0
Tuesday 31 Mar 2015 20:16

حوثی قبائیل نہ حرمین کے دشمن ہیں نہ پاکستان کے

حوثی قبائیل نہ حرمین کے دشمن ہیں نہ پاکستان کے

تحریر: عمران خان
یمن میں موجود پاکستانیوں پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ وزارت خارجہ کی جانب سے جاری یہ ایک جملہ ان تمام پاکستانیوں کے لیے کتنے خطرات سمیٹے ہوئے ہے، جو یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے فضائی حملوں کے نتیجے میں محصور ہو چکے ہیں۔ گرچہ یمن سے پاکستانیوں کو نکالنے والے آپریشن کی پہلی فلائیٹ پانچ سو تین شہریوں کو واپس لانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ جس میں یمن میں پاکستان کے سفیر اور ان کی فیملی بھی شامل ہے، مگر تاحال ایک ہزار کے قریب پاکستانی یمن کے ان علاقوں میں محصور ہیں، جہاں پر سعودی عرب کے طیارے بمباری کر رہے ہیں۔ یمن کے دارالحکومت میں واقع ایک آئی ڈی پیز کیمپ بھی بمباری کی زد میں آکر تباہ ہو گیا ہے۔ اس کیمپ میں دیگر غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ساتھ دو پاکستانی بھی جاں بحق ہوئے ہیں، تاہم وزارت خارجہ کی جانب سے ان پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی جا رہی۔ محصور پاکستانیوں کے وطن واپس پہنچنے پر ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ یمن میں پاکستانی سفیر کو واپس بھیجا جائے، جو ہزاروں پاکستانیوں کو خطرات میں چھوڑ کر اپنی جان بچا کے پہلی فلائیٹ سے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ اپنی جان بچانا ہر شخص کا حق ہے، مگر ریاست کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا ہے، مگر اس وقت کیا کیا جائے جب ریاست ہی اپنے شہریوں کی بھینٹ چڑھانے پر کمر بستہ ہو۔ یمن سے پاکستانی سفیر کا پہلی فلائیٹ سے واپس آنا اتنا خطرناک نہیں، جتنا وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والا یہ بیان تھا کہ پاکستانیوں پر حملہ پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ 

مذکورہ بیان ایک ایسے موقع پر جاری کیا گیا تھا، جب پاکستان سے سعودی عرب کی حمایت میں فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے حوالے سے ملک کے اندر بحث جاری ہے۔ جس میں سعودی عرب سے فنڈز وغیرہ حاصل کرنے والی دینی جماعتیں زور و شور سے یمن پر بمباری کے لیے پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھیجنے پر مصر ہیں، تو سلامتی اور سفارتی امور پر نظر رکھنے والے دانشور حکومت کو اس جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ حکمران جماعت کے سعودی عرب سے گہرے تعلقات ہیں۔ جس کی بناء پر حکومت نے انتہائی عجلت میں نہ صرف سعودی حمایت کا فیصلہ کیا، بلکہ اس کی مدد کے لیے فوج بھیجنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یمن کے اندرونی حالات کچھ بھی ہوں، لیکن یمن کے حوثی قبائل نہ ہی براہ راست پاکستان کے دشمن ہیں اور نہ ہی پاکستان کو ان سے کوئی خطرہ لاحق ہے، لہذا سفارتی سطح پر پاکستان کے پاس ایسا کوئی جواز موجود نہیں، کہ وہ یمن کے خلاف کاروائی میں حصہ لے۔ اگر ان حالات میں کہ جب وہاں پر حوثی قبائل اقتدار حاصل کر چکے ہیں، پاکستان کے پاس ان کے خلاف کاروائی کا جواز موجود نہیں ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو جنگ میں شریک کرنا چاہتا ہے، وزارت خارجہ کا یہ بیان یمن میں موجود ہزاروں پاکستانیوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے، کیونکہ یمن میں اگر حوثی قبائل مسلمہ وجود رکھتے ہیں، تو القاعدہ اور داعش بھی مختلف علاقوں میں اپنا گہرا اثر رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یمن میں داعش اور القاعدہ، سعودی نواز مستعفی صدر ہادی منصور کے خلاف نہیں، بلکہ وہ بھی حوثیوں کے خلاف ہے۔ جس کا ایک ثبوت گزشتہ دنوں حوثیوں کی مساجد میں ہونے والے خودکش حملے ہیں۔ جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی اور ان حملوں میں سینکڑوں حوثی نشانہ بنے تھے۔ چنانچہ وزارت خارجہ کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے، کہ پاکستان کو اس جنگ میں شرکت کا جواز فراہم کرنے کے لیے القاعدہ یا داعش کے دہشت گرد یمن میں محصور پاکستانیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں، تاکہ حوثیوں کے خلاف عسکری کاروائیوں کے لیے پاکستان کے پاس واضح جواز ہو۔ 

پاکستان کے پوری اسلامی دنیا بشمول سعودی عرب کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ عالمی سطح پر ان تمام ملکوں کے درمیان تعلقات بہترین ہوتے ہیں، جن کے مفادات مشترک ہوں۔ جہاں سعودی عرب نے متعدد مواقع پر پاکستان کی کچھ مدد کی ہے، وہاں پاکستان نے اس سے کہیں بڑھ کر سعودی مفادات کا دفاع کیا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع کے بقول کہ سعودی عرب کا کردار بڑے بھائی جیسا ہے۔ یہ وفاقی وزیر کی وسعت قلبی ہے کہ انہوں نے کھلے دل سے سعودیہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا اعادہ کیا ہے، مگر وفاقی وزیر کو سعودی حکومت کے سامنے کم از کم یہ سوال تو اٹھانا چاہیے کہ سعودی عرب نے اتنی بڑی کاروائی کا فیصلہ لینے سے قبل پاکستان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ ممکن ہے نوبت یہاں تک نہ آتی۔ اس کے علاوہ کیا سعودی حکومت کے پاس یمن میں موجود غیر ملکیوں سے متعلق کوئی اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔؟ ایک جانب سعودی حکومت نے پاکستان کو اعتماد میں لیے بناء یمن پر جنگ مسلط کی، جس کے باعث ہزاروں پاکستانیوں کی جانیں خطرات سے دوچار ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یمن میں پاکستانی موجود ہیں۔ سعودی حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ اسے پاکستان کی فوجی حمایت و مدد حاصل ہے۔ جس سے ہزاروں پاکستانیوں کو لاحق خطرات شدید ہو گئے۔ جنگوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ اگر سعودی عرب کی حکومت جنگ سے قبل مختصر وقت کیلئے وارننگ جاری کرتی تو پاکستانیوں سمیت یمن میں موجود غیر ملکی آج یوں محصور نہ ہوتے۔ اگر وزیراعظم نواز شریف کے دورے کے دوران سعودی حکومت نے انہیں جنگ سے متعلق فیصلے سے آگاہ کیا تھا اور یمن میں موجود فارن مشن نے پاکستانیوں کے انخلاء کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا تو آج محصور پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے ذمہ دار کوئی اور نہیں، سعودی عرب ہے، موجودہ حکمران ہیں، وزارت خارجہ ہے، یمن میں موجود سفارتی عملہ ہے۔ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان تو سعودی عرب کو بڑا بھائی سمجھتا ہے، بڑے بھائی نے چھوٹے کو اعتماد میں لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سفارتی آداب سے ہٹ کر سعودی حکمران پاکستانی حکمرانوں سے اپنے احسانوں کا خراج وصول کر رہے ہیں۔ جس کی بھینٹ ہزاروں پاکستانی چڑھ سکتے ہیں، یہ خطرہ ابھی بھی موجود ہے کہ یمن میں محصور پاکستانیوں کو سعودی عرب کے نزدیک سمجھے جانے والے گروہ نشانہ بنائیں اور اس کا ذمہ دار حوثی قبائل کو قرار دیں۔ تاحال حوثیوں نے پاکستانیوں سمیت کسی ایک غیر ملکی کو بھی نشانہ نہیں بنایا۔ جس کے لیے ہم ان کے مشکور ہیں۔ 

پاکستان کو سعودی عرب کی حمایت میں یمن کے خلاف اپنی افواج بھیجنی چاہیے یا نہیں تو اس کا جواب آئین کی آرٹیکل 40 میں واضح طور پر درج ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے کردار اداکرے گا نہ کہ ایک اسلامی ملک کی حمایت میں دوسرے اسلامی ملک پر چڑھائی کرے گا۔ اس کے علاوہ ملکی حالات اس بات کے ہرگز متحمل نہیں کہ پاک فوج کو ایک اور محاذ پر مصروف کر کے اس کی توجہ اور صلاحیت کو تقسیم کیا جائے۔ پاک فوج پہلے ہی بلوچستان، فاٹا، کراچی، ضرب عضب، لائن آف کنٹرول اور مشرقی و مغربی سرحد پر مصروف ہے۔ گرچہ سعودی عرب کی جانب سے یمن میں حکومت کی تبدیلی کو ایک بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا گیا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یمن انتہائی کم وسائل رکھنے والا کمزور ملک ہے، جو کسی طور سعودی عرب کی سلامتی کے لیے چیلنج نہیں بن سکتا۔ سعودی عرب کے لیے یمن ایسا ہی خطرہ ہے، جیسے امریکہ نے افغانستان کو اپنے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ امریکہ تو افغانستان سے اپنے پاؤں نکال گیا مگر پورے خطے کو عدم استحکام کا شکار کر گیا۔ یہی خطرہ امریکہ کو عراق میں محسوس ہوا اور آج نہ صرف عراق، بلکہ اس خطے کے تمام ممالک شدید طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ امریکہ نے جھوٹ کی بنیاد پر دو اسلامی ملکوں کو ہی نہیں دو خطوں کو انتشار و بدامنی میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی طرز کا خطرہ آج سعودی عرب یمن سے محسوس کر رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگار اس جنگ کو سعودی حکومت کی فاش غلطی سے تعبیر کر رہے ہیں، کہ سعودی حکومت دوستوں اور دشمنوں کی پہنچان میں غلطی کا ارتکاب کر رہی ہے۔ یمن کے خلاف جو ممالک سعودی عرب کا ساتھ دے رہے ہیں، ان ممالک کی یہ پرانی خواہش تھی، کہ ان کی افواج سعودی سرزمین پر موجود ہوں۔ چنانچہ اتحادی یہ کسی صورت گوارا نہیں کریں گے کہ یمن کا مسئلہ حل ہو اور سعودی سرزمین پر ان کا قیام مختصر ہو، چنانچہ ان ممالک کی کوشش ہو گی کہ یکے بعد دیگر سعودی عرب کے خلاف محاذ کھلیں اور وہ اپنا عسکری وجود اس ملک میں زیادہ سے زیادہ کریں۔ جو کہ سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مستقبل میں حقیقی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 

حالات کچھ بھی ہوں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یمن کی جنگ میں ایران یا سعودی عرب کے درمیان تنازعہ سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کا کردار ہے۔ حرمین کے حقیقی دشمن حوثی قبائل، ایران، شام یا حزب اللہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے محور و مرکز کے اصلی دشمن امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور ان کے اتحادی ہیں۔ امت مسلمہ کو حقیقی خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اصل دشمنوں سے چوکنا رہنا چاہیے، فرقہ واریت ان خبیث قوتوں کا ایک ایسا ہتھیار ہے، جس نے اسلامی ممالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ کاش عرب لیگ کے زیر اہتمام مشترکہ عرب فوج کے قیام کے فیصلے کا مقصد اسرائیل کی سرکوبی ہوتا، کاش کہ اس فورس کا مطمع نظر فلسطین کی آزادی ہوتا۔ کاش کہ اسلامی دنیا کی افواج نیٹو کی طرز پر فوج تشکیل دے کر گرم پانیوں پہ اپنی مضبوط گرفت بناتے، مگر یہ خواب ہے جس کی تعبیر موجودہ حکمرانوں کے طرز عمل سے ممکن نظر نہیں آتی۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا صاحب دانش موجود نہیں، جو عرب اتحاد کو یہ سمجھائے کہ حضرت اویس قرنی کی سرزمین سے رسول اللہ (ص) کی سرزمین کو کبھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔  جس سرزمین کی چادر رسول (ص) اور آل رسول (ص) کے کندھوں کی زینت تھی، جس مٹی میں نبی کریم (ص) سے محبت کی خوشبو صدیوں سے بسی ہے ، اسی مٹی پر، اسی سرزمین پر بارود برسانے والوں سے اللہ اور اس کا رسول بھی ناراض ہونگے۔

خبر کا کوڈ : 451175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش