0
Wednesday 21 Jan 2015 15:06

بحرین اور نہ ختم ہونیوالا انقلاب

بحرین اور نہ ختم ہونیوالا انقلاب
تحریر: اصغر یوسفی

بحرین میں حالیہ حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر میں انجام پانے والے نام نہاد انتخابات اور حکومت کی طرف سے عوام پر بےپناہ سیاسی اور سکیورٹی دباو بھی بحرینی حکام کے مطلوبہ اہداف کے حصول میں مفید واقع نہیں ہوسکے۔ حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے نئے دور کے آغاز پر ہی بحرینی حکومت نے اپنی اہم مخالف دینی جماعت "قومی اسلامی جمعیت الوفاق" کے سربراہ شیخ علی سلمان کو گرفتار کر لیا۔ اس حکومتی اقدام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عوامی احتجاج میں مزید شدت آ گئی۔ 
 
بحرین 14 فروری 2011ء میں عوامی انقلابی تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک انتہائی بحرانی صورتحال کا شکار رہا ہے۔ بحرینی حکام نہتے عوام کے خلاف طاقت کے بےجا استعمال سے لے کر ان کی قتل و غارت تک ہر ہتھکنڈہ استعمال کر چکے ہیں لیکن اس انقلابی تحریک کو ختم کرنے میں ناکامی کا شکار رہے ہیں۔ عوامی انقلابی تحریک کو ختم کرنے کا ایک اور حکومتی ہتھکنڈہ نام نہاد انتخابات کا انعقاد تھا۔ بحرینی پارلیمنٹ کے انتخابات دو مراحل میں 22 اور 29 نومبر کو منعقد کئے گئے۔ الوفاق کے رہنماوں کے بقول ان انتخابات میں 30 فیصد سے بھی کم شہریوں نے شرکت کی۔ "مراہ البحرین" ویب سائٹ کے تجزیہ کار ایمان شمس الدین نے ان انتخابات کے چند روز بعد ہی اپنے ایک کالم میں لکھا: "ایک طرف بحرین کے اندرونی ناگوار حالات اور دوسری طرف خطے کی صورتحال کی وجہ سے بحرینی حکومت خطرے کا احساس کر رہی ہے"۔ 
 
وہ اپنے کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ عراق اور یمن جیسے ممالک میں آمرانہ نظام حکومت کے خاتمے کے بعد جمہوریت کے فروغ اور دونوں ممالک کی جانب سے جمہوریت کے راستے پر کامیابی سے گامزن ہونے نے خطے میں مثبت تبدیلیوں کا نیا افق روشن کر دیا ہے۔ دوسری طرف بحرینی حکومت خود کو ایسے خطرات سے روبرو محسوس کر رہی ہے جنہوں نے اس کے مستقبل کو تاریک کر دیا ہے۔ لہذٰا بحرینی حکام دوسرے ممالک کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ 
 
اسی ضمن میں "صوت البحرین" نامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اپنے کالم میں تجزیہ کار وفیق ابراہیم لکھتے ہیں، "ایک سنہری قانون یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ طاغوت نابود  ہو رہا ہے۔ تیزی سے آنے والی تبدیلیاں جیسے امریکہ کے مقابلے میں روس اور چین کی طاقت میں روز بروز اضافہ، بین الاقوامی دہشت گردی کے مقابلے میں شام حکومت کی کامیابیاں، علاقائی سطح پر ترکی اور وہابیت کی دوسری حامی حکومتوں کی ناکامیاں، یمن میں الحوثی گروپ کا طاقت پکڑنا، لبنان میں حزب اللہ لبنان کی پوزیشن مزید مضبوط ہونا اور تکفیری دہشت گردوں کے مقابلے میں عراقی حکومت اور عوام کو نصیب ہونے والی کامیابیاں، وہ امید بخش حقائق ہیں جنہوں نے بحرین کے انقلاب میں امید کی روح پھونک رکھی ہے اور یہ انقلاب اپنی حتمی کامیابی تک جاری رہے گی اور قرون وسطٰی والی سوچ رکھنے والی آل سعود اور آل خلیفہ رژیموں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا"۔ 
 
سیاسی ماہرین کی نظر ایک علاقائی طاقت کی حیثیت سے سعودی عرب کیلئے بحرین انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ملک ہے لہذٰا وہ کسی طور اپنی کٹھ پتلی بحرینی رژیم کی سرنگونی برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی وجہ سے سعودی عرب نے جزیرہ شیلڈ فورسز کے سائے تلے اپنی سکیورٹی فورسز کو بحرین روانہ کر کے وہاں پر جاری عوامی جدوجہد کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب ہر گز یہ نہیں چاہتا کہ بحرین میں اس کی کٹھ پتلی حکومت کی جگہ کوئی ایسی خودمختار جمہوری حکومت قائم ہو جس کی جڑیں عوام میں ہونے کے سبب وہ سعودی عرب کے مفادات کی بجائے بحرین کے مفادات کو ترجیح دینا شروع ہو جائے۔ لہذٰا بحرین میں ایک آزاد اور خودمختار حکومت کا قیام آل سعود رژیم کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے اور بحرین میں جاری انقلابی جدوجہد کی کامیابی کے نتیجے میں آنے والے سیاسی زلزلے کے جھٹکے سعودی عرب میں بھی محسوس کئے جائیں گے۔ چونکہ مشرق وسطٰی کے خطے خاص طور پر عراق میں شیعہ گروہوں کو انتہائی اہم سیاسی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں لہذٰا سعودی عرب کی پوری کوشش ہے کہ اس کے ہمسایہ ملک بحرین میں کسی طرح بھی شیعہ قوتیں آگے نہ آ سکیں۔ ریاض اپنے ہمسایہ ممالک یمن اور بحرین میں شیعہ گروہوں کے برسراقتدار آنے سے شدید خوفزدہ اور پریشان دکھائی دیتا ہے۔ صوت البحرین میں شائع ہونے والے کالم کی روشنی میں بحرین میں آنے والی ہر تبدیلی انتہائی تیزی کے ساتھ سعودی عرب تک منتقل ہو سکتی ہے۔ 
 
لہذٰا یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ بحرین درحقیقت سعودی عرب کا چھوٹا ماڈل ہے۔ دونوں ممالک میں بہت زیادہ مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک مماثلت، بحرین اور سعودی عرب دونوں کے امریکہ سے گہرے تعلقات ہیں جو اس بات کا باعث بنے ہیں کہ دونوں ممالک ایکدوسرے کا اتحادی ہونے کے علاوہ خطے میں امریکی اتحادی ممالک کے طور پر بھی پہچانے جائیں۔ اسی طرح بحرین کا جزیرہ نما ملک، سعودی عرب اور امریکہ دونوں کی جانب سے ایران پر نظر رکھنے کیلئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بحرین، خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی آمدورفت کا ایک اہم اڈہ بھی شمار ہوتا ہے۔ امریکہ بحرین کے ذریعے خطے میں رونما ہونے والی عوامی تحریکوں کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا امریکہ نے خطے میں اپنے اہداف کی تکمیل کی خاطر اب تک بحرین میں سعودی مداخلت کی بھی خاموش حمایت کی ہے۔ 
 
لبنان کے ڈیلی "الاخبار" کے سیاسی تجزیہ کار عمار دیوب بحرین کے حالات کے بارے میں یوں لکھتے ہیں، "بحرین میں جاری انقلابی جدوجہد کی کامیابی خلیج فارس کے دوسرے ممالک کے عوام کے دل میں بھی امید کی کرن روشن کر دے گی۔ اس انقلابی تحریک کی کامیابی کی صورت میں بحرینی حکومت عوام کو ان کے جائز حقوق دینے پر مجبور ہو جائے گی اور نتیجتا شیلڈ فورس کے نام سے آئی سعودی سیکورٹی فورسز کو بھی بحرین سے نکالنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اسی طرح بحرین میں انقلاب کی کامیابی کا اثر سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ حکومتی تعلقات پر بھی پڑے گا اور بحرینی حکومت کو اپنے ان تعلقات پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ ایسی صورت میں بحرین دوسرے عرب ممالک کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر جائے گا"۔ 
 
عراق کے تجزیہ کار ساھر عریبی نے بھی بحرین کی صورتحال کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے بحرین میں پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے دوران "ریڈیو عراق" کی ویب سائٹ پر اپنے ایک کالم میں لکھا، "بحرین ایک ایسا ملک ہے جسے سعودی عرب نے خطے میں اپنے بڑے رقیب یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مقابلے کے میدان میں تبدیل کر رکھا ہے۔ اگرچہ شام، عراق، لبنان اور یمن کی نسبت بحرین کی اس قدر اہمیت نہیں، لیکن اگر بحرین میں انقلابی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے تو یہ سعودی عرب کیلئے ایک بہت بڑا ذہنی دھچکہ ثابت ہو گا"۔ 
 
انہوں نے مزید تاکید کی کہ بحرین میں جاری بحران کا حل کئی بین الاقوامی مسائل خاص طور پر مغرب اور ایران کے درمیان جاری جوہری تنازعہ کے حل سے وابستہ ہے۔ اگر ایران اور 5+1 گروپ کے درمیان جاری مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو خطے میں موجود اکثر مسائل کے حل کا زمینہ ہموار ہو جائے گا۔ ساھر عریبی کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور مغربی ممالک میں تفاھم سعودی عرب اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے حق میں مفید واقع نہیں ہو گا۔ 
 
بغداد میں واقع تحقیقاتی مرکز "مرکز بغداد للدراسات و الاستشارات و الاعلام" کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق لیڈز یونیورسٹی کے بین الاقوامی مطالعات اور سیاسیات کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سائمن میبن (Simon Mabon) نے حال ہی میں اپنے ایک شائع ہونے والے مقالے میں لکھا ہے "سعودی عرب کیلئے بحرین کی اہمیت دو پہلو سے ہے۔ ایک تو وہ خلیج فارس اور مشرق وسطٰی میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے بارے میں پریشان ہے۔ درحقیقت آل سعود کی کوشش ہے کہ وہ بحرین میں ایران کے اثرورسوخ کو بڑھنے نہ دے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ اپنا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے بحرین میں جاری عوامی تحریک کو کچلنے سے اس ملک میں ایران کے اثرورسوخ کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ کہیں بحرین کے شیعہ مسلمانوں اور سعودی عرب کے مشرقی حصے میں بسنے والی شیعہ آبادی کے درمیان کوئی گٹھ جوڑ نہ ہو جائے کیونکہ اس کے نتیجے میں سعودی شیعہ شہری بھی انقلابی تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں سعودی عرب کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر بحرین میں شیعہ قوتیں برسراقتدار آ جاتی ہیں تو اس کا اثر سعودی عرب کے شیعہ شہریوں پر بھی پڑ سکتا ہے اور سعودی عرب کے مشرقی حصے میں بھی انقلابی جدوجہد شروع ہو سکتی ہے"۔ 
 
ایسے وقت جب بحرین میں حکومت کی جانب سے امتیازی رویہ کے خلاف ہر روز عوامی احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، برطانیہ خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کیلئے بحرین میں فوجی اڈہ تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وعد قومی اور جمہوری انجمن بحرین کی ویب سائٹ پر اس بارے میں یوں اظہار خیال کیا گیا ہے: "بحرینی حکومت نے برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کی بنا پر بندر سلمان پر برطانیہ کو ایک مستقل فوجی اڈہ فراہم کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے حقیقی اہداف واضح نہیں۔ یہ معاہدہ ایسے وقت انجام پایا ہے جب تقریباً 40 سال قبل برطانیہ نے خطے سے پسپائی اختیار کر لی تھی۔ اب جبکہ بحرین انتہائی نازک سیاسی اور سیکورٹی حالات سے گزر رہا ہے اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا خطرہ بھی خطے میں موجود ہے، یہ معاہدہ خطے کے حالات میں مزید پیچیدگی کا باعث بنے گا۔ یہ معاہدہ درحقیقت خطے میں قدیم برطانوی استعماری دور کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ خاص طور پر جب یہ معاہدہ ایسے وقت انجام پا رہا ہے جب بحرینی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جاری رکھنے، بےجا گرفتاریاں اور ٹارچر، پرامن احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہ دینا اور ان کے خلاف طاقت کے بےجا استعمال، بعض علاقوں کا مکمل محاصرہ اور درپیش مشکلات کے سیاسی راہ حل کو ترک کرنے کے باعث ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ 
 
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ 14 فروری یوتھ فورم، تحریک اسلامی، تحریک نجات، تحریک آزادگان بحرین اور تحریک حق سمیت تمام حکومت مخالف جماعتوں نے تازہ ترین پارلیمانی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اس میں شرکت نہیں کی۔ ان تمام جماعتوں کا دعوی ہے کہ یہ انتخابات محض ڈھونگ تھا اور اسے عوامی مینڈیٹ حاصل نہ تھا۔ ان انتخابات میں عوام کی جانب سے شرکت نہ کرنے کے سبب بحرینی حکومت اور خطے میں اس کے حامی ممالک شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ عوام کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ اور بھرپور احتجاج کے باوجود بحرین کی آمرانہ رژیم نے عوام کے خلاف اپنے دباو میں اضافہ کرتے ہوئے زبردستی انتخابات منعقد کروائے تاکہ ہو سکتا ہے اس طرح اپنے حکومت کو جاری رکھنے کا مناسب بہانہ ہاتھ آ سکے۔ لہذٰا بحرین میں موجود سیاسی بحران اتنا جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ بحرینی حکام کی جانب سے عوام کے خلاف طاقت کی زبان استعمال کرنے پر اصرار اور سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے جیسے اقدامات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے اور مشکلات کے پرامن حل کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیاسی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کہیں بحرین میں جاری پرامن عوامی جدوجہد مسلح جدوجہد کا رخ اختیار نہ کر لے اور یمن والی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔ لہذٰا بحرینی حکام کو چاہیئے کہ وہ عقل سے کام لیں اور عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہ کریں۔  
خبر کا کوڈ : 434102
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش