1
0
Monday 23 Feb 2015 00:47

دہشتگردی کے سانحات اور حکومتی غفلت

دہشتگردی کے سانحات اور حکومتی غفلت

تحریر: عمران خان

گولی، بارود کا نشانہ کوئی بھی بنے، مرتی تو ماں ہی ہے۔ وطن عزیز میں کتنی مائیں مرچکی ہیں۔ تیس ہزار، چالیس ہزار، پچاس ہزار، کبھی پشاور میں بچوں کے لاشے گود میں لیکر مرتی ہیں، تو کبھی کڑیل جوان بیٹوں کی بے جان پیشانیاں چوم چوم کر، کبھی شکار پور میں آسمان کی طرف نظریں کرکے فریاد کناں ہوتی ہیں تو کبھی جڑواں شہروں میں بیٹوں کے جنازوں سے لپٹ کر مرتی ہیں۔ کتنی بدنصیب ہیں یہ مائیں جو اپنے تین، تین، چار، چار بیٹوں کے ٹکڑے کٹی پٹی لاشوں میں ڈھونڈتی ہیں، کتنے بدنصیب ہیں ہم کہ روز روز مرتی ان ماؤں کے آنسوؤں کا مدوا نہیں کر پا رہے۔ کتنے بدنصیب ہیں یہ حکمران جو آئے روز اتنی ماؤں کی بددعائیں سمیٹ رہے ہیں۔ کتنی بدنصیب ہے یہ سرزمین جس پر روز بے گناہوں کا لہو پانی کی طرح بہتا ہے، کتنا بدنصیب ہے یہ ملک جو ایسے حکمرانوں کے پنجہ استبداد میں ہے، جو مفاد پرستی کی مینڈیر پر چڑھے حرص و لالچ کے استعارے بنے ہوئے ہیں۔ اس دھرتی ماں کے سینے پر روز اس کے بچوں کو بیدردی سے قتل کیا جا رہا ہے، مگر افسوس کہ ذمہ دران، مقتدر افراد، حکمرانوں کے چہروں پر شرمندگی، ندامت تو درکنار افسوس و تاسف کا شائبہ تک نہیں۔ ان کے ظہرانوں اور عشائیوں کی محفلیں بھی آباد ہیں، غیر ملکی دورے بھی جاری ہیں، ساٹھ ہزار پاکستانی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، مگر حکمران تاحال اپنی اس ذمہ داری کو تسلیم کرنے پر ہی رضا مند نہیں کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ، اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ان کا اولین فرض ہے۔ 

دہشتگردی کی کسی بھی کارروائی کی تحقیقاتی رپورٹ کی جزئیات کا مطالعہ کریں تو اداروں کی مجرمانہ غفلت سامنے آتی ہے، اداروں میں چھپی کالی بھیڑوں کے چہرے بے نقاب ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود کسی کالی بھیڑ کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا۔ پی این مہران پر حملہ ہوا، حملہ آوروں کو اندرونی مدد حاصل تھی، جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، تو یہی انکشاف سامنے آیا۔ ائیرپورٹ پر حملے ہوئے تو اندرونی مدد کا انکشاف ہوا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر قیامتیں گزر گئیں، مگر چیک پوسٹوں پر تعینات عملے کی معافی تلافی کرا دی گئی۔ یہاں تک کہ پشاور کا آرمی پبلک سکول جو معصوم بچوں کی مقتل گاہ بنا، اس پر حملے میں بھی دہشتگردوں کو اندرونی مدد حاصل رہی۔ اس کے علاوہ ایف سی کی تین چیک پوسٹوں سے گزر کر دہشت گرد اور اسلحہ سکول تک پہنچا، مگر ایف سی والوں کی نظروں سے اوجھل رہا۔ امامیہ مسجد حیات آباد پر پشاور حملے کی طرز پر ہی کارروائی ہوئی، مگر انٹیلی جنس اداروں کو بھنک تک نہ پڑی، یہ الگ بات ہے کہ مسجد کے ساتھ زیر تعمیر عمارت میں دہشت گرد کئی دنوں سے مزدوروں کے بھیس میں کام کرتے رہے، اور دوسری منزل سے زمین پر جمپ لگا کے مسجد پر حملے کی پریکٹس میں مصروف رہے، مگر پولیس سمیت کسی ادارے کو ان کے مذموم مقاصد پرکھنے کا موقع نہیں ملا۔ لاہور میں پولیس لائنز کے باہر حملہ ہوا تو خودکش حملہ آور چیک پوسٹوں سے گزر کر پہنچا تھا۔ اب یہ انکشاف سامنے آیا کہ جس چیک پوسٹ سے حملہ آور گزر کر گیا تھا، وہاں پولیس کے اس اہلکار کی ڈیوٹی تھی، جو پہلے ہی فرقہ واریت کے کیس میں انکوائری کے عمل سے گزر چکا ہے۔ اسلام آباد مسجد قصر سکینہ پر حملہ ہوا تو انتظامی اداروں اور پولیس کی کوتاہی شامل تھی۔ 

ملک بھر میں ہونے والی دہشتگردی میں قدم قدم پر اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کا گھناؤنا روپ آتا ہے، مگر حکومت کی جانب سے اداروں میں موجود دہشتگردوں کے رفیق کاروں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ جس کی اکلوتی وجہ یہی ہے کہ حکمران جماعت کے سیاسی مفادات کالعدم تنظیموں اور اس کے دہشت گردوں سے وابستہ ہیں۔ سرکاری مسجد کا خطیب دہشتگردی کی مذمت کے بجائے مظلوموں کو خود ساختہ اسلام کے شرعی درس سناتا ہے، اور وزیر داخلہ امریکہ میں کھڑے ہوکر بتاتے ہیں کہ اس نے پولیس سے معافی مانگ لی ہے، لہذا اسے گرفتار نہیں کر رہے، سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ معافی مانگنے سے قبل اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ صوبائی دارالحکومت پشاور جو کہ بار بار دہشتگردی کا نشانہ بنتا ہے، وہاں حکمران جماعت کا سربراہ تاریخ کے سب سے بڑے سانحہ کے بعد سب سے پہلا کام اپنی شادی کا کرتا ہے، اور صوبے میں بدامنی کا ذمہ داری وفاق پر ڈالتا ہے۔ شکار پور کی مسجد میں نمازی ٹکڑوں میں بٹ جاتے ہیں، اور حادثے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کے لیے ہزاروں افراد کو کراچی تک جا کے احتجاج کرنا پڑتا ہے، تب جاکر صوبائی حکومت کو خیال آتا ہے کہ شہداء کے خانوادوں کیلئے امدادی رقم بڑھانی چاہیے، شہر اور اس کے گردونواح میں موجود کالعدم تنظیموں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی بھی کرنی چاہیے، مساجد اور امام بارگاہوں کی سکیورٹی کے انتظامات بھی کرنے چاہیے اور رضاکاروں کو حفاظتی آلات بھی فراہم کرنے چاہیے، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے اور اس کی رپورٹ کی روشنی میں قانونی کارروائی کو آگے بڑھانا چاہیے۔ 

المیہ تو یہ بھی ہے کہ ملک میں ملت تشیع کو دہشتگردی کا بے دریغ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ شہداء کے خانوادے مطالبات اور اپنے حقوق کے حصول کیلئے احتجاجی مارچ کا اعلان کرتے ہیں، اور ملت تشیع کی قیادت کے دعویدار ہی اس احتجاج سے لاتعلقی کا باقاعدہ اعلان کرتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ ملک کی سب سے زیادہ مظلوم ترین ملت تشیع کی نمائندہ جماعتوں کے ایسے کونسے مفادات ہیں جو انہیں ملت کے تحفظ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر بھی اکٹھا نہیں ہونے دیتے۔ ان نمائندہ جماعتوں کے انتخابی اتحاد ہر قسم کی جماعتوں کے ساتھ جب طے پاسکتے ہیں، تو ملت تشیع کی جاری نسل کشی کے آگے بند باندھنے کیلئے مشاورت کے لیے ہی اکٹھے کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔ حقائق کی سولی پر چڑھ کے ایک بار نظر دوڑائیں تو جتنے شکوے عوام کو اپنے حکمرانوں سے ہیں، اس سے کہیں زیادہ ملت تشیع کو اپنے قائدین سے ہیں۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وطیرہ بنا لیا ہے، دہشتگردی کی کارروائی کے بعد جائے حادثہ، زخمیوں کے ساتھ ہاسپٹل میں یا میڈیا کے سامنے فوٹو سیشن کے دوران کچھ رقم کا اعلان اور ذمہ داروں کو گرفت میں لانے کے دعوے کرکے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ کوئی یہ سوال پوچھنے کو تیار نہیں کہ شہیدوں یا زخمیوں کے علاج معالجے کیلئے اعلان کردہ رقم امداد کیسے ہوگئی۔ امداد تو اسے کہا جاتا ہے کہ کوئی فرد واحد، ادارہ، یا تنظیم مسائل میں گھرے کسی مفلوک الحال شخص کا کوئی مسئلہ حل کرے اور اس کے بدلے میں کچھ نہ لے، وہ مدد کہلائے گی۔ یہاں تو ریاست کے شہریوں کا اپنی حکومت کے ساتھ آئین و قانون کی صورت میں ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ جس میں شہری نے اپنی سماجی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ قانون پر عمل کرنا ہوتا ہے، ریاست کو ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بدلے میں حکومت اسے جان، مال کا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اس کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔

یہاں حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کے باعث شہریوں کے قطار در قطار جنازے اٹھتے ہیں۔ اداروں کی کوتاہی، غیر ذمہ داری اور باقاعدہ مدد سے شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے۔ جتنی رقم کا اعلان کرکے نام نہاد عوامی نمائندے حاتم طائی کی روح کو شرمندہ کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ، سانحات میں جان دینے والوں نے ریاست کو ٹیکس ادا کر رکھا ہوتا ہے۔ پھر حکومت کی جانب سے شہداء یا زخمیوں کو فراہم کی جانے والی رقم امداد کیسے ہوسکتی ہے۔ شہداء کے لواحقین اور متاثرین کے خانوادوں کو چاہیے کہ اس رقم کو امداد کے نام پر نہیں بلکہ ہرجانے کے طور پر حکومت سے وصول کریں۔ درد دل رکھنے والی ملی و سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ اس مقصد کیلئے صوبائی اور وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالیں۔ 

حکومت کو اب کمزور پالیسی ترک کرکے جرات مندی کے ساتھ دہشتگردوں، ان کی پش پناہی کرنے والوں، مددگاروں اور سب سے بڑھ کر سرکاری اداروں میں گھسی کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر انصاف فراہم کرنے والی عدالتیں صحیح سمت میں اخلاص سے اپنے فرائض سرانجام دیتی تو نہ فوجی عدالتوں کی ضرورت پیش آتی اور نہ ہی دہشتگردوں کے حوصلے اتنے بلند ہوتے۔ لہذا کالی بھیڑوں کے خلاف ان کے فیصلوں میں اب جرت و قوت کا عنصر نمایاں ہونا چاہیے۔ پولیس اور انتظامی افسران کو بھی خود ساختہ کارکردگی کی تشہیری مہم کا سلسلہ بند کرکے حقیقی مجرموں کا تعاقب کرنا چاہیے، کیونکہ دہشتگردی کی ہر کارروائی کے بعد کسی نہ کسی شہر یا ضلع میں دہشتگردی کا منصوبہ ناکام بنانے کی خبر نشر کی جاتی ہے۔ اگر ادارے اتنے ہی مخلص ہوتے تو وفاقی دارالحکومت سمیت تینوں صوبوں میں دہشت گرد دیدہ دلیری سے کارروائیاں نہ کرتے۔

جس روز شکارپور کی مسجد میں خودکش حملہ ہوا، اسی روز کوئٹہ، پنجپائی کے علاقے سے خودکش حملہ آور بارود سے بھری گاڑی سمیت گرفتار ہوا۔ جس دن چٹیاں ہٹیاں مسجد امام بارگاہ پر حملہ ہوا، اسی روز بلوچستان سے ہی حملے کی تیاری میں مصروف افراد گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ جس دن پشاور کی امامیہ مسجد میں دہشتگردوں کا منظم حملہ ہوا، اسی روز حیم یار خان میں دہشتگرد بھاری اسلحہ سمیت گرفتار ہوئے۔ جس دن اسلام آباد میں قصر سکینہ امام بارگاہ و مسجد پر حملہ ہوا، اسی دن کراچی میں پولیس نے امام بارگاہوں پر حملے کا منصوبہ ناکام بنانے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک حملہ آور کی گرفتاری پیش کی۔ شائد کہ ان خبروں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہو کہ ملک میں ابھی انتظامی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت کا وجود موجود ہے، وگرنہ دہشتگردی کی مسلسل کارروائیاں ان کے وجود کی نفی کرتی ہیں۔ حکومت اور اداروں کی کارکردگی قیام امن سے مشروط ہے۔ اگر ملک میں امن نہیں ہے، تو اس میں مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت اور اداروں کی سمت درست نہیں، ان کی ترجیحات پاکستان یا پاکستان کے عوام نہیں، بلکہ کچھ اور ہیں۔

خبر کا کوڈ : 442274
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نذر حافی
Iran, Islamic Republic of
گولی، بارود کا نشانہ کوئی بھی بنے، مرتی تو ماں ہی ہے۔ لاجواب لکھا ہے عمران بھائی۔حکومت اور اداروں کی کارکردگی قیام امن سے مشروط ہے۔کاش ہمارے حکمران اس حقیقت کو سمجھ سکیں
ہماری پیشکش