1
0
Friday 27 Feb 2015 22:30

انتہا پسندی کی’’معتدل وجوہات‘‘

انتہا پسندی کی’’معتدل وجوہات‘‘
تحریر: طاہر یاسین طاہر

معاشرتی رویے انسانی اقدار کی بڑی ’’آبرو مندانہ‘‘ عکاسی کرتے ہیں۔ ہم لاکھ پیٹتے رہیں کہ ہم اتحاد کے داعی ہیں، ہم اسلام کی سربلندی کے لئے یکجان ہیں، ہم اسلام کے غلبے کے لئے ایک دوسرے کا دست و بازو بنیں گے، ہم بے شک اس آیت کا وظیفہ بھی کرتے رہیں کہ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ‘‘اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ مولوی مگر پیٹ رکھتا ہے اور بڑا ضخیم۔ اسے اپنے ’’دھندے‘‘ کے لئے کئی ایک کارندے درکار ہیں۔ اسلام فہمی کوئی ایسی ادق بات بھی نہیں مگر ظواہر پرستی اصل ہتھیار ہے۔ خاص وضح قطع کا لباس، داڑھی کی لمبائی کی لڑائی، خلافتِ عثمانیہ کے دور کی یاد، طارق بن زیاد کی ’’بہادری‘‘، محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد، اگرچہ محمد بن قاسم جیسے ’’ہیرو‘‘ کے قاتل کو بھی ہم ابھی تک ’’ہیرو‘‘ ہی سمجھے ہوئے ہیں، ’’ضواد اور دواد جھگڑا۔‘‘ من مرضی کا سودا نہ ہو تو نکاح ٹوٹ جانے کا ایمان لیوا فتویٰ، کئی ایک فتاویٰ تو ایسے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ تھوڑی سے زیادہ محنت کرکے چند ایک جید علمائے فرقہ ہائے یات کے فقاویٰ اٹھا کر دیکھ لیں، ہر ایک اپنے کو جنتی اور دوسرے کو بدعتی کہے گا، تازہ ایجاد مگر یہ ہوئی اور موبائل فون کی طرح پھیلی، خود جنتی باقی ساری جہنمی۔ تکفیری تیر رفتاری سے آگے بڑھے۔ ساغر صدیقی بڑا شاعر تھا، اپنی مستی میں گم رہنے والا درویش آدمی، مولوی کو ایک آنکھ نہ بھانے والا، مگر شعر بڑے کمال کے کہئے اس نے۔ انتہا پسندی کی معتدلانہ وجوہات پر کئی ایک شعراء نے اپنے اپنے زور قلم کو آزمایا، ساغر صدیقی مگر اس فن میں یکتا ہے،
تفریق نے جادو ہی جگایا ہے بلا کا
خطرے میں ہے اے یار! چمن مہرو وفا کا
توہین ہے درویش کا اس شہر میں جینا
ہو فاقہ کشی نام جہاں صبر و رضا کا


صبر و رضا مگر کہاں؟ نہ صبر نہ رضا۔ علم الرجال والے خاموش خاموش ہیں، ورنہ انھیں اس حدیث کی حقانیت پہ ضرور بات کرنی چاہیے کہ امت کے بہتر فرقے بنیں گے۔ ایک جنتی ہوگا اور باقی ساری جہنمی۔ کیسا دیں ہے جس کا رہبر اپنی امت میں تفرقے کو باعثِ رحمت قرار دے رہا ہے۔ علم الرجال کے ماہرین کے لئے خاموشی اس لمحے گناہِ کبیرہ سے کم نہیں۔ فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں جس کی بھی پیروی کرو گے فلاح پاؤ گے۔ بے شک حدیث درست ہوگی کیونکہ میں علم الرجال کا ماہر نہیں ہوں، مگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ صحابہ ایک دوسرے کی جان کے درپئے تھے۔ عام مسلمان کس کی پیروی کو نجات کا باعث سمجھے؟ نئے فتنے تو اپنی جگہ، خطے میں نئے کھیل کی بنیاد کی اپنی سیاسی و ’’مذہبی‘‘ وجوہات۔ مگر ہم اپنے موضوعات سے ہٹیں گے نہیں۔ مولوی نے انتہا پسندی کا بیچ بویا، عرب سے عجب تک، کیا محمود غزنوی مسلمانوں کا ہیرو تھا؟ اس کے اپنے منفی مگر بڑے پیچیدہ و پوشیدہ معاشی مقاصد تھے، اپنے معاشی مقاصد کی خاطر اس نے ہندوستان پر 17 حملے کئے، سوال مگر یہ ہے کہ کیا ان 17 ’’اسلامی‘‘ حملوں کے بعد سارے کا سارا ہندوستان مسلمان ہوگیا۔؟ تاریخ سے کسی کی رشتے داری نہیں، مولوی کی مگر کوشش ہے کہ وہ تاریخ کا فرسٹ کزن بنا رہے۔

ہم دنیا کے ٹھیکے دار قوم کے افراد ہیں، اخلاقی سطح مگر یہ کہ ایوانِ بالا میں ہونے والے انتخابات میں ڈالے جانے والے ایک ایک ووٹ کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ یہ ہے معتدل انتہا پسندانہ رویہ جو کسی بھی معاشرے کی رگوں سے اخلاق و حمیت کو نچوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آخری تجزیے میں مولوی بیج انتہا پسندی کا ہی بو رہا ہے مگر اس نے طریقہ واردات تبدیل کر لیا ہے، اب وہ بالواسطہ طور پر کسی کو کافر کہنے کے بجائے پہلے اس کے ساتھیوں کو بدعتی کہتا ہے اور پھر بدعتی کے ساتھیوں کو کافر۔ داعش ہو یا طالبان سب ’’امریکی سامراجی‘‘ اسلام کا مسلح ایجنڈا ہیں، کبھی یہ سخت گیر ہوا کرتے تھے، داعش والے اب بھی ہیں، رہیں گے، ان کی بربریت کے بغیر امریکی و اسرائیل، مقاصد پورے نہیں ہو پا رہے۔

افغان طالبان جنھیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہے، وہ البتہ اب ’’معتدل مزاجانہ‘‘ کرداد ادا کرنے کو تیار نظر کرتے ہیں، مگر اس ’’اعتدال پسندی‘‘ میں جو وحشت کا عکس ہے، وہ دنیا کو نئے وحشتوں سے آشنا کرائے گا۔ ہاگ وہی جو امریکہ چاہے گا کیونکہ طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت عسکری و معاشی طاقت کا ’’باوا آدم‘‘ امریکہ ہی ہے۔ امریکہ جان چکا ہے کہ دنیا کے عدل پسند اسے دنیا میں انتہا پسندی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں، چنانچہ اس نے ’’اعتدال پسندانہ‘‘ انتہا پسندی کے رواج کے لئے تیز رفتاری سے کام شروع کر دیا ہے۔ داعش اس کا وحشت ناک عسکری ونگ ہے جبکہ افغان طالبان اس کے معتدل (مزاج امن نمائندے۔) اس ساے کھیل میں مگر مولوی فضل اللہ کدھر جائے گا؟
خبر کا کوڈ : 443791
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
بہت عُمدہ حقیقت سے پردہ اٹھایا آپ نے
ہماری پیشکش