1
0
Saturday 7 Mar 2015 12:16

پاراچنار، انتظامیہ کیجانب سے چادر اور چاردیوری کی پائمالی پر علامہ عابد حسینی کا شدید احتجاج

پاراچنار، انتظامیہ کیجانب سے چادر اور چاردیوری کی پائمالی پر علامہ عابد حسینی کا شدید احتجاج
رپورٹ: بلال حسین بنگش

کرم ایجنسی میں ایک عرصہ سے سول اور فوجی انتظامیہ کی جانب سے یک طرفہ کارروائیاں جاری ہیں، ان کارروائیوں نے آجکل مزید شدت اختیار کرکے تمام اخلاقی اور آئینی حدود کو عبور کرلیا ہے۔ پاراچنار کرم ایجنسی میں نہایت مہذب اور تعلیم یافتہ اقوام آباد ہیں۔ جو تقریباً سو فیصد مملکت خداداد پاکستان کے محب اور وفادار ہیں، جنہوں نے کسی بھی مشکل وقت میں ملک کی ایک اینچ زمین پر کوئی آنچ نہیں آنے دی ہے اور تاریخ بات کی گواہ ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں سے فوجی انتظامیہ نے پاراچنار شہر اور اطراف میں ایمرجنسی قسم کا قانون نافذ کر دیا ہے۔ شہر کے اندر کسی گاڑی کو جانے نہیں دی رہی، دیہاتوں میں جگہ جگہ گاڑیوں کی مکمل تلاشی لی جا رہی ہے۔ عام لوگوں حتی کہ خواتین اور بچوں کو بھی تنگ کیا جاتا ہے۔ 

فضل اللہ کیجانب سے حملے کی افواہ:

اسلام ٹائمز نے ایک اہم سرکاری شخصیت سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے مذکورہ بالا صورتحال کی وجہ معلوم کی، تو انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بظاہر کوئی خاص وجہ تو معلوم نہیں ہو رہی، تاہم حکومت کی جانب سے ایک پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ فضل اللہ کی جانب سے چند افراد متعین کئے گئے ہیں جو کسی بھی وقت سکیورٹی فورسز پر حملہ کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاراچنار میں آج تک سکیورٹی فورسز پر کسی قسم کا کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ یہاں کے عوام فوج کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 

چادر و چاردیواری کی بیحرمتی:
سکیورٹی فورسز کی جانب سے جاری کارروائیوں میں چادر اور چاردیواری کے احترام کا کوئی خیال رکھے بغیر گھروں کی تلاشی لی جاتی ہے اور اسلحہ کی تلاش کے بہانے گھریلو استعمال خصوصاً سونا اور دیگر قیمتی اشیاء اٹھا لی جاتی ہیں۔ 

تحریک حسینی کیجانب سے احتجاجی جلسہ:
اس حوالے سے گذشتہ دن جمعہ کو بڑی تعداد میں لوگ احتجاجاً مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں جمع ہوئے اور نماز ظہرین کے بعد اس حوالے سے ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا گیا۔ ریاض حسین کے مطابق جلسے سے تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی علامہ سید عابد حسین الحسینی اور مجلس علمائے اہلبیت کے صدر اور مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ کے استاد علامہ سید صفدر علی شاہ نقوی نے خطاب کیا، علامہ صفدر علی شاہ نے کہا کہ حکومت بے شک امن و امان برقرار رکھںے کا حق رکھتی ہے، تاہم اس کی آڑ میں اسے عوام کی عزت و ناموس کو پائمال کرنے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو کسی پر شک ہے کہ وہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے، تو ہمیں مطلع کرے، ہم حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ 

علامہ عابد حسینی کا ردعمل:
اس موقع پر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایک طرف تو تحریک کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے، دوسری جانب مذاکرات کے دوران چھاپے مار رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حکومت کے منصوبوں سے آگاہ ہوچکے ہیں، سنا ہے کہ حکومت ملانہ روڈ کو بند کرکے  وہاں گیٹ تعمیر کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سن لے ملانہ پہلے آباد ہے، یہ روڈ انگریز دور کا ہے، پارچنار کو ملانہ سے ملانے کا، جبکہ سرکاری قلعہ ملانہ والوں نے بغیر کسی قیمت کے حکومت کو دیا ہے، انتظامیہ اب اپنی سکیوٹی کا بہانہ بناکر احسان کے بدلے ملانہ کا راستہ بند کرکے وہاں کے لوگوں کو مصیبت سے دوچار کر رہی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے۔ کسی صورت میں اسکی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

کیا پاراچنار ہیڈ کوارٹر ہونے کیلئے موزون نہیں:

علامہ عابد حسینی نے احتجاجی جلسے کے بعد اسلام ٹائمز سے گفتگو کے دوران کہا کہ حکومت وقتاً فوقتاً طوری بنگش اقوام کو طرح طرح کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ ہیڈ کوارٹر پاراچنار سے تبدیل کرکے صدہ شفٹ کیا جائے گا۔ کبھی کچھ کبھی کچھ، تو ہماری گزارش یہ کہ اگر حکومت جانتی ہے کہ پاراچنار ہیڈ کوارٹر کے لئے مناسب جگہ نہیں یا ویسے ہی انہیں شوق ہے تو بے شک ہیڈ کوارٹر تبدیل کرکے جاسکتی ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم یہاں سے جانے سے پہلے طوریوں کی جانب سے عطیہ شدہ زمینوں کو واپس کیا جائے، اور پھر انکی مرضی صدہ یا کسی بھی دوسری جگہ جاکر اپنے لئے پراپرٹی کا بھی بندوبست کرے۔ علامہ عابد الحسینی نے مزید کہا کہ ہم مذاکرات کے مخالف نہیں بلکہ حکومت سے مذاکرات کے حامی ہیں۔ تحریک حسینی کی مذاکراتی ٹیم بے شک اپنے مذاکرات جاری رکھے، تاہم مذاکرات کے دوران حکومت کی کسی بھی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے نام پر جاری حکومتی کارروائیاں غیر منصفانہ اور جانبدارانہ ہیں۔ وہ یوں کہ ہمیشہ ان علاقوں میں آپریشن کیا جاتا ہے، جہاں سرکار کا مکمل غلبہ ہے اور حکومتی اہلکار ان علاقوں میں بلا کسی روک ٹوک اور خوف کے پھرتے ہیں، جبکہ وہ علاقے جہاں طالبان اور مسلح دہشتگرد آزادانہ حرکت کرتے پھرتے ہیں اور حکومت کی وہان کوئی عملداری نہیں، انکی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا۔

سرحدوں کی حفاظت مقامی قبائل کرتے ہیں:
انہوں نے کہا کہ ہم افغان سرحد پر آباد ہیں۔ انگریز دور سے لیکر آج تک حکومت نے سرحد کی حفاظت کی ذمہ داری ہمیں سونپ رکھی ہے، جس کی خاطر اس زمانے میں ہمیں سرکار کی جانب سے جدید ترین رائفلیں بھی مہیا کی گئی تھیں۔ تاکہ سرحد پار سے کوئی تجاوز نہ ہونے پائے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اہلیان کرم نے کبھی بھی اپنی حکومت کے خلاف بغاوت نہیں کی ہے، جبکہ دوسری جانب سرحد پار افغانستان سے قبائل کی جانب سے جارحیت کے دوران سرکار نے کبھی ہماری مدد نہیں کی۔ جولائی 1987ء میں افغانستان سے کرم ایجنسی پر تابڑ توڑ حملے کئے گئے، نہ صرف سرحد پار سے بلکہ یہاں پناہ لینے والے مہاجرین نے کیمپوں سے بھی ہم پر حملے کئے، جس کے نتیجے میں ہمارے کئی دیہات جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے، جبکہ اس دوران حکومت نے چپ سادھ لی تھی۔ مقامی قبائل کے پاس انکے مقابلے کے لئے کوئی خاص اسلحہ موجود بھی نہ تھا، تاہم انہوں نے اپنی استقامت سے تمام حملوں کو ناکام بنا دیا تھا۔ 

اسلحہ قبائل کی غذا ہے:
علامہ عابد الحسینی کا کہنا تھا کہ اسلحہ ہماری غذا ہے، جس کے بغیر ہم ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے، ہاں ایک شرط پر ہم اپنا اسلحہ بغیر کسی روک ٹوک کے تحویل دینے کو تیار ہیں کہ سابقہ روایات اور سرکار کی جانب سے کئے گئے عہد کے مطابق کرم ملیشیا کا تبادلہ یہاں کرایا جائے، جو اندرونی و بیرونی ملک دشمن عناصر سے علاقے اور ہماری جان و مال کی حفاظت کرسکے، جبکہ یہ تو سراسر زیادتی ہے کہ ہمیں مکمل طور پر نہتا کرکے دہشتگرد دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ 
خبر کا کوڈ : 445420
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

iqbalhussaoinbangash
Pakistan
good leadar
ہماری پیشکش