0
Thursday 5 Feb 2015 15:30

اسلامی بیداری اور انقلاب اسلامی ایران

اسلامی بیداری اور انقلاب اسلامی ایران
تحریر: آغا مرتضٰی پویا

پوری دنیا میں ایک اضطراب، بے چینی، افراتفری اور بے یقینی کی سی کفیت دکھائی دی رہی ہے، آج کا انسان تمام تر مادی وسائل رکھنے کے باوجود قلبی اطمینان اور ذہنی سکون سے آری ہے۔ دنیا کی نگائیں اسلام کی طرف اٹھ رہی ہیں، خاص طور پر انقلاب اسلامی ایران کے بعد دنیا تیزی سے اسلام کی طرف متوجہ ہوئی ہے۔ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی ایک غیر معمولی انسان تھے۔ 1965ء میں ایران کی پارلیمنٹ کے اسپیکر آیت اللہ کاشانی سے امام خمینی کی ملاقات ہوئی، آیت اللہ کاشانی نے ان کے بارے میں کہا کہ میں ان کے اندر وہ اصلاحیت، جذبہ اور اہلیت دیکھ رہا ہوں کہ اگر دنیا کا اقتدار اس شخص کے پاس آجائے تو یہ دنیا کو بدل سکتا ہے۔

تجارتی معاملات میں میر آنا جانا ایران میں رہتا تھا، 1978ء میرے سسر مزرا احمد شجاعی کا انتقال ہوا، ان کی میت کنیڈا سے ایران لائی گئی، جب ہم تدفین کے مراحل سے فارغ ہوئے تو میں کرمان میں اپنے بھائی علی پویا کے ہاں ٹھہرا۔ انہوں نے میرے اعزاز میں ایک ڈنر کیا، جس میں انہوں نے اپنے بزنس پارٹنر ارشام کو بھی مدعو کیا، جو کہ کرمان سے افغانستان تک ساواک کے انچارج تھے۔ ان سے گفتگو کے دوران میں نے ایران کے اندر بڑھتے ہوئے اسلامی انقلاب کے اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سال کے آخر تک شاہ ایران ایک مرا ہو چوہا ہوگا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم لان میں ٹہل رہے تھے کہ ارشام نے افغانستان کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کا صدر داؤد خطرے میں ہے، پاکستان کو چاہیے کہ اسے بچا لے۔ میں نے کہا کہ ایران خود ایک طاقت ہے، وہ کیوں نہیں بچا سکتا۔ اس کے جواب میں ارشام نے کہا کہ وہ تو آپ خود کہہ چکے ہیں کہ اس سال کے اندر شاہ ایران ایک مرا ہوا چوہا ہوگا۔ گویا ساواک کے سربراہ نے بھی اس بات کی تائید کر دی کہ اگلا سال اسلام کا ہوگا اور ایران کا مستقبل اسلامی ہوگا، جو آگے چل کر سچ ثابت ہوا اور ایران کے اندر اسلام حقیقی کا سورج طلوع ہوگیا۔

1986ء میں آیت اللہ خامنہ ای پاکستان اور چائنہ کے دورے پر گئے، اس دورے کا مقصد بھی ایک متبادل نظام کے طور پر ان ممالک کے عوام کے سامنے اسلام کو بطور نمونہ اور انقلاب اسلامی کو بطور مثال پیش کرنا تھا۔ اس دورے میں آپ کے شیڈول میں یمن جانا بھی تھا، لیکن یمن کی حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے ان کا وہاں جانے کا پروگرام ملتوی ہوگیا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ چائنہ کے اندر لوگ اسلامی اقدار سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ماضی میں میرے اخبار روزنامہ دی مسلم نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1984ء میں چائنہ کے سفیر نے روزنامہ مسلم کے سینیئر اراکین کے اعزاز میں ایک ڈنر کا اہتمام کیا، دوران گفتگو میں نے چائنہ کے سفیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اسلامی تاریخ میں یہ بات ہے کہ جب طاغوت کے خلاف اہل حق اٹھیں گے تو ان کی نصرت کے لئے خراسان سے لوگ آئیں گے، اور ہمارے ہاں خراسان کی سرزمین بیجنگ تک ہے، اس پر چائنہ کے سفیر نے کہا کہ آپ ہمیں اپنے جھگڑوں میں کیوں ملوث کرتے ہیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ یہ تو انسانی تاریخ ہے، اور الٰہی احکامات کی نوید ہے۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے۔ یہ بات میں نے 1984ء میں کہی جبکہ 1986ء میں آیت اللہ خامنہ ای چائنہ تشریف لے گئے اور وہاں کے عوام نے ایک اسلامی مملکت کے رہنماء کا پرجوش استقبال کیا، جس سے چائنہ کے عوام کی اسلام کی طرف رغبت نمایاں نظر آتی ہے۔

ہم اگر روس کے اندر اس اسلامی بیداری کے حوالے سے دیکھیں تو روس کے سابقہ صدر میخائیل گوربا چوف کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ 1979 میں جب ماسکو نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو گوربا چوف نے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے اس کے اندر کوئی حکمت دکھائی نہیں دے رہی، بہت جلد روسی فوج واپس چلی گئیں۔ گوربا چوف نہ صرف کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے بلکہ وہ KGB کے سربراہ بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ اسلام کی معنویت کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے۔ روس اس دوران یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ کیمونزیم انسانی معاشرے کی بہتری کا کوئی حل نہیں رکھتا، اس لئے انہیں کمیونزم سے جان چھڑانی چاہیے۔ روس اس بات پر سوچ رہا تھا کہ انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کے حوالے سے اسلام ایک ممکنہ امکان رکھتا ہے، جس پر غور کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ بنیاد تھی جس پر امام خمینی نے گوربا چوف کو خط لکھا تھا اور اسے اسلام کی دعوت دی تھی اور کہا تھا کہ تم آئندہ دیکھو گے کہ یہ کمیونزم روس کے عجائب گھروں سے ملے گا اور گوربا چوف نے امام خمینی کے اس خط کا بڑا احترام کیا تھا۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں موجود مسلمان طلباء کے اندر انقلاب اسلامی ایران نے اپنی بڑی تاثیر چھوڑی اور مسلم نوجوان فرقوں اور مسلکوں سے بالا تر ہو کر اس انقلاب کے شیدائی ہوئے۔ 1980ء میں سینیٹر پروفیسر خورشید نے انقلاب اسلامی ایران کے حق میں بہترین مقالہ لکھا۔ اس طرح دیگر لکھاریوں نے بھی فرقوں اور مسلکوں کی حد بندیوں سے بالا تر ہو کر اپنی تحریروں میں اس انقلاب کی حمایت کی، جبکہ سعودی عرب انقلاب کی مخالف میں سرگرم عمل رہا۔ ایران، عراق جنگ کے دوران امریکہ کی نسبت آل سعود، اسرائیل اور بھارت اس انقلاب کے سخت مخالف رہے۔ اس منحوس تثلیث نے امریکہ کو ہمیشہ ایران کے خلاف اکسایا، کیونکہ یہ انقلاب سعودی عرب اور اسرائیل کے لئے خطرہ ثابت ہو رہا تھا۔ آل سعود نے قبلہ اول پر اسرائیلی قبضے کی حمایت کی اور اس کے ناجائز وجود کو تسلیم کیا۔ آل سعود کو جب مکہ اور مدینہ کی حاکمیت ملی تو چند دیگر شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ سعودی عرب اسرائیل کے وجود کے بننے میں مددگار ہوگا اور کبھی بھی اسرائیل کی مخالفت نہیں کرے گا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عرب خطے میں حقیقی اسلامی سوچ پنپنے لگی، اس کے پیچھے تین بڑے نام نمایاں تھے، ان میں پہلا نام سید قطب، دوسرا مولانا مودودی اور تیسرا امام خمینی کا نام نامی تھا۔ یہ وہ نام ہیں، جنہوں نے عرب و عجم میں بیداری کی ایک فضا پیدا کی، جس کے نتیجے میں آج ایران، عراق، لبنان، پاکستان اور شام میں نوجوان اسلام حقیقی کی طرف رغبت رکھتے ہیں۔

امریکہ کی تاریخ انسانی اقدار کے حوالے سے داغدار ہے، لیکن اس وقت اس کی سوچ میں تبدیلی آچکی ہے، اس سے دنیا میں اسلامی تحریکوں کو تقویت ملے گی۔ لیکن ان تحریکوں کے درمیان تمیز کرنا ضروری ہے۔ اسلام کے نام پر ظلم و بربریت اور دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والی نام نہاد اسلامی تحریکیں روح اسلام سے متصادم اور انسانی اقدار کی دشمن ہیں۔ یہی تحریکیں اسلام کے پنپنے اور آگے بڑھنے میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ایسے حالات میں ہم بطور خاص حزب اللہ کا ذکر کریں گے، جو اسلامی بیداری کی بہت بڑی تحریک ہے۔ اگر حزب اللہ دیگر مسالک کے افراد میں سے ایسے اشخاص کو منتخب کرے، جو دیگر ممالک میں اسلامی بیداری کے حوالے سے فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، خاص طور پر ہندوستان اور پاکستان سے ایسے اسکالر اور دانشور حضرات کو چنے تو اسلامی دنیا کو بہترین قیادت میسر آسکتی ہے۔ اس میں وہ غیر مسلم دانشور بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، جن کی روح میں اسلام کی معنویت نے اپنی تاثیر چھوڑی ہے۔ جیسا کہ ماضی میں جنرل ڈیگال (Degaulle) اور ہاروڈ ولسن Haroldwilson جو صیہونیت اور امریکی سامراجیت کے سخت مخالف تھے۔

بلاشبہ اگر کسی غیر مسلم کے احساسات پاکیزہ ہوں، تو وہ لاشعوری طور پر کسی نہ کسی شریعت کا پابند ہوتا ہے۔ پاکستان کے اندر اسلامی بیداری کے حوالے سے علامہ مودودی کا کردار قابل تعریف ہے، لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ ان کی شہادت کے بعد جماعت اسلامی کی قیادت مولانا طفیل جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ 1983ء میں مولانا طفیل نے تو اس حد تک کہہ دیا تھا کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے، اس کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔ میں نے ان کی اس بات کے جواب میں کہا تھا کہ اگر کسی چیز کی عارضی حقیقت کی وجہ سے اسے مان لینا درست ہے تو پھر ہمیں روس کی افغانستان میں مداخلت کو بھی مان لینا چاہیئے۔ آج ایک بار پھر وہی روش ہمارے سامنے آئی کہ جب جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن نے دہشت گرد تنظیم کے ایک سربراہ کو شہید اور فوج کے جوانوں کو مردہ کہا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے دہشت گردی، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ان تنظیموں کو بین کیا جائے، جن کی آغوش میں یہ دہشت گرد پلتے رہے۔ افواج پاکستان بڑی جرات کے ساتھ اس دہشت گردی کے خاتمے کے لئے میدان عمل میں موجود ہے۔ اس لئے پاک فوج کا ساتھ دیا جائے، پاک فوج کو بھی چاہیئے کہ وہ بھی اپنے اسلامی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس ملک کی بہتر خدمت کرے۔
خبر کا کوڈ : 437558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش