0
Wednesday 4 Feb 2015 21:03
وہابی عقائد کی رو سے اردنی پائلٹ کو زندہ نذر آتش کرنا

داعش کی لامحدود بربریت

داعش کی لامحدود بربریت
تحریر: رضا دہقانی

داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں نے آخرکار اردن کی حکومت سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد اردنی پائلٹ "معاذ الکساسبہ" کو زندہ جلا ڈالا اور مزید وحشیانہ اقدام کے طور پر اپنے اس غیرانسانی اقدام کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر شائع کر ڈالی۔ اردن آرمی نے اس ویڈیو کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ 
 
بے لگام بربریت:
اس موقع پر پیدا ہونے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گردوں کے اقدامات اور رویے کی کوئی نظریاتی بنیاد بھی ہے یا نہیں؟ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جب شام میں سرگرم حکومت مخالف کرائے کے قاتل قتل ہونے والے شامی سپاہی کی لاش سے اس کا دل نکال کر چباتے ہیں تو کس مسلک اور کن احکام کی بنیاد پر اپنے اس وحشیانہ عمل کا شرعی اور عقلی جواز فراہم کرتے ہیں؟ موجودہ مسالک میں کس مسلک سے وابستہ علماء ایسے اقدامات کو جائز قرار دیتے ہیں؟ اسلام میں حتی حیوانات کو زندہ جلانے کی شدید دنیوی اور اخروی سزا بیان کی گئی ہے اور نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی حیوانات کے اعضاء کاٹنے کو شدت سے منع کیا ہے۔ پس داعش کے تکفیری دہشت گرد کس اسلام کی رو سے ایک انسان کو زندہ جلانے کو جائز سمجھتے ہیں؟

یقیناً وہ اسلام جس کی بات داعش کے تکفیری دہشت گرد کرتے ہیں، حقیقت میں ایسا وحشیانہ پن ہے، جس پر اسلام کا اسٹکر چپکا دیا گیا ہے، کیونکہ وہ اسلام جس سے ہم آشنا ہیں اور اس کو ہم تک پہنچانے والے عظیم انسان حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین اور سیرت، کبھی بھی ایسی درندگی اور بربریت کی اجازت نہیں دیتے۔ اسلامی تاریخ اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایک نگاہ دوڑانے سے "جنگی قیدی" کے بارے میں اسلامی تعلیمات کو اچھی طرح جانا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور عظیم اسلامی شخصیات کی سیرت کی روشنی میں ایک جنگی قیدی کو عام مسلمان شہری جتنا تحفظ اور احترام حاصل ہے۔ 
 
انسانی تاریخ میں انسانوں کو زندہ جلائے جانے کی مثالیں صرف یورپ خاص طور پر قرون وسطٰی کے دور میں نظر آتی ہیں۔ "جان کیلون" وہ شخص ہیں جنہیں ان کے تجدیدی عقائد کی وجہ سے دسمبر 1564ء میں زندہ جلا دیا گیا۔ اسی طرح جب مغرب پر کلیسا کی حکومت تھی اور "عقائد کی تفتیش" کا دور تھا اور لوگوں کو کلیسا کے مخالف عقائد کی بابت سزائے موت دی جاتی تھی تو ایسے واقعات بہت زیادہ رونما ہوتے تھے۔ اسی دور میں سپین میں بڑی تعداد میں یہودیوں کو بھی زندہ جلایا گیا، جس کے بعد یہودیوں نے وہاں سے نقل مکانی کرنا شروع کر دی، لیکن ابھی تک عالم اسلام میں اس وحشیانہ اقدام کی کوئی مثال موجود نہ تھی۔ 
 
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے اردن کے قیدی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلائے جانے کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے۔ اس ویڈیو کے سب ٹائٹل میں ابن تیمیہ کا فتویٰ بھی دکھایا گیا ہے، جس کے مطابق اسلام کی تبلیغ اور اسلام دشمن عناصر پر اپنا رعب اور دبدبہ ڈالنے کی خاطر ان کے مقتول افراد کے اعضاء کاٹنے (مثلہ کرنے) کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش سے وابستہ تکفیری عناصر ابن تیمیہ کے اس فتویٰ کی روشنی میں مدمقابل کے افراد کو زندہ جلانا بھی شرعا جائز سمجھتے ہیں۔ البتہ دنیا بھر کے مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ ابن تیمیہ کے انحرافی افکار جعلی فرقے وہابیت کی بنیاد ہیں اور اہلسنت کا کوئی فرقہ ان افکار کو قبول نہیں کرتا۔

تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے "النصر بالرعب" (رعب و وحشت پھیلا کر فتح حاصل کرنے) کو اپنی اسٹریٹجی بنا رکھا ہے۔ عبارت "النصر بالرعب" پر مختصر غور کرنے سے اس حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے کہ تکفیری دہشت گرد اپنے وحشیانہ اقدامات کے بارے میں کسی محدودیت کے قائل نہیں۔ اس وحشیانہ رویے کا جائزہ لینے کیلئے دو اہم نکات پر توجہ ضروری ہے، کیونکہ ان غیر انسانی اقدامات کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں:
1۔ ایسے وحشیانہ اقدامات کو جائز قرار دینے والے نظریات، اور
2۔ نفسیاتی بیماری 
 
تکفیری نظریہ:
 یہ سوچ اس بنیاد پر استوار ہے کہ تمام چیزیں یا سفید ہیں یا سیاہ۔ انسان یا تو ہمارے ساتھ ہیں اور راہ راست پر ہیں یا ہمارے مخالف ہیں اور گمراہ ہیں، لہذا انہیں قتل ہوجانا چاہئے۔ شاید اسی وجہ سے تکفیری دہشت گرد عناصر کالے یا سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں۔ تکفیری نظریہ کی رو سے اپنی سوچ اور نظریات کو پھیلانے کیلئے ہر طریقہ جائز ہے اور اس ضمن میں کسی قسم کی محدودیت نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد عناصر کسی ہچکچاہٹ اور پریشانی کے بغیر ہر غیر انسانی اور مجرمانہ فعل انجام دیتے ہیں اور اس میں ذرہ بھر شرم محسوس نہیں کرتے۔ 
 
نفسیاتی مسائل:
وہ اقدامات جو تکفیری دہشت گرد انجام دیتے ہیں، اگر کوئی معمولی شخص انجام دے تو سب اس بات پر اتفاق کریں گے کہ یہ شخص نفسیاتی مریض ہے، کیونکہ کوئی بھی ایسا شخص جو نفسیاتی اور شخصیتی اعتبار سے صحت مند ہو، کسی دوسرے انسان کو زندہ جلانے اور اس کی ویڈیو بنانے اور اسے جلتا اور تڑپتا ہوا دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ بچپن میں نامناسب حالات زندگی، معاشرتی مظالم، ماں باپ کا رویہ، بچپن کے کمپلکسز اور سیاسی حالات وغیرہ ایک انسان کے اندر نفسیاتی مسائل پیدا کرسکتے ہیں اور اس میں انتقام لینے کا جذبہ ایجاد ہوسکتا ہے۔ اب اگر ایسے شخص کو ایک ایسا مکتب فکر اور نظریہ بھی مل جائے، جو اسے اس قسم کے اقدامات کا شرعی جواز فراہم کرتا ہو تو وہ یہ اقدامات انجام دے کر احساس جرم یا بیماری کا احساس کرنے کی بجائے مکمل خود اعتمادی کا اظہار کرے گا۔ ایسے شخص کے سامنے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی۔ لہذا اس صورت میں انسان بھیڑیے کا روپ دھار لے گا۔
خبر کا کوڈ : 437366
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش