0
Thursday 26 Mar 2015 18:53

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مغربی جوانوں کے نام اپنے خط میں اسلام فوبیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، پروفیسر مینوئل الخاندرو

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے مغربی جوانوں کے نام اپنے خط میں اسلام فوبیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی، پروفیسر مینوئل الخاندرو
تحریر: پروفیسر مینوئل الخاندرو

مینوئل الخاندرو ایکواڈور یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اکواڈور یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر "ہم، اسلام اور دہشت گردی" کے عنوان سے ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں مغربی جوانوں کے نام ولی امر مسلمین جہان امام خامنہ ای کے خط کا جائزہ لیا گیا ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس مقالے کا اردو ترجمہ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:
 
کچھ عرصہ قبل اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں کے نام ایک اہم خط لکھا جو ماضی میں انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رح کی جانب سے سوویت یونین کے سربراہ میخائیل گورباچف کو لکھے گئے خط سے ملتا جلتا تھا۔ اس خط میں ایک انتہائی اہم جملہ دکھائی دیتا ہے جو یہ ہے: "کسی کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اپنے دست پروردہ اور حمایت یافتہ دہشت گردوں کو جھوٹ اور فریب کے ذریعے اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کے طور پر آپ کے سامنے پیش کریں"۔
 
 اب ہمارے سامنے دو سوال ہیں: ایک یہ کہ ایران کے سپریم لیڈر نے کیونکر دہشت گردوں کو مغربی طاقتوں کا حمایت یافتہ اور نوکر گروہ قرار دیا ہے اور حالیہ دہشت گردی کے جنم لینے میں مغرب کا کیا کردار ہے؟ اور دوسرا یہ کہ حقیقی اسلام کیا ہے، اور دہشت گردی کے ساتھ اس کا کیا فرق ہے؟ کیا اسلام کے ساتھ دہشت گردی کو جوڑنے میں کوئی حقیقت ہے یا یہ امر اسلام کی جعلی تصویر کو پیش کرتا ہے جس کے باعث اسلام فوبیا کو تقویب ملتی ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے کیلئے گذشتہ دو عشروں کے دوران اسلام کے بارے میں مغربی پالیسیوں اور ایران کے سپریم لیڈر کی جانب سے لکھے جانے والے خط کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ پہلے سوال کے جواب میں مشرق وسطی کی حالیہ سیاسی تبدیلیوں اور ان سے متعلق مغربی ممالک کی خارجہ پالیسیوں کا جائزہ لینے سے درج ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں:
 
مغربی طاقتیں اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنا چاہتی ہیں:
مغربی سیاسی رہنما اور ان کے زیرکنٹرول میڈیا ذرائع ایک عرصے سے اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلام کے خلاف جاری یہ منفی پروپیگنڈہ اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی نے 11 ستمبر 2001ء کو انتہائی مکاری کے ساتھ نیویارک ٹاورز پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور اجراء کر کے اس کی تمام تر ذمہ داری اسلام اور امت مسلمہ پر ڈال دی اور دنیا بھر کے مسلمان معاشروں کو مغربی دنیا کیلئے ایک بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا۔ جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ القاعدہ اور اس جیسے دوسرے جہادی گروہ جو مغرب کے بڑے دشمن قرار دیے جاتے ہیں خود مغربی طاقتوں کے ہی پیدا کردہ ہیں اور انہیں دنیا میں اسلام سے خوف پھیلانے کیلئے انجام پانے والے نفسیاتی ہتھکنڈوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی ہتھکنڈے درحقیقت وہی "اسلام فوبیا" ہے جو مغربی ذرائع ابلاغ اپنے عوام کے ذہنوں میں ڈال رہے ہیں۔ 
 
جب مغربی عوام کے اذہان میں اسلام فوبیا کا زہر بھر دیا گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے نیٹو کی جانب سے افغانستان پر فوجی جارحیت کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا اور اس کے بعد عراق پر امریکی فوجی جارحیت اور دوسرے اسلامی ممالک میں مغربی طاقتوں کی اعلانیہ اور ڈھکی چھپی مداخلت پر مبنی اقدامات کی بھی حمایت کا اظہار کیا۔ آرچ بشپ جیری فال ویل کے بیانات کو شاید مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ توہین آمیز بیانات قرار دیا جا سکتا ہے جس میں اس نے کہا تھا: "میری نظر میں (نعوذ باللہ) محمد ایک دہشت گرد تھا۔ میں نے مسلمانوں اور غیرمسلم افراد کی جانب سے لکھے گئے ان کے زندگی نامے کا مطالعہ کیا ہے اور اس میں مشاہدہ کیا ہے کہ وہ ایک (نعوذ باللہ) ظالم و جابر اور عسکریت پسند انسان تھے"۔   
 
ایک تحقیقی جائزے کے مطابق جس میں مصری اخبار "الاہرام" اور امریکی اخبار "یو ایس اے ٹوڈے" میں نائن الیون حادثات کے تین ماہ بعد تک شائع ہونے والے مطالب کا جائزہ لیا گیا تھا، معلوم ہوا کہ اس دوران ان اخبارات میں عرب ممالک سے متعلق شائع ہونے والے اکثر مطالب "بنیاد پرست اسلام" اور "دہشت گردی" سے مربوط تھے۔ مصری اخبار الاہرام، عرب ممالک کی بنیاد پرستی اور حملوں کی مذمت کرتا نظر آتا تھا جبکہ امریکی اخبار یو ایس ٹوڈے، دنیا بھر کے عرب باشندوں پر اسلامی بنیاد پرستی، دہشت گردی اور شدت پسندی کے الزامات عائد کرتا رہا۔ 
 
مغربی ذرائع ابلاغ اسلام فوبیا کے ذریعے شدت پسندی کی فضا پیدا کرنے کے درپے ہیں:
"گوما" نے امریکہ، فرانس اور جرمنی کے اخبارات میں پیش کی جانے والی اسلام کی تصویر کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ نائن الیون حادثات کے اگلے 50 روز تک ان اخبارات نے عرب اور مسلمان ممالک کو دہشت گردی کے اڈے اور ٹھکانے قرار دیا اور اس طرح "شدت پسندی پر مبنی ثقافت" کو اپنے معاشروں میں فروغ دیا تھا۔ 
 
"لیونتھل" اپنے مقالے "امریکی ذرائع ابلاغ کی نظر میں دہشت گرد کون؟" میں ایک تحقیقی جائزہ پیش کرتے ہیں جس میں 2001ء سے 2003ء تک امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے 100 سے زائد مقالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس تحقیقی جائزے میں یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مذکورہ بالا مدت میں شائع ہونے والے 80 فیصد مقالات میں جہاں بھی "دہشت گردی" کا نام لیا گیا ہے ساتھ ہی "اسلام" یا "مسلمانوں" کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ 
 
لیونتھل: اکثر مغربی اور امریکی لکھاری دہشت گردی کو ہی اسلام سمجھتے ہیں:
مغربی ذرائع ابلاغ میں ایسا تصور پیش کیا جاتا ہے کہ گویا دو الفاظ "دہشت گردی" اور "اسلام" ایک ہی مفہوم کو بیان کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا میں شائع ہونے والے اکثر مقالات میں "بنیاد پرستی"، "اسلامی شدت پسندی"، "خوف و وحشت کی فضا پیدا کرنے" اور "فکری تحجر" جیسی اصطلاحات ایک ہی معنی میں استعمال کی گئی ہیں۔ امریکہ کے اہم ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے اکثر لکھاری اور تجزیہ نگار دہشت گردی کو ہی اسلام سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کو دہشت گردی کا اصلی حامی اور دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا اصلی عامل قرار دیتے ہیں۔ 
 
مغربی طاقتوں کی جانب سے اسلام کو ایک خوفناک چیز کے طور پر متعارف کروانے کا اصل مقصد مغربی عوام کے سامنے ایک نیا دشمن پیش کرنا تھا تاکہ اسے ماضی کے دشمن یعنی "کمیونزم" کی جگہ قرار دیا جا سکے اور اس طرح امریکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والی امریکی فوجی صنعت کے ہونے کا جواز فراہم کیا جا سکے۔ اسلحہ کی صنعت پر مبنی امریکہ کی اقتصادی پالیسی کی جڑیں 1940ء کے عشرے اور دوسری عالمی جنگ تک جا پہنچتی ہیں۔ اسرائیل بھی نائن الیون حادثات میں خاص دلچسپی رکھتا تھا کیونکہ وہ اس طریقے سے مشرق وسطی میں اپنے دشمنوں کو مغربی دنیا کے دشمن بنا کر پیش کرنا چاہتا تھا۔ اسی طرح نائن الیون حادثات، اینٹی کمیونزم پروپیگنڈے کا رخ اینٹی ٹیررارزم پروپیگنڈے کی جانب موڑنے کیلئے بھی اہم ہتھکنڈہ ثابت ہوئے۔ 
 
"داعش" امریکہ، اسرائیل اور نیٹو نے اسلام سے خوف پیدا کرنے کیلئے بنائی:
امریکہ، اسرائیل اور نیٹو نے دنیا بھر سے تکفیری دہشت گردوں کو اکٹھا کر کے انہیں منظم کیا اور مالی اور فوجی امداد فراہم کر کے تکفیری دہشت گرد گروپ "دولت اسلامی" یا "داعش" کی بنیاد رکھی تاکہ اس طرح سے دہشت گرد عناصر کے ذریعے عالمی جنگ کا ایک نیا اور جدید ماڈل پیش کر سکیں۔ اس نئے ماڈل کی بنیاد ایسے منصوبے پر استوار ہے جس کا مقصد مغربی عوام کے اذہان میں اسلام کا دائمی خوف ایجاد کرنا ہے۔ اسلام فوبیا کے اس ماڈل کے ذریعے مغربی دنیا میں بڑے پیمانے پر تجارت انجام پائی ہے اور اسلام دشمن پروپیگنڈے پر مبنی ہالی وڈ فلموں کیلئے بہت بڑی مارکیٹ معرض وجود میں آئی ہے۔ مغربی عوام میں اسلام مخالف ذہنیت کی ایجاد درحقیقت بیرونی قدرتی ذخائر پر کنٹرول، یوریشیا خطے کی گیس اور آئل پائپ لائنز پر کنٹرول یا سیاسی مخالفین کو پولیس کی طاقت کے زور پر کچلنے اور مغربی ممالک کی اندرونی آبادی کو کنٹرول کرنے جیسے مقاصد کی حامل جیوپولیٹیکل اسٹریٹجیز کیلئے ضروری اقتصادی ہتھکنڈہ ہے۔ مغرب میں اسلام کی درست پہچان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ بھاری اخراجات سے انجام پانے والے نفسیاتی اقدامات ہیں جن کا مقصد انسانوں کو دین سے جدا کر کے ایسے غلاموں میں تبدیل کرنا ہے جو اپنے بین الاقوامی آقاوں کی نفسیاتی رژیم کے قبضے میں ہیں اور یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے کے خواہاں ہیں۔ 
 
اب دوسرے سوال کی طرف واپس آتے ہیں۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ حقیقی اسلام کیا ہے اور دہشت گردی کے ساتھ اس کا کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے بہتر ہے کہ مغربی جوانوں کے نام اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای پر ایک نظر ڈالیں۔ انہوں نے مغربی جوانوں کے نام اپنے پیغام میں فرانس اور بعض دوسرے ممالک میں رونما ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مغرب میں جاری اسلام فوبیا پر مبنی پالیسیوں کا تذکرہ کیا اور مغربی جوانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام کے خلاف اس منفی پروپیگنڈہ مہم کی شدت میں اضافہ ہونے کی وجہ تلاش کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ آخر اسلام میں ایسی کون سی اقدار اور تعلیمات پائی جاتی ہیں جنہیں عالمی استکباری طاقتیں اپنے اہداف کے حصول میں رکاوٹ سمجھتی ہیں، یا وہ کون سے مفادات ہیں جو مغربی سیاستدان اس اسلام دشمنی پر مبنی مہم سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
 
آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے پیغام میں موجود چند اہم نکات:
پہلا اہم نکتہ اس پیغام کے ارسال کا وقت ہے جس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ خط ایک ایسے وقت مغربی جوانوں کو بھیجا گیا جب نائن الیون کی جنگ اور دہشت گردی کے خلاف عالم جنگ کو داعش کے خلاف جنگ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے اس لئے مغربی جوانوں کو مخاطب قرار دیا ہے چونکہ اسلام کے خلاف جاری زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں سب سے زیادہ اثر یورپ اور شمالی امریکہ کے جوانوں پر پڑ رہا ہے۔ لہذا اس خط میں ان جوانوں سے جو منفی پروپیگنڈے کے مرکزی حصے میں زندگی گزار رہے ہیں، یہ درخواست کی گئی ہے کہ وہ حقیقت کی پیش کردہ نادرست تصویر سے ماورا ہو کر الہی وحی کے نور میں حقیقت کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ خط میں مغربی جوانوں کو آسمانی کتابوں میں موجود وحی الہی کی جانب عقل کی روشنی میں رجوع کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس خط میں ہر قسم کا ذہنی سابقہ رکھنے والے مغربی جوانوں کو اس بات کی جانب دعوت دی گئی ہے کہ وہ آسمانی کتابوں کا مطالعہ اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام تک، حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تک کے انبیاء کے حالات زندگی کا جائزہ لینے کے ذریعے اسلام کی حقیقت کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
 
دہشت گردی کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں، اسلام ایک امن پسند دین ہے:
اسلامی احکام پر ایک نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ "دہشت گردی" کا نہ صرف اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن کریم میں بھی اس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ جیسا کہ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خط میں بیان ہوا ہے، دین اسلام کے بارے میں درست معلومات کے حصول اور اس دین کی حقیقی پہچان حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن کریم سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام جیسے امن پسند دین کی حقیقت کو درک کر سکیں۔ آج اسلامی سرزمینوں پر موجود دہشت گرد گروہ مغربی ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہاتھ میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ دو بڑے دہشت گرد گروہوں (القاعدہ اور دولت اسلامی) پر سطحی نگاہ ڈالنے سے اگرچہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسلامی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اگر ان گروہوں کی تشکیل کے آغاز سے لے کر اب تک ان کو دی جانے والی مغربی مالی، لاجسٹک اور فوجی امداد کسی پر پوشیدہ نہیں۔ 
 
بدنام ترین دہشت گرد گروہ مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کے پیدا کردہ ہیں:
اس بارے میں کہ کون ان دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کر رہا ہے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ناقابل انکار شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوفناک ترین اسلامی شدت پسند گروہ جیسے القاعدہ اور داعش، مغربی انٹیلی جنس ایجنسیز کی جانب سے کنٹرول کئے جاتے ہیں۔ البتہ ہر دہشت گرد گروہ ایک معینہ مدت کیلئے معرض وجود میں آتا ہے اور اس کے بعد اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کل تک داعش (دولت اسلامی فی عراق و شام) مغربی طاقتوں کے مفادات کے حق میں سرگرم تھا تو وہ اس کی ہر طرح سے مدد کر رہے تھے، اور جب تک وہ ان کے مفادات کیلئے کام کرتا رہے گا ہر گز اس کا مقابلہ نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخصوص دہشت گرد گروہوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہ وہ دہشت گردی کو "اچھی دہشت گردی" اور "بری دہشت گردی" میں تقسیم کرتے ہیں۔ لیکن حقیقی اسلام ہر گز دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا بلکہ شدت سے اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ 
 
خبر کا کوڈ : 450158
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش