0
Tuesday 24 Mar 2015 10:37

"23 مارچ" مذہبی آزادی کے عزم کی تحریک کا دن

"23 مارچ" مذہبی آزادی کے عزم کی تحریک کا دن
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

برصغير كے مسلمانوں نے اس عزم و يقين كيساتھہ قراداد پاكستان 23 مارچ 1940ء كو منظور کی كہ ہم ہر قيمت پر پاكستان كو حاصل كر كے رہینگے. تاكہ اپنی مذهبی رسوم كو مكمل آزادی كيساتهـ ادا كر سكيں اور انكا پرجوش نعره آج بهی فضاوں ميں گونج رها ہے، "ہم لے كے رہینگے آزادی" اور اسی مشن كی خاطر بے پناہ قربانياں ديكر یہ ملك حاصل كيا۔ ليكن پاكستان بننے كے تقريباً 30 سال بعد بيرونی طاقتوں كے تعاون سے ايك ايسا مائنڈ سيٹ پاكستان پر مسلط ہوگیا كہ جس نے اپنی سياسی,، عسكری طاقت سے مذہبی آزادی كا گلا گھونٹنا شروع كر ديا۔ انسانی، دينی و سياسی حقوق كی پامالی كي بدترين مثال اور ظلم و جبر پر قائم بادشاہت و ملوكيت كے نظام (سعودی نظام) كو پاكستان ميں نافذ كرنے كي ٹھان لی۔ اور قومی و ملى مفادات كو پس پشت ڈال كر ڈالروں اور ريالوں کی شکل میں خصوصی مراعات كی خاطر خطے ميں استعماری اشاروں پر بننے والی تحلفات كا حصه بننے كی پالیسی اختيار كي گئی۔

دوسري طرف مذهبی آزادی سلب كرنے كي پاليسی كو آگے بڑھایا گیا، كبهی عيد ميلاد النبی صلى الله عليه و آله وسلم كے جلوسوں کے سامنے ركاوٹيں ڈالنے كی كوشش گئی اور كبهی عزادری نواسه رسول خدا (ص) كو روكنے اور محدود كرنے كيلے شيعہ مذہب كو دہشتگردی كا نشانہ بنايا گيا۔ 30 فیصد پاكستان (شيعہ) كی نسل كشي كی گئی اور باقی 50 فیصد پاكستان (اہل سنت بريلويوں) كے دينی و مذہی شعور كو مجروح كيا گیا اور انهيں محروميوں ميں دهكيل ديا گيا۔ اسی طرح اقليتوں كا بهی جينا حرام كر ديا گيا۔ كبهی وطن عزیز كی فضاء ميں درود و سلام پڑھنے پر پابند سلاسل كيا جاتا ہے اور كبھی پرامن شہيوں پر بے بنیاد کیسز بنا کر انہیں حراساں کیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف پاكستان اور پاكستانی عوام كے دشمن اور انكی حمايت اور سرپرستی كرنے والے مكمل آزاد ہیں جبکہ ان کے شر سے نہ مسجدیں اور امامبارگاہیں محفوظ ہیں اور نہ کلیسا، مندر اور كردوریں، نہ سکولوں کے بچے محفوظ ہیں نہ عسکری، سرکاری، و تجارتی مراکز۔ ہر شہری بارود كے ڈھیر میں زندگی کر رہا ہے، اور اسے نہیں معلوم کب، کہاں اور کیسے دھماکہ ہوگا۔

یعنی پاکستان کا ہر شہری آج موت اور حیات کی کشمکش میں زندگی بسر کر رہا ہے، حتیٰ 23 مارچ اور 14 اگست جیسے قومی دن بھی سخت سکیورٹی کے بغیر منانا ناممکن ہوگیا ہے، ملک جل رہا ہے اور تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ دہشت گرد اور انکے سرپرست مولوی جو حکومت کی رٹ کو چلنج کرنے کے باوجود دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر حکومت کو دھمکیاں دے رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی کسی کو جرات نہیں ہوتی، اور بدقسمتی یہ ہے كہ دہشت گردی كی پنيری لگانے والے اور اسكے بيج بونے والے انكے خلاف كارروائيوں پر مامور ہیں۔ لہذا آج ايك بار پهر ہر محب وطن اور انسانيت دوست پاكستانی شہری كو 23 مارچ 1940ء کے عزم و يقين سے تجدید عہد کرتے ہوئے ملك كو تكفيريت كے اس فتنہ سے نجات دلانےكيلئے ہاتهوں ميں ہاتھ ڈال كر ملى وحدت و اخوت كا عملى مظاهره كرنا هو گا۔

بڑی سے بڑی قربانی دیکر بھی ہمیں اپنی مذہبی اقدار اور ملکی سالمیت کیلے میدان میں آنا ہوگا، اور دہشتگردوں کے خاتمے کیلے جاری پاک آرمی کے آپریشن كی مكمل حمايت كرنا هوگی، نان ایشوز ميں الجهانے والے سياست دانوں اور حكمرانوں سے خير كی توقع نہيں كی جاسكتی۔ جو يہ سمجھہ رہے ہیں كہ سعودی عرب جيسا نظام نماز لا كر دہشتگردی كو روكا جا سكتا ہے اور عبد و معبود كے معنوی اور مقدس رشتے كو زبردستی كے نظام سے جوڑا جا سكتا ہے، 23 مارچ كو يہ عہد كرنا ہو گا كہ ہم مذہبی آزادی کے لے حاصل کردہ اس مملکت کو ظلم و جبر كي سلطنت ميں تبديل نہیں ہونے دينگے۔ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (رہ) اور مصور پاکستان علامہ اقبال (رہ) کے فکری دشمنوں کے چنگل سے مملکت خداد داد پاکستان کو آزاد کرینگے۔ انشاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 449649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش