0
Thursday 9 Apr 2015 17:21
چوتھی نسل کی جنگوں کی ایک حکمت عملی: ‘‘بالواسطہ کنٹرول’’

امریکہ اور تکفیری گروہوں کی کہانی

امریکہ اور تکفیری گروہوں کی کہانی
تحریر: ہادی قبیسی 

اسلام ٹائمز – تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں مغربی ممالک کے متضاد رویوں کے بارے میں بہت سے ابہامات اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ان رویوں میں سے مندرجہ ذیل موارد ایسے تضاد کا منہ بولتا ثبوت ہیں: 1970ء کے عشرے کے اواخر میں ان گروہوں کو افغانستان میں اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنا، 1990ء کے عشرے میں انہیں گروہوں کو دہشت گرد قرار دے کر سعودی عرب میں ان سے مقابلہ کرنا، 2001ء میں ان گروہوں کے خلاف افغانستان اور اس کے بعد 2003ء میں عراق میں جنگ کا آغاز، 2011ء میں دوبارہ انہیں تکفیری دہشت گروہوں کی شام میں حمایت کا اعلان اور اس وقت داعش کی صورت میں ایک اور غیر واضح تجربے کی تکرار سے ہمارا سامنا ہے۔
 
ان ابہامات اور شکوک و شبہات کا منشا یہ ہے کہ پیش کئے جانے والے تجزیے واضح اور غیر لچک ہیں جن میں مغربی طرز فکر والے مصلحت پسندانہ تجزیوں کے ساتھ ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ دوسری طرف چونکہ اکثر مواقع پر تکفیری گروہ مغربی طاقتوں کے مفادات کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں لہذا ان گروہوں کے دشمن انہیں مغربی طاقتوں کا پٹھو اور نوکر قرار دیتے ہیں۔ یہ دعوی بہت حد تک حقیقت کے قریب محسوس ہوتا ہے کیونکہ امریکہ کی جانب سے بالواسطہ کنٹرول کی پالیسی اختیار کرنے، تکفیری گروہوں کا اپنی آئیڈیالوجی اور اسٹریٹجی میں عدم استحکام کا شکار ہونے اور ایسے گروہوں کے تنظیمی ڈھانچے کا حساس ہونے اور امریکہ سے تعلقات پر انحصار کرنے کے باعث امریکہ اور ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کے درمیان گہرے تعاون کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ انہیں عوامل کے سبب امریکہ اور تکفیری گروہوں کے درمیان تعلقات میں 1979ء سے لے کر آج تک بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مزید برآں، خود تکفیری گروہوں کی جانب سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کا دفاع کرنے اور انہیں معقول ظاہر کرنے کی کوششوں سے بھی ہمارے دعوے کی درستگی کی تائید ہوتی نظر آتی ہے۔ 
 
مذکورہ بالا مشاہدات کی روشنی میں یہ کہنا درست ہو گا کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ نے ان تکفیری دہشت گرد گروہوں کے ساتھ تعلقات میں ایک خاص قسم کی اسٹریٹجی اپنا رکھی ہے۔ یہ اسٹریٹجی مندرجہ ذیل تین بنیادی مراحل پر مشتمل ہے:
1۔ ابتدائی اقدامات 2۔ ترویج اور پھیلاو  3۔ کنٹرول۔
چونکہ ان مراحل میں سے ہر ایک خاص حالات کا مقتضی ہے لہذا امریکہ بھی مخصوص حالات میں موجودہ فضا سے متناسب ہتھکنڈے بروئے کار لاتا ہے اور ایسا نہیں کہ مذکورہ بالا تینوں مراحل ایک ہی وقت میں امریکہ کی پالیسیوں کا حصہ قرار پائیں۔ 
 
پہلا مرحلہ: ابتدائی اقدامات
پالیسی کے اس مرحلے میں تکفیری عناصر کی سرگرمیوں کیلئے مناسب محل وقوع کی تشخیص (assessment) کا کام انجام پاتا ہے۔ البتہ اس کام کی بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ ان عناصر کی سرگرمیاں امریکی مفادات کیلئے خطرہ ثابت نہ ہوں اور تزویراتی اعتبار سے کسی حد تک امریکہ کیلئے نفع بخش بھی ہوں۔ اس مرحلے کے اجرا کیلئے وقت اور مقام کے پیش نظر مختلف قسم کی حکمت عملی اور طریقہ کار اپنائے جاتے ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل پانچ طریقے قابل ذکر ہیں۔ 
 
1)۔ مناسب محل وقوع کی فراہمی: اس حکمت عملی کے تحت مطلوبہ علاقے میں انارکی، سیاسی عدم استحکام، سیاسی فرقہ واریت اور عوامی بغاوت پھیلا کر دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کیلئے مناسب ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثالیں 2011ء میں شام کے حالات اور 2014ء میں عراق کے شہر موصل کے حالات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
 
2)۔ لاجسٹک سپورٹ: دہشت گرد عناصر کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کیلئے لاجسٹک روٹس پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مطلوبہ محل وقوع تک پہنچنے کیلئے زمینی، سمندری اور ہوائی راستوں پر تسلط قائم کر کے دہشت گرد عناصر کو پاسپورٹ اور نقل و حمل کے وسائل مہیا کرنا وغیرہ۔ اس کی واضح مثال 1979ء میں افغانستان جنگ کے دوران مصر، پاکستان اور یمن کے راستوں کا استعمال اور 2011ء میں شام کی جنگ کے دوران ترکی کو ٹرانزٹ ملک کے طور پر استعمال کیا جانا ہیں۔ 
 
3)۔ دہشت گرد گروہوں کو مالی اور فوجی امداد کی فراہمی: امریکہ اپنے اتحادی ممالک کو تکفیری گروہوں کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر (اسلحہ اسمگل کرنے والے گروہوں یا افراد کے ذریعے) مالی اور فوجی مدد کرنے کیلئے سبز جھنڈی دکھاتا ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کو ملنے والی فوجی اور مالی امداد ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت خاص وقت میں انجام پاتی ہے تاکہ ان گروہوں کو تزویراتی وقار دیا جا سکے۔ امریکہ نے اب تک کئی بار براہ راست یا بالواسطہ طور پر ان دہشت گرد گروہوں کی فوجی مدد کی ہے جیسا کہ شام کے کرد نشین علاقے کوبانی میں لڑنے والے داعش کے دہشت گردوں کو پانچ مرتبہ ہوائی طریقے سے اسلحہ فراہم کیا گیا اور امریکہ ہر بار مختلف بہانوں سے اپنے اس اقدام کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ 
 
4)۔ تکفیری عناصر کی نقل و حرکت: تکفیری عناصر کو ایسے ممالک سے جو ان کے وجود کو اپنے لئے خطرہ جانتے ہیں یا انہیں اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں ایسے علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے جہاں ان کی سرگرمیوں کیلئے منصوبہ بندی کی جا چکی ہوتی ہے۔ 
 
5)۔ تکفیری تبلیغ والوں کو مواقع فراہم کرنا: ایسے ممالک جہاں سے تکفیری عناصر کو مطلوبہ محل وقوع کی جانب منتقل کرنا مقصود ہو وہابی مبلغین کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے اور انہیں تکفیریت کی تبلیغ کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے، حتی ان کے اختیار میں سیٹلائٹ ٹی وی چینلز بھی دے دیے جاتے ہیں تاکہ وہ بھرپور انداز میں تکفیری افکار پھیلا سکیں اور اس کے نتیجے میں اکٹھے ہونے والے تکفیری عناصر کو مطلوبہ محل وقوع تک منتقل کیا جا سکے۔ 
 
دوسرا مرحلہ: ترویج و پھیلاو 
اس مرحلے میں تمام تر توجہ اور توانائیاں تکفیری عناصر کو تیار کرنے اور مطلوبہ محل وقوع پر پہنچانے میں صرف کی جاتی ہیں۔ اسی طرح تکفیری عناصر کی اسٹریٹجک ترجیحات جیسے تکفیری عناصر کو میدان جنگ کی جانب بھیجنا یا موجودہ حالات اور وسائل کے لحاظ سے اسٹریٹجی اور  حربوں میں ضروری تبدیلیاں لانا وغیرہ کا تعین بھی کیا جاتا ہے۔ امریکہ اپنے علاقائی اور عالمی اتحادیوں کی مدد سے اس مرحلے میں 9 بنیادی حکمت عملیاں بروئے کار لاتا ہے جو درج ذیل ہیں:
 
1)۔ اصلی دشمن کا تعین: امریکی حکومت اپنے مخصوص اہداف اور مفادات کے حصول کیلئے ایسے علاقوں میں جہاں تکفیری گروہ موجود ہوتے ہیں، بعض افراد کو اپنے اصلی دشمن کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔ اس کے بعد تکفیری گروہوں اور ان کے رہنماوں کو دہشت گرد قرار دے کر اور پروپیگنڈہ مہم اور سیاسی شور شرابے کے ذریعے اپنے سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے سنیاریو بناتی ہے۔ جیسا کہ عراق جنگ کی ابتدا میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے انتہائی واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ امریکہ کا اصلی دشمن زرقاوی تکفیری گروہ ہے اور زرقاوی کا بہانہ بنا کر منفی پروپیگنڈے کے ذریعے عراق کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح اسرائیل نے شام کی طرف سے فوجی خطرات کا بہانہ کرتے ہوئے چند ماہ کے اندر تکفیری گروہ النصرہ فرنٹ کو گولان ہائٹس کے علاقے میں مجبور کیا کہ مخصوص افراد کی سربراہی میں منظم ہوں۔ 
 
2)۔ تکفیری رہنماوں کا خاتمہ: امریکہ اور مغربی ممالک کی قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیئے گئے تکفیری گروہوں جن کا علاقائی اثر و رسوخ مطلوبہ ملک میں مغربی طاقتوں کے مفاد میں نہ ہو  کے رہنماوں کا مقابلہ کیا جاتا ہے؛ جیسا کہ اسامہ بن لادن، ایمن العولقی، عبداللہ عزام اور القاعدہ کے اکثر رہنماوں کو یمن اور دیگر ممالک میں قتل کیا گیا۔ 
 
3)۔ بین الاقوامی اور عربی ذرائع ابلاغ کا پروپیگنڈہ: بین الاقوامی اور عرب میڈیا پر ایسی پروپیگنڈہ مہم شروع کی جاتی ہے جو دنیا بھر کے تکفیری عناصر کو مطلوبہ علاقوں کی جانب جانے پر اکسائے اور امریکی حکومت کی جانب سے تعیین کردہ محاذ جنگ میں ان کی شرکت کو یقینی بنائے۔ 
 
4)۔ سعودی مذہبی علماء: سعودی عرب کے دینی ادارے مطلوبہ علاقوں کے بارے میں جہاد کے فتوے دے کر دنیا بھر سے تکفیری عناصر کا اس مقام پر منتقل ہونے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ 
 
5)۔ لاقانونیت اور بدامنی کو ہوا دینا: مطلوبہ مقامات میں مغربی ممالک سے نام کے مسلمانوں کو بھیجنا، عرب ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کا کردار اور قیدیوں کا استعمال، تکفیری عناصر کی جانب سے حملے کا نشانہ بننے والے علاقوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیل اور قیدخانے بھی ان علاقوں میں تکفیری عناصر کو جذب کرنے اور ان کے گروپ تشکیل دینے میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ 
 
6)۔ لڑائی اور معرکہ آرائی کی نظامت: مطلوبہ علاقے میں امریکی اہداف کے تحقق اور وہاں موجود تکفیری عناصر کے تحفظ کی خاطر من پسند پالیسیاں اختیار کرنے کے لئے علاقائی معرکہ آرائی اور بحران کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
 
7)۔ مناسب جنگی علاقہ ایجاد کرنا: تکفیری عناصر کے حامل علاقے کو جنگ زدہ، مظلوم اور جارحیت کا شکار ظاہر کرنے کیلئے مناسب اقدامات انجام دیئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ افغانستان اور شام میں یہی پالیسی اختیار کی گئی۔ 
 
8)۔ تکفیری گروہوں میں اختلاف ڈالنا: مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اہداف اور پالیسیوں کے لحاظ سے تکفیری گروہوں کے درمیان اختلاف ڈالا جاتا ہے تاکہ تکفیری دہشت گرد عناصر ایک بڑی قوت بن کر سامنے نہ آ سکیں۔ اس کی واضح مثالیں شام میں سرگرم تکفیری گروہ داعش، النصرہ فرنٹ وغیرہ کے درمیان اختلافات اور مسلح جھڑپوں کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 
 
9)۔ تزویراتی نظریہ سازی: ایسے جامع اسٹریٹجک منصوبے پیش کرنا جو مطلوبہ علاقوں میں تکفیری عناصر کے مفادات کی تکمیل کا باعث بن سکیں۔ جیسا کہ ابوبکر ناجی کی شخصیت اور اس کا امریکی انٹیلی جنس اداروں سے وابستہ ہونے کے بارے میں اکثر افراد شک اور تردید کا شکار ہیں۔ اسی طرح ابومصعب شامی اپنی کتاب "دعوة المقاومة الإسلامية العالمية" میں کسی خاص وضاحت اور توجیہہ کے بغیر تکفیری گروہوں کی جانب سے مغربی ممالک کی مسلح افواج کے ساتھ براہ راست جنگ نہ کرنے پر مبنی حکمت عملی اور فوجی میدان میں اپنی شکست کا اعلان کرتا ہے۔ 
 
تیسرا مرحلہ: کنٹرول
تکفیری دہشت گرد گروہ اپنے اوپر امریکہ کا بے تحاشہ اثرورسوخ ہونے کے باوجود اپنی اسپشل فورسز کو محفوظ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ وہ یہ کام اپنی تزویراتی حیثیت اور سیاسی سرگرمیوں کو محفوظ بنانے کیلئے انجام دیتے ہیں۔ لہذا مغربی ممالک تکفیری گروہوں کو اپنے اسٹریٹجک منصوبوں اور پالیسیوں کی ریڈ لائن عبور کرنے سے روکنے کیلئے ان پر کنٹرول رکھتے ہیں اور یہ کنٹرول ان گروہوں کو دی جانے والی مالی اور فوجی امداد پر کنٹرول کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اس مقصد کے حصول کیلئے درج ذیل 6 سیاسی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہیں:
 
1)۔ براہ راست محاذ آرائی: اس پالیسی کے تحت تکفیری عناصر کے اہم مراکز کو نشانہ بنانے کیلئے براہ راست فوجی آپریشن کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2001ء میں افغانستان پر امریکی فوجی حملہ اسی پالیسی پر مبنی تھا۔ 
 
2)۔ مالی اور فوجی امداد کی مقدار کو کنٹرول کرنا: تکفیری دہشت گرد عناصر کو دی جانے والی فوجی اور مالی امداد کی مقدار اور نوعیت کو کنٹرول کرنے اور نیز اس امداد کا مشخص ٹائم ٹیبل تشکیل دینے کے ذریعے امریکہ اور مغربی ممالک ان کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کا مقصد تکفیری گروہوں کو خطرے میں تبدیل ہونے سے روکنا اور اپنی سرگرمیوں کیلئے راستہ ہموار کرنا ہے۔ شام میں سرگرم تکفیری عناصر کے بارے میں امریکہ اور مغربی رویہ اس پالیسی کا واضح نمونہ ہے۔ 
 
3)۔ تکفیری عناصر کے علاقے کی حدود پر کنٹرول اور محاذ آرائی: امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک بعض اوقات جب محسوس کرتے ہیں کہ تکفیری دہشت گرد عناصر ایک خاص خطے میں ان کے مفادات کیلئے خطرہ ثابت ہو رہے ہیں یا مستقبل میں ان کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں تو اسی علاقے کی حد تک ان کو اپنے فوجی اقدامات کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس کی واضح مثال کچھ عرصہ قبل جب داعش نے کرد نشین علاقے اربیل پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی داعش کے خلاف فوجی اقدامات کی صورت میں یہ پالیسی سامنے آئی۔ 
 
4)۔ متبادل جغرافیائی مقام کا انتخاب: اگر ایک جغرافیائی مقام پر تکفیری دہشت گرد عناصر کی تعداد حد سے بڑھ جائے اور انہیں کنٹرول کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہو تو ایسی صورت میں ان کے ایک حصے کو دوسرے جغرافیائی مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی تعداد حد سے بڑھنے لگی تو عراق کے شہر موصل پر قبضہ کر کے ان کیلئے ایک نیا محاذ کھول دیا گیا۔ 
 
5)۔ میڈیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے تکفیری عناصر کو ایک سمت میں دھکیلنا: مغربی ممالک کی جانب سے تعیین کردہ سیاسی اور فوجی نقطہ نظرات کے حصول کیلئے انجام پانے والا میڈیا پروپیگنڈہ اس قدر وسیع اور طاقتور ہوتا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کے رہنما مختصر مدت میں ان اہداف کو تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہو پاتے۔ 
 
6)۔ تکفیری رہنماوں کی تبدیلی اور متبادل: ہم نے دوسرے مرحلے میں بھی اس کے بارے میں وضاحت پیش کی ہے۔ اس کی واضح مثال زرقاوی کا قتل ہے۔ امریکہ نے جب دیکھا کہ زرقاوی اسامہ بن لادن کے ہاتھ بیعت کر چکا ہے اور امریکہ کے خلاف اس کے ساتھ متحد ہو گیا ہے تو انہوں نے اسے قتل کروا کر اس کی جگہ نئے تکفیری رہنما متعارف کروا دیئے۔ 
 
چند عملی نمونے:
مذکورہ بالا ہتھکنڈوں کو مختلف حالات اور شرائط میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ پہلی مثال کے طور پر 1979ء میں آغاز ہونے والا افغان جہاد امریکہ کی جانب سے طے شدہ منصوبے کے تحت انجام پایا۔ افغان جہاد کے دوران رونما ہونے والے واقعات پہلے سے طے شدہ تھے اور امریکی صدر جمی کارٹر کے قومی سلامتی کے مشیر زیبگنیو برجینسکی نے اس کی مکمل منصوبہ بندی انجام دی تھی جس کا مقصد اسلامی شدت پسند جنگجووں کو روس کے خلاف میدان جنگ میں اتار کر ایک تھکا دینے والی جنگ کا آغاز کرنا تھا۔ اس بارے میں برجینسکی کے اظہار خیال کو درج ذیل لنک پر دیکھا جا سکتا ہے:
https://www.youtube.com/watch?v=uhFleLinwEM
 
اس کا دوسری عملی نمونہ نائن الیون واقعے کے بعد افغانستان پر امریکی چڑھائی ان تکفیری گروہوں کے کنٹرول  کا حربہ تھا۔ روس کی شکست کے بعد افغانستان میں ایک آزادانہ ماحول فراہم ہوا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا بھر سے شدت پسند اسلامی عناصر افغانستان کی جانب امڈ آئے اور امریکہ نے  انہیں اپنے مفادات کیلئے خطرہ محسوس کیا جس کی وجہ سے 2001ء میں افغانستان پر فوجی حملہ کر دیا۔ اسی عرصے میں سعودی عرب میں بھی جہادی سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف شدید حفاظتی اقدامات انجام دیئے گئے۔ ان اقدامات کے بعد 2003ء میں شدت پسند اسلامی عناصر کو امریکہ کے خلاف جنگ کا نعرہ لگوا کر عراق دھکیل دیا گیا اور اس طرح عراق میں خانہ جنگی کا راستہ ہموار کیا گیا۔ اس کے بعد شام میں ان تکفیری عناصر کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کے مرحلے کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ 
 
تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کی پیدائش اسی امریکی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے اپنے طے شدہ اور مشترک مفادات کے تناظر میں ان تکفیری عناصر کا رخ دوبارہ عراق کی جانب پھیر دیا اور انہیں خاص جغرافیائی حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس وقت داعش سے وابستہ تکفیری عناصر سعودی عرب کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں جس نے عالمی اتحاد کو داعش کا مقابلہ کرنے کی دعوت دے رکھی ہے۔ 
 
تمام امکانات استعمال کرنے کی ضرورت اور ہنر:
امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مسلمانوں اور عرب دنیا میں بڑھتی ہوئی نفرت اور بعض فوجی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر میدان جنگ میں امریکی مسلح افواج کی کمزوری کے پیش نظر امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں نے ایک تین جہتی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔  ایک طرف خطے میں امریکہ اور اسرائیل مخالف قوتوں کی طاقت میں اضافے کی وجہ سے وہ ایسی متبادل مسلح افواج کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں جو ان کے مطلوبہ تزویراتی  اور شاطرانہ مشن انجام دے سکیں۔ 
 
دوم: 1990ء کی دہائی کے آخر اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اسامہ بن لادن تکفیری گروہوں کا رخ دور کے دشمن سے مقابلہ کرنے کی طرف موڑنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ امریکہ اور مغربی قوتوں کیلئے ان گروہوں سے مقابلہ کرنا انتہائی دشوار امر تھا۔ لہذا امریکہ نے نائن الیون کے بعد ان تکفیری گروہوں کی حکمت عملی، اپنی پسندیدہ پالیسی کی طرف موڑنی شروع کی یعنی انہیں نزدیک کے دشمنوں اور علاقائی اہداف کے خلاف لڑنے کی ترغیب دلائی۔ 
 
 سوم: مغربی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کو اکثر اوقات بعض خطوں میں فوجی مداخلت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح خطے کے بعض ممالک، جہاں تکفیری دہشت گردی موجود ہوتی ہے، کے ساتھ طولانی مدت سیکورٹی اور اقتصادی معاہدے انجام دینا مقصود ہوتا ہے جس کے لئے بہانے اور توجیہہ کی ضرورت پیش آتی ہے لہذا ان علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کو فروغ دیا گیا۔ افغانستان اور عراق ایسی توجیہات کا واضح نمونہ ہیں۔ 
 
چھارم: امریکہ اور مغربی ممالک کا اپنے معاشروں میں موجود فعال تکفیری سوچ والے عناصر سے چھٹکارا پانا اور ان کی منتقلی۔ خطے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے اتحادیوں کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا تھا۔ وہ اپنے اندر تکفیری گروہوں کی جانب سے باغیانہ رویوں کی وجہ سے موجود دباو کو ختم کرنا چاہتے تھے اور انہیں ملک سے باہر ایسے مواقع مہیا کرنا چاہتے تھے جہاں وہ اپنے تکفیری نظریات و عقائد کے مطابق سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ اسی طرح عرب اور اسلامی ممالک تکفیری گروہوں سے نجات پانے کے خواہش مند تھے یا انہیں مختلف جنگوں اور اسٹرٹیجک حربوں میں الجھا کر کمزور کرنا چاہتے تھے۔ جس طرح سعودی عرب نے 2003ء میں اپنے ملک میں موجود القاعدہ سے وابستہ عناصر کو عراق بھیج کر خود کو ایک بڑے بحران سے نجات دلوائی۔ 
 
آخری محرک، امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی و عربی ممالک کی جانب سے تکفیری گروہوں کی تشکیل اور مدد یا "بالواسطہ کنٹرول" کی حکمت عملی اپنانے کا، علاقائی سطح پر سیاسی اہداف کا حصول ہے۔ اس کی واضح مثال 2011ء میں شام میں رونما ہونے والے واقعات ہیں۔  تکفیری گروہوں کی بعض ذاتی خصوصیات اس امر کو ممکن بناتی ہیں کہ ان کے ذریعے ایسی حکمت عملی اپنائی جا سکے۔ ان گروہوں کی جانب سے اپنے علاوہ تمام انسانوں کو کافر قرار دینے حتی ایک دوسرے کی تکفیر پر مبنی عقیدہ اس بات کا باعث بنتا ہے کہ ان کا رخ کسی بھی طرف مڑ سکتا ہے۔ اسی طرح تکفیری گروہوں کے نظریات و عقائد میں عدم پختگی، واحد لیڈرشپ کا فقدان اور جامع اسٹریٹجی کا نہ ہونا بھی عالمی طاقتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ آسانی سے ان کے اندر نفوذ کر سکیں اور انہیں اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کر سکیں۔ 

تکفیری گروہ شدید سیکورٹی مسائل اور کمزوریوں کا شکار ہیں جس کے باعث بہت آسانی سے ان میں جاسوس رکھ کر جاسوسی سرگرمیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔  اسی طرح تکفیری گروہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ امریکہ یا اس کے ہمسو ممالک جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور پاکستان کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  ساتھ ہی  تکفیری گروہ شدید سیکورٹی اور سیاسی دباو کا شکار ہوتے ہیں لہذا جو بھی ان کی مدد کرنا چاہے فورا اسے قبول کرتے ہیں۔ خاص طور پر اپنی محدود سرگرمیوں اور صلاحیتوں کے باوجود اونچے اہداف و مقاصد کے حصول کی خاطر وہ ہر قسم کی حمایت کا سہارا لیتے ہیں۔ 
 
عملی مراحل اور کامیابیاں:
1979ء میں افغانستان، 2003ء میں عراق اور 2011ء میں شام اس حکمت عملی کے چند کامیاب تجربات میں شمار ہوتے ہیں۔ یقینا ان تجربات نے اپنے مطلوبہ ہدف کے حصول میں ممکن حد تک کامیابی حاصل کی ہے، یعنی تکفیری گروہوں کی جانب سے درپیش خطرات کو مناسب فرصت میں تبدیل کر کے ان کی تباہ کن اور وحشیانہ خصوصیات کو امریکی تزویراتی منصوبوں کی کامیابی کیلئے استعمال کرنے کا ہدف۔ 
یہ حکمت عملی افغانستان میں کامیاب رہی اور سوویت یونین وہاں سے نکال باہر کیا۔ اسی طرح 2003ء میں یہ امریکی پالیسی عراق میں مذہبی اور لسانی فرقہ واریت اور جنگ میں اضافے کا باعث بنی اور آج شام میں امریکہ انہیں تکفیری دہشت گرد گروہوں کو اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل ایک اہم ملک کے انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنے میں استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل بھی ان تکفیری گروہوں کو گولان ہائٹس کے علاقے کے گرد اپنے لئے حفاظتی بند کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ یہ حفاظتی بند النصرہ فرنٹ (شام میں القاعدہ کی شاخ) کے سرگرم عناصر نے تشکیل دے رکھا ہے۔ 
 
اسی طرح حال حاضر ہم عراق میں "دولت اسلامی" یا داعش کے تجربے کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس کے اسٹریٹجک پس منظر اور نتائج کے منتظر ہیں۔   یہ حکمت عملی، طولانی مدت میں مغرب کو تکفیری گروہوں کی جنگی سرگرمیوں کا براہ راست نشانہ بننے سے بچانے میں کامیاب رہی ہے۔ افغان جہاد کے زمانے میں یہ حکمت عملی سابق سوویت یونین کو اپنا دشمن قرار دیتی تھی لیکن اگلے مرحلے میں جو نائن الیون تک جاری رہا، خطے اور دنیا بھر میں امریکی مفادات کو لاحق خطرہ بن گئی۔  عراق میں "بالواسطہ کنٹرول اور راہنمائی" پر مبنی حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ امریکہ کی بجائے علاقائی قوتوں کو تکفیری گروہوں کا حقیقی دشمن بنا کر پیش کیا گیا اور سلفی تکفیری گروہوں کیلئے امریکی مفادات کو زک پہنچانا ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔  لیکن شام میں امریکی مفادات مکمل طور پر تکفیری گروہوں کی رینج سے دور ہو گئے اور اس حکمت عملی کا نتیجہ "داعش" کی صورت میں ظاہر ہوا۔ داعش ایسا دہشت گرد سلفی تکفیری گروہ ہے جس نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کو رسمی طور پر اپنے اہداف و مقاصد سے حذف کر دیا ہے کیونکہ اس دہشت گرد گروہ کا اصلی ہدف ایک مخصوص خطے میں اپنی حکومت تشکیل دینا، قابض علاقوں کی حفاظت اور اپنی حکومت کے دائرے کو بتدریج وسعت دینا ہے۔ 
 
اگر زیادہ گہرائی سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دیکھیں گے کہ امریکہ نے کامیابی کے ساتھ ایسے خطوں میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو ختم کیا ہے جہاں اس کی نظر میں ان کی موجودگی امریکہ اور اس کے مفادات کیلئے خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہو سکتی تھیں۔ نتیجتا مکمل امریکی تسلط کے نتیجے میں تکفیری دہشت گرد گروہ صرف ایسی صورت میں سیاسی اثرات کی حامل دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں کہ وہ سرگرمیاں امریکی مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت نہ ہوں۔ یعنی صرف ان خطوں میں جہاں تکفیری گروہوں کی سرگرمیاں امریکہ کے سیاسی اہداف اور مفادات کی تکمیل کا راستہ ہموار کرتی ہوں۔
 اس طرح یہ تکفیری گروہ بین الاقوامی سطح پر امریکی منصوبوں کا اہم حصہ بن چکے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے خطوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو امریکہ کیلئے اہم اور حساس ہیں اور ایسے خطوں میں ان کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں جو امریکہ کیلئے کم درجے کی اہمیت اور حساسیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 447623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش