0
Saturday 24 Jan 2015 00:55

حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ میں پوشیدہ اسرائیلی اہداف

حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ میں پوشیدہ اسرائیلی اہداف
تحریر: میر حسین یزدان پناہ

حال ہی میں شام کے صوبے قنیطرہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں حزب اللہ لبنان کے چند کمانڈر شہید ہوگئے۔ یہ جارحانہ اقدام خطے کے موجودہ حالات کے پیش نظر کئی اہداف کا حامل ہوسکتا ہے۔ اس بارے میں بعض اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
 1۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کوئی نیا واقعہ نہیں۔ حالیہ واقعہ ایک ایسے وقت رونما ہوا ہے جب خطے کے بدلتے حالات میں اسلامی مزاحمت کا کردار کھل کر سامنے آچکا ہے اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں نے شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کو عبرتناک شکست دے کر انہیں مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔ لہذا اس وقت اسلامی مزاحمتی بلاک انتہائی مضبوط پوزیشن کا حامل ہے۔ گذشتہ ہفتے جمعہ کے روز حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ اسلامی مزاحمت اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے اسرائیل کو وارننگ دی کہ اگر اس نے دوبارہ لبنان کے خلاف جارحانہ اقدام انجام دیا تو ہم جنگ کو الجلیل اور اس سے آگے تک لے جائیں گے۔ یاد رہے کہ الجلیل مقبوضہ فلسطین کے شمال میں واقع انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ 
 
حزب اللہ لبنان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ شام کا علاقہ القلمون جغرافیائی اعتبار سے مقبوضہ فلسطین کے علاقے الجلیل سے بہت ملتا جلتا ہے۔ لہذا حزب اللہ لبنان کے جنگجو القلمون میں کامیاب فوجی کارrوائیاں انجام دے کر ایسے تجربات حاصل کرچکے ہیں جن کی مدد سے وہ الجلیل میں بھی اسرائیل کے خلاف ممکنہ جنگ کے دوران مشابہ کارrوائیاں انجام دینے کی بھرپور صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔ اسرائیلی حکام بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سید حسن نصراللہ اس وقت تک کسی اقدام کے بارے میں بات نہیں کرتے جب تک اس کے عملی تحقق کا زمینہ فراہم نہ ہوچکا ہو۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ گذشتہ تین برس کے دوران تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف دوبدو اور گوریلا جنگ کا تجربہ، حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کیلئے ایک قیمتی سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کا فائدہ وہ اگلی ممکنہ جنگ میں مقبوضہ فلسطین کے اندر اٹھا سکتے ہیں۔ اسرائیل کا ہر شہری اس حقیقت کو جان چکا ہے کہ سید حسن نصراللہ جب بھی کوئی بات کرتے ہیں تو اس پر عمل بھی ضرور کرتے ہیں۔ انہیں اسرائیلی جنگی کشتی "ساعر" کا انہدام اور حزب اللہ کے ڈرون طیارے "ایوب" کا ڈیمونا نیوکلئیر ری ایکٹر کے اوپر پرواز جیسے واقعات ابھی تک یاد ہیں۔ لہذا اسرائیلی صہیونی رژیم نے حزب اللہ لبنان کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے اپنی فوج اور عوام کا مورال بلند کرنے اور ساتھ ہی ساتھ حزب اللہ سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے۔ 
 
2۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران لبنان اور شام کے سرحدی علاقوں سے موصول ہونے والی خبروں اور رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد عناصر ایک طرف تو خطے پر حزب اللہ لبنان کے انٹیلی جنس تسلط اور دوسری طرف شدید سردی اور برف باری کے باعث انتہائی مشکل حالات سے روبرو ہیں۔ دہشت گرد عناصر کی جانب سے ہر سرگرمی کا جواب شام ایئرفورس کے ہوائی حملوں کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ اسی طرح مشرقی الغوطہ سے موصولہ اطلاعات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں عنقریب دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ ہونے والا ہے اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب مشرقی اور مغربی الغوطہ کے علاوہ گولان کا علاقہ بھی مکمل طور پر حزب اللہ لبنان اور شام آرمی کے کنٹرول میں ہوگا۔ 
 
دوسرے الفاظ میں فلسطین کا شمالی محاذ پوری طرح اسلامی مزاحمت کے زیرکنٹرول آچکا ہے۔ ان حالات میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی نظریں اسرائیل اور اپنے دوسرے حامیوں کی طرف اٹھی ہوئی ہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ ان کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جو دہشت گرد عناصر کے گرتے ہوئے حوصلے کو سہارا دے سکیں۔ قنیطرہ میں اسرائیل کی حالیہ جارحیت اسی تناظر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب قنیطرہ کا علاقہ دمشق تک پہنچنے کا راستہ سمجھا جاتا ہے۔ 
 
3۔ اسرائیل چند ماہ قبل حماس کے مقابلے میں 50 روزہ جنگ میں عبرتناک شکست کا حامل ہوچکا ہے۔ غزہ کے خلاف اس اسرائیلی شکست کے اثرات خود اسرائیلی حکومت پر بھی ظاہر ہوئے ہیں اور بڑی تعداد میں استعفوں اور معزولیوں کے سبب بنجمن نیتن یاہو کی حکومت شدید بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ اسی بحران کے نتیجے میں حکومت مڈٹرم الیکشن کروانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ مڈٹرم الیکشن کے انعقاد میں دو ماہ سے بھی کم مدت باقی رہ گئی ہے۔ لہذا وزیراعظم نیتن یاہو خود کو ایسے اقدامات کا محتاج تصور کرتا ہے، جن کا سہارا لے کر دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کی حمایت حاصل کرسکے۔ قنیطرہ پر اسرائیلی جارحیت کا ایک مقصد آنے والے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا ہے۔ 
 
4۔ اسرائیل کے اس جارحانہ اقدام کا ایک اور مقصد حزب اللہ لبنان کو ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کرنا تھا۔ اسرائیلی حکام ٹکراو کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے اس جارحیت کے بعد حزب اللہ لبنان کو انتقامی کارروائی کا جواز فراہم کر دیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان اس جارحیت کا جواب کس انداز میں دیتی ہے۔ اگرچہ ان کمانڈرز کی شہادت ایک بڑا نقصان ہے لیکن ان پاک شہداء کا بہنے والا خون اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج اسلامی مزاحمت حد درجہ طاقتور ہوچکی ہے۔ اس تناظر میں ایسے واقعات درحقیقت اسلامی مزاحمت کی فتح کی علامت ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ "ہمیں قتل کرو کیونکہ جس قدر ہمیں قتل کرو گے، امت مسلمہ اسی قدر بیدار ہوتی جائے گی۔"
خبر کا کوڈ : 434664
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش