QR CodeQR Code

یمن میں سعودی ملوکیت کا فیصلہ کن طوفان

28 Mar 2015 13:33

اسلام ٹائمز: یہ جتنے بھی یمن دشمن فوجی اتحادی ممالک ہیں، ان کے حامی اب یہ بتائیں کہ اردن سے کتنے جہاز غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ میں اسرائیلی افواج کو نابود کرنے کے لئے اڑے ؟ یہی سوال سعودی عرب سے بھی ہے کیونکہ مقبوضہ یروشلم یعنی بیت المقدس جہاں مسجد اقصیٰ اور القدس شریف ہیں اور جو اسرائیلیوں اور نسل پرست انتہاپسند یہودی دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہیں، اس کو آزاد کروانے کے لئے حرمین شریفین حجاز اور القدس کی ’’خدمت ‘‘ کے دعویدار ان خادمین نے ایسی کون سی خدمت انجام دی کہ انہیں خائن حرمین بے شرمین نہ لکھا جائے؟ یہ سوڈان جو جنوبی سوڈان کے ایشو پر استقامت نہ دکھا سکا اور ملک دو ٹکڑے کروا بیٹھا، وہ مراکش کہ جس نے الجزائر کے مسلمانوں کی الیکشن میں کامیابیوں کے باوجود انہیں حکومت نہ کرنے دینے کی امریکی سعودی صہیونی پالیسی کا ساتھ دیا، یہ خلیج فارس کے عرب جزیرے جو خود کو نیشن اسٹیٹ یا ملک کہتے ہیں، ان سب نے مل کر اسرائیل سے فلسطینیوں کی آزادی کے لئے اسرائیل پر جنگ کیوں نہیں کی؟ کیوں غزہ کے نہتے مظلوم فلسطینیوں کے دفاع میں اسلحہ نہیں اٹھایا، فوج استعمال نہیں کی؟ کیونکہ یہ سبھی اس امریکا کے نوکر ہیں جو اسرائیل کا بے دام غلام ہے۔


تحریر : عرفان علی

سعودی بادشاہ سلمان بن عبد العزیز ماضی میں بادشاہت کا نائب وزیر دفاع شہزادہ تھا۔ آج اس کا بیٹا شہزادہ محمد بن سلمان وزیر دفاع ہے۔ اس کا بھتیجا شہزادہ محمد بن نایف وزیر داخلہ ہے۔ نایف بن عبد العزیز ماں باپ دونوں طرف سے موجودہ بادشاہ کا بھائی تھا۔ اس کو بندر بن سلطان کے باپ یعنی سعودی ولی عہد کی وفا کے بعد ولی عہد بنایا گیا تھا۔ موجودہ وزیر داخلہ کا باپ شاہ فہد کی بادشاہت کے دوران بھی وزارت داخلہ کا انتہائی اہم کردار تصور کیا جاتا تھا۔ ماضی میں بھی ہم اس خطے میں صہیونی امریکی اتحاد اور اس میں خائن عرب حکمرانوں کے موضوع پر تحریروں میں لکھ چکے ہیں کہ 18 فروری 2014ع کو واشنگٹن میں شام دشمن امریکی صہیونی اتحادی ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے دو روزہ اجلاس میں موجودہ سعودی وزیر داخلہ محمد بن نایف نے بھی شرکت کی تھی۔ جہاں تک ملاقاتوں اور اجلاس کا تعلق ہے تو امریکی، برطانوی و دیگر اتحادی یورپی ممالک کے حکمران اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ اور اہم افراد سعودی، بحرینی، قطری، کویتی، اماراتی شیوخ سے ہر اہم معاملے پر ملاقات اور اجلاس کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ صدر اوبامہ کے امریکی دورے کے وقت موجودہ سعودی شہزادے کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا تھا۔ برطانوی فوج کے سربراہ سے بھی سعودی حکمران شہزادوں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ لندن میں بیٹھے ہمارے ایک تجزیہ نگار ہماری رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ تکفیری دہشت گردوں اور امریکی صہیونی عرب ترک اتحاد کے مابین ایک نورا کشتی یا فکسڈ میچ چل رہا ہے اور اکا دکا واقعات سے وہ ایک مفروضہ قائم کرچکے ہیں کہ یہ دہشت گرد اب صہیونیت زدہ امریکی عرب ترک اتحاد کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ حالانکہ اس طویل جنگ میں ایسے واقعات شاذ و نادر ہی رپورٹ ہوئے ہیں۔

آج مسئلہ یمن کا ہے جہاں حوثی تحریک انصار اللہ کو غلط اور جھوٹے القابات اور لاحقوں سابقوں کے ساتھ متہم کرکے پورے ملک یمن کے ان شہری علاقوں اور آبادیوں پر بمباری کی جارہی ہے جہاں یمن کی مقبول ترین عوامی انقلابی سیاسی و جمہوری تحریک انصار اللہ کو بھرپور عوامی حمایت اور تائید حاصل ہے۔ چونکہ یہ حمایت اور تائید صعدہ سے لے کر عدن کے ساحل تک پھیلی ہوئی ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ پورا یمن ہی بمباری اور شیلنگ کی زد پر ہے۔ العربیہ چینل کی ویب سائٹ پر پورا نقشہ بیان کردیا گیا ہے کہ سعودی عرب کی ڈیڑھ لاکھ فوج اور اس کے علاوہ بحری افواج 100 فائٹر طیاروں کے ساتھ یمن پر حملہ آور ہے۔ متحدہ عرب امارات کے 30 فائٹر جیٹ طیارے، کویت اور بحرین کے پندرہ، 15 طیارے، قطر کے 10 طیارے، مراکش اور اردن کے چھ، 6 طیارے اور سوڈان کے 3 طیارے۔ یہ 185 فائٹر طیارے یمن پر بمباری میں مصروف ہیں۔ سعودی شاہی خاندان کے سرمائے سے چلنے والے العربیہ چینل کے پیش کردہ نقشے میں مصر اور پاکستان کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ یعنی مصر نے چار بحری بیڑے اور فضائی حملوں میں سپورٹ (بحریہ و فضائیہ کے ذریعے امداد ) اور پاکستان نے بھی بحریہ و فضائیہ کے ذریعے جنگ میں سعودیہ کو سپورٹ فراہم کی ہے۔ یمن پر سعودی صہیونی اتحاد کو فیصلہ کن طوفان کا عنوان دیا گیا ہے اور اس Decisive Storm Operation کرنے والے اتحاد میں مذکورہ ممالک بشمول پاکستان کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگی آپریشن کا ایک ترجمہ Firmness Storm بھی استعال کیا جارہا ہے۔ مصر کی جنرل ال سیسی کی آمر حکومت نے جمہوریت کا نقاب اوڑھ لیا ہے لیکن یہ آج بھی امریکی اسرائیلی اتحادی ہے۔ پاکستان کی سویلین یا فوجی قیادت کی تردید سے پاکستان کے غیرت مند اور محب وطن عوام و خواص مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ سعودی حکومت نے اعلانیہ اور رسمی طور پر پاکستان اور مصر کا نام بھی لیا ہے۔

امریکی حکومت کی جانب سے صدر اوبامہ نے لاجسٹک اور انٹیلی جنس سپورٹ کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں جو بیانیہ یا نیریٹیو آرہا ہے، اس کے مطابق سعودی قیادت میں خلیج فارس تعاون کاؤنسل کے امریکی اتحادی عرب شیوخ حکمران ہیں جو خود کو بادشاہ کہلوانا پسند کرتے ہیں یعنی عربی میں کہا جائے تو ملک۔ اسی لفظ ملک کی وجہ سے بادشاہت کو ملوکیت کہا جاتا ہے۔ یمن کے موضوع پر بندہ چند تحریروں میں کئی رخوں پر متعدد نکات نذر قارئین کرچکا ہے اور بعض چینلز پر ناظرین بھی دیکھ اور سن چکے ہیں۔ آج ایک اور پہلو بھی زیر نظر آنا چاہئے۔ یمن کے حوثی زیدی مکتب کے پیروکار ہیں۔ زیدی مکتب کی مرکزیت حضرت زید بن علی زین العابدین ؑ ہے۔ یعنی شیعہ اثنا عشری و اسماعیلی عقیدے کے مطابق حضرت زید امام زادہ (ع) تھے اور یمن کے زیدیوں کے مکتب میں حضرت زید ؑ کی حیثیت امام کی ہے کیونکہ زیدیہ کہتے ہیں کہ اہلبیتؑ کے خاندان میں سے جو بھی قیام کرے گا وہ امام ہوگا۔ حضرت زید ؑ نے ملوکیت کے خلاف قیام کیا تھا۔ پاکستان کے سنی مسلمانوں کی اکثریت حنفی ہے اور یہ نسبت حضرت ابوحنیفہ ؒ کی وجہ سے ہے کہ حنفی مکتب میں مرکزیت نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کو حاصل ہے۔ سنی مسلمانوں کے اس فقہی امام نے حضرت زید کے قیام کی حمایت کی تھی اور اپنے حامیوں کو ان کا ساتھ دینے کا کہا تھا۔ سنیوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے مذکورہ امام کو عباسی دور ملوکیت میں پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایرانی النسل تھے اور ان کے اجداد نے اصفہان سے عراق ہجرت کی تھی۔ زیدیہ مکتب خلافت پر متمکن پہلی اور دوسری شخصیت یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو اس لئے غلط نہیں مانتا کہ ان کے دور میں بقول زیدی مکتب حضرت علی ؑ نے تلوار کے ساتھ قیام نہیں کیا تھا۔ سعودی وہابیوں کا یمن میں اتحادی صدر علی عبداللہ صالح بھی زیدی مکتب سے تعلق رکھتا تھا لیکن سعودی امریکی اتحاد نے اس وقت کبھی فرقہ واریت کی بات نہیں کی لیکن آج برطانوی روزنامہ ٹیلی گراف میں امریکی سعودی و صہیونی فوجی اتحاد کو سنی کوالیشن کا نام دیا گیا ہے۔ بال اب ان سنیوں کے کورٹ میں ہے کہ وہ ان بناسپتی سنیوں کو جو امریکی اسرائیلی اتحاد کا اٹوٹ انگ ہے، ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

ہم نے یہ کہا اور لکھا تھا کہ یہ سرزمین عشق وفا ہے اور ہمیں اس سے اس لئے بھی محبت ہے کہ یہ حضرت اویس قرنی ؓ کی سرزمین ہے۔ لیکن جب حضرت اویس قرنی کو جنگ صفین میں اسلام کی اور خلیفہ راشد کی منتخب حکومت کے باغی معزول گورنر کی فوج نے زہریلے تیر سے قتل کیا تھا تو یاد رہے کہ وہ ریموٹ کنٹرول حملہ تھا اور پشت سے وار کیا گیا تھا۔ حضرت اویس قرنیؓ امام زمانہ سے معانقہ فرما رہے تھے۔ وہ پیدل مولائے متقیان امیر مومنان ؑ کی خدمت میں حاضر تھے اور اس آخری ہستی کے انتظار میں لشکر امیر المومنین ؑ کے 2 بزرگ اصحابؓ پروٹوکول کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے کہ جیسے ہی وہ آئیں تو تازہ دم گھوڑے پر سوار ہوجائیں۔ گھوڑا خالی رہا اور ایک اہل ولایت عاشق و مجذوب اویس قرنی ؓ نے پیدل سفر کرکے اپنے معشوق کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ آج جب یمن کے زیدی حوثی سرزمین ابوذرؓ و سلمانؓ سے معانقے میں مصروف تھے اور امام زمانہ ؑ کے لشکر میں رسمی طورپر شامل بھی نہیں ہوئے تھے اور فی الحال باب مدینہ علم تک پہنچنے والے گیٹ سے اندر کا سفر طے کررہے تھے تو ان کے خلاف بھی فتویٰ صادر ہوا۔ یہ وہ حوثی تھے جو یمن کے سیاسی عمل میں شریک تھے۔ انہوں نے الیکشن میں بھی حصہ لیا، پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی تھی، قومی مکالمہ اور مفاہت کا وہ کھوکھلا عمل جو خلیج فارس کی خائن عرب حکومتوں کی تنظیم GCC نے تجویز کیا تھا، اس میں بھی تھے اور نہ تو ریاست یمن کے باغی تھے اور نہ ہی جنوبی یمن کے یمنی عوام کے جائز حقوق کے خلاف تھے بلکہ ان کی مدد و حمایت کررہے تھے۔

یہ جتنے بھی یمن دشمن فوجی اتحادی ممالک ہیں، ان کے حامی اب یہ بتائیں کہ اردن سے کتنے جہاز غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ میں اسرائیلی افواج کو نابود کرنے کے لئے اڑے؟ یہی سوال سعودی عرب سے بھی ہے کیونکہ مقبوضہ یروشلم یعنی بیت المقدس جہاں مسجد اقصیٰ اور القدس شریف ہیں اور جو اسرائیلیوں اور نسل پرست انتہا پسند یہودی دہشت گردوں کے کنٹرول میں ہیں، اس کو آزاد کروانے کے لئے حرمین شریفین حجاز اور القدس کی ’’خدمت ‘‘ کے دعویدار ان خادمین نے ایسی کون سی خدمت انجام دی کہ انہیں خائن حرمین بے شرمین نہ لکھا جائے؟ یہ سوڈان جو جنوبی سوڈان کے ایشو پر استقامت نہ دکھا سکا اور ملک دو ٹکڑے کروا بیٹھا، وہ مراکش کہ جس نے الجزائر کے مسلمانوں کی الیکشن میں کامیابیوں کے باوجود انہیں حکومت نہ کرنے دینے کی امریکی سعودی صہیونی پالیسی کا ساتھ دیا، یہ خلیج فارس کے عرب جزیرے جو خود کو نیشن اسٹیٹ یا ملک کہتے ہیں، ان سب نے مل کر اسرائیل سے فلسطینیوں کی آزادی کے لئے اسرائیل پر جنگ کیوں نہیں کی؟ کیوں غزہ کے نہتے مظلوم فلسطینیوں کے دفاع میں اسلحہ نہیں اٹھایا، فوج استعمال نہیں کی؟ کیونکہ یہ سبھی اس امریکا کے نوکر ہیں جو اسرائیل کا بے دام غلام ہے۔ یہ غلاموں کے غلام پاکستان میں جنرل ضیاء اور اس کی باقیات کے آقا ہیں۔ جنرل ضیاء نے اردن کے فلسطینی کیمپوں میں بادشاہ حسین کے دفاع میں یاسر عرفات کے حامیوں پر بمباری کی تھی۔ اس قتل عام کو فلسطینی بلیک یعنی سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد رکھتے ہیں۔ جنرل ضیاء نے اسرائیل دشمن بھٹو کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا اور تب سے آج تک پاکستان سعودی امریکی اتحاد کا ملازم بن کر کام کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ القاعدہ بناؤ، بن گئی، انہوں نے کہا کہ طالبان بناؤ، بن گئی، انہوں نے کہا کہ طالبان افغانستان سے نکل کر قطر اور ترکی میں عیش کریں یعنی طالبان حکومت ختم کا کہا، طالبان نے خود ہی دسمبر 2001ع میں لکھ کر دے دیا کہ ٹھیک ہے؟ لیکن پاکستان کی فضائیہ کا وہ جہاز ابھی تک میوزیم میں موجود ہے جس نے فلسطینیوں کے دفاع میں اسرائیل پر بمباری کی تھی۔ اقبال سے فیض احمد فیض اور حبیب جالب تک سبھی نے ملوکیت پر تبرا بھیجا۔ ابوالکلام آزاد سے سید مودودی تک سبھی ملوکیت کے تبرائی تھے۔ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں اور اور تثلیث کے فرزند امریکا کے قدموں میں عرب خائن حکمران میراث خلیل رکھ چکے۔ یمن کے حوثی زیدیوں کو شاید فکر اقبال معلوم ہوگئی ہے اور جائز قومی مزاحمت و مقاومت اسلامی کرکے وہ شیخ حرم کو دلق اویس قرنی ؓ بیچ کر کھانے سے روکنے کی مقدس دفاعی جنگ میں مصروف ہیں، یمن سنی شیعہ اتحاد کی سرزمین ہے، حنفی علوی جعفری، زیدی، اسماعیلی شافعی اتحاد کی سرزمین لیکن

ہیں مثل یہودی، یہ سعودی بھی عذاب
کعبے کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب


خبر کا کوڈ: 450551

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/450551/یمن-میں-سعودی-ملوکیت-کا-فیصلہ-کن-طوفان

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org