0
Friday 27 Feb 2015 17:39

سینیٹ انتخابات کے تناظر میں ہونیوالا ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا تازہ سیاسی نکاح خطرے میں

سینیٹ انتخابات کے تناظر میں ہونیوالا ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا تازہ سیاسی نکاح خطرے میں
رپورٹ: ایس زیڈ ایچ جعفری

متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اختیارات و اقتدار کی خاطر سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی مفاہمت کا سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان سیاسی نکاح کے ہونے، ٹوٹنے اور ضرورت پڑنے پر حلالہ ہونے کے سلسلے بھی جاری رہتے ہیں، اسی حوالے سے 10 جنوری 2015ء کو کراچی کے کھوکھرا پار تھانے میں زیر حراست ایم کیو ایم کے مبینہ ٹارگٹ کلر فراز عالم کی پراسرار طور پر ہلاکت اور شہر کے مختلف علاقوں سے ایم کیو ایم کے کارکنان اور عہدیداران کی بوری بند لاشوں کے ملنے کے بعد، پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے خلاف شروع ہونے والے ایم کیو ایم کے احتجاج کے باعث ایکبار پھر دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی عروج پر پہنچ گئی تھی، ایم کیو ایم نے وزیراعلٰی ہاؤس کا گھیراؤ کیا، اسمبلی اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ وزیراعلٰی قائم علی شاہ کی حاکمیت میں ہمارے کارکنوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے، جبکہ قائم علی شاہ نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے کارکنوں کے قتل کیخلاف وزیراعلٰی ہاؤس کراچی کے سامنے کیا جانے والا احتجاج، احتجاج نہیں بلکہ حملہ تھا۔

دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر تھی کہ 6 فروری جمعہ کی شب پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر مملکت آصف زرداری اور الطاف حسین کے درمیان ایک طویل مدت کے بعد جمعہ کی شب ٹیلیفون پر رابطہ ہوا، جس کے بعد ایکبار پھر دونوں جماعتوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کا آغاز شروع ہوا، آصف زرداری نے الطاف حسین کو یقین دہانی کرائی کہ اگر دونوں جماعتوں کے مابین دوبارہ ساتھ چلنے کا معاہدہ ہوا، اس مرتبہ 40/60 کے طے شدہ معاہدے پر مکمل دیانتداری کے ساتھ عمل ہوگا۔ آصف زرداری کی ہدایت پر سابق وفاقی وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی اوورسیز کے صدر سینیٹر رحمان ملک نے 9 فروری کو لندن میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے تفصیلی ملاقات کی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کیلئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مابین سیاسی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سینیٹ الیکشن میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گی، دونوں جماعتوں کے مابین سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوگی، سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت پیپلز پارٹی کو سات اور ایم کیو ایم کو چار سیٹیں ملیں گی مگر پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی مفاہمت ایکبار پھر ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی ہے، پیپلز پارٹی سندھ سے سینیٹ کی ایک نشست نواز لیگ کو دینا چاہتی ہے، جس پر ایم کیو ایم راضی نہیں۔

متحدہ قومی موومنٹ اس بار کسی ممکنہ دھوکے سے بچنے کے لئے سینیٹ انتخابات کے نتائج اور موجودہ سیاسی مفاہمت کی چال دیکھنے کے بعد سندھ حکومت میں شمولیت چاہتی ہے۔ ایم کیوایم کے ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی کوئی جلدی نہیں ہے، سینیٹ انتخابات کے نتائج سے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حالیہ سیاسی مفاہمتی پالیسی واضح ہو جائے گی۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شمولیت سے قبل اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لئے کراچی میں جاری آپریشن کے حوالے سے وعدے کے مطابق مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کی خواہش رکھتی ہے، پیپلز پارٹی سے طے شدہ مفاہمتی پالیسی کے تحت 40 اور 60 کے تناسب کے فارمولے کے تحت سندھ کے شہری علاقوں کے بلدیاتی نظام کا کنٹرول بھی سندھ حکومت میں شمولیت سے قبل حوالے کئے جانے کی خواہش مند ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو فوری طور پر سندھ حکومت میں شامل کرنے پر بضد نظر آتی ہے، اور سینیٹر رحمان ملک سابق صدر مملکت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کئے جانے کے ٹاسک کو فوری طور پر مکمل کرنے کے لئے پھرتیاں دکھا رہے ہیں، اسی تناظر میں سینیٹر رحمان ملک اور الطاف حسین کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے، جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور سینیٹ انتخابات میں ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ روکنے کے لئے اقدامات پر اتفاق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ کو سندھ میں وزارت صحت، امور نوجوانان، صنعت و تجارت، پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ، خصوصی تعلیم، اوقاف اور لیبر کی وزارتیں دینے پر آمادہ ہوگئی ہے، تاہم ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ وزارت بلدیات یا وزارت داخلہ میں سے ایک وزارت ایم کیو ایم کو دی جائے۔

اس کے علاوہ سابق صدر مملکت آصف زرداری اور الطاف حسین کے درمیان گذشتہ دنوں ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کے تناظر میں سینیٹ انتخابات کے حوالے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت سندھ سے ایم کیو ایم کے 4 امیدواروں کو کامیاب کرائے جانے کے وعدے میں ترمیم کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سندھ سے سینیٹ کی ایک نشست پر نواز لیگ کے امیدوار کو کامیاب کرانے کا ارادہ رکھتی ہے، جسے ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، اسی طرح بلدیات یا داخلہ کی وزارت میں سے ایک ایم کیو ایم کو دینے سے پیپلز پارٹی کے حلقے انکاری ہیں، جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انتہائی اہم اور باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مفاہمتی ٹرین اسٹیشن پر کھڑی ہوگئی ہے، اور اب ایک بار پھر دونوں جماعتوں کے سربراہ یعنی آصف علی زرداری اور الطاف حسین ہی مفاہمت کی اس ٹرین کو آگے بڑھا سکتے ہیں، اس ضمن میں جلد ہی ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادی کے درمیان رابطہ ہو سکتا ہے، جبکہ دونوں جماعتوں کے سربراہوں کی جلد ملاقات بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان سینیٹ کے انتخابات کے تناظر میں ہونے والا تازہ سیاسی نکاح کب تک قائم رہتا ہے، اور کیا آصف علی زرداری اس نکاح کو بچانے میں کامیاب رہتے ہیں یا نہیں۔
خبر کا کوڈ : 443670
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش