0
Wednesday 21 Jan 2015 09:34

حزب اللہ کیلئے کٹھن امتحان

حزب اللہ کیلئے کٹھن امتحان
تحریر: سید عباس حسینی

گذشتہ دنوں شام کے علاقے جولان میں واقع قنیطرہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے میں حزب اللہ اور ایران کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے کئی اہم کمانڈر شہید ہوگئے۔ اس حملے میں شہید عماد مغنیہ کے جوان سال بیٹے جہاد مغنیہ کی بھی شہادت کی آرزو پوری ہوئی اور وہ شہید ہوکر اپنے  شہید والد کے پہلو میں دفن ہوئے۔ اس سانحہ کے بعد عالمی میڈیا اور خصوصاً عرب میڈیا میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔ غاصب اسرائیل بھی اپنی جگہ سہما ہوا ہے کہ کب، کیسے اور کہاں اس واقعہ کا ردعمل آتا ہے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اتنے اہم افراد کو دشمن کیسے ہدف بنانے میں کامیاب رہا؟ کن لوگوں نے جاسوسی یا غداری کی؟ ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے اسرائیل اس حملے سے حزب اللہ اور اس کی حلیف طاقتوں ایران اور شام کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے۔؟

یہ سوال کہ دشمن کیسے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ زیادہ احتمال یہی ہے کہ انسانی ذرائع سے ہی دشمن نے استفادہ کیا ہو۔ کسی نے مال، دولت یا عورت وغیرہ کے لالچ میں غداری کی ہو یا اپنی صفوں میں دشمن کے جاسوس چھپے ہوں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے حزب اللہ نے اپنی صفوں سے ہی ایک اہم اسرائیلی جاسوس پکڑا تھا، جو ایک عرصے سے تنظیم کے اندر انتہائی اہم عہدے پر فائز تھا۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ شام کی افواج جن کے شانہ بشانہ حزب اللہ کے مجاہدین لڑ رہے ہیں، ان میں سے کسی نے اپنی قیمت لگائی ہو اور اپنے محسنوں کی جاسوسی کی ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ خود ان شہداء سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور کسی وائرلیس وغیرہ کی کال دشمن نے ٹریس کر لی ہو۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، دشمن اتنے اہم ہدف کو ٹارگٹ بنانے میں کامیاب رہا ہے۔

اس حملہ سے صیہونی حکومت کا پیغام شاید یہ ہوسکتا ہے کہ ایران اور حزب اللہ اپنے آپکو صیہونی حدود سے دور رکھیں ورنہ نشانہ بنیں گے۔ صیہونی حکومت اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتی ہے کہ جنوب لبنان کے بعد جولان کی پہاڑیوں پر بھی محور مقاومت کا قوی وجود ہو۔ حزب اللہ اور ایران کے میزائل جنوب لبنان کے بعد جولان میں بھی اسرائیل کا رخ کئے آمادہ ہوں۔ دوسری طرف صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو جو ملک کے داخلی مسائل میں بری طرح پھنسا ہوا ہے، اپنے لئے عوام کی نظروں میں اسے بہت بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ میڈیا کو استعمال کرکے عوامی رائے کو اپنے لئے ہموار کرنے کیلئے اس واقعہ کو بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے۔ ابھی چند روز پہلے ہی حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ دشمن کے ہر حملہ کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے میزائل فاتح 110 کے ذریعے پورے اسرائیل کو ہدف بنانے کی صلاحیت کی بات بھی کی تھی۔ ان کے ان بیانات کے کچھ ہی دن بعد اسرائیل کی طرف سے یہ حملہ بہت بڑا معنی اور پیغام رکھتا ہے۔

ان تمام حالات کے بعد اب بحث یہ ہے کہ حزب اللہ اس جارحیت کا جواب کب، کیسے اور کہاں دیتی ہے؟ حزب اللہ کی روٹین اور روش یہی ہے کہ وہ کسی بھی جارحیت کا بدلہ ضرور لیتی ہے، لیکن اپنے طریقے سے اور سوچ سمجھ کر۔ دوسری طرف عوامی رائے عامہ کا بھی پریشر ہے کہ اس سانحہ کا بدلہ جلد سے جلد لیا جائے۔ خود حزب اللہ کی طاقت اور حمیت کا بھی سوال ہے۔ سید حسن نصراللہ اور ایران کی طرف سے صیہونی حکومت کیلئے ذومعنی پیغام بھی  آیا ہے کہ "اپنی پناہ گاہوں کو آمادہ رکھو۔" البتہ محققین کے نزدیک ایسے میں حزب اللہ ایک نیا جنگی محاذ کھولنا نہیں چاہتی، جبکہ وہ پہلے سے ہی جنوب لبنان اور پورے ملک شام میں اسرائیل اور اسکے ایجنٹوں سے برسرپیکا ہے، اور دوسری طرف سے لبنانی حکومت اور سیاسی طاقتوں کا پریشر بھی ہے کہ اسرائیل سے دوبارہ کھلے عام جنگ نہ کی جائے۔ امید ہے بہت جلد حزب اللہ اپنے طریقہ سے، اپنی ٹائمنگ اور پلاننگ کے مطابق دشمن سے بدلہ لے گی اور دشمن کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوگی۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 434123
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش