3
0
Thursday 26 Feb 2015 11:49

احمد لدھیانوی سنوإ یہ کوئی اور نہیں شیعہ مجتہد ہی تھا

احمد لدھیانوی سنوإ یہ کوئی اور نہیں شیعہ مجتہد ہی تھا
تحریر سردار تنویر حیدر بلوچ

ہمیں کئی بحرانوں کا سامنا ہے، پاکستان میں حکومت اور معاشرے کے بعد میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ دہشت گردی کیخلاف یکجان ہونا اور ڈٹ جانا، اس لئے بھی ضروری ہے کہ مذہب کے نام پہ ہونے والی ظالمانہ دہشت گردی کی وجہ سے نئی نسلیں دین اسلام سے دور ہو رہی ہیں۔ یوں بالواسطہ طور پر تکفیری قوتیں وہی کردار ادا کر رہی ہیں جو کفریہ طاقتوں کی خواہش ہے۔ انسانی حقوق اور سیکولرازم کے نام پہ مذہب کو بدنام دیکھنے والوں اور تکفیری قوتوں کے درمیان گٹھ جوڑ ڈھکا چھپا نہیں۔ پاکستان میں سیکولر قوتوں کا نمایاں چہرہ پاکستانی چینلز اور اخبارات ہیں۔ اس دوڑ میں جیو اور جنگ گروپ سب سے آگے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو تکفیری اور دہشت گرد گروپوں کیخلاف متحد ہو کر صف آرا ہونے کی ضرورت ہے، ایک طرف پاک فوج کیخلاف بھارتی زبان بولی جا رہی ہے، دوسری طرف پاکستان میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے والے کالعدم سپاہ صحابہ کے مقتول بانی کے متعلق ناروا مضامین چھاپے جا رہے ہیں۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ حالات کی نزاکت سے چشم پوشی کرتے ہوئے کالعدم سپاہ صحابہ کی میزبانی کرتے ہوئے انہیں موقع دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کے حق میں دلائل دیں۔ ایسی حرکتوں سے نہ صرف دین اسلام اور امت مسلمہ کے چہرے کو طول تاریخ میں تابندگی بخشنے والے، فرزندان اسلام کی دل آزاری کی جا رہی ہے، بلکہ سانحہ پشاور کے بعد شروع ہونے والے قومی ایکشن پلان کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ کے سامنے جب سپاہ صحابہ کے کوئٹہ میں ہونے والے جلسے کا کلپ چلایا گیا، جس میں اسٹیج سے کوئٹہ میں ہزارہ شیعوں کے قتل پر خوشی کے ترانے پڑھے جا رہے تھے تو انہوں نے معنی خیز مسکراہٹ دربار شام کے اس منطر کی یاد تازہ کر رہی تھی، جب اہلبیتؑ کا لٹا ہوا قافلہ اسیر کھڑا تھا، اور انکے سامنے قاتل اپنی اپنی باری پہ، انعام وصول کرتے تھے، انعام کم ہونے پر روٹھ جاتے تھے۔ جیو نے وہی کردار کر رہا ہے جو اس وقت درباریوں نے کیا تھا، اس وقت بھی قاتلوں کو جاگیروں اور درہم و دینار نے اندھا کر دیا تھا، آج بھی یزید وقت امریکہ کے اشارے پہ چلنے والے میڈیا ہاوسز، یو ایس ایڈ سے ملنے والے ڈالروں کی خاطر قاتلوں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی آگ جس طرح ہمارے وطن کو کھوکھلا کر رہی ہے، ایسے میں اسی طرح میڈیا اس آگ کو ہوا دیتا رہا تو یہ خود بھی اسی کا شکار ہوجائیں گے۔

جب پاکستان میں دہشت گردوں کیخلاف یا دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق قومی اتفاق رائے پیدا ہونے لگتا ہے، تو مذکورہ ٹی وی چینل بے محل پروگرام چلاتا ہے۔ کل ہی کی بات ہے جب دہشت گردوں سے مذاکرات یا آپریشن کی بات چلی تو اسی چینل کے صحافی نے ایسے حساس موضوع پر بحث شروع کی کہ منور حسن نے پاک فوج کے شہداء کی توہین کر ڈالی۔  پھر وہی وطیرہ ہے کہ کروڑوں ناظرین کے سامنے قاتل تکفیری گروہ کے رہنما سے پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جو ترانہ پڑھا جا رہا ہے کہ ایک ایک کرکے شیعوں کو قتل کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کرکٹ میں بیٹ میں ٹک ٹک کرتا ہے، کوئٹہ میں تو تکفیریوں نے سینچریاں کر دی ہیں، اس پر آپ کا کیا خیال ہے، مسکراتے ہوئے، قاتل کا جواب ایسا ہی تھا جیسے دربار یزید میں انعام لینے والے ایک ایک قاتل کا تھا۔ یہ لوگ کیا اور کیسے سچ بول سکتے ہیں، یہ تو ہیں ہی جھوٹ کے طرفدار، یہ تو چودہ سو سال سے یزید کو قاتل ماننے کے لئے تیار نہیں، سید طلعت حسین کن لوگوں کو لے کر بیٹھ گئے ہیں، کیا کوئی صحافی یہ ہمت کرسکتا ہے کہ اپنے باپ کے قاتل سے خوش گیپیاں لگائے، جس طرح ہزاروں مسلمانوں کے قاتل تکفیریوں کیساتھ بیٹھ کے شہیدوں کے خون کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔؟

جیو پہ مذکورہ پروگرام  سے پاکستانیوں کو کیا پیغام دیا گیا ہے، تخریب اور دھماکوں سے چور چور پاکستانی قوم، اس سیاسی اور صحافتی دہشت گردی کو کیوں برداشت کئے ہوئے ہے۔ شہداء کے وارثوں کو اپنی ذمہ داری نبھانا چاہیے، ان میڈیا گروپوں سے کوئی امید نہ رکھیں، لیکں ان کی دریدہ دہنی پر انہیں جواب تو دیں۔ کیا پاکستان کی معتدل قوتیں، عزادار، ملک کے طول و عرض میں دھرنوں کیساتھ ساتھ ایسے میڈیا گروپوں کا بائیکاٹ کرنے کا وقت نہیں۔ اس کا ایک بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ مذکورہ میڈیا گروپ دانستہ طور پر نہ صرف دہشت گردی کا شکار پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنا چاہتا ہے، بلکہ رہی سہی کسر نکالنے کے لئے دوسری طرف اہل تشیع کی تکفیر کا نعرہ لگانے والوں کیخلاف، مذاکرے کے بہانے شیعہ سنی فسادات کی راہ بھی ہموار کرنا چاہتا ہے۔ ایسی حرکتوں پر خاموشی خطرناک ہے۔

جہاں یہ حکومتی اداروں کے لئے ایک ثبوت ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کیخلاف کارروائی کرے، وہیں مذہبی طبقے کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا تدارک کریں۔ جب ایک ملا سرعام یہ کہہ رہا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ شیعہ کافر ہیں، بلکہ بریلوی، اہل حدیث، دیوبندی مسالک کے مفتی یہ کہتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں۔ تو یہ ضروری ہے کہ بتایا جائے کہ بریلوی مسلک کے فقیہوں نے تو یہ بھی کہا ہے کہ دیوبندی، اہل حدیث اس حد تک گستاخ رسول (ص) ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے، اسی طرح دیوبندی حضرات، اہل حدیث مسلک کے لوگوں کو غیر مقلد ہونے کی بنیاد پر دین سے خارج قرار دیتے ہیں اور اہل حدیث نہ صرف بریلویوں کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں بلکہ دیوبندیوں کو بھی۔ خود جماعت اسلامی اور جماعت اسلامی کے بانی سید مودودی کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے والے شیعہ نہیں بلکہ خود دیوبندی اور اہل حدیث ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں اگر دہشت گردی کے تدارک میں مخلص ہیں تو یہ انکا امتحان ہے اور یہ اس بات کا موقع ہے کہ جب کسی نے عالم اسلام کے مسلمہ مسلک کیخلاف سرعام زبان درازی کی ہے تو کھل کر اسکی مذمت کریں، ان لوگوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔ بانی پاکستان کے ذکر پر انکے پاک نام کو کالعدم سپاہ صحابہ کے ناپاک نام کیساتھ ملانے والے دشمن دین سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ تم یہ کیسے کہتے ہو کہ کالعدم سپاہ صحابہ کا وہی مقصد ہے جو قائد اعظم کا تھا، جبکہ تمہارے بڑوں نے سب سے پہلے قائد اعظم کو ہی کافر قرار دیا تھا۔  علم عباس علمدار علیہ السلام انکے جنازے پہ سایہ فگن تھا، جب ایک اہل سنت عالم دین انکی نماز جنازہ پڑھا رہے تھے۔ پاکستان قائد اعظم کے متوالوں کا وطن ہے، کسی کے باپ کی جاگیر نہیں۔

چمگادڑ کی طرح الٹا دیکھنے والے، اہلسنت اکابرین کو بدنام کر رہے ہیں، یہ الو نما کہتے ہیں کہ قتل و غارت انقلاب اسلامی ایران کی وجہ سے شروع ہوئی ہے، اس سے بڑا جھوٹ اور کیا ہوسکتا ہے، کہ جب پوری دنیا کے اہلسنت علماء امام خمینی کی دست بوسی اپنے لئے فخر سمجھتے تھے، انقلاب اسلامی ایران کو نور کا ظہور قرار دیتے تھے، آج بھی اہلسنت انقلاب اسلامی ایران پہ ناز کرتے ہیں۔ یہ کل کی بات ہے کہ یزید وقت امریکہ کا خطے میں ڈنکا بجتا تھا، شاہ ایران علاقے میں امریکہ کا کانسٹیبل تھا، مرد قلندر امام خمینی نے جب حسینی عوام کو قیام کا حکم دیا تو شاہ کا تخت دھول ہو کر ہوا میں اڑ گیا۔ ان تاریخی لمحات میں عالم اسلام کی جن سب سے بڑی شخصیات نے امام خمینی کی زیارت کا شرف حاصل کیا، وہ عراق کا کوئی شیعہ مجتہد، لبنان کا کوئی شیعہ مجاہد، برصغیر کا کوئی شیعہ سیاستدان، افغانستان کا کوئی شیعہ سردار نہیں تھا، بلکہ وہ دیوبندی مسلک کی سب سے پرانی اور مضبوط جماعتوں جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے بانی تھے، جو امام خمینی سے ملے، شیعہ خمینی کو اسلامی انقلاب کی کامیابی پر مبارک باد دینے کیساتھ ساتھ یہ بتایا کہ ہمیں ایران میں شاہی حکومت کے خاتمے اور شیعہ مجتہد کے ہاتھوں اسلامی حکومت کے قیام پر دلی مسرت ہے۔

اخوان اور جماعت اسلامی کے رہنماوں نے شیعہ مجتہد سے یہ کہا کہ ہم نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہوا کہ اسلامی حکومت کے قیام کے لئے مصر، اردن، شام، پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی میں قربانیاں دے رہے ہیں، لیکن ہمارے جذبے ماند پڑ گئے تھے، ذہن اکتا گئے تھے، اب ہمارے سامنے جو اسلامی انقلاب آپ نے، ایک شیعہ مجتہد نے، خمینی نے برپا کیا ہے، جو اسلامی حکومت آپ نے، ایک شیعہ مجتہد، خمینی نے قائم کی، ایک مثال ہے، دنیا بھر کی سنی انقلابی اسلامی قوتوں کے لیے ائیڈیل ہے، آپ نے، ایک شیعہ مجتہد نے اسلام کا بول بالا کر دیا ہے، اسلام کو زندہ کر دیا ہے، ہم آپ کی، ایک شیعہ مجتہد، خمینی کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کو دیکھ کر، اسے مثال بنا کر، نشان راہ اور منزل کے راستے کا تعین کرتے ہیں، ہم جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، جو کہ اہل سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کی، شیعہ مجتہد، خمینی کی تائید کرتے ہیں، تائسی کرتے ہیں، حمایت کرتے ہیں، آپ کے ساتھ ہیں، معاون ہیں، آپ کے دشمنوں کے دشمن ہیں۔ یہ اعلان کہ جو شیعہ مجتہد، خمینی کی قائم کردہ اسلامی حکومت کا دشمن ہے، وہ اسلام کا دشمن ہے، مسلمانوں کا دشمن ہے، اللہ کا دشمن ہے، اللہ کے رسول (ص) کا دشمن ہے، یہ اعلان دنیا بھر میں اہلسنت مسلمانوں کی انقلابی قوت کی نمائندگی کرنے والی جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون جیسی عالم گیر جماعتوں نے کیا تھا۔

اس کا تسلسل اب بھی جاری ہے، تہران میں اسلامی حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی اسلامی بیداری کی کانفرنسوں میں اب جماعت اسلامی، اخوان المسلمون، حماس ہی نہیں بلکہ کالعدم سپاہ صحابہ جن کی کھوکھ سے نکل کر انکی باغی ہوگئی، جمیعت علمائے اسلام، سمیع الحق اور فضل الرحمان گروپ بھی شامل ہوتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ یہ تمام قوتیں، جنگ جیو گروپ کا بائیکاٹ کریں۔ دہشت گردی کو ہوا دینے والی ہر حرکت کا سدباب کریں۔ جس طرح انقلاب اسلامی کا ساتھ دیا گیا، اسی طرح مسلکی اختلافات کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کو تشدد پر ابھارنے والوں کیخلاف بھی جرات کا مظاہرہ کیا جائے۔ قارئین کے لئے یہ حقیقت حیرت کا باعث ہوگی کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے وفد کو امام خمینی کی خدمت میں حاضری پر آمادہ کرنے والے بزرگوں کا تعلق اخوان المسلمون شام سے تھا۔ سادہ سی بات ہے، جو یزید کو قاتل نہیں مانتے، وہ خمینی بت شکن کی نورانی شخصیت پہ ایمان کیسے لاسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 443236
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
کیا زبردست انداز ہے۔۔ماشاءاللہ
Iran, Islamic Republic of
Mashallah zabar dast
adil
Iran, Islamic Republic of
very good
ہماری پیشکش