0
Saturday 21 Feb 2015 15:30

طالبان کا دوحہ میں دفتر اور خطے کی سیاسی انگڑائی

طالبان کا دوحہ میں دفتر اور خطے کی سیاسی انگڑائی
تحریر: طاہر یاسین طاہر

عالمی سیاسی معاملات پر نظر رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل دوحہ میں ’’دہشت گرد طالبان‘‘ کے ذریعے نئے کھیل کی بنیاد ڈال چکے ہیں۔ سوال بڑا سادہ ہے، طالبان جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے، اگر وہ دہشت گرد نہیں تھے تو ان پر حملہ کیوں کیا گیا؟ طالبان جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے، اگر وہ نائن الیون والے سازشی کردار کے میزبان نہیں تھے، تو پھر ان پر بمباری کیوں کی گئی؟ طالبان کو انتہا پسندی کی طرف کس نے دھکیلا؟ کس نے اپنے مفادات کو مذہب کی عینک سے دیکھ کر دور و نزدیک کا اندازہ لگایا؟ کیا نائن الیون تہذیبوں کے درمیان تصادم کا نقطہء آغاز تھا؟ یا پھر روسی فوج کو ’’پرے‘‘ دھکیلنے والے کھیل کی ابتدا؟ یا پھر اس خطے میں زہر آلود انتہا پسندی کا نقطہ آغاز تھا۔ ماضی میں سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں۔ امریکہ کو کرائے کے قاتل درکار تھے۔ پاکستان میں اسے جنرل ضیاءالحق جیسا ’’اسلام پرست‘‘ مل گیا، جس کا سارا زور اسلام کی ظواہر پرستی پر تھا۔ اس کے نزدیک حدود کا مقدمہ ہی اسلام کا اصل مسئلہ تھا، وہ سمجھتا تھا کہ کچھ خاص مکاتب فکر کو ’’کافر‘‘ قرار دے کر ان سے ’’جزیہ‘‘ لے لیا جائے تو یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی، وہ یہ بھی سمجھنے لگا کہ بینکوں کے ذرریعے ہی لی جانے والی ’’اصل‘‘ زکوۃٰ ہے۔ اسے کسی نے بتا دیا کہ پٹھانوں کو آج تک کسی نے شکست نہیں دی، جنرل ضیا کو سنایا گیا کہ ’’کہسار باقی،افغان باقی‘‘ رہے نام اللہ کا، کہسار تو باقی ہیں مگر افغانوں کی ایسی نسل کشی ہوئی کہ تاریخ چنگیز خان کو یاد کئے بغیر نہیں رہ پاتی۔

بارہا لکھا، پھر عرض ہے کہ ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تعلقات جذبات کے بجائے مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، چین آج اگر ہمارا دوست ہے تو اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ چین ہمارے ساتھ مل کر اسلام کی ’’سربلندی‘‘ کے لیے کام کرے گا، مفادات ہیں حضور مفادات، جو ہمیں اور چین کو آپس میں جوڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ چین کی پرائیویٹ کمپنیاں پاکستان کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کارنامے سرانجام دے رہی ہیں مگر یہ تعلقات ’’پیداواری‘‘ ہیں۔ ان تعلقات کا ہماری جہادی سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں، ورنہ تو چین کو بھی ہماری ’’جہادی سر گرمیوں‘‘ سے شدید تحفظات ہیں۔ بھارت اور چین کا تناؤ ہی ہمیں اور چین کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے۔ خدا کرے بھارت اور چین یونہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں، تاکہ ہماری اور چین کی دوستی کا بھرم بھی قائم رہے۔ ملکوں کی دوستیاں اگر جذباتیت کی بنیاد پہ ہوا کریں تو دنیا کا سامراجی نظام پیداواری رشتوں کے بجائے ’’جذباتی‘‘ تعلقات کا مرہون ہو کر رہ جائے۔

کوئی دو برس ادھر کی بات ہے، ممکن ہے ایک آدھ برس اوپر ہو۔ امریکہ اور طالبان، جنھیں اب افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے، نے امریکہ و یورپ سے مذاکرات کی خاطر، قطر میں ایک ملاقاتی دفتر کھولا۔ ایجنڈا کیا تھا؟ وہ طالبان جنھیں دنیا کی سب سے بڑی معاشی و عسکری طاقت دہشت گرد قرار دے چکی تھی، ان سے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے؟ مگر دنیا آنکھ رکھتی ہے اور اس کی آنکھ میں دھول جھونکنا بڑا ضروری ہے۔ کئی ایک باتیں طے ہوگئی تھیں، پاکستان کا رول ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے جاندار تھا۔ طالبان دہشت گرد جنھیں آج کل افغان طالبان بھی کہا جاتا ہے، اپنی بات پر اڑ گئے۔ کہنے لگے ہم اپنے دفتر کے اوپر اپنا ’’اسلامی امارات‘‘ کا جھنڈا لہرائیں گے۔ امریکہ، پاکستان، قطر اور خطے کی دوسری فیصلہ ساز قوتوں کو افغانستان کے دہشت گرد طالبان کا یہ رویہ پسند نہیں آیا، دراصل اس دفتر کا مقصد افغانستان سے نیٹو فورسز کو محفوظ راستہ دینے کے علاوہ آئندہ بننے والی افغان حکومت میں اقوام متحدہ کی طرف سے قرار دیئے گئے ’’دہشتگرد‘‘ طالبان کو مناسب نمائندگی بھی دینا تھی۔ بات جھنڈے پہ اڑ گئی اور پھر دفتر بند اور طالبان افغانستان میں۔

اخبارات میں البتہ ایسی خبریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہیں کہ امریکہ اور اٖفغانی طالبان کے درمیان کوئی نہ کوئی مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اسی دوران مولانا سمیح الحق صاحب کے بیانات بھی نظر نواز ہوتے رہے کہ افغان طالبان ہمارے بچے ہیں۔ سانحہ پشاور سے پہلے مولانا فضل الرحمن، مولوی عبدالعزیز الال مسجد والے، مولانا سمیح الحق، مولانافضل الرحمن خلیل اور ان کے فکری حواری پاکستانی طالبان کے حوالے سے بھی ایسی ہی ہمدردی رکھتے تھے، اب بھی رکھتے ہیں۔ سانحہ پشاور مگر ان عناصر کو پچھلے قدموں پہ لے گیا۔ لیکن سچ یہی ہے کہ اکیسویں ترمیم کے خلاف ان کا اگلا ہوا زہر پاکستانی طالبان کے ساتھ ان کی اسی ہمدردی کا مظہر ہے، جس ہمدردی کا اظہار یہ لوگ افغانی طالبان کے ساتھ کرتے ہیں۔

داعش ایک نئی وحشت ہے، کسی دوسری نشست میں اس کی اٹھان اور اس کے مقاصد پر بات کروں گا، اگرچہ داعش کے ہمدرد میری جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، مگر یہ ان کے بس میں نہیں کہ مجھے حق اور سچ بات کہنے سے روک سکیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ‘‘افغان حکومت سے امن مذاکرات کے لیے ابتدائی اقدام کے طور پر افغان طالبان نے (جو مصدقہ دہشتگرد ہیں انھوں) نے قطر کے شہر دوحہ میں اپنا دفتر دوبارہ کھول لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ایجنڈا طے کیا جا رہا ہے۔ حکام نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغان دہشت گرد طالبان کے ساتھ امریکہ کے اسٹریٹجک مذاکرات رواں برس مارچ میں شروع ہوں گے۔ لاریب دوحہ میں طالبان کا دفتر بحال ہوگیا ہے اور اب پاکستان کی مدد سے ابتدائی ملاقاتوں میں قواعد و ضوابط طے کیے جا رہے ہیں۔

ذرائع نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ افغان طالبان اور چینی حکام میں مذاکرات کے دو دور ہوچکے ہیں، اور چینی حکام کی جانب سے بیجنگ میں طالبان سے ہونے والے مذاکرات سے پاکستان کو بھی آگاہ رکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ افغان طالبان (جنھیں اقوام متحدہ دہشتگرد قرار دے چکی ہے) کے دوحہ میں موجود سیاسی نمائندے قاری دین محمد نے گذشتہ سال نومبر میں بیجنگ میں افغانستان کے حالات کے حوالے سے مذاکرات میں شرکت کی تھی اور رواں ہفتے ان کی دوحہ میں ایک امریکی سفارتکار سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ یاد رہے کہ افغانستان کے طالبان اور امریکی حکام مذکرات کی تردید کر رہے ہیں۔‘‘

مذاکرات کی تردید و تائید خطے میں کسی نئی کروٹ کا پتہ دیتی ہے، داعش اس کروٹ کا مرکزی کردار ہے، مگر اس پر اگلی نشست میں بات کی کوشش کروں گا۔ ابھی تو یہی سوال کھائے جا رہا ہے کہ وہ افغانی طالبان جنھوں نے اسامہ بن لادن جیسے دہشتگرد کو پناہ دے رکھی تھی، وہ اچانک امن پسند کیسے ہوگئے کہ امریکہ ان سے مذاکرات کرنے کو بے چین ہے۔ کیا ان کی فکر میں تبدیلی آگئی ہے اور اب وہ نہیں چاہتے کہ دنیا پر ’’اسلام کا جھنڈا‘‘ لہرائیں؟ ایسا جھنڈا جو عرب روایات کے ساتھ ساتھ افغان قبائلی روایات کا بھی امین ہو۔ امریکہ بہر حال خطے میں اپنے سامراجی مفادات کے لیے داعش کی سرکوبی کو آئے گا۔ داعش اب امریکہ کا نیا ’’عسکری اتحادی‘‘ ہے۔ دوحہ اس ایجنڈے کا مرکزی سکرٹریٹ ہوگا۔ پاکستانی طالبان، لشکر جھنگوی اور اس کے فکری حواری اس سارے کھیل کے چنیدہ چنیدہ کھلاڑی ہوں گے۔ نواب شیفتہ یاد آتے ہیں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
خبر کا کوڈ : 441996
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش