0
Monday 2 Feb 2015 18:34

بے یار و مددگار، تباہ حال غزہ اور برفانی طوفان

بے یار و مددگار، تباہ حال غزہ اور برفانی طوفان
تحریر: عرفان علی
 
نسل پرست و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی دہشت گرد افواج کی جانب سے یکطرفہ طور پر مسلط کی گئی 52روزہ جنگ سے تباہ حال، بے یار و مددگار غزہ ایک نئی مصیبت سے دوچار ہے۔ یوں تو مشرق وسطٰی کے کئی ممالک کو برفانی طوفان کا سامنا تھا لیکن غزہ کے بے یار و مددگار مکینوں کے لئے یہ موت کا پیغام لے کر آیا۔ کیا کوئی تصور بھی کرسکتا ہے کہ غزہ کے مفلوک الحال فلسطینیوں پر کیا بیت رہی ہے؟ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد محمود عباس کی انتظامیہ کے عارضی دارالحکومت کے حامل فلسطین میں بھی صورت حال غزہ سے کئی درجہ بہتر ہے۔ پچھلے سال ماہ اکتوبر میں فلسطین کے نام نہاد (جعلی) ہمدرد ممالک نے تباہ شدہ غزہ کی تعمیر نو کے لئے 5 بلین ڈالر سے زائد امداد کا اعلان کیا تھا۔ ایسے کھوکھلے اعلانات دنیا کے منافق حکمرانوں کی جانب سے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے آئے دن کئے جاتے ہیں، لیکن اس پر بروقت اور مکمل عمل شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ فلسطین پر قابض و غاصب ناجائز صہیونی دہشت گرد ریاست اسرائیل کے دوست ممالک جو تھوڑی بہت رقم دیتے رہے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ نسل پرست یہودی یعنی صہیونی دہشت گرد افواج اور انتہاپسند نسل پرست یہودی، فلسطینیوں کو نقصانات پہنچاتے رہے ہیں۔

اب تک کی آخری جنگ پچھلے سال ہوئی تھی۔ اس 52 روزہ جنگ میں گھر، اسکول مساجد، سبھی کو صہیونی اسرائیلی دہشت گرد حملہ آور جارح افواج نے زمین بوس کر دیا تھا۔ غزہ کے جنگ زدہ فلسطینی اب خیموں، تباہ شدہ عمارات کے ملبوں یا جزوی طور پر تباہ عمارات میں زندگی گذارنے پر مجبور تھے۔ جزوی طور پر تباہ شدہ عمارات میں نہ کھڑکی ہے اور نہ ہی ہوا سے بچنے کا انتظام۔ اس سرد موسم میں جب کہ وہاں درجہ حرارت منفی ہوچکا تھا، یعنی حرارت تو بچی ہی نہیں تھی بلکہ درجہ سرد تھا، ایسے عالم میں برفانی طوفان Huda نے اس کو مزید شدید کر دیا، رہی سہی کسر برسات نے پوری کر دی۔ کئی فلسطینی اس کی تاب نہ لاتے ہوئے اس دار فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان آباد ہیں اور تقریباً 56 ممالک میں مسلمان حکمران ہیں۔ اگر امت اسلام کے متمول افراد اور حکومتیں ہی مل جل کر غزہ سمیت دیگر علاقوں کے مظلوم فلسطینیوں کی مستقل امداد کا نظام وضع کرتے تو غزہ سمیت پورا فلسطین نہ صرف یہ کہ خوش حال ہوتا بلکہ ایک آزاد مملکت بھی بن چکا ہوتا۔

ناجائز و غاصب، دہشت گرد، نسل پرست صہیونی ریاست اسرائیل کے سب سے بڑے مددگار امریکہ کے اتحادی عرب حکمرانوں نے عالم اسلام و دنیائے عرب کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے بظاہر ایک فلسطین دوست موقف اختیار کیا ہے، لیکن اس کا کھوکھلا پن اور دوغلا پن ایک طویل عرصے سے دنیا پر ظاہر ہوچکا ہے۔ حیرت اور شرم کا مقام ہے عرب حکمرانوں کے لئے کہ ایک ملک جس کی سرحدیں بھی فلسطین سے نہیں ملتیں اور جو عرب ملک بھی نہیں ہے، یعنی ایران، وہ علی اعلان فلسطین کی مسلح اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو مسلح کرتا ہے اور اسی کے دیئے ہوئے فجر میزائل اور راکٹ نسل پرست دہشت گرد غاصب ریاست اسرائیل پر برستے ہیں، لیکن عرب ممالک جو اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکہ و برطانیہ و دیگر ممالک سے خریدتے ہیں، انہوں نے ان کامیاب اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو صہیونی جارحیت کے آگے ترنوالہ بناکر پیش کر دیا ہے!

کل ساری عرب افواج مل کر بھی اسرائیل کو شکست نہیں دے سکتیں تھیں اور جنگوں کے نتیجے میں نسل پرست صہیونی دہشت گردوں نے پورے فلسطین کو اپنے غاصبانہ قبضے میں لے لیا تھا، لیکن آج حماس، حرکت جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (الجبھۃ الشعبیہ لتحریر فلسطین القیادۃ العامہ) جیسی اسلامی مقاومتی تحریکیں مسلح مزاحمت کرکے صہیونی دہشت گردوں کو جنگ میں وہ کامیابی حاصل نہیں کرنے دیتیں جو ماضی میں صہیونی افواج حاصل کرلیتی تھیں، یعنی مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ۔ فرق صاف ظاہر ہے کہ ماضی میں جنگ لڑنے والی عرب افواج، دنیا کے 2 سامراج پر تکیہ کرتی تھیں یعنی امریکہ اور سوویت یونین اور ان دونوں ممالک کی ہیئت مقتدرہ عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کو ذلیل نہیں دیکھنا چاہتی تھیں، لہٰذا عرب افواج کو شکست ہوتی تھی۔ عرب افواج میں ایمانی جذبہ بھی نہیں تھا، کیونکہ وہ غرب زدہ جرنیلوں کی قیادت میں لڑا کرتے تھے یا پھر اشتراکی افواج کے تربیت یافتہ تھے۔ مسلح اسلامی تحریکوں کی کامیاب مزاحمت اور عرب حکمرانوں کی خیانت کے باوجود فلسطینیوں کی استقامت لائق تحسین ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ منظم انداز میں آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز (OIC) اور عرب لیگ پر دباؤ ڈالے کہ فوری طور پر غزہ کے لئے اعلان کردہ 5 بلین 40 کروڑ ڈالر کی رقم جمع کرکے تعمیر نو کے کام کا آغاز کر دیا جائے، اور اس سے بھی پہلے اس برفانی طوفان کے مہلک اثرات سے فلسطینیوں کو بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ انہیں کمبل، گرم کپڑے اور ایسی رہائش فراہم کی جائے کہ جہاں وہ سردی کی شدت سے مرنے سے بچ جائیں۔ یہ امدادی کام فوری نوعیت کا ہے اور اسے فوری طور انجام دیا جانا چاہئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں قرار داد کے ڈراموں سے بہتر ہے کہ اسرائیل کے حامی ممالک کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے۔ نہ ان سے کچھ خریدا  جائے اور نہ ہی انہیں کوئی چیز فروخت کی جائے۔ خاص طور پر تیل اور گیس۔ اب عرب حکمران ڈرامے بازی چھوڑ کر مغربی بلاک کو خیر باد کہیں اور متبادل عالمی و علاقائی فورم کو فعال کریں اور خود بھی فعال ہوں، تاکہ فلسطین آزاد ہو اور بیت المقدس اس کا دارالحکومت قرار پائے۔

غزہ کے بے یار و مددگار فلسطینیوں کو برفانی طوفان کی وجہ سے درپیش مشکلات و مصائب سے نجات دلانے کے لئے پڑوسی عرب ممالک کا کردار زیادہ اہم ہے۔ عالم اسلام مصر پر دباؤ ڈالے کہ وہ غزہ کی امداد کے لئے راستہ کھول دے۔ اردن کی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ مغربی کنارے کے راستے غزہ تک امداد پہنچائے۔ سمندری راستے سے بھی غزہ تک امداد پہنچائے جانے کی ضرورت ہے۔ غزہ کے مکین بجلی سے بھی محروم ہیں اور اس برفانی طوفان کی وجہ سے سردی کی شدت میں ان کے پاس گرم رہنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں۔ ذرا سوچئے کہ منفی درجہ حرارت میں انسان کو کتنے گرم کپڑے پہننے پڑتے ہیں اور کتنے کمبل و چادر درکار ہوتے ہیں۔ اگر ہیٹر کا بندوبست نہ ہو تو گرم کپڑے اور لحاف بھی ناکافی ہوتے ہیں۔

خدا کرے کہ عرب لیگ اور اور آئی سی اپنے ناموں کی ہی لاج رکھ لیں اور اپنے بنیادی ہدف فلسطین کی آزادی کے ایجنڈا کو فراموش نہ کر دیں۔ بہر حال یہ ہر مسلمان اور ہر عرب کی ذمے داری ہے کہ آزادی فلسطین کی جدوجہد کے تحت غزہ کو اقتصادی لحاظ سے بھی آزادی دلوائیں۔ غزہ کے مکین نقل مکانی پر مجبور کئے جا رہے ہیں، ان کو روزگار تک رسائی کی بھی ضرورت ہے اور بجلی و پانی، تعلیم و صحت بھی ان کا حق ہے۔ فی الوقت تو صورتحال یہ ہے کہ شہری سہولیات کا نظام بھی ابتر ہوچکا ہے۔ اگر عرب حکمرانوں نے غزہ کو فوری مدد فراہم نہ کی تو وہاں کے ہر بچے کی موت کی ذمے داری ان پر عائد ہوگی۔ وہ اس بے حسی، سستی اور کاہلی پر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں کیا وضاحت پیش کرپائیں گے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی امت غزہ میں سردی، بھوک اور بیماریوں سے مرے اور عرب حکمران شاہ اور ان کے خاندان شاہی خاندان کہلوائیں! یہ شاہی خاندان عیش و عشرت پر خرچ کرنے والی رقم ہی اگر عیش و عشرت کے بجائے غزہ پر خرچ کر دیں تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ غزہ برفانی طوفان کے مہلک اثرات سے بچ جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 436674
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش