کچھ دہشت گرد گروہ ہیں جو مذہب کا نام یا فرقے کا نام استعمال کرکے دہشت گردی کر رہے ہیں اور ان کے لوگ جب مسلح افواج یا دیگر سکیورٹی اداروں کے ساتھ لڑائی میں پکڑا جائیں گے تو ان پر بھی خصوصی عدالتوں میں کیس چلایا جائے گا۔
 
4)۔ عملی وحدت ملی و اسلامی کا قیام
عموماً وحدت ملی و اسلامی کے قیام کے لئے خواص طبقہ کے افراد مختلف ہوٹلوں اور کنونشن سنٹرز میں اکٹھا ہوتے تھے اور روائتی اتحاد و وحدت پر گفتگو ہوتی تھی، لیکن انقلاب اور آزادی مارچ سے ایک بے نظیر عملی اور لیڈرشپ سے نچلی سطح تک ایک عملی وحدت ملی و اسلامی سرزمین پاکستان پر دیکھنے میں نظر آئی، مختلف ادیان و مذاہب رکھنے اور مختلف قبائل و اقوام کے ہم وطن پارلیمنٹ کے سامنے متحد ہو کر ایک ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ (گو نواز گو) یعنی وہ اب اس سیاسی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں جس میں مخصوص لوگ باری باری حکومت میں آتے ہیں، پاکستان کی ترقی کی بجائے نئے بحران کھڑے کرتے ہیں اور انہوں نے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان بدترین معاشی، سیاسی، امنیتی بحرانوں میں نالائق حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کھڑا ہوا ہے، اب اس کرپٹ سیاسی نظام کو جانا چاہیے۔ گو اس بھرپور عوامی جدوجہد اور دھرنوں سے نواز حکومت گری نہیں لیکن اس عوامی پریشر سے اس حکومت کی چولیں ہل گئی ہیں، دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں، اس کی طاقت ختم  ہوچکی ہے اور اب یہ اپنی موت خود ہی مر جائے گی۔
 
5)۔ بے مثال جشن عید میلادالنبی (ص) اور وحدت اسلامی کا روح پرور نظارہ
دشمن نے 35 سال سے پاکستان کے اندر شیعہ سنی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے مختلف سازشیں کیں، لیکن فرزندان رسالت نے عید میلاد النبی (ص) کے موقع پر جس عملی وحدت کا ثبوت دیا، وہ قابل دید ہے۔ پورے ملک کے اندر شیعہ سنی اجتماعات اور میلاد ریلیاں اس بات کا مظہر ہیں۔ جس طرح سے لیڈرشپ نے پورے پاکستان میں اکٹھے ہو کر دشمن کے منہ پر وحدت کا طمانچہ مارا، ویسے ہی عوامی حلقوں نے بھی عملی اتحاد کا مظاہرہ کیا اور اس وحدت سے دشمن پاکستان و دشمن شیعہ و سنی کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
 
6)۔ نئی ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹیوں کی عوامی پذیرائی میں اضافہ
انقلاب مارچ اور دھرنوں سے پی ٹی آئی، پاکستان عوامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شہرت اور عوامی حمایت میں بہت اضافہ ہوا ہے، یہ ابھرتی ہوئی سیاسی پارٹیاں پاکستان کو مختلف بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ نئے سیاسی توازن کو ایجاد کرنے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ملت کی امیدیں ان سے وابستہ ہوچکی ہیں اور یہ سب کچھ بھرپور عوامی جدہجہد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے مل کر شاہراہ دستور پر حکومتی تشدد، شیلنگ اور فائرنگ کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور ثابت کیا کہ یہ ملکر ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 433548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش