0
Tuesday 27 Jan 2015 00:00

U.S.A، سفید نسل پرستی کی سیاہ تاریخ (1)

U.S.A، سفید نسل پرستی کی سیاہ تاریخ (1)
تحریر: عرفان علی
 
بر اعظم شمالی امریکہ کے بدنام زمانہ ملک یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ میں سیاہ فام بچوں اور نوجوانوں پر سفید فام پولیس اہلکاروں کے حملے، تشدد، فائرنگ، قتل کے بعد افریقی نژاد امریکیوں میں غم و غصے کی لہر نے ملک گیر احتجاج کی شکل اختیار کی، تو دنیا پر اکیسویں صدی کے امریکہ کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا۔ انگریز سامراج کی ریاستی نسل پرستی کی تاریخ امریکہ کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ 1790ء میں امریکی شہریت کا قانون صرف سفید فام امریکیوں کے لئے مخصوص تھا۔ نسل پرست گوروں نے 1819ء میں سویلائزیشن ایکٹ نافذ کیا۔ اس لفظ سے تہذیب و تمدن کی بو ضرور آتی ہوگی لیکن یہ امریکہ کے اصل باشندوں (Native Americans) کو پروٹسٹنٹ عیسائی بنانے کیلئے متعارف کروایا گیا تھا۔ اس کے تحت پروٹسٹنٹ مشنری اساتذہ کو بجٹ فراہم کرکے امریکہ کی پہلی تبلیغی جماعت بنا دیا گیا تھا۔

 امریکہ کے اصل باشندوں کے لئے ایک اور اصطلاح امریکن انڈین بھی استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی سرزمین غصب کرنے کے لئے 1830ء میں انڈین ریموول ایکٹ کے تحت ناجائز تسلط کو قانونی شکل دی گئی۔ 1831ء سے 1838ء تک مسی سپی کے مشرق میں آباد اصل امریکی باشندوں کو دریا کے دوسری طرف یعنی مغرب میں دھکیلنے کی جنگیں جاری رہیں۔ زبردستی انہیں مغرب میں آباد کیا اور مظلوم و بے بس باشندوں پر ڈھائے گئے ظلم و ستم کی وجہ سے اس علاقے کو آنسوؤں کے نشانات کہا جاتا ہے۔ صدر اینڈریو جیکسن نے موجودہ اوکلوہومو کے اس علاقے تک زبردستی دھکیلا۔ جبر۱ً نقل مکانی کی وجہ سے بھوک، تھکاوٹ اور بیماریوں میں مبتلا ہونے والے ان 15 ہزار باشندوں میں سے 4000 نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ صدر بش امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھتے ہیں، یہاں بھی اصل امریکی باشندے آباد تھے۔ 1845ء میں اسے یو ایس اے کا حصہ بنایا گیا۔ 1846ء تا 1848ء میکیسکیو سے بھی جنگ لڑی گئی اور ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں ایک تہائی میکسیکن قوم کو خرید لیا گیا۔ ان کی زمین پر بعد ازاں امریکی ریاستیں (یعنی صوبے بنام کیلی فورنیا، ٹیکساس، یوٹا، نیو میکسیکو، ایری زونا، نیویڈا قائم ہوئیں اور بقیہ اراضی کالوراڈو اور وایومنگ کی حدود قرار دی گئیں۔

 امریکہ میں سیاہ فاموں کو غلامی کے لئے مخصوص کر دیا گیا تھا۔ نسل پرست گورے اس دور میں چینی، جاپانی، ہندی (بشمول موجودہ پاکستان) اور دیگر ایشیائی باشندوں کو بھی جدا نسل ہونے کی وجہ سے سیاہ فاموں کی طرح ہی سمجھتے تھے۔ حتٰی کہ موجودہ لاطینی امریکی ممالک کے اصل امریکی باشندوں کو بھی یو ایس میں شودر اور دلیت سمجھا جاتا تھا۔ 1850ء میں قانون برائے مفرور غلام وضع کیا گیا اور انہیں پکڑ کر مزید غلامی کے لئے دیگر گوروں کے حوالے کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کوئی بھی گورا (سفید فام) اگر کسی کالے یا کالی کو اپنا غلام یا کنیز قرار دیتا تو بغیر کسی ثبوت کے فقط اس کے دعوے کی بنیاد پر ان سفید فاموں کے حوالے کر دیئے جاتے تھے۔ امریکی صدر ابراہام لنکن کے دور میں سوا ڈالر ($1.25) کے عوض نیٹیو امریکیوں کی زمین پانچ سال کے لئے زرعی مقاصد کے نام پر الاٹ کی جانے لگی۔ 1863ء میں لنکن نے غلامی سے آزادی کا اعلامیہ جاری کیا۔ اس کا اطلاق محض ان علاقوں پر ہوتا تھا جو خانہ جنگی میں لنکن حکومت کے خلاف بغاوت کررہی تھیں، لنکن کے وفادار علاقوں میں غلامی سے آزادی کا اعلان نافذ العمل نہیں تھا۔

1864ء میں امریکی آئین میں 13ویں ترمیم کی توثیق کرکے غلامی کے خاتمے کا قانونی اعلان کیا گیا، لیکن اسی سال امریکی افواج نے شے این قبیلے سے تعلق رکھنے والے اصلی امریکی باشندوں کا قتل عام کیا اور نہتے و بے جرم و خطا قتل کئے جانے والوں میں دو تہائی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ 13ویں، 14ویں اور 15ویں آئینی ترامیم اور سول رائٹس ایکٹ 1866ء کے تحت سیاہ فام یعنی افریقی نژاد امریکیوں کو سیاست میں شرکت، الیکشن میں ووٹ ڈالنے اور دیگر جگہوں پر رہنے کی اجازت کا تحفظ کیا گیا، لیکن 1960ء کے عشرے تک بھی سیاہ فام امریکی اپنی آزادی کا خواب بھی نہیں دیکھتے تھے۔ یہ تو مارٹن لوتھرکنگ نے اپنی شہرہ آفاق تقریر میں کہا تھا کہ اس کا بھی ایک خواب ہے۔ اصلی امریکی باشندوں پر ٹیکس لگایا گیا تھا۔ 1868ء کے معاہدہ ٹریٹی آف لارامائی کے مطابق اصل امریکی باشندوں کی اجازت کے بغیر گورے بلیک ہلز کے علاقے میں داخل نہیں ہوسکتے تھے، لیکن جب وہاں سونا دریافت ہوا تو امریکی کانگریس نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کی شرائط بدل دیں۔

 ایسا بھی ہوا کہ سفید فام نسل پرستوں نے ذریعہ تعلیم انگریزی لازمی قرار دے کر غیر سفید فام پر انگریزی مسلط کر دی۔ چینی اور دیگر ایشیائی باشندوں پر لاس اینجلس میں سفید فام نسل پرستوں کے جلوس نے حملہ کر دیا اور گورے فسادیوں نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔ کم از کم 19چینی و ایشیائی باشندے قتل ہوئے۔ 1878ء میں امریکی سپریم کورٹ نے حکم سنایا کہ چینی امریکی شہریت کے لئے نااہل ہیں۔ 1872 تا 1874ء امریکی حکومت نے سفید فارم تاجروں کو بھینس مارنے کی اجازت دی۔ اصل امریکی باشندے اسی سے کھاتے کماتے تھے۔ نسل پرست گوروں کی امریکی حکومت نے شمالی امریکہ میں آباد اصلی باشندوں کو ان کی سرزمین سے محروم کرنے کے لئے یہ پالیسی وضع کی تھی۔ 1890ء میں امریکی افواج نے انہیں بے دریغ قتل کیا جو وونڈ نی قتل عام کے عنوان سے مشہور ہے۔ 1882ء سے 1990ء کے درمیانی عرصے میں 3011 افریقی نژاد امریکیوں کو پھانسی پر لٹکا کر قتل کیا گیا۔ 1915ء میں ہی لٹکا کر مارنے پر گونگی فلموں کے دور کی مشہور برتھ آف نیشن نامی فلم بنائی گئی تھی۔
 
امریکہ میں انسانی حقوق کی جدوجہد کی تاریخ میں شہرہ آفاق مقدمہ پلیسی/ فرگوسن تھا۔ پلیسی سفید فام افراد کے لئے مخصوص ریل روڈ کار میں بیٹھ گیا تھا اور نسل پرست گورے جسٹس جون فرگوسن نے نسل پرست منافقین کے نظریہ ’’جدا مگر برابر‘‘ کے تحت اس کو مجرم قرار دیا۔ 1901ء میں اصل امریکی باشندوں کے 5 قبائل کو مہذب قبائل قرار دے کر انہیں انہی کی مادر وطن کی قانونی شہریت کا اہل قرار دیا گیا۔ (یقیناً پروٹیسٹنٹ تبلیغی جماعت نے ان کے مہذب ہونے کی سند جاری کی ہوگی۔) جس مشرقی سینٹ لوئس کے علاقے میں آج کل نسل پرست سفید فام پولیس اہلکار سیاہ فام امریکیوں کو مار رہے ہیں، وہاں 1917ء میں بھی امریکی گورے فسادی کالوں پر حملہ آور ہوئے تھے۔ شاید تاریخ معمولی ترامیم کے ساتھ خود کو دہرا رہی ہے۔ جنوبی ایشیائی مسلمان، ہندو، سکھ اور بدھ مت کے افراد سمیت ایشیائی باشندوں کو روکنے کے لئے ایشین بارڈر زون ایکٹ نافذ کیا گیا۔
 
سفید فام خواتین بھی جھوٹے الزامات لگا کر سیاہ فام امریکی باشندوں کو مروانے میں مردوں سے پیچھے نہیں تھیں۔ 1930ء کے عشرے کے اوائل میں اسکاٹس بورو افیئر ایسا ہی ایک جعلی مقدمہ تھا، جس میں 2 نسل پرست گوری خواتین نے 9 افریقی نژاد امریکیوں پر زنا کی تہمت لگائی تھی اور مقدمہ سننے والی عدالت سارے گورے نسل پرست ججوں پر مشتمل تھی اور ملزمان کو وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ کیلیفورنیا نے 1935ء میں ایک قانون بنایا، جس کے تحت میکسیکن نژاد امریکیوں کو غیر ملکی انڈین قرار دیا گیا۔ 1941ء میں سیاہ فام امریکیوں نے محکمہ دفاع کی نوکریوں اور دیگر حکومتی نوکریوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف احتجاج کے لئے واشنگٹن کی طرف مارچ کرنے کی دھمکی دی۔ صدر فرینکلن روزویلٹ نے 1942ء میں ایگزیکیٹیو آرڈر 9066 جاری کیا، جس کے تحت ویسٹ کوسٹ کے علاقے میں آباد سوا لاکھ امریکیوں کو اجتماعی سزا کے طور پر وہاں سے بے دخل کرکے قیدی بنایا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ ان کے اجداد جاپان سے نقل مکانی کرکے یو ایس میں مقیم ہوئے تھے۔ 1943ء میں چینی نژاد افراد کو امریکی شہریت کا اہل قرار دیا گیا۔

 آج جب سفید فام قاتل پولیس اہلکار کے خلاف سیاہ فام امریکیوں کے قتل کا مقدمہ نہیں چل رہا تو یہ بھی کوئی نیا رجحان نہیں ہے۔ 1955ء میں 14سالہ ایمیٹ ٹل کو اغوا کرکے سخت تشدد کے بعد گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔ 2 سفید فام قاتلوں کو امریکی نسل پرست گوروں کی عدالت نے باعزت بری کر دیا تھا۔ امریکی شہری حقوق کی خاتون اول روسا پارکس کو کہا جاتا ہے۔ اس افریقی نژاد امریکی خاتون نے دسمبر 1955ء میں ایک بس میں سفید فام شہریوں کے لئے مخصوص علیحدہ سیٹ سے اٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسا کرنا امریکہ میں جرم تھا اور مجرم کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک سال تک اس کے خلاف احتجاج جاری رہا۔ 1957ء میں ریاست آرکنساس کے علاقے لٹل راک کے سینٹرل ہائی اسکول میں 9سیاہ فام امریکی طالبعلم زبردستی داخل ہوئے اور انہوں نے گورے سفید فام شاگردوں کے لئے مخصوص اسکول کو سیاہ و سفید فام مخلوط اسکول بنانے کی کوشش کی تھی تو گورنر اورول فاؤبس نے نسل پرستانہ پالیسی کی حمایت کی۔ صدر آئزن ہاور کو مسئلہ حل کرنے کے لئے فوج بھیجنا پڑی۔

1960ء میں 4 افریقی نژاد امریکی شاگردوں کو شمالی کیرولینا کے گرینس بورو میں وول ورتھ لنچ کے کاؤنٹر سے دوپہر کا کھانا لینے کے لئے وہیں دھرنا دینا پڑا۔ 6 ماہ بعد ان کا یہ حق تسلیم کیا گیا۔ پھر کئی شہروں میں دھرنے دیئے گئے، جس کے بعد سوئمنگ پول، پارک، تھیٹر، لائبریری اور دیگر عوامی جگہوں پر سیاہ فاموں کو بھی سفید فاموں کے ساتھ ساتھ داخلے کی اجازت دی گئی۔ اسی عشرے میں میں افریقی نژاد امریکیوں کی شاگرد تنظیم ایس این سی سی معرض وجود میں آئی تھی۔ اصل امریکی باشندوں کے نوجوانوں نے اپنی کاؤنسل 1961ء میں تشکیل دی۔ کیا آپ کو یقین آئے گا کہ سویلائزیشن اور اپنی اقدار پر اترانے والے امریکہ میں پہلے کالے امریکی شاگرد کو کب یونیورسٹی میں داخلے کا حق ملا؟ 1962ء میں جیمز میریڈتھ یونیورسٹی آف مسی سپی میں داخل ہوا، لیکن اس کی حفاظت کے لئے امریکہ نے سرکاری محافظین فیڈرل گارڈ بھی ساتھ تھے۔ اس داخلے کا ردعمل اتنا شدید تھا کہ امریکی صدر کینیڈی کو سفید فاموں کے فسادات روکنے کے لئے 5000 فوجی بھیجنے پڑے۔ خود امریکی صدر جون ایف کینیڈی امریکہ کا پہلا کیتھولک صدر تھا!

سیاہ فام امریکیوں کے شہری حقوق کی جدوجہد میں 2 امریکیوں کا نام زیادہ مشہور ہوا۔ 1963ء ان میں سے ایک مسیحی مارٹن لوتھر کنگ کی مقبولیت کا سال تھا۔ میرا بھی ایک خواب ہے، اس کی یہ تقریر کوئی معمولی تقریر نہیں تھی۔ دو لاکھ کالے امریکیوں نے واشنگٹن مارچ کرکے دکھایا تھا۔ 1964ء میں ووٹنگ کا حق مانگنے والوں کا پرامن مارچ جب الابامہ کے پیٹس برج نامی پل پر پہنچا تو پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور انہیں ڈنڈوں اور کوڑوں سے مارا۔ وہ دن خونی اتوار کے نام سے مشہور ہے۔ 1966ء میں میلکم ایکس جو مسلمان ہوگیا تھا، اسے اور 1968ء میں مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 435234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش