0
Monday 16 Mar 2015 08:45

سعودی خواہشات، ملکی مفاد سے مقدم تو نہیں (آخری حصہ)

سعودی خواہشات، ملکی مفاد سے مقدم تو نہیں (آخری حصہ)
تحریر: عمران خان

قارئین کو یاد ہو گا کہ رواں سال فروری کے شروع میں داعش نے اردن کے ایک پائلٹ کو زندہ جلا دیا تھا۔ اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ نے دوران پرواز امریکی جہازوں کو عراق میں اسلحہ گراتے دیکھا۔ جن علاقوں میں یہ اسلحہ گرایا جا رہا تھا، وہ داعش کے زیر کنٹرول تھے۔ الکساسبہ نے امریکی سربراہی میں نام نہاد اتحاد فضائی کاروائیائیوں کا دعویٰ کرنے والوں کے کنٹرول روم سے رابطہ کر کے انہیں اس کی اطلاع بھی دی تھی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق الکساسبہ کے اس پیغام کے کچھ دیر کے بعد ایک امریکی میزائل نے اس کے طیارے کو ہٹ کیا۔ واضح رہے کہ اردنی پائلٹ کا جہاز داعش کے دہشتگردوں نے نہیں گرایا تھا، بلکہ امریکی میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ الکساسبہ نے طیارے سے چھلانگ لگائی۔ داعش کے علاقے پر محو پرواز ہونے کے باعث انہی کے علاقے میں گرا اور گرفتار ہو گیا۔ داعش نے گرفتار پائلٹ کی رہائی کے لیے جو شرائط اردن کی حکومت کے سامنے رکھی تھیں، ابھی اردن کی حکومت ان پر غور ہی کر رہی تھی کہ الکساسبہ کو زندہ جلا کر اسے پتھروں میں دفن کر دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی سی آئی اے اردنی پائلٹ کو نشان عبرت بنانا چاہتے تھے۔ اس سے کچھ عرصہ قبل امریکہ نے یہ بات تسلیم بھی کی تھی کہ اس کے جہازوں نے جو اسلحہ گرایا وہ داعش کے دہشتگردوں کو ملا۔ اسی طرح عراقی فورسز نے دو ایسے طیارے بھی گرائے تھے، جو داعشی دہشتگردوں کے علاقوں میں اسلحہ گرا رہے تھے۔ بعدازاں یہ طیارے برطانیہ کے ثابت ہوئے۔ چنانچہ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جو داعش کے خلاف آج عالمی اتحاد ترتیب دیکر اس کے خلاف کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، وہی داعش کے سرپرست اعلیٰ ہیں اور اس کے مددگار ہیں۔ جو سعودی عرب آج داعش کا خطرہ ظاہر کر کے پاکستان سے تربیت یافتہ افرادی قوت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے، وہ سعودی عرب داعش کے ہتھیاروں کی فراہمی کا ذمہ دار ہے۔ چنانچہ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان سے افرادی قوت کے حصول کا مقصد داعش کا خطرہ نہیں، بلکہ کچھ اور مذموم عزائم اور مقاصد ہیں۔

موضوع سے ہٹ کر ایک اور خبر جو عالمی میڈیا نے انتہائی ذمہ داری کے ساتھ نشر کی، موجودہ حکمرانوں کے مخصوص مائنڈ سیٹ کا پتہ دیتی ہے۔ وزیر اعظم ابھی سعودی عرب سے واپس تشریف لائے ہی تھے، کہ ایک اور انکشاف نے پاکستان کے عوام کو چونکا کر رکھ دیا۔ یہ انکشاف لانگ وار جرنل کی جانب سے کیا گیا تھا۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے قاری حسین اور حکیم اللہ محسود کو یہ پیشکش کی تھی، کہ اگر وہ پنجاب میں دہشتگردی نہ کریں، تو ان کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے۔ لانگ وار جرنل کے مطابق اس بات کا پتہ اسامہ بن لادن کی رہائشگاہ سے برآمد ہونے والے ایک خط سے چلا۔ یہ خط القاعدہ کے نائب عطیہ عبدالرحمن کی طرف سے سال 2010 میں تحریر کیا گیا تھا۔ جس کو حال ہی میں امریکی عدالت میں ایک دہشتگرد عابد نصیر کے کیس کی سماعت کے دوران بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ خط میں القاعدہ، پاکستانی طالبان اور شہباز شریف کے تعلقات پر بات کی گئی ہے۔ خط کی تحریر کے مطابق القاعدہ کو کاروائیاں جاری رکھنے کیلئے جہاں ایک طرف حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی خفیہ اداروں کی مدد حاصل تھی، وہیں پاکستانی سیاست دان بھی ان کے ساتھ تعاون کیلئے تیار تھے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کو پیغام بھجوایا تھا کہ اگر وہ صوبہ پنجاب کی حدود میں کوئی کاروائی نہ کریں، تو ان کے ساتھ تعاون کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ پیشکش صرف پنجاب کی صوبائی حکومت تک ہی محدود تھی۔ خط کی ایک حصے میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم امن مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش صرف پنجاب کے لئے تھی اور اس میں اسلام آباد اور دیگر ملک شامل نہ تھا۔ واضح رہے جب ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا گیا تھا، تو امریکی فوجی ان کی رہائش گاہ سے بر آمد ہونے والی تمام تر دستاویزات بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ واضح رہے کہ یہ وہی وزیراعلٰی ہیں، جنہوں نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ ہم تو طالبان کے ساتھ ہیں پھر پنجاب میں حملے کیوں ہو رہے ہیں۔ یقیناً اس خبر پر کسی قسم کی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی، کیونکہ وطن عزیز میں برسراقتدار حکمرانوں کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کی کوئی روایت موجود نہیں۔

موضوع کی جانب آتے ہیں، سعودی عرب نے ماضی میں اپنے فوجیوں کی ٹریننگ کے نام پر پاکستان سے ریٹائرڈ فوجی حاصل کئے اور انہیں بحرین میں عوامی تحریک کو کچلنے کیلئے استعمال کیا۔ ممکن ہے کہ اب کی بار یہ قوت یمن کی عوام کے خلاف استعمال کی جائے یا عراق و شام کی حکومتوں کے خلاف۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ داعش کو پاکستان میں کسی کارروائی کیلئے فی الوقت کوئی جواز میسر نہیں۔ سعودی خواہش پر فوجی دینے سے پاکستان عملاً داعش کے خلاف محاذ کھولے گا۔ سعودی عرب نے جیسے طالبان کو فتووں کی صورت میں دہشتگردی کے اجازت نامے اور ریال کی صورت میں فنڈنگ کی، مگر ان کی غیرانسانی دہشتگردی سے خود محفوظ رہا، بعین وہی معاملہ داعش کے حوالے سے بھی ہو گا۔ حکمرانوں کو مسئلہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ملک کو ذاتی و شخصی تعلقات کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ پاکستان پہلے ہی داخلی مسائل کا شکار ہے۔ ملک کے اندر طالبان کا مسئلہ حل نہیں ہوا کہ داعش کے پنپنے کی خبریں عام ہیں۔ افواج پاکستان اور عوام ملک کے استحکام اور سلامتی کی جنگ میں بے تحاشہ قربانیاں دے رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بجائے امریکی و سعودی خواہشات کی تابعداری کے حکومت کو ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ دہشت گردوں کو حاصل ہونے والی بیرونی امداد کے آگے بند باندھنا چاہیے۔ پاکستان کی سرحدوں کے اندر جو دہشتگرد دشمن ہیں، سرحدوں سے باہر وہ ہرگز دوست نہیں ہو سکتے۔ اگر آج سعودی عرب داعش کو اپنے لیے خطرہ تسلیم کر رہا ہے، تو اس خطرے کو وجود میں لانے میں اس کا اپنا کردار سب سے زیادہ ہے۔ داعش کے خلاف عالمی اتحاد کے سربراہ امریکہ، کی پالیسی صرف اسلحہ کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ داعش کے حق میں میڈیا مہم امریکہ اور مغربی ممالک کی سرزمین سے ہی چلائی جا رہی ہے۔ چنانچہ کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جو سعودی عرب کی خواہش کے نتیجے میں پاکستان کیلئے نفع بخش ثابت ہو۔ یمن کے حوالے سے پاکستان کو اپنی پالیسی غیر جانبدار رکھنی چاہیے۔ اگر آج وہاں عوامی حکومت ہے تو پاکستان کے تعلقات ملک یمن کے ساتھ ہیں، نہ کہ اس مفرور یمنی صدر کے ساتھ، جو مستعفی بھی ہو چکا ہے اور اب محض سعودی اور امریکی ایما پر یمن کو عملاً تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کے نیا دارالحکومت بنائے بیٹھا ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے، جیسے دہشتگرد فاٹا کے کسی علاقے کو اپنا دارالحکومت ڈکلیئر کر دیں اور امریکہ یا سعودی عرب کہیں کہ ہم اپنا سفارتخانہ اب فاٹا میں منتقل کر رہے ہیں، کیا ملکوں کی سفارتی تاریخ اس کی تائید کرتی ہے۔ پاکستان نے امریکہ کو کوئٹہ میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ سعودی خواہش کی پیروی تو امریکہ کو بھی یہ جواز فراہم کر سکتی ہے کہ وہ بلوچستان میں قونصل خانہ نہیں سفارتخانہ ہی منتقل کر دے۔

ماضی کے دھرنوں کے باعث یا مستقبل میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے احتجاج کے باعث اگر نواز شریف رائے ونڈ میں مقیم ہو جائیں تو کیا سعودی عرب اسلام آباد سے اپنا سفارتخانہ رائیونڈ میں منتقل کرے گا۔ یقیناً دفتر خارجہ اس اہم ایشو کو سفارتی آداب کے مطابق ہی حل کرے گا۔ حکمرانوں کو دفاتر کی اکھاڑ پچھاڑ میں زیادہ غلطاں نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے ہی خارجہ پالیسی سے حکمران اتنے ہی مخلص ہیں کہ عہد اقتدار کی کئی بہاریں لوٹنے کے باوجود مکمل وزیر خارجہ نہ بنا سکے۔ ملک سے باہر کئی سفاتخانوں میں پاکستان کے سفیر سرے سے موجود ہی نہیں۔ کئی ملکوں میں ذاتی تعلقات کی بنیاد پر ایسے سفیر تعینات ہیں، جن کا سفارتکاری سے دور دور تک واسطہ نہیں، یہاں تک کہ جس سعودی عرب کی خواہشات پر حکمران مر مٹنے کو ہر دم تیار ملتے ہیں، پاکستان میں اس کا سفیر تک موجود نہیں۔ جس سے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ پاکستان، سعودی عرب کے تعلقات دو ممالک کے درمیان تعلقات ہیں یا دو حکمرانوں کے درمیان یارانہ ہے۔

اس کے علاوہ عراق کی موجودہ صورتحال اور عراقی فورسز کے آپریشن کو مدنظر رکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جن ملکوں میں اس تنظیم کا وجود موجود ہے، وہ خود ہی اس سے نمٹ لیں گے۔ اگر سعودی عرب زیادہ خطرہ محسوس کرتا ہے تو اپنی سرزمین پر موجود امریکی فورس کو زیر استعمال لائے۔ کیونکہ عراقی فورسز کا داعش کے خلاف آپریشن انتہائی تیزی سے جاری ہے۔ فورسز نے دہشتگردوں سے کئی علاقے خالی کرا لیے ہیں، یہاں تک کہ تکریت صوبے میں موجود داعش کا آخری ٹھکانہ بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ داعشی دہشتگرد اب جائے پناہ ڈھونڈ رہے ہیں، یکے بعد دیگر مختلف شہروں سے فرار ہوتے ہوئے غیرانسانی مظالم کے ساتھ ساتھ قدیمی ورثے کو بھی تباہ کر رہے ہیں۔ چنانچہ عرب ممالک کی جانب سے ایک ایسے وقت میں داعش کے خلاف متحدہ فورس کا قیام اور اس میں پاکستان کی شمولیت پر زور معنی خیز ہے۔؟ اگر سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک داعش کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، تو وہ نئی فوجیں تشکیل دینے کے بجائے عراق اور شام کی سرکاری افواج کی دفاعی میدان میں مدد کریں۔ اب تک جو روایتی اور غیر روایتی، ہلکے و بھاری ہتھیار دہشتگردوں کو فراہم کر رہے تھے، وہ شام، عراق کی افواج اور حزب اللہ کو فراہم کریں۔ کیونکہ یہی وہ قوتیں ہییں جو پہلے ہی داعش کے خلاف میدان میں موجود ہیں۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ داعش کے نام پر عرب فورس کے قیام کا مقصد داعش سے نمٹنا نہیں، بلکہ شام کے خلاف ایک نیا محاذ تشکیل دینا ہے، کیونکہ تمام تر عہدوپیمان کے باوجود امریکہ نے شام پر حملے کی سعودی خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنایا تھا۔

پاکستان کو امریکہ یا سعودی خواہش کے زیر اثر سرحدوں کے پار کسی نئے جھمیلے میں نہیں الجھنا چاہیے۔ حکمرانوں کو اب شخصی تعلقات اور ذاتی مفادات سے باہر آ کر ملک کے اندر قیام امن کیلئے مخلصی سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ طالبان، القاعدہ، داعش، جنداللہ سمیت ہر قسم کے دہشتگرد گروہوں کے خلاف سخت کاروائی کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہیے۔ دنیا کے کسی ملک کے پاس اپنے پڑوسی تبدیل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ امریکہ سعودی عرب ہمارے دوست بھی ہوں، مگر ان کے ساتھ ہماری سرحدیں جڑی ہوئی نہیں ہیں۔ کہیں ان کی خواہشات کی تابعداری کرتے کرتے ہم باقی ماندہ دوست بھی ہاتھ سے گنوا نہ بیٹھیں جو کہ خوش قسمتی سے ہمارے پڑوسی بھی ہیں۔ حکومت کاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں کو باور کرائیں کہ پاکستان ان کی ذاتی جاگیر نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔
خبر کا کوڈ : 447220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش