0
Wednesday 18 Mar 2015 13:29

درد مشترک و قدر مشترک

درد مشترک و قدر مشترک
تحریر: سید اسد عباس تقوی

ہمیں ملی یکجہتی کونسل کا جھنڈا بنانا چاہیے تاکہ ہم مختلف جماعتوں کے جھنڈے اٹھانے کے بجائے ایک پرچم تلے عالمی اتحاد امت کانفرنس میں شریک ہوں۔ یہ تھی میری تجویز جو میں نے قاضی حسین احمد مرحوم کو عالمی اتحاد امت کانفرنس کے انتظامات کے حوالے سے منعقدہ ایک نشست میں دی۔ جس کے جواب میں قاضی حسین احمد مرحوم نے کہا کہ پاکستان کا جھنڈا کافی ہے۔ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک میں عالمی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے وہاں مجھے ہمیشہ ملک کا قومی پرچم نظر آیا۔ ہم کوئی نیا جھنڈا نہیں بنانا چاہتے، جھنڈے پہلے ہی بہت ہیں ہمیں سب کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنا ہے اور اس کے لیے ہمارے قومی پرچم سے اچھا کوئی پرچم نہیں۔ یہ بات مجھے ایک ایسے وقت میں یاد آئی جبکہ قاضی حسین احمد مرحوم کو ہم سے جدا ہوئے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور ان کا احیاء کردہ اتحاد ملی یکجہتی کونسل پاکستان 25 مارچ 2015ء کو تیسری اتحاد امت کانفرنس منعقد کرنے جا رہا ہے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس اتحاد کی اہمیت و افادیت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کا دور اور آج کے وقت میں زمین آسمان کا فرق ہے تاہم یہ اتحاد آج بھی انہی راہوں پر محو سفر ہے جو مرحوم قاضی حسین احمد نے وضع کیں۔ آج بھی کونسل کے اجلاسوں میں قاضی حسین احمد مرحوم کا دیا ہوا نعرہ ” قدر مشترک اور درد مشترک “ کے لیے مل کر کام گونجتا ہے۔ گذشتہ ماہ عاملہ کے ایک اہم اجلاس میں اس اتحاد کا ایک دستور تشکیل دیا گیا جس میں اس اتحاد کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔ اس دستور کی تیاری میں علماء کے معروف متفقہ بائیس نکات سے بھی مدد لی گئی یا یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہو گا کہ اس دستور میں بائیس نکات کا خلاصہ شامل کیا گیا۔ ایک اہم نکتہ جو اس دستور کا حصہ بنا قابل ذکر ہے:

”باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق دلوانے کی جدوجہد کرنا جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ,مال, آبرو، آزادی مذہب، و مسلک، آزادی عبادت، شخصی آزادی، آزادی اظہار رائے، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع، آزادی اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانیت اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔“


یہ ایک جامع تحریر ہے جو معروف بائیس نکات میں بھی شامل ہے۔ اسی طرح اس دستور میں اردو کے بحیثیت قومی زبان نفاذ نیز دیگر علاقائی زبانوں کے فروغ کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی ترویج کو بھی اغراض و مقاصد کا حصہ بنایا گیا۔ دستور کے یہ نکات ملی یکجہتی کونسل پاکستان میں شامل دینی و مذہبی جماعتوں کی فکری پیشرفت کے آئینہ دار ہیں۔ کجا 1995ء کی ملی یکجہتی کونسل جو ملک سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے وجود میں لائی گئی اور کجا آج کی ملی یکجہتی کونسل پاکستان جس نے اپنا ایک ہدف و مقصد باشندگان ملک کو شریعت اسلامیہ کے عطا کردہ حقوق دلوانے کا عزم رکھا ہے۔ اگر اس نکتہ کی جانب غور کیا جائے تو یہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہماری دینی جماعتیں اپنی مسلکی عصبیتوں سے بلند ہوکر اسلام کی سربلندی کے مشن کی جانب سرگرم عمل ہیں۔ یہی قاضی حسین احمد مرحوم کی خواہش تھی جس کا اظہار انھوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں دیا۔ یہ شاید قاضی حسین احمد مرحوم کی زندگی کا آخری انٹرویو تھا جو انھوں نے کسی بھی اخبار یا مجلے کو دیا۔ اس انٹرویو کی تحریر بعد میں قاضی حسین احمد مرحوم کو اصلاح کے لیے پڑھوائی گئی اور ان کی توثیق کے بعد ایک ماہنامہ میں شائع ہوئی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کا کہنا تھا:

”ملی یکجہتی کونسل کی طرح کا پلیٹ فارم ایک مستقل ضرورت ہے، اس کا موجود نہ ہونا ایک کمی اور خلا ہے۔ اس سے قبل بننے والی ملی یکجہتی کونسل محدود مقاصد کے لیے تھی، چونکہ اس وقت شیعہ سنی فسادات ہو رہے تھے، کشیدگی بہت زیادہ تھی اسی لیے انہی مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہوئے اس وقت ملی یکجہتی کونسل کے تمام شعبہ جات اور کمیٹیاں کام کرتی تھیں۔ اس وقت اتحاد امت کے حوالے سے اس طرح کا کوئی منصوبہ سامنے نہیں آیا تھا حالانکہ اتحاد امت ایک مستقل ضرورت ہے، اس مستقل ضرورت کو پورا کرنے سے ہی بین المسالک کشیدگی کم کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ ملی یکجہتی کونسل کےکمیشنز پر نظر ڈالیں تو اس سے اس کونسل کی ہمہ گیریت آپ کے سامنے عیاں ہو جائے گی، مثلا اس کونسل میں بین المسالک تنازعات کو حل کرنے کے لیے مصالحتی کمیشن بنایا گیا ہے، اسی طرح علمی و تحقیقی کمیشن بنایا گیا ہے جو تقریب بین المذاہب کا کام کرے گا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، رائے عامہ کو منظم کرنے نیز عدالتی چارہ جوئی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کمیشن بنایا گیا ہے۔ اسی طرح خطبات جمعہ کمیشن نہایت اہم ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ خطبات جمعہ کے ذریعے لوگوں کی تربیت کا اہتمام کیا جائے اور اس کے ذریعے لوگوں کو اتحاد و یکجہتی کی تعلیم دی جاسکے۔اس حوالے سے ہم جید علمائے کرام کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ تعلیمی کمیشن کی تجویز بھی نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ہمارے پانچوں وفاق یعنی ہمارے دینی مدارس کی تنظیمات کے اتحاد کا تعاون ہمیں حاصل ہے اور ہماری کوشش ہے کہ ان کو ایک دوسرے کے قریب لایا جایا اور قرآن و سنت کی بنیاد پر ان کا نصاب اور نظام تربیت استوار کیا جائے، تاکہ یہ ایسے لوگ تیار نہ کریں جو ایک دوسرے سے مناظرہ کرنے کی نیت سے ایک دوسرے کے مقابلے خم ٹھونک کر کھڑے ہوں بلکہ ان کے مابین ایک تعاون کی فضا ہو کہ ہم نے ایک ہی کام کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان گروہوں کے کام میں رنگا رنگی تو ہو گی تاہم اس رنگارنگی میں بھی مشترکہ چیزوں پر اتحاد کی ایک جھلک ہونی چاہیے۔ یہیں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کونسل کیسے امت کی ایک مستقل ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لیے ہم نے ملی یکجہتی کونسل کو دوبارہ فعال کیا۔“

مجھے نہیں معلوم کہ قاضی حسین احمد مرحوم نے یہ سب باتیں کب سے سوچنا شروع کیں اور کہاں بیٹھ کر ان امور پر غور کرتے تھے۔ جماعت کی امارت کی مصروفیات، پھر ایک سال یا اس سے زائد کا کچھ عرصہ جس دوران انہوں نے ادارہ فکر و عمل کی بنیاد رکھی اور پھر ملی یکجہتی کونسل کا احیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی باتیں سن کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے انہوں نے سارا راستہ دیکھا ہوا ہے اور وہ آگاہ ہیں کہ ملت کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ مذکورہ بالا چار کمیشنز قاضی حسین احمد نے کونسل کے کسی بھی اجلاس سے پہلے ہی سوچے ہوئے تھے، ہاں 5واں کمیشن بعدہ حافظ حسین احمد جو اس وقت کونسل کے سیکریٹری جنرل تھے کی تجویز پر شامل کیا گیا۔ اسی طرح ” درد مشترک اور قدر مشترک “ کا شعار میں نے قاضی حسین احمد مرحوم کی زبان سے روز اول سے سننا شروع کیا۔

ابتداء میں اس شعار کی سمجھ نہ آتی تھی کہ قاضی حسین احمد مرحوم یہ کیا بات کرتے ہیں تاہم پھر انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے اس شعار کو کھولنا شروع کیا اور جب بھی کوئی اختلافی بات سامنے آتی تو قاضی حسین احمد مرحوم کہتے کہ ہمیں ” قدر مشترک اور درد مشترک “ پر آگے بڑھنا ہے۔ لوگ خاموش ہو جاتے اور یوں محسوس ہوتا جیسے قاضی صاحب نے ملت کے درد کا علاج ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ اپنے اس جملے کے بارے میں جتنے واضح تھے میں نے آج تک کسی شخص کو اپنی کہی ہوئی کسی بات کے بارے میں مطمئن اور وضاحت کا حامل نہیں دیکھا۔

قاضی حسین احمد مرحوم عالم اسلام کے امور پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، مشرق وسطی میں آنے والی تبدیلیوں کے حوالے سے ان کا واضح موقف تھا اور وہ دیکھ رہے تھے کہ مشرق وسطی داخلی جنگوں کا شکار ہونے والا ہے اسی لیے انھوں نے اپنے مذکورہ بالا انٹرویو میں کہا تھا کہ:

” اسلامی بیداری جسے عرب بہاربھی کہا جاتا ہے کے بارے میں ہماری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے مد مقابل آنے کے بجائے ایک دوسرے کے قریب آئیں، ایک دوسرے سے مشاورت کریں مباحثہ کریں۔ ان میں سے بیشتر کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں ہم ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے آرزو مند ہیں۔ اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ امت کا ایک متحدہ چہرہ دنیا کے سامنے آئے۔ مغربی طاقتیں اور سیکولر طبقات جو دین اسلام میں بہتر فرقوں کی بات کرتے ہیں کو ہم دین کی ہم رنگ صورت سے روشناش کرانا چاہتے ہیں۔ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے مشترک مقاصد کیا ہیں اور یہ بھی کہ ہم ان مقاصد کے حصول کے لیے متحد ہیں۔ ہماری کانفرنس کا بنیادی تھیم قرآن و صاحب قرآن کے خلاف مغرب کی توہین آمیز تحریک کا جواب بھی ہے۔ مغرب کی اس تحریک کا ہدف ہماری نوجوان نسل کے دلوں سے مقدسات دین کا احترام نکالنا ہے۔ مغرب میں یہ تقدس ختم ہو چکا ہے، وہ اسے مسلمانوں میں سے بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اسے زندہ رکھنا چاہتے۔“

قاضی حسین احمد مرحوم چاہتے تھے کہ پاکستانی مسلمان باہم متحد ہو کر دنیائے اسلام کی وحدت میں مثبت اور بنیادی کردار ادا کریں۔ قاضی صاحب کا یہ خواب ابھی تک تشنہ تعبیر ہے تاہم بقول اقبال:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
خبر کا کوڈ : 448322
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش