0
Wednesday 28 Jan 2015 22:47

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی سفید نسل پرستی کی سیاہ تاریخ (2)

یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی سفید نسل پرستی کی سیاہ تاریخ (2)
تحریر: عرفان علی 

لونگ / ورجینیا کیس 1968ء میں امریکی سپریم کورٹ نے نسلی بنیادوں پر ازدواج کو ممنوعہ قرار دینے کو غیر آئینی قرار دیا لیکن نسلی بنیادوں پر تعلیمی اداروں کی امتیازی داخلہ پالیسی اور پولیس تشدد و فسادات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ 2سال کے مباحثے کے بعد 1991ء میں صدر بش اول نے شہری حقوق ایکٹ پر دستخط کرکے اپنی ماضی والی پالیسی کو ریورس گیئر لگایا۔ روڈنی کنگ پر1991ء میں لاس اینجلس پولیس نے شدیدتشدد کیا اور اس کی وڈیو بھی عدالت میں پیش کی گئی لیکن 1992ء میں چاروں گورے پولیس اہلکار باعزت بری کردیئے گئے۔جس پر افریقی نژاد امریکیوں کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ نائن الیون کے بعد کی پوری داستان آپ کے سامنے ہے کہ امریکا قانونی طور پر پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے جہاں کسی کا کوئی شہری حق محفوظ نہیں لیکن اس مرتبہ مسلمان خاص طور پر امریکی سامراج کا ہدف ہیں۔ سیاہ فاموں سے نمٹنے کے لئے Ku Klux Klan جیسی نسل پرست تحریکیں بھی امریکا میں سرگرم عمل رہیں تو دوسری جانب ریاستی و حکومتی ہی نہیں بلکہ اس مذموم نسل پرستانہ رجحان کی عدالتی سرپرستی بھی امریکا کی سیاہ تاریخ کا حصہ ہے۔
 
امریکا ایک ایسا ملک ہے جسے وہاں کی اپنی حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ جیل کہتی ہے۔ بندہ آپ کو امریکی سیاہ تاریخ کا ایک مختصر سفر طے کروا کے بنا بریک 2014ء میں لے آتا ہے۔ 5   مئی 2014ء میں ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ کے بارے میں خبر جاری کی تو اس کا عنوان تھا، یونائیٹڈ اسٹیٹس: جیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک قوم یعنی US: A Nation Behind Bars۔ اب آپ ہی بتائیں اس کے بعد کہنے کو رہ ہی کیا گیا؟ مشہور جریدے دی اکنامسٹ میں امریکی جیلوں کی آبادی کے عنوان سے ایک تحریر مارچ 2014ء میں آئی۔ اس کا پہلا جملہ تھا کہ امریکا نہ صرف بہت سارے لوگوں کو قید و بند میں رکھتا ہے بلکہ اس کے پاس حیران و پریشان کردینے والی ایسی کئی جگہیں بھی ہیں جہاں لوگوں کو قید رکھا جاتا ہے۔

میں امریکا کے ادارے پرزن پالیسی انیشی ایٹیو PPI کی مثال دوں یا حقوق انسانی کے ایک اور ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یا امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے اسکالرز اور محققین کی تیار کردہ رپورٹس اور رائے بیان کروں یا سوشیالوجسٹ کی کتابوں کا حوالہ دوں؟ حضور! یہاں تو اتنی معلومات ہیں کہ ماضی قریب کے چند مقالوں کی طرح قصہ مختصر کرنا مشکل ہو جائے گا۔ خواتین کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والے امریکا کی جیلوں میں خواتین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ وہاں حاملہ ہو رہی ہیں۔ جس ملک کی فوجی خواتین اپنے افسران کی جنسی ہوس سے محفوظ نہیں وہاں قیدی خواتین کے حقوق کی کیا بات کی جائے۔
 
قیدیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے PPI کے مطابق امریکا میں 24لاکھ قیدی ہیں۔ جیلوں کی تعداد بھی حیران کن ہیں۔ یہ قیدی امریکی ریاستوں کی 1719، امریکی مرکزی حکومت کی 102، بچوں کے لئے مخصوص 2259، مقامی حکومتوں کے تحت 3283، انڈین کنٹری کے لئے مخصوص 79جیلوں سمیت فوجی جیلوں، شعبہ امیگریشن، سول کمٹمنٹ سینٹرز اور امریکی حدود کی دیگر جیلوں میں قید ہیں۔ مقامی جیلوں میں ایسے 7 لاکھ 22ہزار افراد قید ہیں جنہیں تاحال سزا نہیں سنائی گئی۔ ہرسال 6لاکھ 88ہزار افراد کو رہائی نصیب ہوتی ہے لیکن نئے قیدی رہا شدہ افراد سے زیادہ تعداد میں داخل ہوتے ہیں۔ خود امریکی حکومت کا بیورو آف جسٹس شماریات ہر سال اعداد و شمار جاری کرتا ہے۔ اس کی 2013ء کی مڈ ایئر رپورٹ اگست 2014ء میں ریوائزد کی گئی تھی۔ انہوں نے سٹی اور کاؤنٹی جیلوں کے قیدیوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ گوکہ سفید فام بھی اچھی خاصی تعداد میں قیدی ہیں لیکن افریقی نژاد امریکی فی صدی اعتبار سے سفید فام امریکیوں کی نسبت انتہائی کم آبادی ہے لیکن فیصدی اعتبار سے جیلوں میں سیاہ فام قیدی بہت ہی زیادہ ہیں۔ کم از کم 63فیصد امریکی آبادی گوروں کی ہے۔ اس کے بعد ہسپانوی یا لاطینی امریکی 17فیصد اور افریقی نژاد امریکی12 سے 13فیصد کے درمیان ہیں۔ ایشیائی نژاد دیگر 5فیصد ہوں گے۔
 
ان اعداد و شمار سے آپ خود اندازہ لگالیں کہ امریکی جیل میں2000ء میں 41.9 فیصد گورے قیدی تھے اور افریقی نژاد کالے قیدی 41.3فیصد ! 2013ع میں گورے کل قیدیوں کو 47.2فیصد تھے ۔حاصل مطلب یہ کہ بقیہ 37فیصد کل آبادی سے تعلق رکھنے والے اقلیتی امریکی قیدیوں کی تعداد 52فیصد سے زائد ہے جبکہ 63فیصد سفید فام گورے امریکی بلحاظ آبادی انتہائی کم تعداد میں جیلوں میں رکھے جاتے ہیں۔ آج کل امریکی نوجوان مائیکل براؤن یا جواں سال ایرک گارنر کے قتل کا تذکرہ ہے۔ لیکن اصل ایشو یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں نسل پرستی رچ بس گئی ہے۔ کونڈو لیزا رائس اور کولن پاول کو وزیر خارجہ بنا دینے سے یا نیم سیاہ نیم سفید باراک اوبامہ کو صدر بنا دینے کا یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلا کہ نسل پرستانہ سوچ ختم ہوگئی ہو بلکہ سفید سامراج کے سیاہ کرتوتوں پر کالی نقاب ڈالی گئی ہے۔ جب خاتمی دور حکومت میں تہران یونیورسٹی کی غریب نواز داخلہ پالیسی میں تبدیلی پر احتجاج ہو رہا تھا تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پوری دنیا میں ایران کے خلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا کیا تھا لیکن مجھے یاد ہے انہی دنوں مشی گن ریاست میں بینٹن ہاربر نامی علاقے میں سیاہ فام امریکی متشدد احتجاج پر مجبور ہوئے تھے۔ تب یہ رپورٹ آئی تھی کہ اس علاقے اور اس کے قریب گورے امریکیوں کے معیار زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہاں اقتصادی، تعلیمی خوشحالی تھی انہی دنوں میں نے ایک مقالے میں یہ موازنہ کیا تھا۔ آج بھی فرگوسن، سینٹ لوئس یا میسوری کے متاثرہ علاقوں میں سیاہ فام امریکیوں اور امریکی گوروں کے معیار زندگی میں فرق کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال یہ ہے کہ اگر ایک سیاہ فام امریکی کے پاس دولت صرف ایک ڈالر ہے تو اس کے مقابلے میں گورے امریکی کے پاس 13گنا زیادہ امریکی ڈالر ہیں۔ یہ اعداد و شمار خود امریکی ذرائع ابلاغ میں شایع ہوئے ہیں۔ 21 دسمبر2014ء کو نیویار ک ٹائمز نے پرو پبلیکا کی خاتون رپورٹر نکول حنا جونز کی ایک تفصیلی رپورٹ کو مختصر کرکے شایع کیا۔ اس میں امریکا کی مزاری ریاست کے محکمہ تعلیم کے اعلٰی ترین افسر کمشنر کرس نکاسترو سے سوال کیا گیا کہ کیا سیاہ فام امریکی بچے گورے بچوں کے برابر معیار کی تعلیم حاصل کررہے ہیں تو انہوں نے گہری سانس لی اور جواب دیا کہ مجھے کہنا ہوگا کہ ایسا نہیں ہے۔

18سالہ مائیکل براؤن اپنی ماں کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ اس کی ماں لیسلے میک اسپیڈن کی فریاد ہے کہ قاتلوں کو کیا معلوم کہ ایک کالے امریکی طالبعلم کو گریجویٹ کرنے کے لئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے قاتل ڈیرن ولسن کا مقدمہ مزاری ریاست کی کاؤنٹی سینٹ لوئس کے علاقے کلیٹن کے گورے امریکی ججوں کی عدالت میں پیش تو ہوا مگر ملزم پر فرد جرم عائد کرنے سے انکار کردیا گیا۔ براؤن نارمنڈی اسکول سسٹم کا شاگرد تھا جو مزاری کا غریب ترین اسکول برائے سیاہ فام امریکی ہے جبکہ کلیٹن اسی سینٹ لوئس کاؤنٹی کے نارمنڈی سے محض 5کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور وہاں پبلک اسکول میں چونکہ سفید فام امریکی بچے پڑھتے ہیں اس لئے اس کا 96%کامیاب نتیجہ آتا ہے۔ امریکی محققین بہت سے اسکولوں کے لئے apartheidاسکول کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
 سینٹ لوئس شہر میں ہی ایک اور 18سالہ افریقی نژاد امریکی انٹونیو مارٹن کو پولیس نے 23اور 24دسمبر کی درمیانی شب قتل کردیا۔ امریکا میں یہ رائے سامنے آئی کہ اس مرتبہ کئی مائیں کرسمس پر جشن منانے کی بجائے سوگوار رہنے پر مجبور کردی گئی ہیں۔ فرگوسن بھی ریاست مزاری کی سینٹ لوئس کاؤنٹی کا شہر ہے جہاں ایرک گارنر کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور قاتلوں کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت بھی عدالت کو پیش کئے گئے۔ ملزمان پر مقدمہ چلانے سے ہی نسل پرست جج انکاری ہیں۔ کہیں سیاہ فام امریکیوں کو انڈر ورلڈ جرائم پیشہ گینگ وار بدمعاشوں کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے تو کہیں segregatedاسکولوں میں انہیں تعلیمی طور پر پسماندہ رکھا جا رہا ہے۔

امریکا انسانی حقوق کے حوالے سے نائن الیون کے بعد تھانہ نہیں بنا بلکہ اس کا جنم ہی نسل پرستی کی کوکھ سے ہوا تھا۔ ویتنام جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے گھر تک تعاقب کرکے ان کی معلومات جمع کرنے والے امریکی جاسوسی ادارے اپنے ہی ملک کی سینیٹ کی کمیٹیوں کے اراکین کو بھی دھمکیاں دیتے رہے ہیں اور اسی سال ان پر امریکی قانون ساز اداروں کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اوبامہ حکومت بش دور حکومت کی واٹر بورڈنگ کے بارے میں تحقیقات کو سامنے لا رہی ہے جبکہ اوبامہ دور کی جنگوں میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے، اس کا حساب کتاب کوئی نہیں بیان کررہا۔ عراق میں حال ہی میں بلیک واٹر ٹائپ کی کمپنیوں کے ٹھیکیدار بھیجے گئے ہیں۔

امریکا کے لئے معتبر خبر رساں ادارے رائٹر نے 13اگست 2014ء کو خبر دی کہ اقوام متحدہ نے نسلی امتیازات پر امریکا سے سخت پوچھ گچھ کی ہے۔ 8ستمبر 2014ء کو ایک رپورٹ امریکی سینٹرل کمانڈ کے میزبان ملک قطر کے الجزیرہ چینل سے آئی کہ نسلی و لسانی امتیازات پر اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے CERD نے امریکی حکومت پر شدید تنقید کی۔ مارچ2014ء میں بھی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق نے 11صفحات پر مشتمل سخت امریکا مخالف رپورٹ میں امریکا کی نسل پرستی پرتنقید کرتے ہوئے اس کی اصلاح پر زور دیا تھا۔ اس میں امریکا کے فیئر سینٹینسنگ ایکٹ 2010ء کو بھی نسلی امتیازات پر مبنی قرار دیا تھا اور نیویارک پولیس کے اسٹاپ اینڈ فرسک پروگروام کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ ایسٹرن کینٹکی یونیورسٹی کے اسکول آف جسٹس اسٹڈیز کی جانب سے کی گئی ایک اسٹڈی میں یہ معلوم ہوا کہ امریکا میں اسپیشل ویپنز اینڈ ٹیکٹکس (Swat) ٹیموں کی تعیناتی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔یہ 1980ع میں تقریباً 3ہزار مرتبہ تعینات ہوئے تھے اور اب ہرسال 50ہزار کی تعداد میں Swat ٹیموں کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔ اسٹینفورڈ لاء اسکول سے وابستہ اسکالر اور امریکا کے سابق فیڈرل پراسیکیوٹر ڈیوڈ اسکلینسکی نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ دولتمند گورے امریکیوں کے علاقوں میں بکتر بند گاڑیوں کا گشت نظر نہیں آتا۔ عام سیاہ فام امریکیوں کا کیا تذکرہ، نیویارک پولیس کے افریقی نژاد امریکی اہلکار بھی خود کو بغیر وردی باہر گھومتے وقت امریکی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ یہ ہے اکیسویں صدی کے نسل پرست صہیونیوں کا نسل پرست گورا اتحادی یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا۔
خبر کا کوڈ : 435937
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش