0
Sunday 21 Nov 2010 14:07

آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر بھارت کا شدید ردعمل

اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی بلاک کا قیام ناگزیر
آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت پر بھارت کا شدید ردعمل
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی جانب سے کشمیر کا موازنہ افغانستان، فلسطین سے کرنے اور بھارت کو صہیونی حکومت قرار دینے پر بھارت نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے دوران دنیا کے مسلمانوں کو کشمیریوں کی مدد کیلئے انہوں نے کہا کہ مسلم امہ کی آج یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی قوم اور غزہ کے محصور عوام کی مدد کریں،مسلمانوں کو افغانستان،پاکستان،عراق اور کشمیر کے عوام کی مدد کرنی چاہیے جو امریکی جارحیت اور صہیونی حکومتوں کے جبر کی مزاحمت کر رہے ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ میں ایرانی ناظم الامور رضا علائی کو طلب کر کے خاص طور پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ بقول انکے سپریم لیڈر کے بیان میں بھارت کی سالمیت پر انگلی اٹھائی گئی ہے۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم،جبر اور ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،ان میں ہنود،یہود و نصاریٰ ہی ملوث ہیں،ایران اور ترکی وہ اسلامی ممالک ہیں،جو جرأت،غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سچ کو سچ،جھوٹ کو جھوٹ اور ظلم کو ظلم کہہ دیتے ہیں،وہ مصلحت کے نام پر منافقت سے کام نہیں لیتے۔ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای نے کشمیر پر بھارتی جارحانہ قبضہ کو ارضِ فلسطین پر صہیونیت کے قبضے اور مظالم کے ہم پلہ اور عراق و افغانستان پر امریکی جارحیت کو مقبوضہ وادی میں خونخوار بھارتی افواج کی مجرمانہ کارروائیوں کے مترادف قرار دیکر خاموش مسلم امہ کی صحیح ترجمانی اور امہ کی راست سمت میں رہنمائی کی ہے۔
کشمیر اور فلسطین امہ کے سلگتے ہوئے مسائل ہیں،فلسطین میں یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں،کشمیر میں یہ کام عیار اور مکار ہندو بنیاء امریکہ اور اسرائیل کی پشت پر کر رہا ہے،ہنود،یہود و نصاریٰ ہر مسلمان اور اسلامی ملک کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں اور اس کیلئے وہ میدان عمل میں بھی آچکے ہیں۔کہیں وہ اسلحہ و بارود سے مسلمانوں کو نابود کر رہے ہیں تو کہیں دوستی کی آڑ میں منافقت اور سازشوں سے۔
امریکہ نے عراق اور افغانستان کو 50 کے قریب ممالک کی مدد سے اڑا کے رکھ دیا۔امریکہ اور اتحادیوں کی انسانیت سوز کارروائیوں میں پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک نے بھی حصہ ڈالا،پاکستان بدستور نہ صرف افغانستان پر چڑھائی بلکہ پاکستان پر حملوں میں بھی امریکہ کا معاون ہے۔ڈرون حملے بلا کسی روک ٹوک کے ہو رہے ہیں۔تقسیم ہند کے ایجنڈے،ہر اصول اور قانون کیمطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے،جس پر بھارت نے تمام ضوابط قوانین اصولوں کو روندتے ہوئے جارحانہ قبضہ کر رکھا ہے۔اقوام متحدہ کی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دو قراردادیں منظور ہو چکی ہیں،بھارت 63 سال سے ان پر عملدرآمد سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے حالانکہ یہ مسئلہ خود بھارت یو این میں لے گیا اور اس نے خود ان قراردادوں کی حمایت بھی کر رکھی ہے۔ 
ہمارے حکمرانوں کی آج پوری توجہ امریکہ کی جنگ لڑنے پر مرکوز ہے،جس جنگ نے اب پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو یکسر فراموش کر رکھا ہے،صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جاتا ہے،کتنی شرم کی بات ہے کہ اقوام متحدہ میں سابق پاکستانی مندوب شمشاد احمد نے کہا ہے کہ صدر مشرف نے انہیں اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے منع کر رکھا تھا،تاہم وہ جیسے تیسے مسئلہ کشمیر پر بات ضرور کرتے رہے۔آج صورتحال مزید مخدوش ہو گئی ہے،اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر حسین ہارون کی اپنے بھارتی ہم منصب سے دوستی ہے،اس دوستی میں پاکستانی سفیر نے بھارت کو سلامتی کونسل کی عارضی رکنیت کیلئے اپنا ووٹ بھی ڈال دیا،حکومت پاکستان اس پر خاموش رہی۔اس کا یہی مطلب لیا جانا چاہیے کہ حسین ہارون نے پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن کے حق میں ووٹ اپنی حکومت کی مرضی سے دیا،پاکستان کی وکالت کرنے کیلئے جانیوالے بھارتی دلال کا کردار ادا کریں تو افسوس تو ہوتا ہے۔
ایک طرف حکومت پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر سے لاتعلقی،دوسری طرف کئی سمندر پار سے نارویجن حکومت کی طرف سے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت ہو رہی،وزیر خارجہ ناروے جونس نے کشمیریوں کے مؤقف کی عالمی سطح پر درست ترجمانی کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیریوں کی اندرونی تحریک ہے،اس میں بیرونی عناصر ملوث نہیں،نارویجن پارلیمنٹ میں حریت پسندوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے پر شدید مذمت کی گئی،نارویجن پارلیمنٹ میں قرارداد کشمیر سکنڈے نیوین کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سردار علی نواز شاہ کی کوشش سے پیش کی گئی۔ایک طرف تنخواہ اور مراعات یافتہ سفارتکار اور کارندے کشمیر کاز سے غداری کر رہے ہیں،دوسری طرف علی نواز جیسے کشمیریوں کیلئے درد اور تڑپ رکھنے والے لوگ رضاکارانہ طور پر پاکستان کیلئے سفارتکاری کر رہے ہیں۔
آج کشمیریوں کی اخلاقی سفارتی اور عملی مدد کی کسی بھی دور سے بڑھ کر ضرورت ہے،پچھلے چھ ماہ میں کشمیریوں نے مزید جانوں کے نذرانے دیکر تحریک آزادی کو بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔ ’’بھارتیو! کشمیر چھوڑ دو‘‘ نے مقبوضہ وادی میں گولہ و بارود برساتی سات لاکھ بھارتی سپاہ کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے،بھارتی وزیر خارجہ چدمبرم اور آرمی چیف وی کے سنگھ بھی اپنی حکومت کو مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔اب معاملات بھارت کے ساتھ روایتی مذاکرات سے کہیں آگے جا چکے ہیں۔بھارت کے مذاکرات کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں،بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے،ایک طرف وہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے،دوسری طرف مذاکرات کی بات کرتا ہے۔مذاکرات کس بات پر؟اقوام متحدہ نے تو استصواب کی صورت میں مسئلہ کشمیر کا حل تجویز کر دیا ہے،مذاکرات اگر کرنا ہیں تو صرف استصواب کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے ہونے چاہئیں،دیگر کوئی معاملہ ہے ہی نہیں،جن پر بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوں یا بیک ڈور ڈپلومیسی سے کام لیا جائے۔
بھارت اور ایران کے مابین اچھے تعلقات میں سردمہری کا عنصر اس وقت شامل ہوا،جب بھارت کے سامنے امریکہ اور ایران میں سے کسی ایک سے دوستی کا آپشن آکھڑا ہوا۔بھارت کیلئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اصولوں کی خاطر ایک ایسے ملک کی دوستی کو ٹھکرا دے،جس نے اسکے سر پر نوازشات اور عنایات کا سایہ کر رکھا ہے،مسلمانوں کیخلاف اگر ہنود و یہود و نصاریٰ متحد ہو سکتے ہیں تو اسلامی ممالک کیوں ایک نہیں ہو سکتے؟شیطانی اتحاد ثلاثہ کے بارے میں اسلامی ممالک کے عوام کے نفرت انگیز جذبات ڈھکے چھپے نہیں،البتہ حکمران ضرور بزدلانہ مصلحت کا شکار ہیں۔ایران ابھی پوری طرح ایٹمی طاقت نہیں بنا،امریکہ اور اسکے حواری اس سے اس قدر خائف اور خوفزدہ ہیں کہ طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دے کر بھاگ جاتے ہیں۔پاکستان تو مکمل ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین فوج کا حامل ملک ہے،پھر خوف کس بات کا؟صرف اس بات کا ڈر کہ اقتدار نہ جاتا رہے۔ٹیپو سلطان جیسے بہادروں کا تو اصول کی خاطر نہ صرف اقتدار بلکہ جان بھی چلی گئی تھی،ٹیپو نے اپنے مقولے:
’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘
پر عمل کر دکھایا تھا۔آج اول تو 57 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے،تاہم فوری طور پر خطے میں ایران،ترکی،افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ایک اسلامی بلاک قائم ہو جانا چاہیے۔کرزئی امریکہ،امریکہ کرزئی سے تنگ ہے،ایران پہلے ہی امریکہ کیخلاف میدان میں ہے،ترکی اسلامی بلاک کے قیام کا زبردست حامی ہے،اب بات صرف پاکستان کی رہ گئی ہے،ہمارے حکمران بھی مفادات اور مصلحتوں کا لبادہ اتار پھینکیں،اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت ہونے کے ناطے خطے میں اسلامی بلاک کے قیام میں اپنا بھرپور اور لیڈنگ کردار ادا کریں۔پھر دیکھیے بھارت کیسے مسئلہ کشمیر پر آمادہ نہیں ہوتا اور امریکہ کیسے خطے سے بوریا بستر لپیٹ کر بھاگ کھڑا نہیں ہوتا،جو افغانستان کو ابھی سے بتا رہا ہے کہ وہ 2014ء کو بھی جو اس کا افغانستان خالی کرنے کا سال ہے،وہاں سے پوری طرح نہیں نکلے گا اور انکی رکھوالی کیلئے کسی نہ کسی طرح مقیم رہے گا،اس کا صرف ایک اور ایک علاج ہے،پاکستان،افغانستان،ایران اور ترکی کا اتحاد۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 44724
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش