0
Sunday 29 Mar 2015 14:02

یمن پر آلِ سعود کی چڑھائی

یمن پر آلِ سعود کی چڑھائی
تحریر: طاہر یاسین طاہر

یمن کے نہتے عوام بلاشبہ اس وقت ’’مقدس جارحیت‘‘ کا شکار ہیں اور اس مقدس جارحیت کا حصہ بننے کو پاکستان تیار بیٹھا ہے۔ آخر وجہ کیا ہے کہ سعودی عرب کو یمن پر حملہ آور ہونے کی ضرورت پیش آئی؟ اپنی فضائیہ کو جس طرح یمن کے خلاف سعودی عرب حرکت میں لایا اگر اسی جرات کا مظاہرہ غزہ کی محصورین کی مدد کیلیے بھی کیا جاتا تو کیا اچھا تھا؟ بعض تجزیہ کاروں کے تجزیے پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا تو بعض کے تجزیوں نے اس افسردگی میں بھی لبوں پر مسکراہٹ لا دی۔ کچھ قلم کار دانستہ اس جنگ کو ’’مقدس‘‘ جنگ کا نام دے کر ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ حرمین شریفین کی حفاظت واجب ہو چکی ہے، اگر فوراً ہم نے اس مقدس کام میں حصہ نہ ڈالا تو ’’ثواب‘‘ سے محروم رہ جائیں گے۔ سعودی عرب نے حوثیوں پر حملہ کر کے ان کا قتلِ عام کیا تو ساتھ ہی پاکستان کو درخواست بھی دی کہ ہماری سالمیت کو خطرہ ہے لہٰذا پاکستان سعودی عرب کی عسکری مدد کرے۔ بے شک پاکستان کی بھاری مینڈیٹ والی آلِ سعود نواز حکومت نے شاہی خاندان کو یقین دھانی بھی کرا دی کہ پاکستان سعودی سالمیت کو لاحق خطرات کو کچل ڈالے گا۔

ایک ہنگامی وفد بھی تیار ہوا کہ ریاض جاکر آلِ سعود کی ضروریات کا گہرا جائزہ لیا جائے۔ ایسا ہو بھی جاتا مگر نواز حکومت نے ذاتی مفادات کو جس عجلت میں ریاستی مفادات کے ساتھ جوڑا انھیں اس کی بہرحال قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ فوری طور پر ہنگامی سیاسی و عسکری وفد کی روانگی بھی موخر ہے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سے بھی حکومت کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اگرچہ وزیر دفاع نے ایک ایسی تقریر کی جس میں سعودی عرب کو یہ یقین دھانی کرائی گئی کہ آپ فکر نہ کریں ہم ’’سیاسی و مذہبی‘‘ ہر دو فورم پر آپ کے ساتھ ہیں۔ بھلا مذہبی کیسے؟ گذشتہ دو روز کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جمعۃالمبارک کو جماعۃ الدعوہ نے آلِ سعود کے حق میں ریلی نکالی، احمد لدھیانوی نے کہا کہ ’’ہم‘‘ پر سعودیہ کے احسانات ہیں لہٰذا پاکستان فوراً سعودی مدد کو پہنچے، جبکہ جماعت اسلامی اور مولانا سمیع الحق کا خیال بھی یہی ہے کہ ’’حرمین شریفین‘‘ کی حفاظت میں تاخیر ثواب سے محروم کر دے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا حوثیوں نے اس امر کا اعلان کیا ہے کہ وہ پیش قدمی کرتے ہوئے سعودی’’خلافت‘‘ کا خاتمہ کر دیں گے اور خانہ کعبہ کے ’’ خادم’’ بن جائیں گے؟ یا یہ اعلان داعش نے کیا ہوا ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر حملہ کریں گے؟۔

کیا حوثیوں نے جو عقیدے کے اعتبار سے زیدی شیعہ ہیں، انھوں نے سعودی عرب پر کو ئی میزائل فائر کیا؟ کیا انھوں نے کوئی ایسا اتحاد قائم کیا ہے جس سے سعودی عرب کی آلِ سعود کو خطرہ لاحق ہو؟ نہیں، ابھی تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ نہ ہی حوثیوں نے سعودی عرب پر میزائل فائر کیے اور نہ ہی انھوں نے یمن کے سرحدی علاقوں میں توسیع کا اعلان کیا۔ پھر جارح کون ہوا؟ اس امر میں کلام نہیں کہ یمن، شام، عراق اور افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے مشرق وسطیٰ پر گہرے سیاسی و مسلکی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور خطے کی ہیئت تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یمن اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں امریکی ڈرونز القاعدہ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ اگر دہشت گردوں کو مارنا ہی مقصود ہے تو پھر امریکہ نے یمن سے اپنی فوجیں کیوں نکالی ہیں؟ افغانستان سے نیٹو کی واپسی کا مطلب کیا ہے؟ شام میں القاعدہ، النصرہ اور داعش کی مدد کے معنی کیا ہیں؟ عراق میں داعش کو پھلنے پھولنے کا موقع کس نے دیا؟ عالمی سامراجی طاقتیں اپنے ڈیزائن کے مطابق بڑے ’’تحمل‘‘ کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئی ہیں۔ یمن کی چنگاری شعلہ بن چکی ہے، جس میں بہت کچھ بھسم ہو جائے گا۔

یمن کے حوثی قبائل جن کی مدد سنی العقیدہ یمنی بھی کر رہے ہیں وہ سعودی جارحیت کا بدلہ قبائلی انداز میں ہی لیں گے۔ اگرچہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس کی عکس بندی میں گہرا مسلکی رنگ بھی بھرا گیا ہے مگر قبائلی زندگی سے آشنا قلم کار اور دانشور یہ تسلیم کریں گے کہ قبائل اپنی آبرو اور دوستی و دشمنی کا اپنا الگ ہی ایک معیار رکھتے ہیں۔ بھلے نہتے یمنی اس وقت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ سعودی عرب کہ جس کے ساتھ ایک بڑا عرب اتحاد موجود ہے اور جسے عجمی سپورٹ بھی حاصل ہے اسے کوئی بڑا نقصان پہنچا سکیں، مگر یاد رکھیں کہ یمنی بدلہ ضرور لیں گے۔ سعودی عرب اس جنگ کو ’’مقدس‘‘ بنانے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑے گا کہ خانہ کعبہ کی حرمت کے واسطے سب مسلمان آلِ سعود کا ساتھ دیں۔ اگر مسئلہ خانہ کعبہ کا ہی ہے تو سعودی عرب کو پہلے اسرائیل کی طرف دیکھنا چاہیے جس کی یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مرکز سے دور کر دیا جائے۔

سعودی عرب کو چاہیے کہ اس بنے بنائے اتحاد کا رخ ذرا اسرائیل کی طرف بھی موڑ کر دیکھے۔ مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس ’’مقدس جنگ‘‘ کے عالمی مددگار ایسا نہیں چاہتے نہ ہی انھوں نے مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کو اس طرح ڈیزائن کیا ہوا ہے۔ لاریب کہ عرب دنیا خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس خانہ جنگی کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں، مگر کسے اتنی فرصت کہ پیچھے اتنا دور مڑ کر دیکھے۔ ہاں سامنے کی حقیقت کو مگر جھٹلانے والے بھی تو کور چشم ٹھہرے نا! یہ نہ تو دین کی سربلندی کی کوئی جنگ ہے نہ مسلکوں کی مسلح طاقت کے اظہار کا جنون ہے۔ یہ ایک سیاسی چال ہے جو عالمی’’جمہوری اداروں‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کے علمبرداروں نے چلی ہے۔ اس چال کا مقصد مشرق وسطیٰ کے سیاسی چہرے کا رنگ تبدیل کر کے اسرائیل کی سرحدی حیثیت کو توسیع دینا اور اسے مزید طاقتور کرنا ہے۔ پاکستان کو بہرحال یمن اور سعودی عرب تنازع میں فریق بننے کے بجائے مصالحت کار کا کرداد ادا کرنا چاہیے، کیونکہ ہم افغانستان کی ایک ’’مقدس‘‘ جنگ میں شریک ہو کر اس کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ آخری تجزیے میں ہمیں ’’مقدس جنگوں‘‘ کی پہلی صفوں کا ٹھیکیدار سمجھنے والے ہمیں ایک ایسی سمت دھکیلنا چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی شام و عراق بن کر رہ جائے۔
خبر کا کوڈ : 450734
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش