QR CodeQR Code

امام خمینی کے دیس ہم شرمندہ ہیں

4 Feb 2015 23:57

اسلام ٹائمز: کشمیر میں ہندو کافر ہماری کشمیری نسلوں کو ختم کرنے کیلئے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں، ادھر پاکستان کی پاک سرزمین پر بھارت نواز طالبان، جنداللہ، احرار الاسلام، لشکر جھنگوی مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھا رہے ہیں، ہم خود ستم رسیدہ ہونے کے ناطے، دنیا کے مظلوموں کا دکھ پہلے سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، انکے دکھ میں عملی طور پر شریک ہیں۔ کشمیری بھائیو! ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ دہشتگرد انہی فوجی آمروں کی پیداوار ہیں، جو ہمیں قتل کر رہے ہیں اور انہوں نے ہی کشمیر کاز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہمارے پاس کشمیری مظلوموں کے دکھ کا مداوا ہے نہ سرحد پار اٹھنے والے ہاتھوں کو روکنے کی سکت، یہ بے بسی کافروں سے زیادہ یزید صفت مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔


تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

اسلامی نظریئے کی بنیاد پہ معرض وجود میں آنے والے ملک پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ جدید دنیا میں یہ پہلا ملک ہے جو اسلام کے نام پر منصہ شہود پر ظاہر ہوا۔ پاکستان ہی وہ ملک ہے جہاں قرارداد مقاصد کی شکل میں، دنیا کا سب سے پہلا اسلامی آئین ایک مسودے کی صورت میں سامنے آیا اور ریاستی دستاویز بنا۔ عرب و عجم میں اسلامی نظام کے احیاء اور دینی حکومت قائم کرنے کے لئے جاری اسلامی تحریکوں نے اپنے لئے اسے مثال بنایا۔ آزادی کے دو عشرے بعد ہی، ملک پر قابض اشرافیہ نے اسلامی اور آئینی حدود کو پائمال کرکے رکھ دیا۔ اسلام، ملکی آئین اور عوامی امنگوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی پالسیاں بنائی گئیں۔ فیصلہ سازی کا یہ غیر فطری انداز وطن عزیز کے لئے دیمک سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ بابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان شہ رگ قرار دیا تھا، اصولی طور پر یہ فرمان پاکستانی قوم کے لئے یہ ایک نص کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اجتماعیت کی روح سے عاری اور ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو موقع پرستی کی بھینٹ چڑھانے والے حکمرانوں نے نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے خوابوں کو تعبیر نہیں دی، بلکہ آزادی کشمیر کے لئے صف بہ صف کھڑی قوم کو بھی تتر بتر کر دیا۔ آج پانچ فروری کو کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے، وہ ولولہ اور جوش نہیں، جو ہونا چاہیے تھا، بلکہ چاہیے تو یہ تھا کہ جس طرح پوری قوم کشمیر کاز کے لئے یک جان ہے، انڈیا ہمارے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوتا۔

آج جب ہم یوم یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں تو، سچی بات یہ ہے کہ جنت ارضی میں قربان ہونے والے بھائیوں، بہنوں، بچوں اور بزرگوں کے سامنے ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں۔ اگر طالبان کی پشت پناہی انڈیا کر رہا ہے تو کیا اس افراتفری میں ملک کی شہ رگ کو پس پشت ڈال دیا جائے۔ آج کشمیری مسلمانوں کے ارمانوں کا خون کرنے والے، امریکہ کے کاسہ لیس حکمرانوں سے پوچھنے کا دن ہے کہ امریکہ نے افغان طالبان کے حوالے سے اپنے موقف پر یوٹرن لیتے ہوئے انہیں دہشت گرد کے بجائے غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑنے والے مسلح باغی قرار دیا ہے، اگر افغان طالبان غیر ملکی قبضے کیخلاف لڑنے والے مسلح باغی ہیں، تو کشمیری حریت پسندوں کے بارے میں امریکہ کا کیا خیال ہے، وہ بھی تو غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ حکمرانوں نے غیر متوازن پالسیاں بنائیں، عالمی طاقتوں کے مفادات کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کو گھسیٹ کے پاکستان کے شہروں اور قصبوں میں لے آئے، مخصوص مسلک کے غیر ذمہ دار ملاوں کو جہاد کے نام پر قتل و غارت کے لئے تیار کرکے چھوڑ دیا گیا، پاکستان کے جوان کشمیری بہنوں کی سسکیوں پر کان دھرتے یا جہاد کے نام پہ فوجی آمروں کے پالے عفریت سے عفت مآب پاکستانی خواتین کی عزتوں کو بچاتے۔ جہاد کے نام پر جن لوگوں نے معصوم بچوں کو بھون دیا، بے گناہوں کے سروں کو سرعام قلم کیا، عورتوں کو درے لگائے، اسکول جاتی بچیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا، ایسے میں یہ کب ممکن ہے کہ سوات اور کوئٹہ کے بچوں کو کشمیر میں ہونے والے ظالم کافروں کے مظالم دکھائے جائیں، مدرسوں میں بیٹھ کر قاتل تیار کرنے والے بتائیں کہ سو سو جنازوں پہ بین کرتی ماوں کو کیسے بتایا جائے کہ پاکستان کی شہ رگ غیروں کے قبضے میں ہے، جبکہ کشمیری ماوں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کیا جا رہا ہے۔

ڈالروں سے جیبیں بھرنے والوں نے کب پاکستان کے مفادات کو سمجھا اور ترجیح بنایا، کیوں امریکہ کی آشیرباد پہ افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا نظریہ گھڑا گیا، دہائیاں بیت گئیں، یہ پالیسیاں زہر قاتل ثابت ہوئیں، افغانستان آج تک ناامن ہے، پاکستان کی گلی گلی رنگین ہے، جہاد کے نام پہ تیار ہونے والے قاتل دستوں کی شکل میں پاکستان کی مسجدوں اور مدرسوں کو اپنا مورچہ بنا چکے ہیں، آج بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مسئلہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ الٹا دو ہزار چودہ میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جہاد پھر سے شروع ہوسکتا ہے؟ جہاد کشمیر اگر ختم ہوا ہے تو سوال اٹھا جا رہا کہ دوبارہ شروع ہوگا۔ مغربی میڈیا جب یہ واویلہ کرتا ہے تو اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے معاملے میں کشمیریوں کی نمائندگی کا حق ادا نہیں کرسکا، ورنہ دنیا جب کشمیر کی طرف دیکھتی تو انہیں پتہ چلتا کہ آج کشمیر کا اتنا حصہ غاصب فوج سے آزاد کرا لیا گیا ہے، آج مقبوضہ کشمیر کے فلاں علاقے سے بھارتی فوج دم دبا کر بھاگ گئی ہے، بھارت کو دنیا کے ہر موڑ پر مجرم گردانا جاتا، انڈین سفارت کار عالمی برادری سے منہ چھپاتے پھرتے۔ ہر فورم پہ الٹی گنگا بہہ رہی ہے، دنیا کہتی ہے کہ کشمیر کا تنازع پاکستان کی دفاعی اور اسٹریٹیجک پالیسی کا مرکزی نکتہ بن گیا ہے اور ممکن ہے پاکستان اب بھی انتہا پسند اور دہشت گرد قوتوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہو، ہمارے پالسی سازوں نے کیا گل کھلائے ہیں کہ مذہب بھی بدنام ہوا اور جہاد جیسا مقدس کام بھی دہشت گردی۔

اللہ، اللہ کا رسول (ص) اور خدا کی کتاب یہ حکم دیتے ہیں کہ مظلوم کو تنہا مت چھوڑو، بے کسوں کی داد رسی کرو، مسلمان ممالک میں پاکستان کا قائدانہ رول اس قابل بھی نہیں کہ مسلمان ممالک کو کشمیر پر اکٹھے کر لے۔ خلیجی اور عرب ممالک میں دہشت گرد برآمد کرنے والوں سے پوچھا جانا چاہیے کہ تمہارے شکموں کا جہنم کب بھرے گا۔ اللہ کا دین پوری دنیا میں سربلند کرنے اور پاکستان کو ماڈل اسلامی ریاست بنانے کے لئے قربان ہونے والے لاکھوں مسلمانوں کا خون پکار رہا ہے کہ دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے، ہماری خارجہ پالیسی کے عناصر کیا ہیں، کبھی طالبان، کبھی حقانی گروپ، کبھی پنجابی طالبان اور کبھی دفاع پاکستان کونسل کے نام سے دہشت گرد گروپوں کا اکٹھ۔ انڈین آرمی کشمیر کو ناپاک قدموں سے روند رہی ہے اور دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے کہ دہشت گرد پاکستان کا اثاثہ ہیں، پاک افغان سرحد پر موجود دہشت گردی کے ٹھکانوں نے کشمیروں کے خون کی چمک اور جدوجہد آزادی میں قربان ہونے والوں کے لہو کی رعنائی کو گہنا دیا ہے۔

جب قوم یک زبان تھی تو ذرائع ابلاغ جذبات کی عکاسی کرتے تھے، حکمرانوں نے پورا معاشرہ کرپٹ کر دیا ہے، آج پاکستانی میڈیا غیروں کے ایجنڈا پہ چل رہا ہے، ٹی وی چینل اور اخبارات پاک بھارت تجارتی معاہدوں کو سراہتے ہیں، لیکن کشمیر کی آزادی کے لئے ہونے والی جدوجہد کو پرموٹ کرنے کی بجائے، اس پر رائے عامہ کو حیلوں بہانوں سے مزید کنفیوژ کرتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد جہاد افغانستان کے بطن سے پیدا ہونے والی القاعدہ اور اسکے گندے انڈوں سے پیدا ہونے والے بھارت نواز طالبان کے خلاف تو میڈیا کو شٹ اپ کال دی گئی ہے، لیکن کشمیر کمیٹی کی سربراہی آج بھی بالواسطہ طور پر مذکورہ ملک دشمن عناصر کے سرپرستوں کے ہاتھ میں ہے۔ ملک اسحاق جیسے قاتلوں کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کے دفاع میں نعرے لگانے والے کب تک کشمیر پالیسی پر کنڈلی مار کے بیٹھے رہیں گے۔ اگر یہی وطیرہ رہا تو نسل نو کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان کشمیر سے دستبردار ہوگیا ہے، کیونکہ خود پاکستان ایسے ہاتھوں میں یرغمال ہے، جو مظلوموں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں۔

کشمیر امام خمینی کا دیس ہے، پاکستانی امام خمینی کے متوالے ہیں، لیکن دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی گلیوں میں خوف کی فضا پیدا کرنے والوں نے کشمیری بھائیوں کی حمایت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے والے پاکستانیوں کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ کشمیری مظلوم ہیں اور خمینی دوراں کا سبق ہے کہ کربلا کے ماننے والے ظلم پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ کشمیری بہنوں، بیٹیو یہ مت سمجھنا کہ ہم نے تمہاری چیخ و پکار نہیں سنی، یا خمینی کے پیغام کو نہیں سمجھا، ہم شرمندہ ہیں کہ کشمیریوں کی آواز پہ لبیک نہیں کہہ سکے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ وادی جنت نظیر ہمیشہ ظالموں کے رحم و کرم پہ رہے گی، بس تھوڑا صبر کرو، ڈٹے رہو، ملت مظلوم پاکستان کوئٹہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگانے والے بچوں کو دفن کر لے، کربلائے پشاور میں معصوم پھولوں کے جنازے پڑھ لیں، وادی مہران خون آلود ہے، شکارپور میں کربلا بپا ہے، آج ہم کشمیریوں کا دکھ زیادہ شدت سے محسوس کرسکتے ہیں، لیکن وہ جن کے ہاتھ اختیار ہے، جو فیصلے کرتے ہیں، وہ ہمارے دکھوں کے ذمہ دار ہیں۔ کاش ہم نے پہلے ہی مظلوموں کی آہ و بکاہ سنی ہوتی، کاش ہم غافل نہ ہوئے ہوتے، کاش پاکستان کی باگ ڈور لٹیروں اور ستم کاروں کے ہاتھ نہ جانے دیتے، اگر خمینی پاکستان، شہید عارف حسین حسینی کے پرچم تلے جمع ہو کر اسلام کے عادلانہ نظام کو رائج کرنے کے اٹھ کھڑے ہوتے، تو آج نہ صرف کشمیری ماوں، بہنوں اور معصوم بچوں کے حضور شرمندہ نہ ہوتے، بلکہ پاکستان کی سرزمین کسی جرنیل، ملا، صنعت کار اور جاگیردار کی جاگیر نہ ہوتی۔

ادھر کشمیر میں ہندو کافر ہماری کشمیری نسلوں کو ختم کرنے کے لئے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں، ادھر پاکستان کی پاک سرزمین پر بھارت نواز طالبان، جنداللہ، احرار الاسلام، لشکر جھنگوی مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھا رہے ہیں، ہم خود ستم رسیدہ ہونے کے ناطے، دنیا کے مظلوموں کا دکھ پہلے سے زیادہ محسوس کرتے ہیں، انکے دکھ میں عملی طور پر شریک ہیں۔ کشمیری بھائیو! ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ دہشت گرد انہی فوجی آمروں کی پیداوار ہیں، جو ہمیں قتل کر رہے ہیں اور انہوں نے ہی کشمیر کاز کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ہمارے پاس کشمیری مظلوموں کے دکھ کا مداوا ہے نہ سرحد پار اٹھنے والے ہاتھوں کو روکنے کی سکت، یہ بے بسی کافروں سے زیادہ یزید صفت مسلمانوں کی وجہ سے ہے۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، کشمیری شہدا کا خون رنگ لائے گا، آزادی کی صبح جلد طلوع ہوگی، مہدیؑ دوراں کا پرچم دنیا پہ ضرور لہرائے گا، پوری دنیا کے مظلوموں کو فتح نصیب ہوگی، کھوٹے اور کھرے الگ ہوجائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 437414

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/437414/امام-خمینی-کے-دیس-ہم-شرمندہ-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org